چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی

میں کیا ،مری اوقات کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔سیلف ریگولیٹڈ ایتھارٹی خود پر بننا چاہتی ہوں ۔۔۔ یعنی کہ جسم پر ، عمل پر مکمل کنٹرول حاصل ہو

‏{‏وَأَن لَّيْسَ لِلإنسَانِ إلاَّ مَا سَعَى‏}‏ ‏[‏سورة النجم‏:‏ آية 39‏]

خود پر انسان کا قابو تو اتنا ہے کہ ایک پاؤں اٹھا لے تو دوسرا اٹھانے کے لیئے سہارا درکار ہوتا ہے ۔ باقی سیلف ریگولیٹ کرنے سے پہلے خود کو حوالے کرنا پڑتا ہے اللہ رسول کے جو ہمارا تزکیہ فرماتے ہوئے ہم پر احسان فرماتے ہیں - اور اس راستے پر آپ کی سعی کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو آپ کے لیئے ہے الا یہ کہ مالک حقیقی اپنے کرم سے بے حساب عطا فرما دے
 
غدیر خم کے واقعے کا خلاصہ بتادیجئے ، مہربانی ہوگی
خلاصہ تو اتنا ہی ہے کہ
اللہ کی رسی کتاب اللہ اور سنت رسول ہے ، جس کے سرکار دوعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام مولا ہیں حضرت علی علیہ السلام و رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عترت یعنی اہل بیت کے متعلق بہت محبت کی ہدایت ہے
 
کس قسم کی تربیت ؟ ذائقہ ِ تو موت کا بھی چکھنا ہے مگر نا جانے اسکا ذائقہ دن میں بھی کئی دفعہ چکھتے ہیں ۔۔۔ تو اسکو شئیر کرنے میں کیا مضائقہ؟
وساوس سے بچاؤ کے لیئے ہدایات بھی ہیں اور آیات بھی ہیں تو ایسے میں کیا وساوس سے بے خوف ہوجایا جائے۔۔؟؟ بعینہ بغیر تربیت کے لاشعور سے چھیڑ چھاڑ شیطانی دھوکوں اور گمراہی سے محفوظ رکھنے کے لیئے ضروری ہے ۔ کیا نزع کے وقت میں اچک کر لیجانے والوں کا ذکر کہیں سنا پڑھا (نعوذ باللہ من ذالک)
 
شاید اسلیے کسی مرشد کامل کی بات کی جاتی ہے ، باقی جناب کسی کسی شخص کا پیدائشی لاشعور شعور سے پیوست ہوتا ہے ، بالواسطہ تحت الشعور ۔۔۔ایسے اشخاص مادر زاد ولی کہلاتے ہیں

جسے آپ مرشد کامل کہتی ہیں اسے ہم معلم بھی کہتے ہیں ۔ جو خود شریعت پر عمل پیرا ہو اور ہمیں شریعت پر چلتے ہوئے اس منزل تک پہنچا دے جو مرشد حق پیر کامل سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے در تک پہنچا دے۔کسی بھی ولی کے ولی ہونے کا پیمانہ اطاعت رسول اور تعلق باللہ ہے ۔ یہاں شور مچانے والے جھوٹے بھی ہو سکتے ہیں اور چپ چاپ والے پہنچا بھی دیا کرتے ہیں ۔ جو خود رسی سے منسلک ہو وہی آپ کو رسی تک پہنچا بھی سکتا ہے جو خود ہی لڑھکتا پھر رہا ہو وہ کیا کسی کو پہنچائے گا۔۔؟؟شریعت کی حدوں سے باہر کوئی قابل تقلید و تعلق ولی نہیں ہوتا ، اگر کوئی دعویٰ کرے تو سمجھ جائیں فارغ ہے رانگ نمبر ہے
 
مجھے کسی درجے کا نہیں پتا مگر غور کرنا بہتر لگتا ہے ، اس لیے پوچھا ، عمل غور کرنے کے بعد کیا جاتا ہے ۔۔۔ آپ جان گئے ہوں کہ کتنی پیچھے ہوں
لیکن ہر سوال کا جواب ملنے کا وقت اور کیفیت ہوتی ہے لہذا اس وقت کا انتظار ہی واحد باقی قابل قبول حکمت عملی ہوگا
 

