میرے سیاسی مُرشد امبر شہزادہ کو بنا دو شمشاد جِی۔ یہاں کیا، پُوری دُنیا میں اِقتدار میں آنے کے جو رنگ ڈھنگ ہیں، وُہ نیا بندہ سیکھتے سیکھتے ہیں باوا بن جاتا ہے۔ اس لیے ان میں سے زیادہ تر وزیر مشیر بننے قابل رہ جاتے ہیں یا سینٹ کا ٹکٹ لے لِیا حد سے حد۔ کُچھ سیاسی خاندان اِس لیے ہٹ ہو گئے کہ سیاسی شہادت کسی کو گھرانے میں سے مِل گئی، کُچھ کو اسٹیبلشمنٹ خُود آگے لے آئی مال پانی لے کر اور کچھ کو انتقاماً آگے لایا گیا۔ اب اور کہاں سے قیادت آئے گی، اگلے لیڈر پہلے سے سامنے آ رہے ہیں اور ٹریننگ کے لِیے باجوہ اور دُوسرے جرنیل کبھی کبھار اپنے پاس بُلاتے رہتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں بلاول کو بُلایا، مولانا فضل کے بیٹے کو بُلایا۔ نون لیگ سے بھی بعضوں کو بُلایا گیا پر اُدھر ابھی شہباز اِن ہے۔ اور کوئی طریقہ ہے تو بتائیں۔ میرے سیاسی مُرشد چالیس سال سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور پچھلے الیکشن میں اُنہیں 33 ووٹ مِلے یاسمین راشد لاکھوں ووٹ لے کر بھی ہار گئیں۔ نُون لیگ کا جو اُمیدوار جیتا، اُس کا نام بھی مُجھے یاد نہیں، کوئی وحید بٹ تھا شاید۔ اور، حتیٰ کہ اُس کی بھی پارٹی اور قومی منظرنامے پر کوئی حیثِیت نہیں۔اس سے زیادہ اچھا تبصرہ اور بھلا کیا ہو سکتا ہے۔
مریم اور بلاول اور آصفہ کا مُستقبل روشن لگتا ہے، فی الحال کپتان بہتر چوائِس ہے۔
نئی لیڈرشپ بھی وہیں سے آئے گی جہاں سے کپتان عمران خان آیا۔ یعنی پارٹی میں الیکشن لڑ کر اوپر آئے گی۔ عین ممکن ہے جب عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر دنیا میں نہ ہوں اس وقت پارٹی کی قیادت حماد اظہر، مراد سعید، فیصل جاوید خان جیسے جوان کر رہے ہوں۔ تحریک انصاف میں دیگر جماعتوں کی نسبت موروثی سیاست نہیں ہے۔ یہاں جو کام کرے گا، پارٹی میں مقبول ہو گا وہ لیڈر بن جائے گا جیسا کہ مغربی جمہوری جماعتوں ہوتا ہے۔ جرنیلوں کو اگر سلیکٹ کرنا ہے تو وہ بھی انہی میں سے کرنا ہوگا۔ نہ ان کہ ان کرپٹ خاندانی سیاسی کمپنیز میں سے:اب اور کہاں سے قیادت آئے گی، اگلے لیڈر پہلے سے سامنے آ رہے ہیں اور ٹریننگ کے لِیے باجوہ اور دُوسرے جرنیل کبھی کبھار اپنے پاس بُلاتے رہتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں بلاول کو بُلایا، مولانا فضل کے بیٹے کو بُلایا۔ نون لیگ سے بھی بعضوں کو بُلایا گیا پر اُدھر ابھی شہباز اِن ہے۔ اور کوئی طریقہ ہے تو بتائیں۔
ان جماعتوں کو سیاسی کہنا بھی سیاست کی توہین ہے۔ یہ سب کی سب کرپٹ خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں ہیںاس سے زیادہ اچھا تبصرہ اور بھلا کیا ہو سکتا ہے۔
فی الحال تو مقابلہ متحدہ اپوزیشن سے ہے جس میں وہ ناکام ہو چکی ہے۔ فوج بھی اسی کو سلیکٹ ہونے کا موقع دیتی ہے جو عوام میں پہلے سے مقبول ہو۔میرے سیاسی مُرشد امبر شہزادہ کو بنا دو شمشاد جِی۔ یہاں کیا، پُوری دُنیا میں اِقتدار میں آنے کے جو رنگ ڈھنگ ہیں، وُہ نیا بندہ سیکھتے سیکھتے ہیں باوا بن جاتا ہے۔ اس لیے ان میں سے زیادہ تر وزیر مشیر بننے قابل رہ جاتے ہیں یا سینٹ کا ٹکٹ لے لِیا حد سے حد۔ کُچھ سیاسی خاندان اِس لیے ہٹ ہو گئے کہ سیاسی شہادت کسی کو گھرانے میں سے مِل گئی، کُچھ کو اسٹیبلشمنٹ خُود آگے لے آئی مال پانی لے کر اور کچھ کو انتقاماً آگے لایا گیا۔ اب اور کہاں سے قیادت آئے گی، اگلے لیڈر پہلے سے سامنے آ رہے ہیں اور ٹریننگ کے لِیے باجوہ اور دُوسرے جرنیل کبھی کبھار اپنے پاس بُلاتے رہتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں بلاول کو بُلایا، مولانا فضل کے بیٹے کو بُلایا۔ نون لیگ سے بھی بعضوں کو بُلایا گیا پر اُدھر ابھی شہباز اِن ہے۔ اور کوئی طریقہ ہے تو بتائیں۔ میرے سیاسی مُرشد چالیس سال سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور پچھلے الیکشن میں اُنہیں 33 ووٹ مِلے یاسمین راشد لاکھوں ووٹ لے کر بھی ہار گئیں۔ نُون لیگ کا جو اُمیدوار جیتا، اُس کا نام بھی مُجھے یاد نہیں، کوئی وحید بٹ تھا شاید۔ اور، حتیٰ کہ اُس کی بھی پارٹی اور قومی منظرنامے پر کوئی حیثِیت نہیں۔
