چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی

نور وجدان

لائبریرین
سلسلہ بہت دلچسپ ہے مونگ پھلی اور چائے سے شروع ہو کر شعور سے پھر اڑان بھری جا رہی ہے غالباً لاشعور براستہ تحت الشعور۔
اچھی چائے پسند کرتا ہوں اور بری چائے پی جاتا ہوں۔
مونگ پھلی سے لوگوں کی وجہ سے کنارہ کش ہوں۔
اور پتہ مجھے شعور کا ہے اور نہ تحت الشعور اور نہ ہی لاشعور کا ۔
ہاں البتہ میرا میرے جسم اور شاید اس کی حسیات اور کمانڈ سسٹم کے ساتھ ایک اچھا سلسلہ یا ربط ضرور قائم ہے۔ ہم ایک دوسرے کے مشوروں اور احکامات کو ماننے کی کوشش کرتے محسوس ہوا کرتے ہیں اکثر۔

بہت بہت شکریہ جناب
آپ جیسے علم دوست شخصیت کا ہمارے گھر تشریف لانا عین سعادت ہے. احکامات ماننے کے لیے کوئی threat or fear element ہوگا. بات کیا تب منوائی جاسکتی ہے خود سے جب ہم ہر قسم کے ڈر سے آزاد ہوں
 

ظفری

لائبریرین
فراغت اب نصیب ہوئی تو موضوع کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے ۔ فیصل بھائی نے بہت تفصیلی انداز اپنا نکتہِ نظر پیش کیا ہے ۔ جو قابلِ تعریف ہے ۔ دراصل موضوع کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ جیسے پیاز کی پرت پہ پرت کھلتی جائے اور جب تمام پرتیں کھل جائیں تو پیاز کا وجود ہی باقی نہ رہے ۔ خیر دیکھتے ہیں کونسا سرا پکڑ کر اپنا نکتہِ نظر پیش کرنے کا موقع مل سکے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میرے مرشد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وہ ہیں جو سب مرشدوں کے مرشد ہیں۔ جب تک ان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے در تک نہ پہنچا تھا در در پھرتا تھا۔ لیکن جب پہنچا تو ایسے راستے سے جو سب دروں سے الگ تھا جس کی توقع بھی نہ کی تھی ۔ اور وہ راستہ مجھے کہیں راستے میں ملا

ان گنت درود سیدنا شہ ابرار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم.....آپ کیسے پہنچے؟ وہ کونسا راستہ تھا؟ آپ کا بتانا مجھ سمیت باقیوں کی بھی راہ دیدے گا ... ہمیں بھی جستجو رہے گی اچھے راستے کی



دَر دَر پھری، نہ ملا، سرزمین حجاز کی آیت جب دیکھی تو حجابات نے دیکھنے نہ دیا، پھر دل میں کوشش کی ....بہت کی ... بہت زنگ آلود تھا دل ... یہاں تک کہ خود کو زنگی کہنا شُروع کردیا. پھر اس کے رنگ کو قران پاک کی سطور میں پانا شروع کردیا مگر فرق ایسے پڑا ... سورہ البقرہ میں اللہ پاک سے حضرت ابراہیم نے موت کے بعد زندہ ہونے کی دلیل مانگی ... ...260verse اس میں چار پرندوں کی نشانی سے کیا مراد ہے؟ پہاڑ پر رکھنا ہی کیوں مقصود تھا. چار سمتوں سے پرندوں کا زندہ ہوکے واپس ہونا کیا علامت رکھتا؟ یہ تو بات واضح ہوئی ہر ذی روح مشاہدہ چاہتی ہے، دیکھنا چاہتی ہے ..ہم بھی کیا ایسے مشاہدے کے لائق ہو سکتے؟ نکمے ہیں، نالائق ہیں ..مگر وہ تو کریم ہے نا ...اسکا.فضل تو ہے نا سب پر .... اللہ نے ہمیں بار بار کہا ہے غور کرو، دیکھو، سنو ...جو سنتے نہیں ان کی مثال بدترین جانور کی سی ہے ...ہم کیسے دیکھیں؟


اپنی ذات کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ (میں) بھی ایک خطرناک فتنہ ہے

اللہ حفاظت کرتا ہے ہر قاری کی، ہم سب کی کرے گا ان شاء اللہ

جب عشق کرنا ہی ٹھہرا تو اپنے مالک جل جلالہ سے کیوں نہ کیا جائے جس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو ہماری ہدایت کے لیئے اس دنیا میں بھیجا۔


عشق کرنا ہی ٹھہرا .......... عشق دل میں ٹھہر جاتا ہے ... ہم تو نیاز میں جھکے بندے ...

رشد پاک سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کروں ت

کوئی اچھی اچھی باتیں جن سے آپ متاثر ہوئے وہ بتلائیں ..کچھ تو ہمیں سیرت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حصہ ملا گا ...وہ بھی ایسے کہ کسی نے اسے اپنا رکھا ہوگا ...

راصل قرآن کے نص کے مخالف ہوں کا جھنڈا پکڑ کر کھڑے بابے، علماء ، پیر، فقیر، مولوی سب کے سب دکان دار ہیں
نص سے مراد کیا ہے

آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اپنا آپ گنہ گار دکھتا ہے اور اس نظر آنے کے باوجود آپ کا سر سجدے میں جھک جاتا ہے اکڑ کر اٹھ نہیں جاتا اس خوش قسمتی اس کرم کو ضائع مت کیجئے

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنی لگی صدا
ترا دل ہے تو صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

یہیں سی تو سوال آتا ہے میرے پاس نفس کی لاتعداد برائیاں ہیں .... جھوٹ بھی بول لیتی ہوں، نماز بھی کبھی کبھی چھوڑ دیتی ہوں. اللہ کے سامنے خشوع و خضوع سے نماز نہیں پڑھتی بلکہ دماغ میں ساری دنیا چلتی ہے کبھی تو خود سے سوال کرتی ہوں کہ مین نے اپنی نماز میں اللہ کو سجدہ کب کیا؟ غصہ، حسد، جلن، غرور، تکبر، اک طرف قربانی ایثار، محبت کی تقسیم دوسری طرف ...لینا آتا ہے، دینا نہیں آتا مجھے ... لیتے شرم نہیں آتی حق سمجھ کے لیا مگر شکر ادا نہ کیا پھر شکوہ بہت کیا ...پھر اتنے سارے گناہ ...ان پر توبہ نہیں کی ... توبہ کربھی لوں تو سوچتی ہوں پھر دوبارہ کروں گی

Strong affirmationکیسے حاصل ہوتی ہے؟


خود شناسی۔۔۔
کیا کسی معمولی موبائل کو اس کے بنانے والے کی دی ہوئی گائیڈ کے بغیر آپ سمجھ اور جان سکتے ہیں

یہ بات تو ٹھیک ہے ...گائیڈ کے بنا بھی قران پاک اچھا جان سکتے ہیں مگر سورہ الممتحنہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت کی تھی تو بیعت کی وجہ تھی کیا؟ روح کی بیماریوں کا مسیحا بھی تو ہونا چاہیے اور اگر خود کو خود درست کرنا ہو قران پاک سے اور strong affirmation سے تو کیسے کیا جائے کہ ذہن میں نہ خوف ہے نہ لالچ ..

