نور وجدان
لائبریرین
دونوں باتوں کو الگ الگ جملوں میں لکھیں۔[/QUOTE][QUOTE="نور سعدیہ شیخ, post: 1789941, member: 8633"]قران پاک میں مافوق الفطرت واقعات ہیں مگر اس بات پہ یقین رکھتی ہوں "ولی " ان واقعات کو پاؤں کی نوک میں رکھتا ہے
لکھ دیا جناب
دونوں باتوں کو الگ الگ جملوں میں لکھیں۔[/QUOTE][QUOTE="نور سعدیہ شیخ, post: 1789941, member: 8633"]قران پاک میں مافوق الفطرت واقعات ہیں مگر اس بات پہ یقین رکھتی ہوں "ولی " ان واقعات کو پاؤں کی نوک میں رکھتا ہے
لکھ دیا جناب[/QUOTE]دونوں باتوں کو الگ الگ جملوں میں لکھیں۔
آپ کے جواب سے لگا کہ آپ بھی ان بھوکے ننگے تارک دنیا تارک الدین ڈھونگیوں کو ولی مانتی ہیں جو بالوں کو لٹوں کی صورت لٹکائے مستانے بنے پھرتے ہیں.. ولیت کی کوئی خاص شکل و شرط نہیں ہوتی.. رحمدل اور سخی تاجر بھی ولی ہوتا ہے.. رحمدلی اور سخاوت اور مہمان نوازی کرنے والا اور حلال رزق کمانے والا ہی اللہ کا دوست ہوتاہے... بہرحال ہر کسی کا اپنا نظریہ ہوتا ہے.. سو اسی حساب سے وہ لوگوں کو جج کرتا ہےواقعات تو بعد کی بات ہے ہم جب تک کسی کو جانچ پرکھ نہ لیں ہم اسے اچھا، برا قرار نہیں دے سکتے ہیں. قران پاک میں مافوق الفطرت واقعات ہیں مگر اس بات پہ یقین رکھتی ہوں "ولی " ان واقعات کو پاؤں کی نوک میں رکھتا ہے اور سفر کرتا ہے اور جو ان واقعات کو افسانوی انداز میں بتادے وہ ایک قسم کی تجارت ہوتی ہے. ولی کبھی تاجر نہیں ہوتا
کس نے کہا یہ تصوف کی کتاب ہے ؟؟؟5000 روپے کی تصوف کی کتاب؟؟؟؟؟ لا حول ولا قوۃ
اللہ آپ کو بہت خوشیاں دے۔ مجھے آپ کا مزاج بہت اچھا لگتا ہے۔ جہاں اچھی بات دیکھتی ہیں،اپنا لیتی ہیں۔مان لیتی ہیں۔ہٹ دھرمی نہیں دکھاتیں۔اللہ آپ کو بہت آسانیاں اور دنیا و آخرت کی تمام خوشیاں و کامیابیاں عطا کرے۔ آمین![/QUOTE]لکھ دیا جناب
آپ کے جواب سے لگا کہ آپ بھی ان بھوکے ننگے تارک دنیا تارک الدین ڈھونگیوں کو ولی مانتی ہیں جو بالوں کو لٹوں کی صورت لٹکائے مستانے بنے پھرتے ہیں.. ولیت کی کوئی خاص شکل و شرط نہیں ہوتی.. رحمدل اور سخی تاجر بھی ولی ہوتا ہے.. رحمدلی اور سخاوت اور مہمان نوازی کرنے والا اور حلال رزق کمانے والا ہی اللہ کا دوست ہوتاہے... بہرحال ہر کسی کا اپنا نظریہ ہوتا ہے.. سو اسی حساب سے وہ لوگوں کو جج کرتا ہے
گزارش ہے کہ ایک دفعہ ہمت کرکے ان کی تمام کتب پڑھ لیجیے.. چاہے وقت کیا ضیاع سمجھ کر ہی.. تو جن حضرات کا آپ نے ذکر کیا ہے ان سے باباجی کا تعلق معلوم ہوجائے گا آپ کواس سے بڑھ کہ کیا بات ہوگی میں واصف علی واصف کی ایک غزل پر ان کو اللہ کا ولی مانتی ہوں ۔
