ایچ اے خان
معطل
سرائیکی عوام کی رائے 100٪ ہے کہ انھیں الگ صوبہ چاہیے۔ یہی رائے ہزارہ والوں کی ہے
سرائیکی عوام کی رائے 100٪ ہے کہ انھیں الگ صوبہ چاہیے۔ یہی رائے ہزارہ والوں کی ہے
کیسے یکجا کیا جائے؟۔بدقسمتی سے یہ کام پاکستان میں عروج پر ہے۔ کوئی پنجاب کا بھنگڑا ڈالتا ہے کوئی سندھی لڈھی تو بلوچی تو کوئی خٹک ڈانس
اس برائی کا ایک علاج ہے کہ اس تقسیم کو یکجا کردیا جائے ورنہ یہ بدقسمت لوگ لڑلڑ کر مرجائیں گے
کیا آپ سرائیکی ہیں یا آپ کا تعلق ہزارہ سے ہے؟۔سرائیکی عوام کی رائے 100٪ ہے کہ انھیں الگ صوبہ چاہیے۔ یہی رائے ہزارہ والوں کی ہے
جناب ، یہی تو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسائل کے حل کی طرف بڑھا جائے نہ کہ مسائل بڑھائے جائیں۔ آپ درست فرماتے ہیں کہ صادق آباد سے لاہور ایک طویل مسافت ہے اور دفتری کاموں میں دشواری ہے۔ اس کا بہتر حل یہ ہے کہ دور دراز کے شہروں میں دفاتر قائم کئے جائیں۔ نہ کہ تقسیم ہی کر دیا جائے۔ اسلام آباد سے کراچی اور کوئٹہ کی مسافت پر غور فرمائیں تو کیا یہ کہا نہیں جا سکتا کہ عوام کو سفری مشکلات درکار ہیں؟ اب اس کا حل یہ تو نہیں کہ کراچی اور کوئٹہ کو الگ ملک بنا دیا جائے۔ اگر رقبے ، مسافت اور سفری دشواری کی بنیاد پر ہی تقسیم مطلوب ہو تو بلوچستان میں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔مزید صوبے بنانے چاہیے مگر عوام کی رائے کو مدِ نظر رکھ کر،
میرے خیال میں تو بننے چاہیے، لوگوں کو دفتری کاموں میں زیادہ سہولت ہو گی۔ جو لوگ صادق آباد وغیرہ سے بعض کاموں کے لئے لاہور آتے ہیں، وہ اپنے صوبے کے قریب ترین دفتر میں چلے جایا کریں گے، ٹرانسپورٹ، وقت، ذہنی کوفت وغیرہ کافی چیزوں سے چھٹکارا ملے گا۔
پہلےہی عرض کرچکا ہوں کہ اختیار مقامی لوگوں کے ہاتھ میں۔ اس کی ایک صورت بلدیاتی نظام کی بہتری ہے مگر ہر ڈکٹیٹر نے یہ ازما کر دیکھ لیا اور یہ کارامد نہ ہوسکا۔ اس سے بہتر صورت ریاستوں کی کنفیڈریشن ہے۔کیسے یکجا کیا جائے؟۔
مظومیت کا رشتہ ہےکیا آپ سرائیکی ہیں یا آپ کا تعلق ہزارہ سے ہے؟۔
ہمت علی ، آپ نہ جانے جمع الضدین کی عادت کا شکار کیوں ہیں۔ جب کہ آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان میں اختیار مقامی لوگوں کو دیا ہی نہیں گیا تو پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تقسیم کے بعد اختیار مقامی لوگوں کے پاس آ جائے گا۔ بلدیاتی نظام کی داغ بیل ایک فوجی حکمران ہی نے ڈالی تھی اور آج تک اس پر فوجی حکومتوں کے وقت میں ہی کچھ نہ کچھ عمل کیا گیا ہے جس کے اچھے نتائج بر آمد ہوئے تھے اور اختیار کے ساتھ ساتھ سہولتیں و ثمرات اور زندگی کی بنیادی ضروریات تک عوام کی کسی قدر رسائی ممکن ہو سکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے اکثر کام غلط تھے لیکن اس نے ناظمین کی صورت میں ایک اچھا کام بھی کیا تھا جس کی بدولت خاص طور پر کم ترقی یافتہ اور دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی شروع ہو گئی تھی۔ لیکن اس نام نہاد جمہوری حکومت نے جمہوریت کی یہ بنیاد ہی ختم کر ڈالی۔ جب عوام کو بنیادی سہولتیں اور اقتدار میں شرکت نہ ملے تو ان کے اندر احساس محرومی جنم لیتا ہے جو لاوے کی صورت میں کبھی نہ کبھی پھٹ پڑتا ہے۔ پاکستان میں سسٹم کو جان بوجھ کر غلط چلایا جا رہا ہے کیوں کہ ہم پر وہ لوگ مسلط ہیں جو صرف حکوت کرنے پاکستان آتے ہیں یا پھر جیل جا کر پاکستان میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔پہلےہی عرض کرچکا ہوں کہ اختیار مقامی لوگوں کے ہاتھ میں۔ اس کی ایک صورت بلدیاتی نظام کی بہتری ہے مگر ہر ڈکٹیٹر نے یہ ازما کر دیکھ لیا اور یہ کارامد نہ ہوسکا۔ اس سے بہتر صورت ریاستوں کی کنفیڈریشن ہے۔
