محمد وارث
لائبریرین
جی 'کینو' تو بس اب کیا بتاؤں کتنے پسند ہیں گھر بھر کو۔ پچھلے سال اسی طرح منتظر تھا اور ہر بار پھل فروش سے پوچھتا تھا، جب کینو آ گئے تو کہنے لگا، "لو آ گئے جے تہاڈے سجن"۔لگتا ہے آپ کے بھی پسندیدہ پھلوں میں شامل ہے !
جی 'کینو' تو بس اب کیا بتاؤں کتنے پسند ہیں گھر بھر کو۔ پچھلے سال اسی طرح منتظر تھا اور ہر بار پھل فروش سے پوچھتا تھا، جب کینو آ گئے تو کہنے لگا، "لو آ گئے جے تہاڈے سجن"۔لگتا ہے آپ کے بھی پسندیدہ پھلوں میں شامل ہے !
بچپن کی حسین ترین یادوں میں سے ایک بڑے دنوں کی چھٹیوں میں گاؤں جانا اور نانا جی مرحوم و مغفور کے ’لوک‘سے چھ سو میٹر دور ڈیرے پر لگائے باغ میں سے مالٹے، کینو اور امردو توڑ توڑ کر کھانا شامل ہے۔ پھر ناجانے کیسے اگلی نسل کو ’ڈنکی‘ لگانے اور ’دبئی چلو‘ نامی بخار نے آ گھیرا، تو باغ تو ایک طرف رہا، معمول کی کاشت اور ڈھور ڈنگر سنبھالنے کےلیے بھی افرادی قوت ناپید ہوتی چلی گئی۔جی 'کینو' تو بس اب کیا بتاؤں کتنے پسند ہیں گھر بھر کو۔ پچھلے سال اسی طرح منتظر تھا اور ہر بار پھل فروش سے پوچھتا تھا، جب کینو آ گئے تو کہنے لگا، "لو آ گئے جے تہاڈے سجن"۔
بچپن کی حسین ترین یادوں میں سے ایک بڑے دنوں کی چھٹیوں میں گاؤں جانا اور نانا جی مرحوم و مغفور کے ’لوک‘سے چھ سو میٹر دور ڈیرے پر لگائے باغ میں سے مالٹے، کینو اور امردو توڑ توڑ کر کھانا شامل ہے۔ پھر ناجانے کیسے اگلی نسل کو ’ڈنکی‘ لگانے اور ’دبئی چلو‘ نامی بخار نے آ گھیرا، تو باغ تو ایک طرف رہا، معمول کی کاشت اور ڈھور ڈنگر سنبھالنے کےلیے بھی افرادی قوت ناپید ہوتی چلی گئی۔
جب جب گاؤں جانا ہو تو ڈیرے پر ہر حال میں چکر لگتا ہے لیکن اب وہاں صرف ہاتھ اٹھانے ہی جاتے ہیں کہ ڈیرے کی حدود کے اندر ہی سب نانکے خاندان کے گزر جانے والوں کی قبریں بنتی جا رہی ہیں۔
میری بچپن کی حسین ترین یادیں، واہ کینٹ سے وابستہ ہیں جہاں میں نے اپنی زندگی کے خوب صورت ترین دن گزارے۔ لیکن اب تو سنا ہے کہ وہاں بھی کافی کچھ بدل گیا ہے۔ یا پھر شاید لوگ ہی بدل گئے ہیں۔ چوہدری صاحب! آپ ہی اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں۔بچپن کی حسین ترین یادوں میں سے ایک بڑے دنوں کی چھٹیوں میں گاؤں جانا اور نانا جی مرحوم و مغفور کے ’لوک‘سے چھ سو میٹر دور ڈیرے پر لگائے باغ میں سے مالٹے، کینو اور امردو توڑ توڑ کر کھانا شامل ہے۔ پھر ناجانے کیسے اگلی نسل کو ’ڈنکی‘ لگانے اور ’دبئی چلو‘ نامی بخار نے آ گھیرا، تو باغ تو ایک طرف رہا، معمول کی کاشت اور ڈھور ڈنگر سنبھالنے کےلیے بھی افرادی قوت ناپید ہوتی چلی گئی۔
