سب سے پہلی بات آپکی رائے کا احترام کرتا ہوں، اور ساتھ میں یہ کہ آپکی آدھی بات سے تو میں اتفاق کرتا ہوں کہ قتل کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جو آپ نے تقسیم کی ہے جسمانی اور زبانی توہین کی، اس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔۔۔
برادرم جسمانی ایذا کے تمام واقعات ہجرت مدینہ سے پہلے کے ہیں ۔ فتح مکہ کے موقع پر جن افراد کو کسی قسم کی کوئی رعایت دیے بغیر قتل کرنے کا حکم دیا گیا، ان میں ابن خطل بھی شامل تھا۔ اس شخص نے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ پھر نبی ﷺ نے ایک موقع پر اسے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عامل بنا کر بھیجا، لیکن اس نے اپنے ساتھ جانے والے غلام کوراستے میں قتل کر دیا اور پھر مرتد ہو کر مشرکین کے ساتھ جا ملا۔ اس کے بعداس کی دو لونڈیاں معمول کے طور پر نبی ﷺ کی ہجو پر مشتمل اشعار گایا کرتی تھیں۔اس طرح ابن خطل خود تو قتل اور بدعہدی کامرتکب ہوا، جبکہ اس کی لونڈیوں نے اس کے حکم پر نبی ﷺ کی ذات گرامی کو ایک عادت اورمعمول کے طور پر ہجویہ شاعری کا موضوع بنا لیا جوکئی گنا زیادہ سنگین نوعیت کا جرم تھا۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ کو بتایا گیا کہ ابن خطل جان بچانے کے لیے کعبے کے غلاف کےساتھ چمٹا ہوا ہے، لیکن آپ نے اسے امان نہیں دی اور فرمایا کہ اسے قتل کردو۔آپ نے اس کی دونوں لونڈیوں کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا۔ جن میں سے ایک قتل ہوئی اور ایک فرار ہو گئی۔ فرار ہو جانے والی کو بعد میں امان دے دی گئی۔
عصماء بنت مروان توہین آمیز شعر کہا کرتی تھی، قتل کا حکم دیا گیا اور قتل ہوئی۔
ابو عفک بنو عمرو بن عوف یہودی بوڑھا عیب جوئی اور توہین آمیز اشعار کہا کرتا تھا، قتل کا حکم دیا گیا اور قتل ہوا۔
اور بھی کچھ لوگ ہیں سب کو ایسی ہی سزا ملی۔
کیا آج کوئی نعوذ باللہ وہی کوڑے والی ، اوجڑی والی حرکت دوبارہ کرے(میرے منہ میں خاک) روضہ رسول ص پہ ، تو کیا آپ اسکو توہین رسالت نہیں کہیں گے کیا؟۔۔۔ مجھے لگتا ہے آپ ضرور اس عمل کو توہین رسالت ہی کہیں گے۔۔۔۔
میں نے جسمانی تکالیف والی بات صرف اس لیے کہی تھی کہ ہمیں پتہ ہوکہ کس حرکت پر سزا دی گئی اور کس میں معاف کر دیا گیا۔ اس نقطے کو سمجھے بغیر، ان جسمانی تکالیف دینے والے واقعات کے رد عمل کو سامنے رکھ کر ہی توہین رسالت کے قوانین کی مخالفت کی جاتی ہے۔
جہاں تک آج ان واقعات کے دوبارہ ظہور پزیر ہونے کی بات ہے تو یقیناً یہ توہین رسالت ہوں گے۔
اگر آپ کی منطق مان لی جائے (یعنی اسلام کے شدت پسند ضرور اپنے غصہ کا اظہار کرینگے) تو اسی منطق کا حق اُن بے ادبوں کو بھی دیں ۔۔۔
ایک اپ کے شدت پسند ہیں اور ایک انکے شدت پسند ہیں ،
اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنے شدت پسند بڑھانے ہیں یا کم کرنے ہیں ۔۔۔
وہ بے ادب اپنا حق بے بانگ دہل استعمال کر رہے ہیں اور ان کے اس شدت پسندانہ حق کے استعمال کے بعد ہی ہمارے شدت پسند اپنا حق استعمال کرتے ہیں۔
جب مغرب جو اپنے آپ کو ذہین و فطین، فرسٹ ورلڈ اور نا جانے کیا کیا سمجھتا ہے، وہ اتنی مادی، جسمانی اور ذہنی ترقی کے بعد بھی اپنے ہاں شدت پسندی کو کم نہیں کر پاتا اور ہر دوسرے تیسرے سال کوئی نہ کوئی ایسی بات کر جاتا ہے جو اربوں مسلمانوں کو اشتعال دلاتی ہے تو ہم مسلمانوں کو تو وہ ویسے ہی تھرڈ ورلڈ، جاہل، گنوار میں شمار کرتے ہیں، تو ایسے میں ہم اس شدت پسندی کو کیسے کم کر پائیں گے۔
۔۔۔
مغرب آزادی اظہار رائے کا لیبل لگا کر کی جانے والی اپنی مضحکہ خیز اور جاہلانہ حرکتیں بند کرے تو یقیناً ہماری صٍفوں میں موجود شدت پسندوں کے پاس کوئی بہانہ نہیں رہے گا۔