پہلے نقطے میں اس بے بی کا بالکل کوئی قصور نہیں ہے۔ اپنے معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں۔ معاشرے میں صرف وہی کام قابل قبول ہوتے ہیں جسے معاشرتی قبولیت (سوشل ایکسپٹینس) حاصل ہو۔ اس بے بی کو اگر اسی حالت میں بھی الیکشن لڑوایا جاتا تو یہ ان سب بیرسٹروں اور پڑھے لکھے طںقے سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا۔ اس لیے بے بی یا انہیں کوسنے کی بجائے اپنی گھٹیا معاشرتی اقدار ٹھیک کریں جہاں شخصیت اور خاندان پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور زبردستی بھری جاتی ہے۔ مسئلے کی جڑ پہ بات کریں، پودے کی شاخوں کے آخری سروں کو کاٹ دینے کی بات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔اس سے زیادہ اچھا تبصرہ اور بھلا کیا ہو سکتا ہے۔
بالکل بھی نہیں۔ یہ ایک سماجی معاملہ ہے اور کسی ایک فرد یا مخصوص افراد پہ اس کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے سائنسدان، ماہرین معیشت، گلوکار، کھلاڑی وغیرہ آئے اور تاریخ کے جھروکوں میں گم ہو گئے۔ پھر ان کرپٹ سیاسی لیڈروں میں ایسا کیا ہے جو پاکستانی قوم نسل در نسل ان کی غلامی کر رہی ہے؟بالکل بھی نہیں۔ یہ ایک سماجی معاملہ ہے اور کسی ایک فرد یا مخصوص افراد پہ اس کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
مسئلہ لیڈرز کا نہیں ہے بلکہ سوشل آرڈر کا ہے اور اسے صرف تعلیم سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا کلیہ اس ضمن میں کارگر نہیں۔پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے سائنسدان، ماہرین معیشت، گلوکار، کھلاڑی وغیرہ آئے اور تاریخ کے جھروکوں میں گم ہو گئے۔ پھر ان کرپٹ سیاسی لیڈروں میں ایسا کیا ہے جو پاکستانی قوم نسل در نسل ان کی غلامی کر رہی ہے؟
سب سے زیادہ تعلیم یافتہ سپورٹر تحریک انصاف کے ہیں۔مسئلہ لیڈرز کا نہیں ہے بلکہ سوشل آرڈر کا ہے اور اسے صرف تعلیم سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا کلیہ اس ضمن میں کارگر نہیں۔
سب سے زیادہ تعلیم یافتہ سپورٹر تحریک انصاف کے ہیں۔
اسے ریشنلائزیشن کہتے ہیں یہ حقیقت نہیں ہے۔ آپ کی غیر جانب داری کی نص اسی دن کٹ جاتی ہے جب آپ کا جھکاؤ کسی ایک طرف ہوتا ہے۔ تعلیم تو پاکستان میں حقیقی معنوں میں آئی ہی نہیں ہے۔ ان میں سے کتنے فیصد لوگ جمہوریت کو سمجھتے ہیں؟ پولیٹیکل اور سوشل آرڈر کو سمجھتے ہیں؟ آئین اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں؟ سچ تو یہ ہم میں سے اکثر نے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے نہیں بلکہ جب سے آنکھ کھولی جو دیکھا اسی کو حقیقت سمجھ لیا پھر چاہے وہ معاشرہ ہو یا سیاست یا مذہب اور تاریخ جو کہ قوم کی یاداشت ہوتی ہے اول تو پڑھائی ہی نہیں جاتی لیکن جو پڑھائی جاتی ہے وہ ایک خاص نیریٹیو جنریٹ کرنے کے لیے ڈسٹورٹ کر دی جاتی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے سپورٹرز ہوں یا کسی اور پارٹی کے، تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ، غلامی کے پیمانے میں ذرا بھی فرق نہیں۔
کر دیا، مگر پی ڈی ایم کا ۔مولانا دھڑن تختہ کر دے گا