آئیے آج نماز میں کھڑے ہوں تو اللہ کو اپنے محلے کے چوہدری، تھانے دار، ایک جج، حاکم سے زیادہ عزت اور رعب والا سمجھ کر تو دیکھیں - نتیجہ آپ خود دیکھ لیں گے مجھے یقین دلانے کے لیئے کسی نئی مثال کی ضرورت نہیں پڑے گی

سبحان اللہ ...بہت دل سے نماز پڑھائی. دل جھوم جھوم گیا..... یہ بہت اچھی سوچ ہے مگر اپنی ہر چوری پہ برے کام پہ اللہ کی نظر کو محسوس نہ کیا تو نماز میں بھی نہ ہوگی ...یعنی کردار اتنا اچھا ہو کہ نماز بھی ہو جائے اور دل کا وضو ہو

۔ پسند ناپسند محبت اور نفرت کا ایک ہی پیمانہ ہو اور وہ ہو (للہ) (اللہ کے لیئے) پھر دیکھنا ایک ایک کر کے نئی دنیائیں دریافت ہوتی جائی/]
آپ کا اس حوالے سے کوئی مشاہدہ یا تجربہ؟ شاید کہ دل میں اتر جائے بات
 
آخری تدوین:
ان گنت درود سیدنا شہ ابرار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم.....آپ کیسے پہنچے؟ وہ کونسا راستہ تھا؟ آپ کا بتانا مجھ سمیت باقیوں کی بھی راہ دیدے گا ... ہمیں بھی جستجو رہے گی اچھے راستے کی



دَر دَر پھرا، نہ ملا، سرزمین حجاز کی آیت جب دیکھی تو حجابات نے دیکھنے نہ دیا، پھر دل میں کوشش کی ....بہت کی ... بہت زنگ آلود تھا دل ... یہاں تک کہ خود کو زنگی کہنا شُروع کردیا. پھر اس کے رنگ کو قران پاک کی سطور میں پانا شروع کردیا مگر فرق ایسے پڑا ... سورہ البقرہ میں اللہ پاک سے حضرت ابراہیم نے موت کے بعد زندہ ہونے کی دلیل مانگی ... ...260verse اس میں چار پرندوں کی نشانی سے کیا مراد ہے؟ پہاڑ پر رکھنا ہی کیوں مقصود تھا. چار سمتوں سے پرندوں کا زندہ ہوکے واپس ہونا کیا علامت رکھتا؟ یہ تو بات واضح ہوئی ہر ذی روح مشاہدہ چاہتی ہے، دیکھنا چاہتی ہے ..ہم بھی کیا ایسے مشاہدے کے لائق ہو سکتے؟ نکمے ہیں، نالائق ہیں ..مگر وہ تو کریم ہے نا ...اسکا.فضل تو ہے نا سب پر .... اللہ نے ہمیں بار بار کہا ہے غور کرو، دیکھو، سنو ...جو سنتے نہیں ان کی مثال بدترین جانور کی سی ہے ...ہم کیسے دیکھیں؟




اللہ حفاظت کرتا ہے ہر قاری کی، ہم سب کی کرے گا ان شاء اللہ




عشق کرنا ہی ٹھہرا .......... عشق دل میں ٹھہر جاتا ہے ... ہم تو نیاز میں جھکے بندے ...



کوئی اچھی اچھی باتیں جن سے آپ متاثر ہوئے وہ بتلائیں ..کچھ تو ہمیں سیرت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حصہ ملا گا ...وہ بھی ایسے کہ کسی نے اسے اپنا رکھا ہوگا ...


نص سے مراد کیا ہے



جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنی لگی صدا
ترا دل ہے تو صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

یہیں سی تو سوال آتا ہے میرے پاس نفس کی لاتعداد برائیاں ہیں .... جھوٹ بھی بول لیتی ہوں، نماز بھی کبھی کبھی چھوڑ دیتی ہوں. اللہ کے سامنے خشوع و خضوع سے نماز نہیں پڑھتی بلکہ دماغ میں ساری دنیا چلتی ہے کبھی تو خود سے سوال کرتی ہوں کہ مین نے اپنی نماز میں اللہ کو سجدہ کب کیا؟ غصہ، حسد، جلن، غرور، تکبر، اک طرف قربانی ایثار، محبت کی تقسیم دوسری طرف ...لینا آتا ہے، دینا نہیں آتا مجھے ... لیتے شرم نہیں آتی حق سمجھ کے لیا مگر شکر ادا نہ کیا پھر شکوہ بہت کیا ...پھر اتنے سارے گناہ ...ان پر توبہ نہیں کی ... توبہ کربھی لوں تو سوچتی ہوں پھر دوبارہ کروں گی

Strong affirmationکیسے حاصل ہوتی ہے؟




یہ بات تو ٹھیک ہے ...گائیڈ کے بنا بھی قران پاک اچھا جان سکتے ہیں مگر سورہ الممتحنہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت کی تھی تو بیعت کی وجہ تھی کیا؟ روح کی بیماریوں کا مسیحا بھی تو ہونا چاہیے اور اگر خود کو خود درست کرنا ہو قران پاک سے اور strong affirmation سے تو کیسے کیا جائے کہ ذہن میں نہ خوف ہے نہ لالچ ..



سبحان اللہ ...بہت دل سے نماز پڑھائی. دل جھوم جھوم گیا..... یہ بہت اچھی سوچ ہے مگر اپنی ہر چوری پہ برے کام پہ اللہ کی نظر کو محسوس نہ کیا تو نماز میں بھی نہ ہوگی ...یعنی کردار اتنا اچھا ہو کہ نماز بھی ہو جائے اور دل کا وضو ہو

تیرہ سوالات ہیں
بہت اعلی ٰ سوالات ہیں لیکن جیسا پہلے بتا چکا ہوں اسی تعریف کے مطابق کچھ سوالوں کا جواب دے دونگا باقی سوالات کے لیئے وقت چاہیئے۔ ہر سوال کا جواب فی الفور نہیں مل جاتا۔ اور یہ میدان ایسا ہے کہ ایک ہی سوال کا جواب ہر انسان کے لیئے مختلف ہو سکتا ہے ۔
عین ممکن ہے جو جواب میں دوں آپ کی تشفی اس سے نہ ہو سکے لیکن کسی اور کے سوال کا وہی جواب ہو کیونکہ اصل معاملہ تعلق کا ہے۔ جب ایک مخلوق کا خالق سے تعلق استوار ہوتا ہے تو اس کی کیفیت کسی مخلوق کے مخلوق سے تعلق سے موازنہ نہیں کر سکتی ہاں سمجھنے کے لیئے سمجھانے کے لیئے مثالیں دی جا سکتی ہیں جو ٹیڑھی مٹیڑھی اپنے وجود کی طرح نامکمل ہوتے ہوئے کسی کی روح تک پہنچ سکتی ہیں اور کسی کی نہیں


۱۔ آپ کیسے پہنچے؟
۲۔ وہ کونسا راستہ تھا؟

جیسے بتا چکا ہوں کہ پہنچا کہاں ابھی تو سفر شروع کیا ہے۔ کہاں ہوں صرف مالک حقیقی جل جلالہ جانتا ہے ۔ جہاں بھی ہوں وہاں تک پہنچنے میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی عطا ہے کہ اس نے میری زندگی میں ان صاحب کو بھیجا جنہوں نے مجھ سے میرا مقصد حیات پوچھا۔ بات سنی اور پھر ایک دن اور جگہ معین کر کے مجھے وہاں پہنچنے کو کہا ۔ وہاں قرآن سامنے پڑا تھا اور اس میں آیت آیت ترجمہ ہو کر اس بات پر غور ہو رہا تھا کہ اسے ہم آج خود پر کیسے لاگو کر سکتے ہیں- پھر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ متعدد بار مجھے نماز کی تلقین کی پھر سیرت مرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ کتابیں دیں اور ایک دن رات کو میرے گھر آ کر مجھے صرف ایک کاغذ کا دفتر دے کر گئے کہ اسے پڑھ کر سوچ لینا اور جو چاہو عمل کر لینا - وہ پڑھا اور روتا روتا سوگیا- اس کے بعد میری نماز جاری ہوئی-
۳۔سورہ البقرہ میں اللہ پاک سے حضرت ابراہیم نے موت کے بعد زندہ ہونے کی دلیل مانگی ... ...260verse اس میں چار پرندوں کی نشانی سے کیا مراد ہے؟
۴۔ پہاڑ پر رکھنا ہی کیوں مقصود تھا.
۵۔ چار سمتوں سے پرندوں کا زندہ ہوکے واپس ہونا کیا علامت رکھتا؟

یہ سوالات نظری مطالعہ ۔ ظاہری مطالعہ ۔ ظاہری سمجھ اور خود پر لاگو کرنے کی سعی کے بعد کے درجے کے ہیں ۔ کیا آپ پچھلے درجات عبور کر چکیں ۔۔؟؟

٦۔ یہ تو بات واضح ہوئی ہر ذی روح مشاہدہ چاہتی ہے، دیکھنا چاہتی ہے ..ہم بھی کیا ایسے مشاہدے کے لائق ہو سکتے؟

مشاہدہ کرنے کے لائق ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے ۔ مالک حق جل جلالہ نے اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا جتنا چاہا مشاہدہ کروا دیا ۔ البتہ راز کھولنے والوں کو جیسے صاف کیا یہ بھی تاریخ میں موجود ہے -


۷۔ اللہ نے ہمیں بار بار کہا ہے غور کرو، دیکھو، سنو ...جو سنتے نہیں ان کی مثال بدترین جانور کی سی ہے ...ہم کیسے دیکھیں؟


سورۃ البقرہ میں ہے

2_286.gif

2_286.jpg
اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے

الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی اے رب ہمارے! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں نہ پکڑ اے رب ہمارے! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر دے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا کارساز ہے کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد کر (۲۸۶)

اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے

الله تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو اس کو ثواب بھی اسی کا ملے گا جو ارادہ سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو ارادہ سے کرے۔ اے ہمارے رب ہم پر داروگیر نہ فرمائیے اگر ہم بھول جائیں یا چُوک جائیں اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی سخت حکم نہ بھیجیے جیسے ہم سے پہلے لوگوں پر آپ نے بھیجے تھے اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی ایسا بار (دنیا یا آخرت کا) نہ ڈالیے جس کی ہم کو سہار نہ ہو۔ اور درگزر کیجیئے ہم سے اور بخشش دیجیئے ہم کو اور رحم کیجئیے ہم پر آپ ہمارے کارساز ہیں (اور کارساز طرفدار ہوتا ہے)سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئیے۔ (۲۸۶)


ان سب میں آپ کے اس سوال کا جواب موجود ہے ۔ کسی پر اس کی طاقت کے بغیر بوجھ ڈالتا نہیں میرا رب تو آپ پر کیسے۔۔؟؟
جتنا آپ کی طاقت میں ہے صرف اتنا ہی دیکھنا ضروری ہے نہ اس سے زیادہ نہ آگے




۸۔کوئی اچھی اچھی باتیں جن سے آپ متاثر ہوئے وہ بتلائیں ..کچھ تو ہمیں سیرت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حصہ ملا گا ...وہ بھی ایسے کہ کسی نے اسے اپنا رکھا ہوگا ...

اس کے جواب میں تو کتابوں کی کتابیں لکھ دیں تو بھی کم ہیں آپ مجھ سے میری ذات کی حد تک اس موضوع کا احاطہ کروانے کی کوشش میں ہیں تو جان لیجئے غدیر خم کی حدیث میرا نصب العین ہے اور اسی پر چلنے کی سعی میں میرا سفر جاری ہے

۹۔نص سے مراد کیا ہے

جس بات یا چیز کا ذکر قرآن کریم میں کھلے الفاظ میں ہے لیکن مولوی حضرات بریکٹیں ، حاشیئے ڈال کر اس مطلب کو کچھ کا کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

۱۰۔ سوال آتا ہے میرے پاس نفس کی لاتعداد برائیاں ہیں .... جھوٹ بھی بول لیتی ہوں، نماز بھی کبھی کبھی چھوڑ دیتی ہوں. اللہ کے سامنے خشوع و خضوع سے نماز نہیں پڑھتی بلکہ دماغ میں ساری دنیا چلتی ہے کبھی تو خود سے سوال کرتی ہوں کہ مین نے اپنی نماز میں اللہ کو سجدہ کب کیا؟

آپ کو نماز میں کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ صاف نیت کے ساتھ ( دل وہ مالک خود ہی لگا لے گا ۔) کوشش کریں کہ جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا ترجمہ سیکھ لیں اور عربی الفاظ کو ایک ایک کرکے آہستہ آہستہ پڑھیں اور اس پس منظر میں دل میں اس کےترجمے کو ایسے بیان کریں کہ آپ مالک حق کے سامنے ہیں اور ان الفاظ میں اپنا سب کچھ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا ہے ۔ جیسے آپ اکیلی اس مالک کے سامنے کھڑی ہیں اور کائنات کا وجود ہی نہیں ہے صرف آپ ہیں اور وہ ہے۔


۱۱۔ Strong affirmationکیسے حاصل ہوتی ہے؟

جب مالک آپ کو دوبارہ اپنے دربار میں حاضری کے لیئے بلا لے تو اس کے بعد کیا سٹرانگ افرمیشن درکار ہوگی۔۔؟؟

۱۲۔گائیڈ کے بنا بھی قران پاک اچھا جان سکتے ہیں مگر سورہ الممتحنہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت کی تھی تو بیعت کی وجہ تھی کیا؟

60_12.jpg
کیا آپ کی مراد اس آیت مبارکہ سے ہے۔۔؟؟

۱۳۔روح کی بیماریوں کا مسیحا بھی تو ہونا چاہیے اور اگر خود کو خود درست کرنا ہو قران پاک سے اور strong affirmation سے تو کیسے کیا جائے کہ ذہن میں نہ خوف ہے نہ لالچ ..؟؟

سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ یہی وہ راہ نجات ہے جو ہمارے مالک حقیقی جل جلالہ نے ہمارے واسطے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور اس راہ نجات کی عملی تفسیر سرکار دوعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت ہے ۔ اور حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کے علاوہ کوئی دوسری رسی نہ ہے نہ ہوگی جو حق سے منسلک ہے۔
جب قرآن کا ایک ایک شوشہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس کی وعید بھی حق اس کی ترغیب بھی حق اسے لانے والے ہادی و مرشد دوعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام بھی حق اور ان کا ہر وہ فرمان بھی حق جو صحیح اسناد کے ساتھ ہم تک پہنچا اور قرآن کریم کے کسی حکم یا امتناع کے خلاف نہیں ہے ۔ تو ایسے میں جب اس سفر پر نکلیں گے تو اللہ کی عطا سے اس سوال کا عملی جواب مل جائے گا۔

بنانے والا تمام نسخے اور طریقہ استعمال دے چکا ، اپنے بھیجے ہوئے حکیم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام امراض بیان کرچکا علاج بتا چکا اب کون سا نیا حکیم ڈھونڈنے نکلے ہیں ۔ وہ خود اپنی طرف آنے والوں کی رہ نمائی فرماتا ہے ۔ اس کی جانب ایک قدم اٹھا کر دیکھیں وہ آپ کی طرف دوڑتا ہوا نہ آئے اور محسوس نہ ہو تو کہیئے گا
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
لاشعور اور تحت الشعور کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ لاشعور کا تعلق ایک درجے پر جا کر غیب سے مل جاتا ہے جبکہ تحت الشعور آپ کے شعور سے متصل ہوتا ہے ۔ لاشعور میں جانا براہ راست بغیر کسی خصوصی کرم نوازی کے ممکن نظر نہیں آتا جبکہ تحت الشعور کی کیفیات تک رسائی شعور کی تربیت سے ممکن ہے ۔

عمومی تعریف کے مطابق

عام حالات میں لاشعور كو ہم شعور كى ضد بھى كہ سكتے ہیں اور اس عام تصور کے مطابق لاشعور کو دماغ میں موجود ایسی یاداشتوں کو کہا جاتا ہے کہ جو عموما انسان کی خواہش یا حسرت کی سی حیثیت میں اس کی ذہن میں موجود ہوتی ہیں مگر عملی زندگی میں اس وقت تک سامنے نہیں آتیں جب تک کہ انکو کسی تحریک (یاد دلانے والی بات) کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بچپن سے ليكر مرنے تک ایسی بے شمار باتیں ہماری یاداشت memory) میں موجود رہتی ہیں اور ان کو ہی لاشعور کہہ دیا جاتا ہے جبکہ اصل میں علم نفسیات (psychology) اور طب کے مطابق یہ تحت الشعور (subconsciousness) کہا جاتا ہے نہ کہ لاشعور۔ یہ تحت الشعور ہمارے سونے کے دوران بھى كام كرتا رہتا ہے–تحت الشعور ميں جو گزرى زندگى كى ياداشتيں محفوظ ہوتى ہیں ان ياداشتوں كى مدد سے تحت الشعور آئندہ زندگی كا بنيادى ڈھانچہ ترتيب ديتا ہے۔ ايک طبیب اپنى پچھلى زندگى میں جھانک كر دیكھے تواسے اندازہو گا کہ طبیب بنبے كى یہ خواھش اس كى زندگی میں يا اس كے لا شعور ميں بچپن سے مو جود تھى۔

یا دوسرے الفاظ میں

وہ باتیں جن کا ادراک ہم جاگتے میں نہیں کر سکتے وہ باتیں ہمارے لاشعور کا حصہ ہوتیں ہیں جبکہ تحت الشعور ہمارے شعور سے ہم آھنگ ہوتا ہے

ایسے میں دیکھا جائے تو لاشعور کے تحت الشعور سے ہوتے ہوئے شعور سے متصل ہونے کی صورت میں ہی عین الیقین حاصل ہوتی ہے یہ وہی عین الیقین ہے جس سے جہنم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اللہ کے حضور کھڑے ہونے کے رعب کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ جنت کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ قبر کی سختیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان سے ڈرا جا سکتا ہے اور نیکی بدی کا ایک پیمانہ اپنی ذات پر اس گائیڈ اور مرکزی نمونہ کے مطابق ہر لمحے قائم کیا جا سکتا ہے اور اجتناب معصیت اور ارتکاب عبدیت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اجتناب معصیت اور ارتکاب عبدیت مجوزہ نصاب اور عملی نمونہ کے مطابق خود پر لاگو کرنے سے بڑا کوئی مقصد حیات نہیں ہے اور اصل امتحان انہی دو اعمال کا ہے۔ باقی سب لہو و لعب اور عبدیت غیر ہے (یہ میرا نقطہ نظر ہے نہ کہ دوسرے تمام نقطہ ہائے نظر کی تردید )

مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں سرا کہاں سے پکڑوں تو میں فیصل عظیم فیصل بھائی کی ایک تحریر کا سہارا لیکر کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہوں ۔
فیصل بھائی کی بات بلکل صیح ہے کہ شعور اور تحت الشعور ایک دوسرے سے منسلک ہیں ۔ ہمارے مشاہدے میں جو چیزیں شعور کی گرفت میں ہوتیں ہیں ۔ دراصل وہ ایک طرح کاinterface ہے جو ہمارے subconscious سے منسلک ہوتا ہے ۔ ساری ہدایات اسے subconscious سے مل رہیں ہوتیں ہیں ۔ شعور صرف اس کی implementation کر رہا ہوتا ہے ۔ subconsciousدراصل وہ سافٹ وئیر ہے ۔ جو زندگی کی 95 فیصد زندگی کی پلاننگ کا کرتا دھرتا ہوتا ہے ۔ علم ِ نفسیات کے ماہر ڈاکٹر بروس لپٹن کہتے ہیں کہ " ہر انسان کی پیدائش سے سات سال کی عمر تک اس کے subconscious میں سافٹ وئیر ڈاؤن لوڈ ہوتا رہتا ہے ۔ پھر اس کے بعد اس بچے کی95 فیصد زندگی اسی سافٹ وئیر یا پروگرام کی مرہون ِمنت ہوتی ہے ۔صرف پانچ فیصد زندگی اس کے اپنے اختیار میں ہوتی ہے ۔ جو دراصل اس کا شعور یا conscious ہوتا ہے ۔ جہاں تک بات لاشعور کی ہے تو یہ لفظ ہی Unconscious بنتا ہے ۔ اس طرح یہ تین الفاظ Unconscious ، subconscious اور conscious بنتے ہیں ۔ subconscious اور conscious کی تو سمجھ آتی ہے اور یہ فنکشنل ہوتے ہیں ۔ مگر Unconscious جیسا کہ ترجمے سے ہی ظاہر ہےکہ یہ ہوش و حواس سے ماوراء ہے تو اس حالت میں انسان کا غیب سے مل جانا کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔ ذاتی مشاہدات بھی شعور اور تحت الشعور کے تابع ہوتے ہیں ۔ اور اکثر ذاتی مشاہدات کی تصدیق بھی نہیں کی جاسکتی ۔ تو پھر لاشعور کی مشاہدات کا کیا معیار ہوگا ۔ اگر ہم اب علمِ نفسیات سے آگے نکل کر غیب کی دنیا کی طرف بڑھتے ہیں تو لاشعور اس کی کس طرح ترجمانی کرے گا ۔ یہ سمجھ نہیں آتا ۔ یا پھر ہمیں لاشعور کی جگہ کسی اور لفظ کا سہارا لینا پڑے گا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ لاشعور میں مورثی ڈیٹا کے علاوہ بھی بہت سے اور ڈیٹا بھی پائے جاتے ہیں ۔ مگر یہ سب لاشعور میں محفوظ ہوتا ہے اس لیئے شعور اسے اس وقت نہیں سمجھ سکتا جب تک لاشعور ، شعور سے کمونیکیٹ نہ کرے ۔ اور یہ کیسے ممکن ہے ۔یعنی لاشعور کو کیسے متحرک کیا جائے ۔ ؟
 
