پنجاب میں نئے صوبے

پاکستان میں ریاستوں کی تشکیل اور کنفیڈریشن پاکستان کے مسائل کا حل ہے


  • Total voters
    34
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
انڈیا کی شہریت ترک کرنے کا یہ مطلب تھا کہ اب ہم پاکستانی ہیں مگر جب بنگلہ دیش کا واقعہ ہوا اور پاکستانیوں کو پاکستان نے چھوڑدیا تو یہ احساس پیدا ہونا ناگزیر ہے کہ اس قومیتوں والے پاکستان میں ہجرت کرنے والوں کا تعارف ایک معزز طریقہ سے ہو نہ کہ تلیر مکڑ وغیرہ سے۔ مہاجر ذیلی قومیت کا تصور ہجرت کو باطل نہیں کرتا نہ ہی مقصد کو۔ پھریہ کہاں لکھا ہے کہ مہاجر انڈیا سے بلکل رابطہ نہ رکھیں۔ بہرحال ہماری اوریجن انڈیا ہی ہے ۔ ہمارے رشتے دار انڈیا میں ہی بستے ہیں اور وہاں سے ہمارا جذباتی تعلق ہے۔

مگر
پنجاب میں نئے صوبے بننے کی بات مہاجر کے سر پر کیوں ختم ہوتی ہے
اب حقیقت یہ ہے کہ پی پی ہو یا ن لیگ یا ق لیگ یہ سب لوگ پنجاب کو توڑ کر نئے صوبے بنانے پر متفق ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر باتیں کررہے ہیں۔ پنجاب میں نئے صوبے ایک حقیقت ہیں صرف اب وقت کی بات ہے
میری رائے میں پنجاب کی ایک نئی ریاست بنانی چاہیے جسے کی کئی صوبے ہوں اسی طرح سندھ کی ریاست ہو جس کے کئی صوبے ہیں اور پی کے پی کی ریاست جس کے بھی کئی صوبے ہیں یہی بات بلوچستان کے لیے بھی درست ہے۔ پھر ان ریاستوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا ادغام کنفیڈریشن کی صورت میں ہو۔ میری رائے میں یہی ایک صورت ہے پاکستان کے بچنے کی۔ متحدہ ہائےریاست پاکستان کے بچنے کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں بالکل بھی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ پاکستان میں مزید صوبے بنائے جائیں۔
 

عثمان

محفلین
اس بات پر ہم پہلے بھی گفتگو کر چکے ہیں :) ۔ یہاں مہاجر لفظ اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ ہجرت معاشی مقاصد کے لیے نہیں تھی۔ جیسا کہ انڈین مہاجرین جو دوسرے ممالک میں بوجہِ روزگار مقیم ہیں، خود کو NRI کہتے ہیں، تو اس سے ان کی آئیڈیولوجی پر ضرب نہیں پڑتی۔ جب کہ ہندوستانی مسلمان جنہوں نے پاکستان کے لیے ہجرت کی اور خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں، تو ان کے لیے خود کو مہاجر کہلانا اس نظریے سے متصادم ہے جس کی خاطر انہوں نے ملک بنایا۔ اس طرح تو یہ لفظ ان کی دونوں شناختوں کا نمائندہ ہے۔ جب کہ اصل میں تو وہ ہندوستان کی شہریت بالارادہ ترک کرچکے تھے۔
جہاں تک کلمہ شناخت کا تعلق ہے تو میرے لئے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ مذکورہ لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔:)
جہاں تک نظریے سے متصادم ہونے کا اعتراض ہے تو میرا خیال ہے کہ اگر مذکورہ لوگ اپنے آپ کو "ہندوستانی پاکستانی" کے کلمہ شناخت سے پہچان کرواتے تو آپ کا اعتراض بجا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اب وہ "مہاجر پاکستانی" ہیں۔:)
 

محمد امین

لائبریرین
انڈیا کی شہریت ترک کرنے کا یہ مطلب تھا کہ اب ہم پاکستانی ہیں مگر جب بنگلہ دیش کا واقعہ ہوا اور پاکستانیوں کو پاکستان نے چھوڑدیا تو یہ احساس پیدا ہونا ناگزیر ہے کہ اس قومیتوں والے پاکستان میں ہجرت کرنے والوں کا تعارف ایک معزز طریقہ سے ہو نہ کہ تلیر مکڑ وغیرہ سے۔ مہاجر ذیلی قومیت کا تصور ہجرت کو باطل نہیں کرتا نہ ہی مقصد کو۔ پھریہ کہاں لکھا ہے کہ مہاجر انڈیا سے بلکل رابطہ نہ رکھیں۔ بہرحال ہماری اوریجن انڈیا ہی ہے ۔ ہمارے رشتے دار انڈیا میں ہی بستے ہیں اور وہاں سے ہمارا جذباتی تعلق ہے۔

