اپوزِیشن کا ہر بڑھتا قدم حکُومت کو مزید کمزور کر سکتا ہے اور حکُومتیں جلسوں دھرنوں سے نہیں جاتی ہیں مگر کمزور ہو سکتی ہیں اور اِتنی لاغر کِہ مُقتدر حلقے اُس کمزور اور سہمی حکُومت سے اپنی بات منوا سکیں اور یہاں تک کہ اپوزِیشن کا دباؤ اِستعمال کر کے وُہ باتیں منوائی جائیں جو کہ حکُومت مان نہیں رہی۔ یہاں یِہ مسئلہ پھنس گیا ہے کہ کپتان نے این آر او نہ دینے اور اپوزِیشن کو 'سزا'دینے کی ٹھان لِی ہے۔ دو ڈھائی سال اسٹیبلشمنٹ نے بھی خان کا بھرپُور ساتھ دیا مگر کارکردگی عملی میدان میں اِس حد تک غیر تسلی بخش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو دھڑکا لگ گیا ہے کہ جب بھی حکُومت گئی تو وہ بھی ساتھ ہی پٹیں گے اس لیے اب وُہ 'نیوٹرل' بننا چاہتے ہیں اور یِہ بات کپتان کو قبُول نہیں کیونکہ اِس طرح کپتان کی سیاست عملی طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ یِہ جلسہ اور بعد میں اُٹھایا جانے والا ہر قدم حکُومت اور اپوزِیشن دونوں کو کمزور کرے گا جِس کا فائدہ 'وُہ' اٹھائیں گے مگر اپوزِیشن کم کھوئے گی کِہ اُن کے پاس کُچھ بہت زیادہ نہیں ہے جو وُہ کھو دیں گے۔ کپتان نے بظاہر کشتیاں جلا دِی ہیں اور مُمکن ہے کہ وُہ فرسٹریشن میں اسمبلیاں بھی تحلِیل کر کے نئے الیکشن کا اِعلان کر دے اور یِہ الیکشن شاید اپریل میں ہوں۔ دُوسری صُورت میں اپوزِیشن کو دبا کر رکھنا مُشکل ہوتا چلا جائے گا کیونکہ جلسوں میں عوام اپنے دِل کی بھڑاس نکالنے آتی چلی جا رہی ہے اور یِہ جلسے اِس لحاظ سے 'خطرے کی گھنٹی' ہیں۔ کپتان جب اپوزِیشن میں تھا تو اُس کا ہر جلسہ حکُومت کو کمزور کر رہا تھا یہاں تک کہ حکُومت غلطیوں پر غلطیاں کرنے پر مجبُور ہو گئی۔ سیم ہیئر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم عمران خان نے آج دو ٹوک موقف دے دیا ہے کہ اگر یہ حکومت گرانی ہے تو پارلیمان میں عدم اعتماد پیش کریں۔ جلسوں اور دھرنوں سے حکومتیں نہیں جاتی۔
پی ڈی ایم استعفی دے گی تو ہم الیکشن کراکر اور زیادہ مضبوط ہوجائیں گے، وزیراعظم
ویب ڈیسک بدھ 9 دسمبر 2020
نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کے ناجائز پیسے کے متعلق پالیسی بنانے کے ارادے کا خیرمقدم کرتا ہوں، وزیراعظم۔ فوٹو:فائل
سیالکوٹ / اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر میں کیسز بڑھ رہے ہیں، سردیوں میں احتیاط نہ کی تو یہ بہت مشکل ہوں گی،مودی کی مثالیں دینے والی اپوزیشن آج خود جلسے اور جلوس کررہی ہے۔
سیالکوٹ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن جلسوں کے علاوہ کیا کر سکتی ہے، پی ڈی ایم کی 11 جماعتیں مل کر بھی تحریک انصاف جتنے بڑے جلسے نہیں کر سکتیں، مجھے سمجھ نہیں آ رہی یہ کرنا کیا چاہتے ہیں، یہ استعفی دیں گے تو ہم انتخابات کروا کر اور زیادہ مضبوط ہوں گے، حکومت کو بھیجنے کا آئینی طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے، اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش کرنا چاہتی ہے تو اسمبلی میں آجائے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی آوازیں جمہوریت کی فکر میں نہیں نکل رہی ہیں، بلکہ ان کو