جب جب گاؤں جانا ہو تو ڈیرے پر ہر حال میں چکر لگتا ہے لیکن اب وہاں صرف ہاتھ اٹھانے ہی جاتے ہیں کہ ڈیرے کی حدود کے اندر ہی سب نانکے خاندان کے گزر جانے والوں کی قبریں بنتی جا رہی ہیں۔
ماشاءاللہ۔ کب اور کہاں رہے ہیں واہ میں ؟میری بچپن کی حسین ترین یادیں، واہ کینٹ سے وابستہ ہیں جہاں میں نے اپنی زندگی کے خوب صورت ترین دن گزارے۔ لیکن اب تو سنا ہے کہ وہاں بھی کافی کچھ بدل گیا ہے۔ یا پھر شاید لوگ ہی بدل گئے ہیں۔ چوہدری صاحب! آپ ہی اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں۔
ایک نمبر سکول کے پاس ؟ کیا اس کے بعد دوبارہ کبھی جانا نہیں ہوا ؟اپنی پیدائش 1982 سے لے کر نصف ستمبر 1993 تک۔ میں تھری ایف میں رہا ہوں۔ پیلا بورڈ اسٹاپ سے اندر کی طرف جائیں تو آتا ہے۔
جی ایک نمبر اسکول سے تھوڑا پہلے۔ اس کے بعد دو تین مرتبہ جانا ہوا۔ آخری بار 2007 میں گیا تھا۔ایک نمبر سکول کے پاس ؟ کیا اس کے بعد دوبارہ کبھی جانا نہیں ہوا ؟
اور ہاں 'مرحوم' پیلا بورڈ سٹاپ۔
کیا پیلا بورڈ واقعی پیلا تھا؟ایک نمبر سکول کے پاس ؟ کیا اس کے بعد دوبارہ کبھی جانا نہیں ہوا ؟
اور ہاں 'مرحوم' پیلا بورڈ سٹاپ۔
لاہور میں ایک چوک ہے۔ وہاں کسی زمانے میں برگد کا درخت ہوتا تھا جس کا اب نشان تک نہیں (ممکن ہے موجودہ نسل کو اس بات علم بھی نہ ہو)، مگر نام "بوڑھ والا چوک" ہے۔ (د): واہ کے ایک بس سٹاپ کا نام "پیلا بورڈ" ہے۔ خود مجھے چالیس برس ہو گئے میں نے اس بس سٹاپ پر یا آگے پیچھے پیلے رنگ کا کوئی بورڈ نہیں دیکھا۔ ہاں ایک نیلے بیک گراؤنڈ کلر والا بورڈ بہت نمایاں ہے۔ وغیرہ
جی۔کیا پیلا بورڈ واقعی پیلا تھا؟
سر محمد یعقوب آسی
پیلا بورڈ موجود تها۔ جب ویلفیر کی بس سروس چلائی گئی تو اس جگہ کے آس پاس کوئی مشہور جگہ نہیں تهی تو مسافروں اور ویلفیر کے سٹاف نے اس سٹاپ کا نام پیلا بورڈ رکه دیا کہ یہاں ایک بورڈ لگا ہوتا تها جو DD-2 ( ڈبل ڈسپنسری نمبر 2)کی نشاندہی کرتا تها۔
غالباً 1989 کے بعد اس بورڈ اور واہ کینٹ کے اندر لگے ہوئے نشاندہی کے دیگر بورڈز کا رنگ تبدیل کر کےنیلا کر دیا گیا۔ لیکن سٹاپ پیلا بورڈ ہی کہلاتا رہا جو مال روڈ کے ڈبل ہو جانے کے بعد چوکی سٹاپ میں ضم ہو کر اپنا وجود کهو بیٹها۔ لیکن بہت سے پرانے لوگ اب بهی پیلا بورڈ ہی کہتے ہیں۔
اس بورڈ سے لڑکپن کی ایک خوشگوار اور کچھ عجیب سی یاد بهی وابستہ ہے اس وجہ سے اس کا پیلا رنگ بهی بہت اچهی طرح سے یاد ہے۔
آج کچھ وقت ملا ہے تو سوچا کہ کیوں نا اس یاد کی شراکت کی جائے جس کا ذکر مراسلے میں کیا ہے۔کیا کہنے چوہدری صاحب! ماشاءاللہ آپ نے بہت قیمتی معلومات فراہم کیں۔
آج کچھ وقت ملا ہے تو سوچا کہ کیوں نا اس یاد کی شراکت کی جائے جس کا ذکر مراسلے میں کیا ہے۔
اس وقت کے پی او ایف ہسپتال کے کمانڈنٹ بریگیڈئیر ۔۔۔۔۔ کی ایک بیٹی ہماری ہمشیرہ کی کالج فیلو و دوست تھیں۔ اس وقت سکول وین وغیرہ والا سلسلہ آج کل کی طرح عام نہیں تھا کہ ہر بچے کو سکول وین پر ہی جانا ہے یا خود چھوڑ کر آنا ہے۔ تعلیمی ادارے سے دور رہائش پذیر بچے عموماً دو دو، چار چار کی ٹولیوں میں پبلک ٹرانسپورٹ پر آیا جایا کرتے تھے۔ بریگیڈئیر صاحب کی بیٹی اپنی ایک اور کلاس فیلو کے ساتھ اسی پیلے بورڈ نامی سٹاپ سے بس پر آتی جاتی تھیں۔
ایک روز چھٹی کے بعد ہمشیرہ گھر آئیں تو کہنے لگی کہ آج میری فلاںسہیلی گھر آئے گی اور آپ کو ایک مسئلہ بتانا ہے۔ بریگیڈئیر صاحب کی دختر اس وقت کے حساب سے تھوڑی زیادہ ماڈرن تھیں اور انھوں نے اپنے لمبے بال ایک خاص سٹائل میں کچھ چھوٹے کروا رکھے تھے۔ کسی منچلے نوجوان کو ان کا یہ ماڈرن سٹائل پسند آ گیا اور وہ انھیں کالج آتے جاتے گزرتے ہوئے کبھی کبھار ’پر کٹی حسینہ‘ کہہ کر چھیڑتا رہتا تھا۔ ایک بار بریگیڈئیر صاحب کی بیٹی نے اس کو روک کر اچھی خاصی سرزنش کی تو وہ رستے میں آنا جانا تو چھوڑ گیا لیکن اس کمبخت نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے ’پیلے بورڈ‘ پر پینٹ سے بڑا بڑا کر کے ’پر کٹی حسینہ یہاں کھڑی ہوتی ہے‘ لکھ دیا۔ اب وہ چاہتی تھیں کہ ہم وہ لکھا ہوا مٹا کر آئیں کہ ان کا اپنا اکلوتا بھائی عمر میں کافی چھوٹا تھا اور ابا جی کو بتانے کی صورت میں ’فوجی ایکشن‘ کا خطرہ تھا۔
ہم نے ہامی بھر لی اور اس تحریر پر پینٹ مار آئے۔ دو چار دن سکون سے گزرے کہ پھر شکایت آ گئی کہ دوبارہ لکھا گیا ہے، ہم پھر برش مار آئے۔ لیکن پھر تو تاریخ مسلسل لکھی جانے لگی کہ یقیناً ہر دو مورخ تھک گئے ہوں گے۔ لیکن سلسلہ رکا نہیں ۔ دو چار دن سکون سے گزرتے اور پھر شکایت آ جاتی اور ہم پھر عازم پیلا بورڈ ہوتے۔ کوئی تین چار ماہ یہ سلسلہ چلا اور ہم نے اپنے طور پر تین چار مرتبہ پورا پورا دن کبھی اکیلے اور کبھی دوستوں کے ہمراہ پیلے بورڈ پر نظر رکھی کہ لکھنے والے کو پکڑتے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی ہو نا پایا۔ آخر چار ساڑھے چار ماہ کے بعد ایک شدیدسرد صبحِ کاذب میں ہم تین دوست گینتی بیلچہ لیکر پیلے بورڈ کو روانہ ہوئے اور بورڈ کو ہی اکھاڑ کر اس جگہ سے کوئی تین چار سو میٹر دور ایک بڑے ڈسٹ بن میں پھینک آئے۔ نا رہے گا بانس نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ خیری صلی۔
اُففففففف۔۔۔ اب پتہ چلا کہ ہمارے پیلا بورڈ کے "قاتل" آپ ہیں۔آج کچھ وقت ملا ہے تو سوچا کہ کیوں نا اس یاد کی شراکت کی جائے جس کا ذکر مراسلے میں کیا ہے۔