مگر
پنجاب میں نئے صوبے بننے کی بات مہاجر کے سر پر کیوں ختم ہوتی ہے
اب حقیقت یہ ہے کہ پی پی ہو یا ن لیگ یا ق لیگ یہ سب لوگ پنجاب کو توڑ کر نئے صوبے بنانے پر متفق ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر باتیں کررہے ہیں۔ پنجاب میں نئے صوبے ایک حقیقت ہیں صرف اب وقت کی بات ہے
میری رائے میں پنجاب کی ایک نئی ریاست بنانی چاہیے جسے کی کئی صوبے ہوں اسی طرح سندھ کی ریاست ہو جس کے کئی صوبے ہیں اور پی کے پی کی ریاست جس کے بھی کئی صوبے ہیں یہی بات بلوچستان کے لیے بھی درست ہے۔ پھر ان ریاستوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا ادغام کنفیڈریشن کی صورت میں ہو۔ میری رائے میں یہی ایک صورت ہے پاکستان کے بچنے کی۔ متحدہ ہائےریاست پاکستان کے بچنے کی۔

وہ تو ہر صورت میں ہمارا تعارف معزز طریقے سے ہونا چاہیے، چاہے بنگلہ دیش الگ ہوتا یا نہ ہوتا۔ یہ تو اس جاگیردار اور غاصب طبقے کی پھیلائی ہوئی نفرتیں ہیں (مہاجروں کو غلط ناموں سے پکارنا) کہ جن کو "باہر" سے آنے والوں کے ہاتھ میں یہاں کا نظم و نسق دینے میں مسئلہ تھا۔ پھر اسی زیادتی کی وجہ سے مہاجروں نے بھی دوسری قومیتوں کو برے ناموں سے پکارنا شروع کردیا۔

عرض یہ کی تھی کہ انڈیا سے تعلق لفظ مہاجر کی نسبت سے واضح ہوتا ہے جبکہ آئڈیولوجی یہ کہتی ہے کہ آپ اب صرف پاکستانی ہیں۔ تو لفظ مہاجر میں موجود آپ کے پچھلے تعلق کا اشارہ ہی منطقی طور پر آئیڈیولوجی کو کنفیوز کرنے کے لیے کافی ہے۔

میں نے بر سبیلِ تذکرہ ایک بات کی تھی جس پر گفتگو چل پڑی :)

یہ صورتِ حال پاکستان کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ سوویت یونین کی طرح توڑنے کے لیے کافی ہوگی۔ بہرحال یہ نہ سہی کچھ اور سہی، کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے۔ اصل بات حقوق اور مساوات کی ہے۔ جب قومیتوں کو مساوی حقوق اور جائز حصہ ملنے لگے گا تو احساسِ محرومی بھی ختم ہوگا اور کنفیڈریشن کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

 

محمد امین

لائبریرین
جہاں تک کلمہ شناخت کا تعلق ہے تو میرے لئے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ مذکورہ لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔:)
جہاں تک نظریے سے متصادم ہونے کا اعتراض ہے تو میرا خیال ہے کہ اگر مذکورہ لوگ اپنے آپ کو "ہندوستانی پاکستانی" کے کلمہ شناخت سے پہچان کرواتے تو آپ کا اعتراض بجا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اب وہ "مہاجر پاکستانی" ہیں۔:)

مگر سوال تو یہ ہے کہ مہاجر کون ہے؟؟؟ میرے 99 فیصد رشتہ دار، دوست، احباب سب کے سب بشمول اپنے والدین کے، پاکستان کی پیداوار ہیں تو لفظ مہاجر کیوں آخر؟؟؟
 