آخری تدوین:
مگر Unconscious جیسا کہ ترجمے سے ہی ظاہر ہےکہ یہ ہوش و حواس سے ماوراء ہے تو اس حالت میں انسان کا غیب سے مل جانا کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔ ذاتی مشاہدات بھی شعور اور تحت الشعور کے تابع ہوتے ہیں ۔ اور اکثر ذاتی مشاہدات کی تصدیق بھی نہیں کی جاسکتی ۔ تو پھر لاشعور کی مشاہدات کا کیا معیار ہوگا ۔ اگر ہم اب علمِ نفسیات سے آگے نکل کر غیب کی دنیا کی طرف بڑھتے ہیں تو لاشعور اس کی کس طرح ترجمانی کرے گا ۔ یہ سمجھ نہیں آتا ۔ یا پھر ہمیں لاشعور کی جگہ کسی اور لفظ کا سہارا لینا پڑے گا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ لاشعور میں مورثی ڈیٹا کے علاوہ بھی بہت سے اور ڈیٹا بھی پائے جاتے ہیں ۔ مگر یہ سب لاشعور میں محفوظ ہوتا ہے اس لیئے شعور اسے اس وقت نہیں سمجھ سکتا جب تک لاشعور ، شعور سے کمونیکیٹ نہ کرے ۔ اور یہ کیسے ممکن ہے ۔یعنی لاشعور کو کیسے متحرک کیا جائے ۔ ؟
جی ظفری بہت شکریہ کہ آپ نے یہاں اپنی رائے سے ہمارے علم میں اضافہ کیا اور جو سوالات کیئے یہ سوالات بالکل منطقی ہیں۔
لاشعور کو شعور سے ربط رکھنے کے لیئے کوئی میڈیم تو چاہیئے اور وہ میڈیم تحت الشعور ہی کیوں ہو یہ سمجھنے کے لیئے ہمیں غیب کو سمجھنا ہوگا ۔ غیب دراصل وہ معاملات ہیں جو بالعموم عقل کی پکڑ میں نہیں آتے لیکن جن کی پکڑ میں آجائیں ان کے ریفرنس سے وہ غیب نہیں رہتے جبکہ دوسروں کے ریفرنس سے وہ غیب ہی ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لاشعور کے مشاہدات جو کر رہا ہوتا ہے اس کے ریفرنس سے وہ حقیقی تجربات ہیں لیکن جنہیں وہ مشاہدات نہیں ہوتے ان کے سامنے انہیں وہ ثابت کر سکے یہ ضروری بھی نہیں ہے ۔ یہاں چونکہ ان دیکھی دنیاؤں کی بات ہو رہی ہے تو یاد رہے کہ تلبیس ابلیس بھی ایک فتنہ ہے اور عموما نئے نئے متحرک لاشعور کو دھوکہ دینے میں بہت حد تک کامیاب فتنہ ہے اس کا صرف ایک سدباب ہے ہمارے نقطہ نظر سے اور وہ ہے ہر مشاہدے کو اسی کسوٹی پر پرکھا جائے جسے حبل اللہ یا اللہ کی رسی کہتے ہیں ۔ اگر وہ اس کی حدود و قیود سے باہر نہیں ہے تو درست ہے اور اگر باہر ہے تو درست ہونے نہ ہونے کا سوال نہیں ہے بلکہ قابل تقلید و اعتماد نہیں ہے ۔
شعور کی لاشعور سے کمیونیکیشن اور تحریک کا ایک طریقہ مراقبہ بھی سمجھا جاتا ہے اور اسی کا دوسرا نام عبادت میں ارتکاز بھی ہے ۔ جبکہ مراقبہ کو دوسرے مذاہب میں مختلف نام دیئے جاتے ہیں ۔ اس سے وہ لطائف جاگتے ہیں جو آپ کو لاشعور میں ہونے والے معاملات کو برداشت کرنے کی طاقت دیتے ہیں اور وہاں سے آنے والے سگنلز کو ڈی کوڈ کرنے میں آپ کی مدد کرتے ہیں تاکہ آپ انہیں سمجھ سکیں اب یہ تجربہ ہر انسان کا مختلف ہو سکتا - ان ارتعاشات اور تجربات کو سمجھنے کے لیئے سخت بنیادی تربیت ایک ڈھال کا کام کرتی ہے جو وساوس اور تلبیس ابلیس سے بچانے کا کام کرتی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
جی ظفری بہت شکریہ کہ آپ نے یہاں اپنی رائے سے ہمارے علم میں اضافہ کیا اور جو سوالات کیئے یہ سوالات بالکل منطقی ہیں۔
لاشعور کو شعور سے ربط رکھنے کے لیئے کوئی میڈیم تو چاہیئے اور وہ میڈیم تحت الشعور ہی کیوں ہو یہ سمجھنے کے لیئے ہمیں غیب کو سمجھنا ہوگا ۔ غیب دراصل وہ معاملات ہیں جو بالعموم عقل کی پکڑ میں نہیں آتے لیکن جن کی پکڑ میں آجائیں ان کے ریفرنس سے وہ غیب نہیں رہتے جبکہ دوسروں کے ریفرنس سے وہ غیب ہی ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لاشعور کے مشاہدات جو کر رہا ہوتا ہے اس کے ریفرنس سے وہ حقیقی تجربات ہیں لیکن جنہیں وہ مشاہدات نہیں ہوتے ان کے سامنے انہیں وہ ثابت کر سکے یہ ضروری بھی نہیں ہے ۔ یہاں چونکہ ان دیکھی دنیاؤں کی بات ہو رہی ہے تو یاد رہے کہ تلبیس ابلیس بھی ایک فتنہ ہے اور عموما نئے نئے متحرک لاشعور کو دھوکہ دینے میں بہت حد تک کامیاب فتنہ ہے اس کا صرف ایک سدباب ہے ہمارے نقطہ نظر سے اور وہ ہے ہر مشاہدے کو اسی کسوٹی پر پرکھا جائے جسے حبل اللہ یا اللہ کی رسی کہتے ہیں ۔ اگر وہ اس کی حدود و قیود سے باہر نہیں ہے تو درست ہے اور اگر باہر ہے تو درست ہونے نہ ہونے کا سوال نہیں ہے بلکہ قابل تقلید و اعتماد نہیں ہے ۔
شعور کی لاشعور سے کمیونیکیشن اور تحریک کا ایک طریقہ مراقبہ بھی سمجھا جاتا ہے اور اسی کا دوسرا نام عبادت میں ارتکاز بھی ہے ۔ جبکہ مراقبہ کو دوسرے مذاہب میں مختلف نام دیئے جاتے ہیں ۔ اس سے وہ لطائف جاگتے ہیں جو آپ کو لاشعور میں ہونے والے معاملات کو برداشت کرنے کی طاقت دیتے ہیں اور وہاں سے آنے والے سگنلز کو ڈی کوڈ کرنے میں آپ کی مدد کرتے ہیں تاکہ آپ انہیں سمجھ سکیں اب یہ تجربہ ہر انسان کا مختلف ہو سکتا - ان ارتعاشات اور تجربات کو سمجھنے کے لیئے سخت بنیادی تربیت ایک ڈھال کا کام کرتی ہے جو وساوس اور تلبیس ابلیس سے بچانے کا کام کرتی ہے۔

میں نے قصداً مذہب کو اس بحث میں شامل کرنے سے ابھی اجتناب کیا ہے ۔ لہذاٰ بحث کو صرف علمِ نفسیات اور مڈیکل سائنس تک ہی محدود رکھا ہے ۔ کیونکہ Unconscious Mind، subconscious Mind اور conscious Mind یہ سب دماغ کے حصے ہیں اور سائنس و نفیسات اس بارے میں بہت علم رکھتی ہے۔ سو کوشش کی ہے کہ اس کے بارے میں تجرباتی اور مشاہداتی نقطعہِ نظر سے بات کی جائے ۔ کیونکہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ غیب وہ معاملات ہیں جو عقل کی گرفت میں نہیں آتے ۔ اس کا مطلب یہ ہو کہ یہ سارے consciousnesses غیب کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ اگر ہم سائنس اور علم نفسیات تک ہی ابھی محدود رہیں تو کم از کم دماغ کے ان حصوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے اور ان کے فنشکز کو استعمال کرنے کی " حقیقی" تجربات سے بھی استفادہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ مگر جب اس سارے سلسلے کو سیدھا غیب سے منسلک کر دیں گے تو پھر ساری بات ہی خود ہی غیب بن جائے گی کہ کوئی بھی بات ثابت نہیں ہوسکے گی۔ ابھی اس پر کافی ریسرچ ہوئی ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی اس بات کا علم ہوگا ۔ آپ کی یہ بات صیح ہے کہ لاشعور کو تحت الشعور سے ربط رکھنے کے لیئے کوئی میڈیم چاہیئے ۔ بے شک وہ سگنلز کی ہی شکل میں کوئی نہ ہو۔ مگر اگر غیب کا میڈیم استعمال کریں گے تو پھر تصدیق کیسے ہوگی کہ لاشعور ، تحت الشعور سے رابطہ کر رہا ہے ۔ کیونکہ غیب تو خود ہی unknown ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ خالص سائنسی اور نفسیاتی معاملہ ہے ۔ اور شعور ، تحت الشعور اور لاشعور پر کافی حاصل معلومات شئیر کی جاسکتیں ہیں ۔ جس سے ہمیں اس سارے شعور کو سمجھنے میں مدد مل سکے ۔ اس کے بعد کوئی غیب میں جانا چاہے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ :)
 
میں نے قصداً مذہب کو اس بحث میں شامل کرنے سے ابھی اجتناب کیا ہے ۔ لہذاٰ بحث کو صرف علمِ نفسیات اور مڈیکل سائنس تک ہی محدود رکھا ہے ۔ کیونکہ Unconscious Mind، subconscious Mind اور conscious Mind یہ سب دماغ کے حصے ہیں اور سائنس و نفیسات اس بارے میں بہت علم رکھتی ہے۔ سو کوشش کی ہے کہ اس کے بارے میں تجرباتی اور مشاہداتی نقطعہِ نظر سے بات کی جائے ۔ کیونکہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ غیب وہ معاملات ہیں جو عقل کی گرفت میں نہیں آتے ۔ اس کا مطلب یہ ہو کہ یہ سارے consciousnesses غیب کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ اگر ہم سائنس اور علم نفسیات تک ہی ابھی محدود رہیں تو کم از کم دماغ کے ان حصوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے اور ان کے فنشکز کو استعمال کرنے کی " حقیقی" تجربات سے بھی استفادہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ مگر جب اس سارے سلسلے کو سیدھا غیب سے منسلک کر دیں گے تو پھر ساری بات ہی خود ہی غیب بن جائے گی کہ کوئی بھی بات ثابت نہیں ہوسکے گی۔ ابھی اس پر کافی ریسرچ ہوئی ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی اس بات کا علم ہوگا ۔ آپ کی یہ بات صیح ہے کہ لاشعور کو تحت الشعور سے ربط رکھنے کے لیئے کوئی میڈیم چاہیئے ۔ بے شک وہ سگنلز کی ہی شکل میں کوئی نہ ہو۔ مگر اگر غیب کا میڈیم استعمال کریں گے تو پھر تصدیق کیسے ہوگی کہ لاشعور ، تحت الشعور سے رابطہ کر رہا ہے ۔ کیونکہ غیب تو خود ہی unknown ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ خالص سائنسی اور نفسیاتی معاملہ ہے ۔ اور شعور ، تحت الشعور اور لاشعور پر کافی حاصل معلومات شئیر کی جاسکتیں ہیں ۔ جس سے ہمیں اس سارے شعور کو سمجھنے میں مدد مل سکے ۔ اس کے بعد کوئی غیب میں جانا چاہے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ :)
متفق اب کیونکہ موضوع خالصتا سائنسی بنیادوں کی طرف جا رھا ھے تو دوسری رائے مکمل ہونے تک انتظار کرونگا - البتہ غیب سے تعلق کے بیان کی وجہ شاید میری ناقص فہم کے مطابق اس پر اعتراض کے جواب کے طور پر تھا ۔ یقینا سائنسی تحقیقات اور ان کے بیان کو نہ تو رد کیا جا سکتا ہے نہ اس کی کوئی معقول وجہ ہے ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
فراغت اب نصیب ہوئی تو موضوع کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے ۔ فیصل بھائی نے بہت تفصیلی انداز اپنا نکتہِ نظر پیش کیا ہے ۔ جو قابلِ تعریف ہے ۔ دراصل موضوع کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ جیسے پیاز کی پرت پہ پرت کھلتی جائے اور جب تمام پرتیں کھل جائیں تو پیاز کا وجود ہی باقی نہ رہے ۔ خیر دیکھتے ہیں کونسا سرا پکڑ کر اپنا نکتہِ نظر پیش کرنے کا موقع مل سکے۔
آپ انہی بنیادوں پہلوؤں کو لے لیں جن پر فی الحال کی گفت و شنید چل رہی ہے کہ وہ کون سی ایسی قوت ہے جو بشر سے انسان تلک کا فاصلہ طے کروادے اگر ذاتی نوعیت کی بات کی جائے تو ٹیلی پیتھی اسکا بہترین حل سمجھا گیا ہے )(ذاتی رائے() خیر ، ٹیلی پیتھی کے حوالے سے آپ کے جوابات کے بعد مزید سوالات بھی کیے تھے ، آپ وہیں سے پکڑ لیجئے :)
 

نور وجدان

لائبریرین
جیسے بتا چکا ہوں کہ پہنچا کہاں ابھی تو سفر شروع کیا ہے۔ کہاں ہوں صرف مالک حقیقی جل جلالہ جانتا ہے ۔ جہاں بھی ہوں وہاں تک پہنچنے میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی عطا ہے کہ اس نے میری زندگی میں ان صاحب کو بھیجا جنہوں نے مجھ سے میرا مقصد حیات پوچھا۔ بات سنی اور پھر ایک دن اور جگہ معین کر کے مجھے وہاں پہنچنے کو کہا ۔ وہاں قرآن سامنے پڑا تھا اور اس میں آیت آیت ترجمہ ہو کر اس بات پر غور ہو رہا تھا کہ اسے ہم آج خود پر کیسے لاگو کر سکتے ہیں- پھر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ متعدد بار مجھے نماز کی تلقین کی پھر سیرت مرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ کتابیں دیں اور ایک دن رات کو میرے گھر آ کر مجھے صرف ایک کاغذ کا دفتر دے کر گئے کہ اسے پڑھ کر سوچ لینا اور جو چاہو عمل کر لینا - وہ پڑھا اور روتا روتا سوگیا- اس کے بعد میری نماز جاری ہوئی-

انسان جس جگہ موجود ہے اس میں کمال تو اللہ جل شانہ کی ذات کا ہے مگر وہ کیوں موجود ہے ، یہ سوال خود شناسی کا ہے ۔ آپ جس مقام پر موجود ہیں ، ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔، مثال چاہیے مثال ہونے کو ، مثال چاہیے لازوال ہونے کو مگر روشنی کی مثال ہے ہی نہیں ، روشنی اپنی مثال آپ ہے ۔ روشنی کا کمال ہے کہ روشنی بھیج دی گئی مگر ہم درپردہ روشنی کی کاروائیوں سے محظوظ ہونا ہی چاہتے تھے کہ آپ جیسے صاحب کمال ہستی نے وہ خط مٹاڈالا جس کے حاشیے سے گھس کے کتاب کا کھلا صفحہ پڑھنا راقم تقدیر نے لکھا تھا ۔۔ بہرحال ہوسکے تو کیوں کا جواب دے دیجئے مزید براں نماز جاری کیسے ہوتی ہے کچھ دلی دعاؤں کے ساتھ اس پر روشنی ڈال دیجئے
یہ سوالات نظری مطالعہ ۔ ظاہری مطالعہ ۔ ظاہری سمجھ اور خود پر لاگو کرنے کی سعی کے بعد کے درجے کے ہیں ۔ کیا آپ پچھلے درجات عبور کر چکیں ۔۔؟؟