اس وقت کے پی او ایف ہسپتال کے کمانڈنٹ بریگیڈئیر ۔۔۔۔۔ کی ایک بیٹی ہماری ہمشیرہ کی کالج فیلو و دوست تھیں۔ اس وقت سکول وین وغیرہ والا سلسلہ آج کل کی طرح عام نہیں تھا کہ ہر بچے کو سکول وین پر ہی جانا ہے یا خود چھوڑ کر آنا ہے۔ تعلیمی ادارے سے دور رہائش پذیر بچے عموماً دو دو، چار چار کی ٹولیوں میں پبلک ٹرانسپورٹ پر آیا جایا کرتے تھے۔ بریگیڈئیر صاحب کی بیٹی اپنی ایک اور کلاس فیلو کے ساتھ اسی پیلے بورڈ نامی سٹاپ سے بس پر آتی جاتی تھیں۔
ایک روز چھٹی کے بعد ہمشیرہ گھر آئیں تو کہنے لگی کہ آج میری فلاںسہیلی گھر آئے گی اور آپ کو ایک مسئلہ بتانا ہے۔ بریگیڈئیر صاحب کی دختر اس وقت کے حساب سے تھوڑی زیادہ ماڈرن تھیں اور انھوں نے اپنے لمبے بال ایک خاص سٹائل میں کچھ چھوٹے کروا رکھے تھے۔ کسی منچلے نوجوان کو ان کا یہ ماڈرن سٹائل پسند آ گیا اور وہ انھیں کالج آتے جاتے گزرتے ہوئے کبھی کبھار ’پر کٹی حسینہ‘ کہہ کر چھیڑتا رہتا تھا۔ ایک بار بریگیڈئیر صاحب کی بیٹی نے اس کو روک کر اچھی خاصی سرزنش کی تو وہ رستے میں آنا جانا تو چھوڑ گیا لیکن اس کمبخت نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے ’پیلے بورڈ‘ پر پینٹ سے بڑا بڑا کر کے ’پر کٹی حسینہ یہاں کھڑی ہوتی ہے‘ لکھ دیا۔ اب وہ چاہتی تھیں کہ ہم وہ لکھا ہوا مٹا کر آئیں کہ ان کا اپنا اکلوتا بھائی عمر میں کافی چھوٹا تھا اور ابا جی کو بتانے کی صورت میں ’فوجی ایکشن‘ کا خطرہ تھا۔
ہم نے ہامی بھر لی اور اس تحریر پر پینٹ مار آئے۔ دو چار دن سکون سے گزرے کہ پھر شکایت آ گئی کہ دوبارہ لکھا گیا ہے، ہم پھر برش مار آئے۔ لیکن پھر تو تاریخ مسلسل لکھی جانے لگی کہ یقیناً ہر دو مورخ تھک گئے ہوں گے۔ لیکن سلسلہ رکا نہیں ۔ دو چار دن سکون سے گزرتے اور پھر شکایت آ جاتی اور ہم پھر عازم پیلا بورڈ ہوتے۔ کوئی تین چار ماہ یہ سلسلہ چلا اور ہم نے اپنے طور پر تین چار مرتبہ پورا پورا دن کبھی اکیلے اور کبھی دوستوں کے ہمراہ پیلے بورڈ پر نظر رکھی کہ لکھنے والے کو پکڑتے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی ہو نا پایا۔ آخر چار ساڑھے چار ماہ کے بعد ایک شدیدسرد صبحِ کاذب میں ہم تین دوست گینتی بیلچہ لیکر پیلے بورڈ کو روانہ ہوئے اور بورڈ کو ہی اکھاڑ کر اس جگہ سے کوئی تین چار سو میٹر دور ایک بڑے ڈسٹ بن میں پھینک آئے۔ نا رہے گا بانس نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ خیری صلی۔
اب کیا کرنا ہے ٹھیکا دے کر، کالا بورڈ اور بڑا بورڈ کے اسٹاپوں پر اب کوئی بورڈ نہیں ہے۔ہر ایک کا ٹھیکہ بھا عبدالقیوم چوہدری کو دے دیں۔
پہلے پرکٹی حسینہ تو لائیں۔۔۔ پھر ٹھیکہ بھی لے لیتے ہیں۔ہر ایک کا ٹھیکہ بھا عبدالقیوم چوہدری کو دے دیں۔
شکر ہے ٹھیکہ آپ کو ملا۔ ایف ڈبلیو او کو ملتا تو ساری عمر وہ تختیوں پر سے بد اخلاقی مٹانے پر خرچ کرتے رہتےپہلے پرکٹی حسینہ تو لائیں۔۔۔ پھر ٹھیکہ بھی لے لیتے ہیں۔