عثمان

محفلین
مگر سوال تو یہ ہے کہ مہاجر کون ہے؟؟؟ میرے 99 فیصد رشتہ دار، دوست، احباب سب کے سب بشمول اپنے والدین کے، پاکستان کی پیداوار ہیں تو لفظ مہاجر کیوں آخر؟؟؟
بات ہجرت کی نہیں ، بات اسم معرفہ کے استعمال کی ہے۔
جب تک آپ کے عزیز و اقارب کی اکثریت اپنے لئے لفظ مہاجر پسند کرتی رہے گی ان کی شناخت ان کی خواہش کے اعتبار سے مہاجر ہی ہوگی۔
جب ان کی اکثریت اپنے لئے لفظ "X" کا انتخاب کر لے گی۔ ان کی شناخت ان کی خواہش کے اعتبار سے "X" قرار پائے گی۔ :)
 
یہ صورتِ حال پاکستان کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ سوویت یونین کی طرح توڑنے کے لیے کافی ہوگی۔ بہرحال یہ نہ سہی کچھ اور سہی، کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے۔ اصل بات حقوق اور مساوات کی ہے۔ جب قومیتوں کو مساوی حقوق اور جائز حصہ ملنے لگے گا تو احساسِ محرومی بھی ختم ہوگا اور کنفیڈریشن کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

متفق نہیں
تمام لوگوں کو اختیار دینا مسائل کا حل ہے ۔ موجودہ صورت حال میں پنجاب اور سندھ کا ایک مخصوص طبقہ تمام دولت پر ہاتھ صاف کررہا ہے۔
ریاستوں کا تصور کیا برا ہے؟ امریکہ بھی اسی وجہ سے متحد ہے
 

عثمان

محفلین
یہاں ایک بات واضح کردوں کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اپنے لئے وہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا تو اس کے لئے وہ لفظ انفرادی طور پر استعمال کرنا درست نہیں۔
لیکن یہاں موضوع بحثیت مجموعی پہچان کا ہے۔ آپ انفرادی طور پر بلاشبہ اپنے آپ کو karachiite کہلانے میں حق بجانب ہیں۔ :)
 

محمد امین

لائبریرین
بات ہجرت کی نہیں ، بات اسم معرفہ کے استعمال کی ہے۔
جب تک آپ کے عزیز و اقارب کی اکثریت اپنے لئے لفظ مہاجر پسند کرتی رہے گی ان کی شناخت ان کی خواہش کے اعتبار سے مہاجر ہی ہوگی۔
جب ان کی اکثریت اپنے لئے لفظ "X" کا انتخاب کر لے گی۔ ان کی شناخت ان کی خواہش کے اعتبار سے "X" قرار پائے گی۔ :)

زید، بکر و عمرو کی بات کا اعتبار نہیں۔ کیوں کہ عوام کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ اینٹیلیکچوال طبقہ کیا سوچ رکھتا ہے، یہ زیادہ اہم ہے۔ عرف کی بات سے انکار نہیں، مگر معاشرے کی فکری تربیت بھی کوئی چیز ہے۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
یہ صورتِ حال پاکستان کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ سوویت یونین کی طرح توڑنے کے لیے کافی ہوگی۔ بہرحال یہ نہ سہی کچھ اور سہی، کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے۔ اصل بات حقوق اور مساوات کی ہے۔ جب قومیتوں کو مساوی حقوق اور جائز حصہ ملنے لگے گا تو احساسِ محرومی بھی ختم ہوگا اور کنفیڈریشن کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

متفق نہیں
تمام لوگوں کو اختیار دینا مسائل کا حل ہے ۔ موجودہ صورت حال میں پنجاب اور سندھ کا ایک مخصوص طبقہ تمام دولت پر ہاتھ صاف کررہا ہے۔
ریاستوں کا تصور کیا برا ہے؟ امریکہ بھی اسی وجہ سے متحد ہے

ہمت بھائی۔ امریکہ کی تو بنیاد ہی ریاستوں پر رہی ہے۔ اور پاکستان کی بنیادیں ہی ڈھیلی ہیں۔ :)
 

عثمان

محفلین
زید، بکر و عمرو کی بات کا اعتبار نہیں۔ کیوں کہ عوام کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ اینٹیلیکچوال طبقہ کیا سوچ رکھتا ہے، یہ زیادہ اہم ہے۔ عرف کی بات سے انکار نہیں، مگر معاشرے کی فکری تربیت بھی کوئی چیز ہے۔۔
عوام کی اجتماعی سوچ کا معیار بھلے کچھ ہو۔ عوام کا کسی معاملے میں اکثریتی موقف رکھنا (یا کسی طور اس کا اظہار ہونا) بالکل ممکن ہے۔ جمہوریت اسی کی Quantification کا نام ہے۔
انٹلیکچوئل طبقہ کو معاشرے کی فکری تربیت کے لئے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جمہور کی اکثریتی رائے بھی تبدیلی کے لئے کچھ وقت لے گی۔
 