ظفری

لائبریرین
متفق اب کیونکہ موضوع خالصتا سائنسی بنیادوں کی طرف جا رھا ھے تو دوسری رائے مکمل ہونے تک انتظار کرونگا - البتہ غیب سے تعلق کے بیان کی وجہ شاید میری ناقص فہم کے مطابق اس پر اعتراض کے جواب کے طور پر تھا ۔ یقینا سائنسی تحقیقات اور ان کے بیان کو نہ تو رد کیا جا سکتا ہے نہ اس کی کوئی معقول وجہ ہے ۔

بات کہیں اور نکل جائے گی پھر بھی ایک سوال ہے کہ " غیب " ہے کیا ۔ ؟
 

ظفری

لائبریرین
آپ انہی بنیادوں پہلوؤں کو لے لیں جن پر فی الحال کی گفت و شنید چل رہی ہے کہ وہ کون سی ایسی قوت ہے جو بشر سے انسان تلک کا فاصلہ طے کروادے اگر ذاتی نوعیت کی بات کی جائے تو ٹیلی پیتھی اسکا بہترین حل سمجھا گیا ہے )(ذاتی رائے() خیر ، ٹیلی پیتھی کے حوالے سے آپ کے جوابات کے بعد مزید سوالات بھی کیے تھے ، آپ وہیں سے پکڑ لیجئے :)
ٹیلی درحقیقت ہے کیا ۔ یہ دو دماغوں کے درمیان ایک کمیونکیشن ہے جو کسی بھی physical interaction کے رونما ہوسکتا ہے ۔ اس کی فریکوئنسیز کیا ہیں اور کس طرح کام کرتیں ہیں ۔ یہ سب ذاتی مشاہدات اور تجربات تک ہی محدود ہے ۔ سائنس ابھی اس کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہے ۔ مگر اس پر کام ہو رہا ہے ۔مگر دماغ کی فریکوئنسیز اور ان کے کمیونیکیشن پر کافی تحقیقات ہوچکی ہے ۔ مگر ٹیلی پیتھی کو ہم جس تناظر میں لیکر بحث کر رہے ہیں ۔ سائنس اس کا مشاہدہ نہیں کر پائی ہے۔ کیونکہ جب انسان سے بشر یا بشر سے انسان تک کا سفر یا فاصلے کی بات کریں گے تو پھر باتPhysical Evidence سے آگے نکل جائے گی۔ بات گھوم پھر کے پھر ماورائی اور تصوف کی دنیا کی طرف آجاتی ہے ۔ جب ہمیں بات ہی اس دنیا کی کرنی ہے تو پھر ہمارے پاس کس قسم کے شواہد اور ثبوت موجود ہونگے ۔ جو اس بات کو باور کراسکیں کہ یہ صرف ذاتی مشاہدات اور تجربات نہیں بلکہ حقیقتیں ہیں ۔ اور جب حقیقت کی بات کی جائے گی تو پھر ثبوت بھی درکار ہونگیں۔ تو معاملہ یہاں سلجھتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ تو پھر کیا جائے ۔ پھر وہی کیا جائے جس کا میں نے پچھلے تبصرے میں مشورہ دیا جائے کہ پہلے علمِ نفسیات اور مڈیکل سائنس کی رو سے دماغ اور اس کے فنکشنز کو سمجھا جائے ۔ ورنہ ایک ٹانگ دنیا میں اور دوسری خلاء میں لٹک رہی ہوگی ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
کچھ بیانِ تردید شوقِ برملا سے ۔۔۔ کچھ ایسے تحیر میں ذات بھی گزر جاتی ہے جس سے اپنے اندر غیر مرئی قوت کا اندازہ ہونے لگتا ہے ۔جیسے آپ سانس لیجئے اور آنکھ بند کرکے اللہ کیجئے ۔ آپ کو کچھ نظر آئے گا ، مگر جو نظر آئے گا وہ دکھا کون رہا ہے اور دیکھ کون رہا ہے اور پڑھ تو ذاکر ہی رہا ہے ۔۔۔ دکھانے والا دکھا دیتا ہے
دیکھیں ۔۔۔۔ بات پھر ذاتی مشاہدے کی آگئی ۔ اگر بات اسی ذاتی مشاہدے کو سامنے رکھ کر صرف وہی بات کہنی ہے ۔ جو تصوف کی دنیا کی طرف لے جاتی ہے ۔ تو پھر ہم ادھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے اپنے اصل مدعا پر ہی کیوں نہ آجائیں ۔ یعنی صرف روحانی دنیا کی بات کریں ۔ اور وہاں تو ہم کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ذاتی تجربات اور مشاہدات پر تو کوئی بحث نہیں کرسکتا کہ ان کی تصدیق ناممکن ہے ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
شاید اسلیے کسی مرشد کامل کی بات کی جاتی ہے ، باقی جناب کسی کسی شخص کا پیدائشی لاشعور شعور سے پیوست ہوتا ہے ، بالواسطہ تحت الشعور ۔۔۔ایسے اشخاص مادر زاد ولی کہلاتے ہیں
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس دنیا میں آکر کوئی بھی بات کہی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ ان کی تصدیق ممکن نہیں ہوتی ۔ تو آپ کی بات کو کیسے رد کیا جاسکتا ہے ۔ :)
مگر میں بھی آپ کی طرح ایک سوال داغ دوں کہ آپ کیسے ثابت کرسکتیں ہیں کہ کسی شخص کا لاشعور ، شعور سے پیوست ہوتا ہے اور ایسا شخص مادرذاد ولی بھی ہوسکتا ہے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
وساوس سے بچاؤ کے لیئے ہدایات بھی ہیں اور آیات بھی ہیں تو ایسے میں کیا وساوس سے بے خوف ہوجایا جائے۔۔؟؟ بعینہ بغیر تربیت کے لاشعور سے چھیڑ چھاڑ شیطانی دھوکوں اور گمراہی سے محفوظ رکھنے کے لیئے ضروری ہے ۔ کیا نزع کے وقت میں اچک کر لیجانے والوں کا ذکر کہیں سنا پڑھا (نعوذ باللہ من ذالک)
کیا خود بھی لاشعور سے چھیڑ چھاڑ ممکن ہے؟ کیسے؟ اس پر ذرا روشنی کیجیے
 