فکر یہ ہے کہ اب یہ سب پکڑے جائیں گے، بڑے بڑے مافیا ن لیگ کے ساتھ ملے ہوئے تھے جو پکڑے جا رہے ہیں، جو ان کی مالی مدد کرتے تھے، وہ اربوں روپے کی سرکاری زمینوں پر قابض تھے، پنجاب میں گزشتہ 10 سال میں صرف 6 ارب روپے کی ریکوری ہوئی تھی، لیکن ہم نے 27 ماہ میں پنجاب میں 207 ارب کی ریکوری کی، عثمان بزدار کی کمزوری ہے وہ اپنی اچھائیوں کی تشہیر نہیں کر سکتے، فردوس عاشق اعوان کو منصوبوں کی بہتر تشہیر کے لیے پنجاب لائے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم قومی مکالمے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے، سیاسی ڈائیلاگ کی بہترین جگہ پارلیمنٹ ہے، میں نے پہلے دن کہا تھا پارلیمنٹ میں تمام سوالوں کے جواب دینے کو تیار ہوں، جمہوریت تب چلے گی جب مکالمہ ہوگا، لیکن ہم جو بات کرتے ہیں تو اپوزیشن کہتی ہے ہمارے مقدمات معاف کردیں، حالانکہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات انہی کے دور حکومت میں بنائے گئے ہیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہر مسئلے پر بات کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہم کسی بھی صورت میں این آراو پر بات نہیں کریں گے اور کرپشن مقدمات معاف نہیں کرسکتے۔
قبل ازیں سیالکوٹ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کورونا کے دوران مشکلات کا سامنا تھا، ایسی صورتحال میں روزگار چلانا بڑا چیلنج تھا، لیکن اللہ کے فضل سے کورونا کی پہلی لہر کنٹرول میں رہی، اپوزیشن نے تنقید کی کہ مودی نے اپنے ملک میں لاک ڈاؤن کیا ہے ہمیں بھی لاک ڈاؤن کرنا چاہئے، لیکن حکومت پر تنقید کرنے والی اپوزیشن آج خود جلسے اور جلوس کررہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر میں کیسز بڑھ رہے ہیں، سردیوں میں احتیاط نہ کی تو بہت مشکل ہوگی، وائرس کو روکنے کا بہترین طریقہ ماسک ہے، عوام سے اپیل ہے ماسک پہنیں اور ایس او پیز پر عمل کریں، پہلے کی طرح احتیاط کرنے سے صنعت اور لوگوں کو بچا سکتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے صنعت متاثر ہوئی، جب حکومت آئی تب ہمارے پاس پیسہ نہیں تھا، حکومت نے ٹھوس اقدامات سے جاری کھاتوں کے خسارے پرقابو پایا، ہم نے اپنے اخراجات کو کم کیا، ہماری حکومت کی اولین ترجیح ملک میں غربت کو کم کرنا ہے، جس ملک میں چھوٹا طبقہ امیر ہوجائے وہ ترقی نہیں کرتا، نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں، پسماندہ علاقوں کی ترقی بھی ترجیحات میں شامل ہے، پیچھے رہ جانے والے علاقوں پر توجہ دے رہے ہیں، پائندار خوشحالی کیلئے یکساں ترقی ضروری ہے۔
قبل ازیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں ناجائز دولت کو ہدف بنانے کےحوالےسے منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کےعزائم کا خیرمقدم کرتاہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک اپنی بدعنوان اشرافیہ کی کرپشن کے باعث غربت کا شکار ہیں، ترقی پذیر ممالک کے بااثر افراد منی لانڈرنگ کےذریعے دولت امیر ملکوں اور ٹیکس چوری کے غیر ملکی ٹھکانوں میں منتقل کرتے ہیں، ان ہی کی وجہ سے یہ ممالک مفلسی کےاگھاٹ اتارےاجارہے ہیں۔