ساجد

محفلین
ہمت عکی کی "حق پرستوں" کو مبارک اور وضاحت مانگنے پر قلا بازی اور انہی حق پرستوں کا جناح پور کا ماضی کا مطالبہ اور اس کے لئے پنجاب کی تقسیم سے یہ عمل شروع کروا کر پھر اسے دلیل کے طور پر استعمال کر کے اپنے صوبے کا مطالبہ اور ہمت علی کی کنفڈریشن کی گردان جو دراصل ایم کیو ایم کا حتمی مقصد ہے ،ساری صورت حال کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔
آج سندھ کی تقسیم پر ظا ہری طور پر غیر آمادہ ایم کیو ایم ، پنجاب تقسیم ہوتے ہی قلابازی لگائے گی اور سندھ کو تقسیم کروانے کے لئے قوم پرستی کو ہوا دے گی۔
مؤقف ہے کہ پنجاب بہت بڑا ہے اس لئے تقسیم ہونا چاہئیے۔ ذرا اندازہ کیجئیے کہ کس قدر مضحکہ خیز مؤقف ہے ۔ اگر مسائل کے حل کے لئے کچھ اقدامات کرنے ہیں تو ان کے لئے کیا پنجاب توڑنا ضروری ہے؟۔ کیا تقسیم شدہ حصے میں فرشتے آ کر نظام چلائیں گے ؟ یہی لٹیرے جو آج ہمیں لوٹ رہے ہیں وہاں بھی یہی کچھ کریں گے ۔ اگر بہتری مطلوب ہے تو ان لٹیروں پر دباؤ ڈالو نہ کہ ملک کو مزید اکائیوں میں تقسیم کر کے خود مختار ریاستوں کا تُوت کھڑا کرکے اس کو ان طاقتوں کے لئے تر نوالہ بنا دیا جائے جو اسی کام کے لئے افغانستان میں بیٹھی ہیں۔ کیا ہم نے تاریخ سے کبھی سبق سیکھا؟۔ برصغیر کی مغلوں سے قبل کی تاریخ دیکھئے کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا اور شمال سے آنے والے انہیں تہہ تیغ کرتے رہے ،مغلوں نے اسے ایک مرکزی حکومت میں باندھا تو یہ دنیا میں ایک عظیم الشان خطہ بنا پھر مغل درباری سازشوں میں الجھے اور برصغیر میں پھر سے چھوٹی چھوٹی ریاستیں آزاد ہو گئیں تب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر کو زیر نگیں کر لیا۔ اب ہم خود ہی اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مار رہے ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ تاریخ ہمیں کیا بتا رہی ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
ہمت عکی کی "حق پرستوں" کو مبارک اور وضاحت مانگنے پر قلا بازی اور انہی حق پرستوں کا جناح پور کا ماضی کا مطالبہ اور اس کے لئے پنجاب کی تقسیم سے یہ عمل شروع کروا کر پھر اسے دلیل کے طور پر استعمال کر کے اپنے صوبے کا مطالبہ اور ہمت علی کی کنفڈریشن کی گردان جو دراصل ایم کیو ایم کا حتمی مقصد ہے ،ساری صورت حال کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔
آج سندھ کی تقسیم پر ظا ہری طور پر غیر آمادہ ایم کیو ایم ، پنجاب تقسیم ہوتے ہی قلابازی لگائے گی اور سندھ کو تقسیم کروانے کے لئے قوم پرستی کو ہوا دے گی۔
مؤقف ہے کہ پنجاب بہت بڑا ہے اس لئے تقسیم ہونا چاہئیے۔ ذرا اندازہ کیجئیے کہ کس قدر مضحکہ خیز مؤقف ہے ۔ اگر مسائل کے حل کے لئے کچھ اقدامات کرنے ہیں تو ان کے لئے کیا پنجاب توڑنا ضروری ہے؟۔ کیا تقسیم شدہ حصے میں فرشتے آ کر نظام چلائیں گے ؟ یہی لٹیرے جو آج ہمیں لوٹ رہے ہیں وہاں بھی یہی کچھ کریں گے ۔ اگر بہتری مطلوب ہے تو ان لٹیروں پر دباؤ ڈالو نہ کہ ملک کو مزید اکائیوں میں تقسیم کر کے خود مختار ریاستوں کا تُوت کھڑا کرکے اس کو ان طاقتوں کے لئے تر نوالہ بنا دیا جائے جو اسی کام کے لئے افغانستان میں بیٹھی ہیں۔ کیا ہم نے تاریخ سے کبھی سبق سیکھا؟۔ برصغیر کی مغلوں سے قبل کی تاریخ دیکھئے کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا اور شمال سے آنے والے انہیں تہہ تیغ کرتے رہے ،مغلوں نے اسے ایک مرکزی حکومت میں باندھا تو یہ دنیا میں ایک عظیم الشان خطہ بنا پھر مغل درباری سازشوں میں الجھے اور برصغیر میں پھر سے چھوٹی چھوٹی ریاستیں آزاد ہو گئیں تب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر کو زیر نگیں کر لیا۔ اب ہم خود ہی اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مار رہے ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ تاریخ ہمیں کیا بتا رہی ہے۔