لوگ پہلے پاکستان کی بات پر ہنستے تھے ۔ پھر بنگالیوں کی باتوں کو سنجیدہ نہ لیتے تھے ۔ یہ لوگ صرف ہنس ہی سکتے ہیں جب بھی انہیں انے والی مصیبتوں کا حل بتایا جائے۔ تباہ کردیا ہے اس ملک کو انھوں نے ہنس ہنس کر
یہ کیا رشتہ ہوا بھئی؟۔مظومیت کا رشتہ ہے
میرا خیال ہے کہ امریکہ میں ایک مضبوط وفاق ہے جبکہ ریاستیں بھی مضبوط ہیں۔ پاکستان میں حالات قطعی مختلف نہیں۔ امریکہ پہلے کوئی قوم نہیں تھی دو تین سو سال پہلے کوئی امریکی نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح ساٹھ پنسٹھ سال پہلے کوئی پاکستانی نہیں ہوتا تھا۔ امریکی بھی اپس میں لڑتے تھے اور پاکستانی بھی لڑتے ہیں ۔ مگر پھر انھوں نے مختلف ریاستیں تشکیل دیں۔ لوگوں کو ان کا حق دیا اور پھر ان ریاستوں کا وفاق تشکیل دیا تھا۔ ضروری نہیں کہ ریاستوں کا کفیڈریشن بہت ہی ڈھیلا ہو ۔ یہ ایک حد تک ڈھیلا ہونا چاہیے تاکہ لوگوں میں خود مختاری کا احساس رہے۔ جب فوائد لوگوں کو پہنچیں گے تو کوئی ریاست کیوں الگ ہونا چاہے گی؟ مگر اپ سب کی دولت ہڑپ کرلیں تو کوئی اپ کے ساتھ نہیں رہے گا۔ریاستوں کی کنفڈریشن ہر جگہ نہیں چل سکتی۔ امریکہ میں اور معاملہ ہے۔ ان کا وژن یہاں سے مختلف ہے۔ یہاں مناسب حد تک مضبوط وفاق موجود رہنا چاہیے۔
ہمت علی ، آپ نہ جانے جمع الضدین کی عادت کا شکار کیوں ہیں۔ جب کہ آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان میں اختیار مقامی لوگوں کو دیا ہی نہیں گیا تو پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تقسیم کے بعد اختیار مقامی لوگوں کے پاس آ جائے گا۔ بلدیاتی نظام کی داغ بیل ایک فوجی حکمران ہی نے ڈالی تھی اور آج تک اس پر فوجی حکومتوں کے وقت میں ہی کچھ نہ کچھ عمل کیا گیا ہے جس کے اچھے نتائج بر آمد ہوئے تھے اور اختیار کے ساتھ ساتھ سہولتیں و ثمرات اور زندگی کی بنیادی ضروریات تک عوام کی کسی قدر رسائی ممکن ہو سکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے اکثر کام غلط تھے لیکن اس نے ناظمین کی صورت میں ایک اچھا کام بھی کیا تھا جس کی بدولت خاص طور پر کم ترقی یافتہ اور دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی شروع ہو گئی تھی۔ لیکن اس نام نہاد جمہوری حکومت نے جمہوریت کی یہ بنیاد ہی ختم کر ڈالی۔ جب عوام کو بنیادی سہولتیں اور اقتدار میں شرکت نہ ملے تو ان کے اندر احساس محرومی جنم لیتا ہے جو لاوے کی صورت میں کبھی نہ کبھی پھٹ پڑتا ہے۔ پاکستان میں سسٹم کو جان بوجھ کر غلط چلایا جا رہا ہے کیوں کہ ہم پر وہ لوگ مسلط ہیں جو صرف حکوت کرنے پاکستان آتے ہیں یا پھر جیل جا کر پاکستان میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
میں اپنا مؤقف دہراؤں گا کہ سسٹم کو بہتر چلانے کی کوشش کی جائے تو یہ احساس محرومی ختم ہو جائے گا ۔ ورنہ جتنے مرضی صوبے بنا لو مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا۔
ریاستوں کی کنفیڈریشن طاقت کے محور کے گرد قائم رہتی ہے جہاں مرکز ذرا سا کمزور ہوا وہیں ریاستیں خود مختاری کا اعلان کر دیتی ہیں اور بین الاقوامی طاقتیں ان کو علیحدہ کروانے کے لئے میدان میں آ جایا کرتی ہیں۔ پاکستان کے معاشرتی اور جغرافیائی اجزائے ترکیبی اسلام کے نام پر مجتمع ہوئے تھے اگر ہم اس مضبوط ترین بندھن کے باوجود اپنا اپنا نسلی ولسانی راگ الاپ رہے ہیں تو کنفڈریشن کی بات کا دوسرا مطلب سیدھا سیدھا ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانا ہو گا ۔