نیا پاکستان کے دعوے داروں کے لیے تو انتہائی شرم کا مقام ہے
یادش بخیر آپ کی پارٹی نے بھی سنجرانی کو ہی ووٹ دیا تھا۔
پھر وہ قیدی تو ہے ہی ایسا جبکہ آپ تو انصاف اور شعور اور حق کے چمپئین ہیں آپ کا اس دیدہ دلیری سے "حلال ہارس ٹریڈنگ" جمہوریت کی کونسی خدمت ہے؟
اس میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں۔
کپتان نے پھر ثابت کر دیا کہ اپوزیشن کرپٹ ہے
01/08/2019 عدنان خان کاکڑ
کپتان پچھلے بائیس برس سے قوم کو بتا رہا ہے کہ اس کے تمام مخالف کرپٹ ہیں۔ بدقسمتی سے بیشتر لوگ اس بات کا یقین ہی نہیں کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کپتان کو گزشتہ انتخابات میں صرف 32 فیصد ووٹ ملے۔ کپتان نے پہلے تو قانونی طریقہ استعمال کرتے ہوئے نواز شریف اور آصف زرداری اور اپوزیشن کے بہت سے لوگوں کو سزا دلوائی مگر بدقسمتی سے لوگوں کی اکثریت کو یہ یقین ہی نہیں آیا کہ اپوزیشن کرپٹ ہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ کپتان صرف ذاتی بدلے لے رہا ہے۔ ایسے میں کپتان نے ایسا پتا کھیلا کہ اب اپوزیشن بوکھلا گئی ہے۔
کپتان نے بہت دانشمندی سے یہ تاثر دیا کہ وہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ دیکھنا چاہتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ صادق سنجرانی کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ صادق سنجرانی تو پیپلز پارٹ کے نامزد کردہ چیئرمین سینیٹ تھے۔ کپتان نے پہلے تو ایسا چکر چلایا کہ آصف زرداری کو یہ یقین ہو گیا کہ صادق سنجرانی ان کے نہیں کپتان کے امیدوار تھے۔ اس کے بعد 64 سینیٹرز کے ذریعے صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کا بندوبست کیا گیا۔
بہت شور مچایا گیا کہ 100 حاضر اراکین سینیٹ میں سے حکومت کے حامی تو صرف 40 ہیں اور 64 سینیٹر حکومت کے خلاف ہونے کی وجہ سے صادق سنجرانی کے خلاف ووٹ دیں گے۔ یوں اپوزیشن نے پھوں پھاں میں آ کر بہت شور مچایا۔ بلاول بھٹو نے تو کہہ بھی دیا کہ صادق سنجرانی عزت بچانا چاہتے ہیں تو استعفی دے دیں۔
بہرحال صادق سنجرانی استقامت سے اپنی سیٹ پر جمے رہے۔ آج تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہوئی تو اپوزیشن کی اوقات سامنے آ گئی۔ تحریک عدم اعتماد کے لئے کم از کم 53 ووٹ درکار تھے۔ اس تحریک کے حق میں صرف پچاس ووٹ ڈالے گئے جبکہ مخالفت میں 45۔ شہباز شریف دکھی ہیں کہ اپوزیشن کے چودہ ووٹ صادق سنجرانی کو ملے ہیں۔ یوں تحریک ناکام ہو گئی۔ کچھ ضمنی سی تفصیلات بھِی ہیں مثلاً پانچ ووٹ مسترد کر دیے گئے اور جماعت اسلامی اپنی درخشاں روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اس موقعے پر غائب ہو گئی۔
بہرحال اب اپوزیشن بولائی ہوئی پھر رہی ہے کہ اس کے چودہ سینیٹر کس نے خرید لئے۔ کمال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن نے ناکامی پر غور کرنے کے لئے اجلاس بلایا تو دوبارہ اس میں وہی ساٹھ پینسٹھ سینیٹر زخموں پر نمک چھڑکنے پہنچ گئے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں کھڑے ہو کر بازو لہرائے تھے۔
دوسری طرف کپتان نے اپنی بہترین حکمت عملی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اپوزیشن کے بہت سے سینیٹر بھی کرپٹ ہیں اور اسی وجہ سے وہ بک گئے۔ اب اپوزیشن پچھتاتی ہو گی کہ وہ کپتان کی چال میں آ گئی اور اپنی کرپشن ساری قوم پر ثابت کر دی۔ اب دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن والے کیا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ کھسیانے ہو کر کھمبا نوچتے ہوئے یہ الزام لگاتے ہیں کہ کپتان نے پیسے دے کر ووٹ خرید لئے یا کوئی فلمی کہانی سناتے ہیں۔
بہرحال اس بات پر بحث کرنا بیکار ہے کہ اپوزیشن کے سینیٹروں کو کس نے خریدا ہے، اہم چیز یہ ہے کہ وہ کرپٹ تھے تو اسی لئے بکے ہیں۔ کپتان کرپٹ ہوتا تو اس کے ساتھی بکتے، اپوزیشن والے نہیں۔ چاہے جس نے بھی اپوزیشن کے سینیٹروں کو خریدا ہو لیکن انہیں کرپٹ تو کپتان نے ثابت کیا ہے۔ ابھی تو صرف ایک سال گزرا ہے اور چودہ سینیٹر بکاؤ نکلے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اگلے چار برس میں کپتان باقی تمام اپوزیشن سینیٹرز کو بھی اسی طرح سے کرپٹ ثابت کر دے گا۔ بس یہ نومبر نکل جائے سکون سے کیونکہ اس میں روپے کی قدر گرنے کا امکان ہے۔
#اپوزیشن_ہن_آرام_اے