متفق۔ ایم کیو ایم نے صوبہ ہزارہ اور جنوبی پنجاب کو اسی لیے سپورٹ کیا کہ بعد میں مہاجر صوبے کی تحریک نیا جنم لے، اسی جانب میں نے اپنی آج کی پہلی پوسٹ میں اشارہ کیا تھا، جس کے بعد گفتگو دوسری طرف چلی گئی :)

درحقیقت مہاجر صوبے کی تحریک کا نیا جنم اس وقت ہوا تھا جب ذوالفقار مرزا کی شعلہ بیانی نے کراچی میں آگ لگادی تھی۔ اور ابھی جب سے جنوبی پنجاب کی قرارداد منظور ہوئی ہے، اس کے اگلے دن سے ہی کراچی بھر میں وال چوکنگ ہوگئی ہے مہاجر صوبے کے لیے۔

اور اس سے قبل 23 مارچ کو سندھی قوم پرستوں نے کراچی میں سندھو دیش کو الگ کرانے کے لیے بہت بڑی ریلی نکالی تھی، مجھے حیرت ہے اس کی طرف کسی کی توجہ کیوں نہیں ہے۔ حتیٰ کہ مہاجر صوبے کی شدید مخالفت کرنے والی اے این پی نے بھی دبے الفاظ میں سندھو دیش کی حمایت لردی۔ یعنی الگ وطن سندھ۔۔۔۔۔
 
ذیلی قومیتوں کا تصور برائی کی جڑ ہے اور اس کا حل ذیلی قومیتوں کی ریاست کی تشکیل ہے۔
بڑے صوبے پنجاب میں خود وہاں کے سرائیکی پنجابی سامراج سے تنگ ہیں اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کیا برا ہے جب وہ اپنی زمین کے خود مختار ہوں اپنے وسائل کے خود مختار ہوں۔ وہ وسائل کو ترقی ہی دیں گے۔
ابھی تو بلوچستان کی گیس لاہور اور فیصل اباد کی فیکٹیریوں اور گھروں میں استعمال ہوتی ہے۔ اگر ذیلی ریاستوں کی تشکیل ہوگی تو سب اپنے وسائل کی بنیاد پر کاروبار کریں گی جس سے پاکستان کاتصور مضبوط ہوگا۔ واضح رہے کہ پاکستان بذات خود کسی بھی لحاظ سے کوئی قوم نہیں ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مزید صوبے بنانے چاہیے مگر عوام کی رائے کو مدِ نظر رکھ کر،
میرے خیال میں تو بننے چاہیے، لوگوں کو دفتری کاموں میں زیادہ سہولت ہو گی۔ جو لوگ صادق آباد وغیرہ سے بعض کاموں کے لئے لاہور آتے ہیں، وہ اپنے صوبے کے قریب ترین دفتر میں چلے جایا کریں گے، ٹرانسپورٹ، وقت، ذہنی کوفت وغیرہ کافی چیزوں سے چھٹکارا ملے گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مزید صوبے بنانے چاہیے مگر عوام کی رائے کو مدِ نظر رکھ کر،
میرے خیال میں تو بننے چاہیے، لوگوں کو دفتری کاموں میں زیادہ سہولت ہو گی۔ جو لوگ صادق آباد وغیرہ سے بعض کاموں کے لئے لاہور آتے ہیں، وہ اپنے صوبے کے قریب ترین دفتر میں چلے جایا کریں گے، ٹرانسپورٹ، وقت، ذہنی کوفت وغیرہ کافی چیزوں سے چھٹکارا ملے گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top