میں نعرہ ء مستانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ زندہ ہوتے ہیں اور روح رکھتے ہیں اور ان کا ابلاغ روحوں پر عجب طریقے سے منکشف ہوتا ہے ۔ یقین کریں واصف علی واصف کا یہ کلام پچھلے سال پڑھا ہے اور تب سے ہی ان کو جانتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے دل سے چلتی ہوں ۔۔۔۔۔جس کی بات میرے دل پر اثرانداز ہوتی ہے وہی ولی ہے اور جہاں پر شک پیدا ہوتا ہے جس کے جواب میں دلیل رکھتی ہوں تو دور کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ولیت کی خاص شکل نہیں ہوتے مگر کچھ عارفین ہوتے ہیں جو علم رکھتے ہیں ۔ جو پہچان رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جیسے مظفر وارثی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا کلام ۔۔۔ایک ایک لائن الہامی ہے ۔۔۔۔۔۔۔دل پر اترتی ہے کیونکہ یہ کلام ان کے دل پر اترا ہے ۔۔۔۔۔۔
اسی طرح قران پاک بھی دل پر اترتا ہے کہ یہ سب کلاموں کی سردار کتاب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کوشش کرکے دیکھوں گی ۔۔۔ اسی وجہ سے پڑھنا شروع کی تھی ۔۔چلیں پھر اس کتاب کو مکمل پڑھ ہی لیتی ہوںگزارش ہے کہ ایک دفعہ ہمت کرکے ان کی تمام کتب پڑھ لیجیے.. چاہے وقت کیا ضیاع سمجھ کر ہی.. تو جن حضرات کا آپ نے ذکر کیا ہے ان سے باباجی کا تعلق معلوم ہوجائے گا آپ کو
باباجی کی لفاظی سے محظوظ ہوں.. استعارے کے استعمال دیکھیں.. حقیقت کو فکشن میں ڈھالنے کی مہارت دیکھیے.. صوفی اور ولی ہونے جھونکیے بھاڑ میںکوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کوشش کرکے دیکھوں گی ۔۔۔ اسی وجہ سے پڑھنا شروع کی تھی ۔۔چلیں پھر اس کتاب کو مکمل پڑھ ہی لیتی ہوں
باباجی کی لفاظی سے محظوظ ہوں.. استعارے کے استعمال دیکھیں.. حقیقت کو فکشن میں ڈھالنے کی مہارت دیکھیے.. صوفی اور ولی ہونے جھونکیے بھاڑ میں
پھر بندہ جو مرضی کرےبندہ خدا جب کتاب پڑھنے کا قصد کرتا ہے یا کرتی ہے تو کچھ اغراض و مقاصد پہلے سے تہ شدہ ہوتے ہیں ۔ خاص طور وہ بندے جن کو مطالعے سے سروکار نہیں اور کتاب کی شکل دیکھ کے ان کو مصیبت پڑھ جاتی ہو ۔ دنیا کے چند جاہلوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم فلاں بندے سے کیوں متاثر ہوں ہم نے تو علم لینا تھا اور علم میں فنی استعاروں سے ملبوس نثر کے بے ساختہ پن سے محظوظ ہوتے پڑھنا چاہا تو طبیعت کی سستی نے حملہ کردیا اور وہی ہم کے ماتم کناں کہ زندگی میں پہلی دفعہ کچھ پڑھنا چاہا وہ بھی پڑھ نہیں پائے ۔ان لوگوں کے ساتھ مسئلہ ہوتا کہ اگر لفظ کشش کرلیں تو پڑھ لیتے ہیں اور لفظ کی مقناطیسیت دفع کرے تو دور بھاگتے ہیں ۔ دنیا میں سب صاحب علم ہیں اور کچھ زیادہ ہیں مگر ہر کسی کی وائرنگ کسی خاص قطب میں ہوئی ہوتی ہے ۔ بس کچھ ایسا مسئلہ ہو تو بندہ کہاں جائے پھر
یہ تو کافی مہنگی ہےجی پانچ ہزار کی ہے.