نور وجدان

لائبریرین
جسے آپ مرشد کامل کہتی ہیں اسے ہم معلم بھی کہتے ہیں ۔ جو خود شریعت پر عمل پیرا ہو اور ہمیں شریعت پر چلتے ہوئے اس منزل تک پہنچا دے جو مرشد حق پیر کامل سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے در تک پہنچا دے۔کسی بھی ولی کے ولی ہونے کا پیمانہ اطاعت رسول اور تعلق باللہ ہے ۔ یہاں شور مچانے والے جھوٹے بھی ہو سکتے ہیں اور چپ چاپ والے پہنچا بھی دیا کرتے ہیں ۔ جو خود رسی سے منسلک ہو وہی آپ کو رسی تک پہنچا بھی سکتا ہے جو خود ہی لڑھکتا پھر رہا ہو وہ کیا کسی کو پہنچائے گا۔۔؟؟شریعت کی حدوں سے باہر کوئی قابل تقلید و تعلق ولی نہیں ہوتا ، اگر کوئی دعویٰ کرے تو سمجھ جائیں فارغ ہے رانگ نمبر ہے
یہ تو تجربے سے جان لیا ہے کہ واقعتا خاموش رہتے ہیں حریمِ ناز کے خادم و غلام ....
 

ظفری

لائبریرین
شعور اور تحت الشعور کو تسلیم کرنے والے تو کم و بیش سب ہی سائنسدان ہیں ۔ بدقسمتی سے کہہ لیں یا سائنس کی بنیادی ضرورت کہہ لیں کہ اکثر و بیشتر کسی بھی نظریے کو تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک وہ ایک مخصوص ماحول میں اک جیسے نتائج نہ دے سکے ۔ اب کیونکہ بات شعور اور تحت الشعور کے لاشعور سے تعلق کی ہے تو سب سے پہلے لاشعور کو قبول کرنا ان کے لیئے مشکل امر ہے کیونکہ لاشعور سے منسلک تجربات میں تنوع اور ایک جیسے نتائج نہ ہونا اس کے راستے میں مانع ہے دوسری سب سے بڑی مشکل اس راستے میں ان سب کا مادے پر براہ راست کوئی اثر نظر نہ آ سکنا بھی ہو سکتا ہے، سائنس ہمیں جسم میں ہونے والی تبدیلیوں ، ان تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے ردعمل اور اثرات، الیکٹرک سگنلز ، عصبیوں کے ردعمل کے متعلق تو بتا سکتی ہے لیکن ان کی اساس اس سوچ کے مصدر کے بارے میں بتانے سے قاصر رہتی ہے جس سوچ کے نتیجے میں یہ سب کچھ پیدا ہوتا ہے ، یہاں معاملہ فینا مینا آف نیچر کہہ کر بند کردیا جاتا ہے، روح کا وجود، سوچ کا پیدا ہونا، سوچ کا متاثر ہونا، ماقبل از پیدائش کے تجربات، موت کے قریب تر کے تجربات، موت کے بعد کے معاملات ، تعلق کی بنیاد ، انس ، نفرت ، بے وجہ بے تعلق اپنائیت یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کے وجود پر سائنس سوالیہ نشان لگاتی ہے اور انہی سوالات کے سائنس