آپ میں سے کس کس نے پیا رنگ کالا پڑھی ہے ۔ گوگل پر بابا یحیی خان کے متعلق لکھا ہوا ہے ان کا تعلق جدید دور کے صوفیوں ممتاز مفتی ، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ سے ہے ۔ صوفی اور ولی میں کوئی فرق ہیں کیونکہ بابا یحیی خان خود کو ولی اللہ لکھتے ہیں جبکہ آج تک کسی ولی اللہ نے خود کو ولی نہیں کہا ان کے جانے کے بعد دنیا میں اللہ کی جانب سے مشہور ہوگئے ۔ میں اس بارے ٹھوس دلائل چاہتی ہوں تاکہ میں جان سکوں کہ یہ سب کتنا سچ لکھتے ہیں ۔
میرے ناقص خیال میں صوفی اور ولی میں بہت فرق ہے ۔۔۔۔
اولاد آدم وحوا میں ہر وہ " صوفی " کہلائے گا جو بلا تفریق انسانوں کے لیےآسانیاں تلاشنے میں محو رہتا ہو ۔ اور یہ ؎خود کو کسی بھی " مذہبی اور مسلکی دائرے " سے آزاد رکھتا ہو ۔
ولی کو اگر مروجہ اسلامی معنوں میں سمجھیں تو اللہ کا دوست
جو دین اسلام ( شریعت طریقت )کو خود پر لاگو کرتے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے خود کو سنوار کر مخلوق کی خدمت میں محو رہے ۔
کون کتنا سچ لکھتا ہے ؟ سب کا اپنا اپنا سچ اپنا اپنا جھوٹ ۔
لکھنے والے کا قلم اس کے خیال وجدان کو اس کے تصور میں لفظوں کو مجسم کرتے تحریر کی صورت مرقوم کر دیتا ہے ۔ اور یہ لکھت لکھنے والے کے نزدیک مستند ہوتی ہے ۔ جب یہ قاری کی نگاہ سے گزر کر قاری کے وجدان پر تصویر کی صورت اترتی ہےتو قاری اس تصویر سے اپنے باطنی خیال و سوچ کا تقابل کرتا ہے ۔ اپنی سوچ و خیال کو اجالتا ہے ۔ علم پاتا ہے ۔ تنقید کا خوگر ہو تو تناقص پر الجھ جاتا ہے ۔ تعمیر کا خوگر ہو تو تناقص میں الجھنے کی بجائے ( یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے ) کے اصول کو مد نظر رکھتے اپنے مقصود مطابق موتی چن لیتا ہے ۔۔۔۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفی اثبات دا پانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت طریقت معرفت حقیقت
ان سب میں سے اگر " ت" کو حذف کر بھی دیا جائے تو ان کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں آتا ۔
یہ " ت " ان سب الفاظ میں مشترک ہے ۔
اس " ت " کی حکمت تلاش کرتے اگر سچی کتاب ہدایت سے رجوع کیا جائے تو پارہ نمبر تین " تلک الرسول " میں اللہ تعالی نے "شریعت طریقت معرفت حقیقت " کو پوری طرح کھول کر بیان کر دیا ہے کہ " اولاد آدم وحوا " کس راہ پر چل " انسان " کا درجہ پاتے نہ صرف اپنے لیے بلکہ جملہ کائنات کے لیے فلاح کا سبب بن سکتی ہے ۔اور جو اس فرمان عالیشان کو سمجھ کر اسے خود پر لاگو کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔ وہی " تصوف " کی راہ کا مسافر قرار پاتے " صوفی " کہلاتا ہے ۔
یہ ہر لمحہ " نفی " پر قائم رہتے جسم خاکی سے براہ راست منسلک ہر اس خواہش کا انکار کرتا ہے جو نفس پر معبود کی صورت قابض ہوتے اس کے اور انسانیت کے لیے انتشار و فساد کا سبب بنتی ہے ۔جھوٹ فریب دھوکہ لالچ میں مبتلا کرتی ہے ۔
اس " نفی " کی بنیاد میں " حکمت الہی اور صبر و رضا " کا اثبات شامل ہوتا ہے ۔ جو اسے کسی بھی " طاغوت " کی پیروی سے بچاتا ہے ۔
تصوف کو جہاں تک میری ناقص سوچ سمجھ پائی ہے وہ یہ ہے کہ
"علم و آگہی کی حامل ہر بات مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔ جہاں سے ملے اسے لے لو "
علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے ۔
علم کو عمل میں بدلو ۔
ہر علم مخلوق کی بھلائی سکھاتا ہے ۔
تصوف تمام کتب سماویہ سے اکتساب کرتے اپنی حقیقت کو جاننے خود کو سنوارنے کے بعد انسانیت کی فلاح کی کوشش میں مصروف رہتے دوسرے انسانوں ہی نہیں بلکہ جملہ مخلوقات کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا استعارہ ہے ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ اس جدید زمانے میں جو " صوفیاء" اور ان کی تعلیمات ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ ان میں ہمیں "دکانداری " کی جھلک بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہے ۔اور ان کی ذات وجہ بحث بن جاتی ہے ۔اب اسے چاہے قحط الرجال کہیں یا " کل یگ "؟
جناب شہاب ہوں جناب ممتاز ہوں جناب واصف ہوں جناب بابا یحیی ہوں جناب سرفراز ہوں جناب اشفاق ہوں یا کہ جناب اوشو۔ مجھے اپنی حد تک بطور سالک ان کی ذات سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ مجھے بس ان کے قلم سے بکھرے لفظوں سے غرض ہے ۔ اگر ان کے لفظوں سے مجھے کسی بھی صورت کوئی آگہی بھرا پیغام ملتا ہے تو مجھے اسے اپنی گمشدہ شئے جان لے لینا چاہیئے ۔ اور ان کا معاملہ ان کے اور اللہ کے درمیان چھوڑ دینا چاہیئے ۔
پیا رنگ کالا بھی اک ایسی ہی کتاب ہے ۔ جس میں علم و آگہی سے بھرپور گزرے زمانوں سے کیا گیا اکتساب موجود ہے ۔
انسان ہمیشہ سے کہانی اور فسانہ پسند کرتا آیا ہے ۔ اور خوب لکھی ہے داستان "اندھیرے میں چھپی حقیقت کی "
بہت دعائیں
(اختلاف کا حق استعمال کرنا اتفاق کو بڑھاوا دینا ہے )