۷۔ اللہ نے ہمیں بار بار کہا ہے غور کرو، دیکھو، سنو ...جو سنتے نہیں ان کی مثال بدترین جانور کی سی ہے ...ہم کیسے دیکھیں؟

سورۃ البقرہ میں ہے

2_286.gif

2_286.jpg
اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے

الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی اے رب ہمارے! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں نہ پکڑ اے رب ہمارے! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر دے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا کارساز ہے کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد کر (۲۸۶)

اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے

الله تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو اس کو ثواب بھی اسی کا ملے گا جو ارادہ سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو ارادہ سے کرے۔ اے ہمارے رب ہم پر داروگیر نہ فرمائیے اگر ہم بھول جائیں یا چُوک جائیں اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی سخت حکم نہ بھیجیے جیسے ہم سے پہلے لوگوں پر آپ نے بھیجے تھے اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی ایسا بار (دنیا یا آخرت کا) نہ ڈالیے جس کی ہم کو سہار نہ ہو۔ اور درگزر کیجیئے ہم سے اور بخشش دیجیئے ہم کو اور رحم کیجئیے ہم پر آپ ہمارے کارساز ہیں (اور کارساز طرفدار ہوتا ہے)سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئیے۔ (۲۸۶)


ان سب میں آپ کے اس سوال کا جواب موجود ہے ۔ کسی پر اس کی طاقت کے بغیر بوجھ ڈالتا نہیں میرا رب تو آپ پر کیسے۔۔؟؟
جتنا آپ کی طاقت میں ہے صرف اتنا ہی دیکھنا ضروری ہے نہ اس سے زیادہ نہ آگے
شوقِ حضور میں اڑتے ہیں طیور
غارِ حرا میں جائیں گے وہ ضرور
خوشبوئے پاک کیے دے مسحور
اب کے برس منزل نہیں دور
مقام شوق سے گزر جا ، گزر جا
دیار نور میں ٹھہر جا ، ٹھہر جا
تجلی ء طہﷺ میں ملے گا نور
بات شوق کی ہے ، وزن کی نہیں
کلام شوق سے جل جاتے ہیں طور
یہ تو بات ہوئی شوق کی ، جس کے لیے آگ میں کود جانا بھی لکھا ہے ۔۔۔مسئلہ تو یہی ہے کہ انتہائے علم تک کیسے پہنچا جائے جبکہ ابتدائے غور حاصل نہیں ہوا
۲۔گائیڈ کے بنا بھی قران پاک اچھا جان سکتے ہیں مگر سورہ الممتحنہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت کی تھی تو بیعت کی وجہ تھی کیا؟
60_12.jpg
کیا آپ کی مراد اس آیت مبارکہ سے ہے۔۔؟؟
بالکل ، اسی آیت مبارکہ کی بات کی ہے
بنانے والا تمام نسخے اور طریقہ استعمال دے چکا ، اپنے بھیجے ہوئے حکیم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام امراض بیان کرچکا علاج بتا چکا اب کون سا نیا حکیم ڈھونڈنے نکلے ہیں ۔ وہ خود اپنی طرف آنے والوں کی رہ نمائی فرماتا ہے ۔ اس کی جانب ایک قدم اٹھا کر دیکھیں وہ آپ کی طرف دوڑتا ہوا نہ آئے اور محسوس نہ ہو تو کہیئے گا

میں کیا ،مری اوقات کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔سیلف ریگولیٹڈ ایتھارٹی خود پر بننا چاہتی ہوں ۔۔۔ یعنی کہ جسم پر ، عمل پر مکمل کنٹرول حاصل ہو

غدیر خم کے واقعے کا خلاصہ بتادیجئے ، مہربانی ہوگی
 

نور وجدان

لائبریرین
ور یہ فنکشنل ہوتے ہیں ۔ مگر Unconscious جیسا کہ ترجمے سے ہی ظاہر ہےکہ یہ ہوش و حواس سے ماوراء ہے تو اس حالت میں انسان کا غیب سے مل جانا کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔ ذاتی مشاہدات بھی شعور اور تحت الشعور کے تابع ہوتے ہیں ۔

کچھ بیانِ تردید شوقِ برملا سے ۔۔۔ کچھ ایسے تحیر میں ذات بھی گزر جاتی ہے جس سے اپنے اندر غیر مرئی قوت کا اندازہ ہونے لگتا ہے ۔جیسے آپ سانس لیجئے اور آنکھ بند کرکے اللہ کیجئے ۔ آپ کو کچھ نظر آئے گا ، مگر جو نظر آئے گا وہ دکھا کون رہا ہے اور دیکھ کون رہا ہے اور پڑھ تو ذاکر ہی رہا ہے ۔۔۔ دکھانے والا دکھا دیتا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
ان ارتعاشات اور تجربات کو سمجھنے کے لیئے سخت بنیادی تربیت ایک ڈھال کا کام کرتی ہے
کس قسم کی تربیت ؟ ذائقہ ِ تو موت کا بھی چکھنا ہے مگر نا جانے اسکا ذائقہ دن میں بھی کئی دفعہ چکھتے ہیں ۔۔۔ تو اسکو شئیر کرنے میں کیا مضائقہ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
ہ لاشعور کو تحت الشعور سے ربط رکھنے کے لیئے کوئی میڈیم چاہیئے
شاید اسلیے کسی مرشد کامل کی بات کی جاتی ہے ، باقی جناب کسی کسی شخص کا پیدائشی لاشعور شعور سے پیوست ہوتا ہے ، بالواسطہ تحت الشعور ۔۔۔ایسے اشخاص مادر زاد ولی کہلاتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
۔سورہ البقرہ میں اللہ پاک سے حضرت ابراہیم نے موت کے بعد زندہ ہونے کی دلیل مانگی ... ...260verse اس میں چار پرندوں کی نشانی سے کیا مراد ہے؟
۴۔ پہاڑ پر رکھنا ہی کیوں مقصود تھا.
۵۔ چار سمتوں سے پرندوں کا زندہ ہوکے واپس ہونا کیا علامت رکھتا؟


یہ سوالات نظری مطالعہ ۔ ظاہری مطالعہ ۔ ظاہری سمجھ اور خود پر لاگو کرنے کی سعی کے بعد کے درجے کے ہیں ۔ کیا آپ پچھلے درجات عبور کر چکیں ۔۔؟؟

مجھے کسی درجے کا نہیں پتا مگر غور کرنا بہتر لگتا ہے ، اس لیے پوچھا ، عمل غور کرنے کے بعد کیا جاتا ہے ۔۔۔ آپ جان گئے ہوں کہ کتنی پیچھے ہوں
 