کے اپنے معیارات پر پورا نہ اتر سکنے کی بنا پر ان کے وجود سے انکار بھی کر دیتی ہے سائنس کی بنیاد نظریات، تجربات، مشاہدات، نتائج کی یکسانیت پر ہے ، جبکہ ہماری اس فیلڈ کا تعلق جسے پیرا سائیکولوجی بھی کہا جاتا ہے براہ راست نفسیات سے متعلقہ ہوتے ہوئے بھی اسکا نام ہی اسے متوازی نفسیات کہتے ہوئے ایک سائیڈ پر کر دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے کچھ جانے مانے (کم از کم اپنے زمانے میں ) سائنسدانوں پر دھوکہ دہی کا الزام بھی لگا دیتا ہے کیونکہ ان کے تجربات اور ان تجربات کے نتیجے میں ہونے والے نتائج یکساں نہ تھے یا ان سائنسدانوں پر ایسے ذرائع کے استعمال کا الزام لگا اور بقول استغاثہ کے وہ دھوکہ دہی کے مرتکب بھی ہوئے - ایسے میں پیرا سائیکالوجی کے معاملات کو ایک ہی پناہ ملتی ہے اور وہ پناہ ہے مذہب یا خود ساختہ (بقول موجودہ سائنس) نظریات کے مطابق اپنے آپ کو چلاتے رہنے کی ایسے میں اسے عطائیت کا نام بھی دیا جاتا ہے، جو عمومی سائنس کے مطابق ایک درست نام ہے جبکہ پیرا سائیکولوجی کے تلامذہ اسے نہ صرف ایک حقیقت مانتے ہیں بلکہ اس کے مطابق نہ صرف بہت سے پیرا سائیکولوجی سے متعلقہ مسائل کا حل بھی کر چکے بلکہ اس میدان میں نئی نئی تحقیقات پر عمل پیرا بھی ہیں - اب ان اختلافات کے ہوتے ہوئے جہاں وجود اور سچائی ہی سوال ہو اور اس وجود اور سچائی کو آپ مادی طور پر بار بار ایک ہی جیسا ثابت بھی نہیں کر سکتے وہاں سائنس کی نظر میں ایک غیر موجود شے کے ایک موجود شے سے تعلق کا بیان قدرے مختلف حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جہاں نہ سائنس اپنے قوانین کو آگے پیچھے کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی پیرا سائیکولوجی سائنس کے مطلوبہ ماحول میں مطلوبہ نتائج دے سکتی ہے اسی ڈیڈ لاک کی وجہ سے اسے سوڈو سائنس بھی کہہ کر بات ختم کی جاتی ہے لیکن آپ ہماری رہ نمائی فرمائیں اور اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں کیا کیا جانا چاہیئے اس پر اپنی رائے سے نوازیں ، دیگر تحقیقات سے شاید میری نظر نہیں گزر سکی ہے کیونکہ میں کافی عرصے سے اپنے معاملات میں کچھ ایسا الجھا ہوا ہوں کہ کھلے میدان میں کیا کچھ ہو چکا اس سے لاعلم ہوں۔ میری کم علمی پر معاف فرمائیے اور منور کیجئے

