شمشاد
لائبریرین
اللہ نہ کرے نور جی ایسی نوبت آئے۔ کیسی باتیں کرتی ہیں آپ۔آج کل ٹرینڈ الٹ چلا ہے، ظاہراً چیز بہت اچھی ہو، ذائقہ ایوریج بھی ہو تو ۔۔۔۔ ڈیکور کو بطور پبلسٹی کے استعمال کیا جاتا ہے، آپ کی تحاریر سے گمان ہوا کہ شاید ریسٹورنٹ کھولنے کا ارادہ ہے، ویسے چائے کے لیے ڈھابے سے بھی کام چل سکتا ہے
البتہ اردو محفل میں چائے کا ڈھابا کھولا جا سکتا ہے۔ اگر چل نکلا تو ریسٹورنٹ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ اس کمپنی سے کسی کو کوئی کام پڑ سکتا ہے۔ اس لیے کمپنی کا نام رہنے ہی دیں۔ ویسے بھی اس سے Identity ظاہر ہو جاتی ہے۔کس کمپنی میں کرتے، بتادیں کیا پتا کوئی کام پڑ جائے آپ سے
مجھے ان سلسلوں کا اتنا زیادہ علم نہیں ہے۔قدرت اللہ شہاب کا سلسلہ اویسیہ تھا. آپ کی رائے کیا ہے اس سلسلے کے بارے میں؟ کون سے صفحات تھے جس کو پڑھتے نیند کی دیوی مہربان ہوتی تھی؟ کونسے صفحات جن کو پڑھنے سے بے چینی پڑھنے کو بار بار فزوں ہوتی (صفحات سے مراد وہ قصے)
اب تو ان کتابوں کو پڑھے ہوئے بہت عرصہ گزر گیا۔ کوئی خاص صفحے نہیں ہوتے تھے، بس کتاب اٹھائی، کہیں سے بھی کھول لی اور تین سے چار صفحے پڑھ لیے۔
ممتاز مفتی مرحوم، والد کے ہوتے ہوئے بھی والد کی شفقت سے محروم رہے اور اپنے ارد گرد لوگوں میں شفقت ڈھونڈتے تھے۔ جو انہیں نہ مل سکی، اس لیے ان کی شخصیت بکھری بکھری رہی۔ممتاز مفتی اک مجذوب شخص تھے ان کی کتاب میں لکھا ہے اس لیے خانہ کعبہ کو بھی ایسا کچھ کہا جس پر اعتراضات اٹھتے ہیں . آپ کی کیا رائے ہے؟
اعتراض کرنے والے تو قرآن پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ ممتاز مفتی مرحوم کیا چیز ہیں۔
ان کی کتاب "لبیک" پر اعتراض ہوئے ہوں گے، جس میں انہوں نے اللہ تعالٰی کو بڑی بے تکلفی سے مخاطب کیا ہے۔ اور اللہ تعالٰی سے خوب خوب باتیں کی ہیں۔
ان کی کتاب "علی پور کا ایلی" میں بھی انہوں نے اللہ تعالٰی سے مختصر سی باتیں کی ہیں۔
میں آپ کا سوال سمجھ نہیں پایا۔اشفاق صاحب واصف صاحب کے ہوتے کیا چیز زیادہ اپیلنگ تھی جو قدرت کی جانب لے گئی
چاروں کتابیں ہی سر فہرست رہیں۔ کس کو لکھوں اور کس کو چھوڑوں۔اب کھلی حقیقت سلسلہ یوسفیہ کی. بخدا قبل اس کے گوگل سے راز کھولنے کی ناکام کوشش کی کہ سلسلہ یوسفیہ ہے کیا ....
چاروں کتاب میں سے سرفہرست کونسی رہی؟ مزید اقوال زرین بطور تبرک سب محفلین کے مراسلوں میں بانٹنے کا کب ارادہ ہے؟
"چراغ تلے" اور "خاکم بدہن" تو ان کی مختصر سی کتابیں ہیں جبکہ "زر گزشت" اور "آبِ گُم" تھوڑی ضحیم ہیں۔
گو کہ چاروں کتابیں ہی مزاح کے اعلٰی ترین درجے پر فائز ہیں، لیکن پہلی دو کتابوں میں ایسے ایسے فقرے چُست کیے ہیں کہ قاری بے ساختہ ہنس پڑھتا ہے۔
ان کی پانچویں اور آخری کتاب ’’شام ِ شعرِ یاراں‘‘ جو 2014ء میں چھپی، وہ میں پڑھ نہیں سکا۔
آپ ان کی پہلی کتاب "چراغ تلے" لے لیں۔ اس میں بارہ خاکے ہیں۔ یہ 1941 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی اور آج تک مزاح کے اعلٰی درجے پر فائز ہے۔
اس میں "مقدمہ" سے لیکر آخری باب "کاغذی ہے پیرہن" تک، وہ کون سا صفحہ ہو گا کہ جس میں مزاح کی پھلجڑی نہ چھوٹی ہو۔ تو اب ان کے کس کس قول کو زینت محفل بناؤں۔
آخری تدوین: