اس مینو کا مقابلہ تو فائیو اسٹار ہوٹل والے بھی نہیں کر سکتے۔
پنجاب رنگ کی بہت خوبصورت تصاویر ہیں۔
بہت شکریہ جاسمن آپی۔
میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں، فطرت سے قریب ہونے کے لیے اپنے گاؤں ضرور جاتا ہوں۔ کھیتوں میں گھومتا ہوں، پگڈنڈیوں پر چلتا ہوں، گاؤں کے چھپڑ کنارے جاتا ہوں، وہاں بطخیں تیرتی نظر آتی ہیں۔ ہر طرف گائے بھینسیں اور بکریاں نظر آتی ہیں۔ لہلہاتے کھیت، ہرے بھرے درخت اور بے ترتیب بنے ہوئے کچے پکے مکان اور حویلیاں۔ گاؤں کی اکلوتی مسجد، اور گاؤں کے کئی ایک کنوئیں، الغرض کہ سال بھر کا کوٹہ پورا کر کے آتا ہوں۔
رافع بھائی میں تو پنجاب کے دیہاتوں کو ہی جانتا ہوں۔
میرا گاؤں ضلع نارووال سے آگے کوئی تین ساڑھے میل کے فاصلے پر ہے۔
گو کہ شہر کے بالکل قریب ہے اور وہاں بھی بجلی آ چکی ہے لیکن ابھی بھی فطرت کے بہت قریب ہے کہ سارا سال فصلیں لہراتی ہیں۔ کھیتوں کے درمیان پگڈنڈیاں ہیں، بیل جوت کر پانی نکالنے والے کنوئیں ہیں۔ گاؤں کے لوگوں نے بھینسیں رکھی ہوئی ہیں۔ کچے پکے گھر ہیں۔ شام کو اکثر گھروں میں دھواں اٹھتا ہے کہ گیس نہیں ہے تو کھانے پکانے کے لیے لکڑیاں جلائی جاتی ہیں۔ سب سے اچھی وہاں کی فضا ہوتی ہے جو دھویں اور گرد و غبار سے پاک ہوتی ہے۔ دانے بھوننےوالی بھٹی ہے۔ کسی کسی گھر میں تنور بھی ہے۔ الغرض یہ کہ اس جدید دور میں بھی وہ ابھی بھی گاؤں ہی ہے۔
می ٹو!!!شمشاد بھائی مجھے موقع ملا تو آپ کے گاؤں ضرور آؤں گا کبھی نہ کبھی ۔
جم جم آؤ شاہ جی۔ کراچی کی گہما گہمی سے نکلیں اور کچھ دن فطرت کے نزدیک گزاریں۔می ٹو!!!
جی ہم ہر سال ایسا ہی کرتے ہیں!!!جم جم آؤ شاہ جی۔ کراچی کی گہما گہمی سے نکلیں اور کچھ دن فطرت کے نزدیک گزاریں۔