فیصل بھائی جتنی معلومات ماشاءا للہ آپ کو ہے اس کی مجھے 10 فیصد بھی نہیں ۔ میں تو آپ سےخود سیکھ رہا ہوں ۔ میں نے آپ کے اقتباس کو لیکر جس بحث کا آغاز کیا تھا ۔ دراصل اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم علوم کے ان مختلف موضوعات کو علیحدہ رکھیں تاکہ یہ علوم ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوں ۔ اور آپ نے اپنے اس تبصرے میں اس تصادم کو بہت اچھے طریقے سے وضع کیا ہے ۔ کیونکہ جب ہم علم نفسیات کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اس میں مذہب کوضم کرنا ایک الگ ہی فلسفے کو وجود دیتا ہے ۔ یہی بات میں نے سعدیہ شیخ کےاقتباس کے جواب میں بھی کہی ہے ۔کیونکہ میں محسوس کررہا ہوں کہ ابھی تک ہم نے کوئی علمی اختلاف نہیں کیا ہے ۔ بس معلومات شئیر کیں ہیں ۔ اور وہ بھی مختلف علوم کے مختلف موضوعات کا مجموعہ ہیں ۔ تو میری یہی گذارش ہے کہ ہم پیاز کی پرت پہ پرت کھولنے کے بجائے پہلے یہ متعین کرلیں کہ ہمیں بحث کیا کرنی ہے ۔ یعنی مکالمہ کیا ہونا چاہیئے ۔ سوالات تو اچھے ہیں ۔ مگر کسی خاص موضوع سے منسلک ہوں تو نہ صرف جواب دینے میں آسانی ہوگی بلکہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد آگے بڑھنے کی بھی تحریک پیدا ہوگی ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ٹیلی درحقیقت ہے کیا ۔ یہ دو دماغوں کے درمیان ایک کمیونکیشن ہے جو کسی بھی physical interaction کے رونما ہوسکتا ہے ۔ اس کی فریکوئنسیز کیا ہیں اور کس طرح کام کرتیں ہیں ۔ یہ سب ذاتی مشاہدات اور تجربات تک ہی محدود ہے ۔ سائنس ابھی اس کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہے ۔ مگر اس پر کام ہو رہا ہے ۔مگر دماغ کی فریکوئنسیز اور ان کے کمیونیکیشن پر کافی تحقیقات ہوچکی ہے ۔ مگر ٹیلی پیتھی کو ہم جس تناظر میں لیکر بحث کر رہے ہیں ۔ سائنس اس کا مشاہدہ نہیں کر پائی ہے۔ کیونکہ جب انسان سے بشر یا بشر سے انسان تک کا سفر یا فاصلے کی بات کریں گے تو پھر باتPhysical Evidence سے آگے نکل جائے گی۔ بات گھوم پھر کے پھر ماورائی اور تصوف کی دنیا کی طرف آجاتی ہے ۔ جب ہمیں بات ہی اس دنیا کی کرنی ہے تو پھر ہمارے پاس کس قسم کے شواہد اور ثبوت موجود ہونگے ۔ جو اس بات کو باور کراسکیں کہ یہ صرف ذاتی مشاہدات اور تجربات نہیں بلکہ حقیقتیں ہیں ۔ اور جب حقیقت کی بات کی جائے گی تو پھر ثبوت بھی درکار ہونگیں۔ تو معاملہ یہاں سلجھتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ تو پھر کیا جائے ۔ پھر وہی کیا جائے جس کا میں نے پچھلے تبصرے میں مشورہ دیا جائے کہ پہلے علمِ نفسیات اور مڈیکل سائنس کی رو سے دماغ اور اس کے فنکشنز کو سمجھا جائے ۔ ورنہ ایک ٹانگ دنیا میں اور دوسری خلاء میں لٹک رہی ہوگی ۔ :)
سائنس، جدید سائنس کچھ beliefsپر مشتمل ہے وگرنہ غور و فکر، تدبر ...یہ بنیاد جو سائنس کی ہیں وہی دینِ اسلام کی بھی ہیں. مسئلہ اتنا ہوتا ہے کہ ذی روح چاہے وہ سائنسی اعتقاد کی ہو، چاہے دینی، صوفی کی وہ ہر شے کی positivity پر یقین رکھتی ہے. Positivity in a sense کہ مادی شواہد چاہیںے ہر شے دیکھنے کو. اللہ تعالی نے خود کو قران پاک میں یوں کہا ہے
اللہ نور السماوت الارض ....