میں نے "بابا یحیی خان " کے فیس بک پیج کی وڈیو میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں سنا: لوگ پانچ کیا دس ہزار ٹکٹ لاہور سے کراچی جانے کا بھرتے. یا مہنگائی کے ساتھ ہر شے مہنگی ہوتی تو کتاب کیوں نہیں. ان کے مطابق ان کی کتاب کی قیمت لاکھوں میں ہونی چاہیے کہ علم آسانی سے تھوڑی نا ملتا.یہ تو کافی مہنگی ہے
کمرشل تصوف بھی کوئی چیز ہوتا ہے5000 روپے کی تصوف کی کتاب؟؟؟؟؟ لا حول ولا قوۃ
میں تو قیمت کی وجہ سے پڑھ ہی نئیں سکا۔۔۔۔ کہ میری پہنچ سے دور ہے
یہ نئی کتاب پانچ ہزار روپے کی ہے؟
پھر تو اس کی پی ڈی ایف فائل کی دستیابی کا انتظار کرنا پڑےگا۔
جی میں نے بھی بابا یحیی کی کتب ڈائون لوڈ کر کے ہی پڑھی ہیں۔ ان کی نئی کتاب 'لے بابا ابابیل' بھی اسی وقت پی ڈی ایف میں دستیاب ہو گی جب کوئی "غریب پرور" انسان اسے اسکین کر کے اپ لوڈ کرے گا۔پیا رنگ کالا تو انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف شکل میں کافی عرصے سے موجود ہے
تین سال تو مجھے ہو گئے ہیں اس کتاب کو پڑھے کویت میں تھی میں تب
ویسے تو پسند اپنی اپنی ہوتی ہے۔۔۔۔بندہ خدا جب کتاب پڑھنے کا قصد کرتا ہے یا کرتی ہے تو کچھ اغراض و مقاصد پہلے سے تہ شدہ ہوتے ہیں ۔ خاص طور وہ بندے جن کو مطالعے سے سروکار نہیں اور کتاب کی شکل دیکھ کے ان کو مصیبت پڑھ جاتی ہو ۔ دنیا کے چند جاہلوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم فلاں بندے سے کیوں متاثر ہوں ہم نے تو علم لینا تھا اور علم میں فنی استعاروں سے ملبوس نثر کے بے ساختہ پن سے محظوظ ہوتے پڑھنا چاہا تو طبیعت کی سستی نے حملہ کردیا اور وہی ہم کے ماتم کناں کہ زندگی میں پہلی دفعہ کچھ پڑھنا چاہا وہ بھی پڑھ نہیں پائے ۔ان لوگوں کے ساتھ مسئلہ ہوتا کہ اگر لفظ کشش کرلیں تو پڑھ لیتے ہیں اور لفظ کی مقناطیسیت دفع کرے تو دور بھاگتے ہیں ۔ دنیا میں سب صاحب علم ہیں اور کچھ زیادہ ہیں مگر ہر کسی کی وائرنگ کسی خاص قطب میں ہوئی ہوتی ہے ۔ بس کچھ ایسا مسئلہ ہو تو بندہ کہاں جائے پھر
زبردست بات کی آپ نےویسے تو پسند اپنی اپنی ہوتی ہے۔۔۔۔
آپ نے وہ زین ZEN کہانی شائد پڑھی ہو (اگر نہیں پڑھی تو ضرور پڑھئیے گا) جس میں ایک شخص کسی زین ماسٹر سے حکمت کی باتیں سیکھنے جاتا ہے۔ ماسٹر کا قیام ایک دشوار گذار پہاڑ کی چوٹی پر ہوتا ہے۔ وہ شخص کسی نہ کسی طرح ہانپتا کانپتا آخر کار پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچتا ہے اور ماسٹر کی کٹیا میں اس سے جاکر ملتا ہے۔ ماسٹر اس کا استقبال کرتا ہے اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کرکے چائے گرم کرنا شروع کردیتا ہے۔ اور اس دوران اس سے آمد کا مقصد پوچھتا ہے۔
" میں آپ سے حکمت کی باتیں سیکھنے اور دانائی حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں"۔
اس دوران ماسٹر اس کے کپ میں چائے انڈیلنا شروع کردیتا ہے اور اس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی چائے کا کپ لبالب بھر جاتا ہے لیکن وہ چائے انڈیلنا جاری رکھتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ چائے میز پر گرنا شروع ہوجاتی ہے۔
"چائے گر رہی ہے، بس کردیجئے کپ بھر چکا ہے "۔
لیکن ماسٹر سنی ان سنی کرکے چائے انڈیلنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ وہ شخص جھنجھلا کر کہتا ہے ۔۔۔
"آپ سن نہیں رہے ؟ دکھائی نہیں دے رہا کہ چائے باہر گر رہی ہے؟ آپ کو بات سمجھ آتی ہے یا نہیں؟"
ماسٹر رک جاتا ہے اور اطمینان سے جواب دیتا ہے کہ :
بس یہی بتا نا تھا۔ تم بھی اپنے خیالات و نظریات ، توقعات اور Opinions سے اس کپ کی طرح لبالب بھرے ہوئے ہو۔۔۔میری باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ اس چائے کی طرح رائیگاں ہی جائیں گی۔ جاؤ پہلے خالی ہوکر آؤ۔۔۔۔۔