یہ نور مادی وجود نہیں رکھتا مگر دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے جب پتھروں نے سجدہ کیا، دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے جب چیونٹی پیامبر سے مخاطب ہوتی ہے یا جب پلک کے جھپکنے میں تخت حاضر ہوجاتا ہے. پھر اگر positivity of matterکو دیکھتے رہیں تو ہم عقیدہ ء آخرت کی نفی کردیتے ہیں جب کفار نے کہا تھا بھلا ہم جب مٹی ہو جائیں، فنا ہو جائیں تو کیسے دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟ سورہ "ق " میں اللہ نے اس سوال کا مفصل جواب دیا ہے کیسے انسان عدم سے وجود میں آیا ہے، کیسے وجود سے عدم کی جانب جانا ہے اور کیسے عدم سے وجود کی جانب آنا ہے ...اپنی ناقص سی عقل جس میں سو فیصد اصلاح کی گنجائش ہے یہ خیال کرتی ہوں positivity of matter صرف وجود کو ثابت نہیں کرسکتی ہے مگر بس اسکو آنکھ دیکھ سکتی ہے ظاہری آنکھ جبکہ بصارت محسوس کرسکتی ہے. منصور حسین حلاج نے بھی اللہ کے وجود کو دیکھنے کی خواہش کی تھی اور کیا حال ہوا. کچھ سرمد کا قصہ بھی ایسا ہے ...ٹیلی پیتھی کو شاید نہ مانتی اگر خود اس تجربے کا حصہ نہ ہوتی. مگر اسکو کیسے operateکرنا اس سے قصداً لا علم ہو. ... شعور جوں جوں ترقی کرتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے احساس بھی ایک وجود کی مانند طاقت ور ہے مگر اس حوالے سے میں آئن سٹائن کی بات quoteکرتی ہوں کہ مادے کو "انرجی، فریکوئنسی، ارتعاش سے جانچ سکتے ہیں .... اس لیے اس نے کہا مادہ "انرجی " ہے اور "انرجی "مادہ ہے. دونوں interchangeable ہیں ...اس لیے یہ تو نہیں کہا سکتا یہ ہوائی فائر ہیں ورنہ string theory کا خیال پیدا نہ ہوتا مگر سچ ہے اس لڑی میں سائنس پہ بحث کرنے کا فائدہ کم ہی ہونا ہے.
 

ظفری

لائبریرین
سائنس، جدید سائنس کچھ beliefsپر مشتمل ہے وگرنہ غور و فکر، تدبر ...یہ بنیاد جو سائنس کی ہیں وہی دینِ اسلام کی بھی ہیں. مسئلہ اتنا ہوتا ہے کہ ذی روح چاہے وہ سائنسی اعتقاد کی ہو، چاہے دینی، صوفی کی وہ ہر شے کی positivity پر یقین رکھتی ہے. Positivity in a sense کہ مادی شواہد چاہیںے ہر شے دیکھنے کو. اللہ تعالی نے خود کو قران پاک میں یوں کہا ہے
اللہ نور السماوت الارض ....

یہ نور مادی وجود نہیں رکھتا مگر دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے جب پتھروں نے سجدہ کیا، دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے جب چیونٹی پیامبر سے مخاطب ہوتی ہے یا جب پلک کے جھپکنے میں تخت حاضر ہوجاتا ہے. پھر اگر positivity of matterکو دیکھتے رہیں تو ہم عقیدہ ء آخرت کی نفی کردیتے ہیں جب کفار نے کہا تھا بھلا ہم جب مٹی ہو جائیں، فنا ہو جائیں تو کیسے دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟ سورہ "ق " میں اللہ نے اس سوال کا مفصل جواب دیا ہے کیسے عدم سے وجود آیا ہے، کیسے وجود سے عدم کی جانب جانا ہے اور کیسے عدم سے وجود کی جانب جانا ہے ...اپنی ناقص سی عقل جس میں سو فیصد اصلاح کی گنجائش ہے یہ خیال کرتی ہوں positivity of matter صرف وجود کو ثابت نہیں کرسکتی ہے مگر بس اسکو آنکھ دیکھ سکتی ہے ظاہری آنکھ جبکہ بصارت محسوس کرسکتی ہے. منصور حسین حلاج نے بھی اللہ کے وجود کو دیکھنے کی خواہش کی تھی اور کیا حال ہوا. کچھ سرمد کا قصہ بھی ایسا ہے ...ٹیلی پیتھی کو شاید نہ مانتی اگر خود اس تجربے کا حصہ نہ ہوتی. مگر اسکو کیسے operateکرنا اس سے قصداً لا علم ہو. ... شعور جوں جوں ترقی کرتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے احساس بھی ایک وجود کی مانند طاقت ور ہے مگر اس حوالے سے میں آئن سٹائن کی بات quoteکرتی ہوں کہ مادے کو "انرجی، فریکوئنسی، ارتعاش سے جانچ سکتے ہیں .... اس لیے اس نے کہا مادہ "انرجی " ہے اور "انرجی "مادہ ہے. دونوں interchangeable ہیں ...اس لیے یہ تو نہیں کہا سکتا یہ ہوائی فائر ہیں ورنہ string theory کا خیال پیدا نہ ہوتا مگر سچ ہے اس لڑی میں سائنس پہ بحث کرنے کا فائدہ کم ہی ہونا ہے.


میرا خیال ہے اب صحیح ہے ۔ اب متعین ہوگیا کہ بحث کیا کرنی ہے ۔ " خود شناسی " یعنی اپنی تلاش ۔ اب اچھی بحث ہوگی ۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
ساری دنیا کے علوم کھنگال لیں ۔ مراتبِ علمیہ کا تعین کرلیں مگر ساری علمی جستجو کا صرف ایک ہی مقام نکلتا ہے وہ "خود شناسی" ہی ہے۔
اس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے کہ خود شناسی ہے کیا ....یہ دنیاوی کامیابی کا بھی زینہ ہے اخروی بھی .... یہی سوچ رہی تھی علم کی ہر شاخ ہمیں سوچنا سکھاتی ہے یہی سوچ کا وضع کردہ طریقہ ہمیں سکھلاتا ہے خود کو کس طریقے سے جاننا ہے
 

ظفری

لائبریرین
اس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے کہ خود شناسی ہے کیا ....یہ دنیاوی کامیابی کا بھی زینہ ہے اخروی بھی .... یہی سوچ رہی تھی علم کی ہر شاخ ہمیں سوچنا سکھاتی ہے یہی سوچ کا وضع کردہ طریقہ ہمیں سکھلاتا ہے خود کو کس طریقے سے جاننا ہے
سوچ کا وضع کردہ طریقہ " غور و فکر اور تدبر " ہے ۔ اور غور و فکر ، دلیل سے منتج ہوتا ہے ۔ اللہ خود کہتا ہے کہ اگر تم میری لیئے کوئی دلیل نہیں رکھتے تومجھے بھی چھوڑ دو۔ جو ہلاک ہوا وہ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو زندہ ہوا وہ دلیل سے زندہ ہوا ۔ اللہ سننے والا اور علم والا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم وہموں پر یقین نہیں رکھتا بلکہ دلیل کی بات کرتاہے ۔ خود شناسی پہلا قدم ہے اور دوسرا قدم " خدا شناسی " ہے ۔ ان شاءاللہ بات بڑھے گی تو ان موضوعات پر تفصیلی مکالمہ ہوگا ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
سوچ کا وضع کردہ طریقہ " غور و فکر اور تدبر " ہے ۔ اور غور و فکر ، دلیل سے منتج ہوتا ہے ۔ اللہ خود کہتا ہے کہ اگر تم میری لیئے کوئی دلیل نہیں رکھتے تومجھے بھی چھوڑ دو۔ جو ہلاک ہوا وہ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو زندہ ہوا وہ دلیل سے زندہ ہوا ۔ اللہ سننے والا اور علم والا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم وہموں پر یقین نہیں رکھتا بلکہ دلیل کی بات کرتاہے ۔ خود شناسی پہلا قدم ہے اور دوسرا قدم " خدا شناسی " ہے ۔ ان شاءاللہ بات بڑھے گی تو ان موضوعات پر تفصیلی مکالمہ ہوگا ۔
علم واہمہ ہے ہی نہیں بلکہ علم حجاب اکبر ہے. حجابات اٹھتے جاتے ہیں، یقین بڑھتا جاتا ہے. پانی جتنا ملتا ہے آسمان سے، زمین اتنی سیراب ہوتی ہے .... کبھی بجلی کڑکتی ہے تو کسی کی بصارت بڑھ جاتی ہے تو کسی کی بینائی چلی جاتی ہے کچھ خوف کے مارے دبک جاتے ہیں ... دلیل کی بنیاد پر یقین بنتا ہے اور مجھے اللہ پر یقین ہے اور اسکے دیدار کی سعی بھی ہے
 
Top