میں نے قصداً مذہب کو اس بحث میں شامل کرنے سے ابھی اجتناب کیا ہے ۔ لہذاٰ بحث کو صرف علمِ نفسیات اور مڈیکل سائنس تک ہی محدود رکھا ہے ۔ کیونکہ Unconscious Mind، subconscious Mind اور conscious Mind یہ سب دماغ کے حصے ہیں اور سائنس و نفیسات اس بارے میں بہت علم رکھتی ہے۔ سو کوشش کی ہے کہ اس کے بارے میں تجرباتی اور مشاہداتی نقطعہِ نظر سے بات کی جائے ۔ کیونکہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ غیب وہ معاملات ہیں جو عقل کی گرفت میں نہیں آتے ۔ اس کا مطلب یہ ہو کہ یہ سارے consciousnesses غیب کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ اگر ہم سائنس اور علم نفسیات تک ہی ابھی محدود رہیں تو کم از کم دماغ کے ان حصوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے اور ان کے فنشکز کو استعمال کرنے کی " حقیقی" تجربات سے بھی استفادہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ مگر جب اس سارے سلسلے کو سیدھا غیب سے منسلک کر دیں گے تو پھر ساری بات ہی خود ہی غیب بن جائے گی کہ کوئی بھی بات ثابت نہیں ہوسکے گی۔ ابھی اس پر کافی ریسرچ ہوئی ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی اس بات کا علم ہوگا ۔ آپ کی یہ بات صیح ہے کہ لاشعور کو تحت الشعور سے ربط رکھنے کے لیئے کوئی میڈیم چاہیئے ۔ بے شک وہ سگنلز کی ہی شکل میں کوئی نہ ہو۔ مگر اگر غیب کا میڈیم استعمال کریں گے تو پھر تصدیق کیسے ہوگی کہ لاشعور ، تحت الشعور سے رابطہ کر رہا ہے ۔ کیونکہ غیب تو خود ہی unknown ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ خالص سائنسی اور نفسیاتی معاملہ ہے ۔ اور شعور ، تحت الشعور اور لاشعور پر کافی حاصل معلومات شئیر کی جاسکتیں ہیں ۔ جس سے ہمیں اس سارے شعور کو سمجھنے میں مدد مل سکے ۔ اس کے بعد کوئی غیب میں جانا چاہے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ :)
شعور اور تحت الشعور کو تسلیم کرنے والے تو کم و بیش سب ہی سائنسدان ہیں ۔ بدقسمتی سے کہہ لیں یا سائنس کی بنیادی ضرورت کہہ لیں کہ اکثر و بیشتر کسی بھی نظریے کو تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک وہ ایک مخصوص ماحول میں اک جیسے نتائج نہ دے سکے ۔ اب کیونکہ بات شعور اور تحت الشعور کے لاشعور سے تعلق کی ہے تو سب سے پہلے لاشعور کو قبول کرنا ان کے لیئے مشکل امر ہے کیونکہ لاشعور سے منسلک تجربات میں تنوع اور ایک جیسے نتائج نہ ہونا اس کے راستے میں مانع ہے دوسری سب سے بڑی مشکل اس راستے میں ان سب کا مادے پر براہ راست کوئی اثر نظر نہ آ سکنا بھی ہو سکتا ہے، سائنس ہمیں جسم میں ہونے والی تبدیلیوں ، ان تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے ردعمل اور اثرات، الیکٹرک سگنلز ، عصبیوں کے ردعمل کے متعلق تو بتا سکتی ہے لیکن ان کی اساس اس سوچ کے مصدر کے بارے میں بتانے سے قاصر رہتی ہے جس سوچ کے نتیجے میں یہ سب کچھ پیدا ہوتا ہے ، یہاں معاملہ فینا مینا آف نیچر کہہ کر بند کردیا جاتا ہے، روح کا وجود، سوچ کا پیدا ہونا، سوچ کا متاثر ہونا، ماقبل از پیدائش کے تجربات، موت کے قریب تر کے تجربات، موت کے بعد کے معاملات ، تعلق کی بنیاد ، انس ، نفرت ، بے وجہ بے تعلق اپنائیت یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کے وجود پر سائنس سوالیہ نشان لگاتی ہے اور انہی سوالات کے سائنس کے اپنے معیارات پر پورا نہ اتر سکنے کی بنا پر ان کے وجود سے انکار بھی کر دیتی ہے سائنس کی بنیاد نظریات، تجربات، مشاہدات، نتائج کی یکسانیت پر ہے ، جبکہ ہماری اس فیلڈ کا تعلق جسے پیرا سائیکولوجی بھی کہا جاتا ہے براہ راست نفسیات سے متعلقہ ہوتے ہوئے بھی اسکا نام ہی اسے متوازی نفسیات کہتے ہوئے ایک سائیڈ پر کر دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے کچھ جانے مانے (کم از کم اپنے زمانے میں ) سائنسدانوں پر دھوکہ دہی کا الزام بھی لگا دیتا ہے کیونکہ ان کے تجربات اور ان تجربات کے نتیجے میں ہونے والے نتائج یکساں نہ تھے یا ان سائنسدانوں پر ایسے ذرائع کے استعمال کا الزام لگا اور بقول استغاثہ کے وہ دھوکہ دہی کے مرتکب بھی ہوئے - ایسے میں پیرا سائیکالوجی کے معاملات کو ایک ہی پناہ ملتی ہے اور وہ پناہ ہے مذہب یا خود ساختہ (بقول موجودہ سائنس) نظریات کے مطابق اپنے آپ کو چلاتے رہنے کی ایسے میں اسے عطائیت کا نام بھی دیا جاتا ہے، جو عمومی سائنس کے مطابق ایک درست نام ہے جبکہ پیرا سائیکولوجی کے تلامذہ اسے نہ صرف ایک حقیقت مانتے ہیں بلکہ اس کے مطابق نہ صرف بہت سے پیرا سائیکولوجی سے متعلقہ مسائل کا حل بھی کر چکے بلکہ اس میدان میں نئی نئی تحقیقات پر عمل پیرا بھی ہیں - اب ان اختلافات کے ہوتے ہوئے جہاں وجود اور سچائی ہی سوال ہو اور اس وجود اور سچائی کو آپ مادی طور پر بار بار ایک ہی جیسا ثابت بھی نہیں کر سکتے وہاں سائنس کی نظر میں ایک غیر موجود شے کے ایک موجود شے سے تعلق کا بیان قدرے مختلف حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جہاں نہ سائنس اپنے قوانین کو آگے پیچھے کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی پیرا سائیکولوجی سائنس کے مطلوبہ ماحول میں مطلوبہ نتائج دے سکتی ہے اسی ڈیڈ لاک کی وجہ سے اسے سوڈو سائنس بھی کہہ کر بات ختم کی جاتی ہے لیکن آپ ہماری رہ نمائی فرمائیں اور اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں کیا کیا جانا چاہیئے اس پر اپنی رائے سے نوازیں ، دیگر تحقیقات سے شاید میری نظر نہیں گزر سکی ہے کیونکہ میں کافی عرصے سے اپنے معاملات میں کچھ ایسا الجھا ہوا ہوں کہ کھلے میدان میں کیا کچھ ہو چکا اس سے لاعلم ہوں۔ میری کم علمی پر معاف فرمائیے اور منور کیجئے
 
انسان جس جگہ موجود ہے اس میں کمال تو اللہ جل شانہ کی ذات کا ہے مگر وہ کیوں موجود ہے ، یہ سوال خود شناسی کا ہے ۔ آپ جس مقام پر موجود ہیں ، ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔، مثال چاہیے مثال ہونے کو ، مثال چاہیے لازوال ہونے کو مگر روشنی کی مثال ہے ہی نہیں ، روشنی اپنی مثال آپ ہے ۔ روشنی کا کمال ہے کہ روشنی بھیج دی گئی مگر ہم درپردہ روشنی کی کاروائیوں سے محظوظ ہونا ہی چاہتے تھے کہ آپ جیسے صاحب کمال ہستی نے وہ خط مٹاڈالا جس کے حاشیے سے گھس کے کتاب کا کھلا صفحہ پڑھنا راقم تقدیر نے لکھا تھا ۔۔ بہرحال ہوسکے تو کیوں کا جواب دے دیجئے مزید براں نماز جاری کیسے ہوتی ہے کچھ دلی دعاؤں کے ساتھ اس پر روشنی ڈال دیجئے
اس کیوں کا جواب ایک اگلے سوال کے جواب میں دے چکا کہ بہت سی چیزیں آپ کی ذات پر منکشف ہو کر آپ کے پاس ایک حد تک راز کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں اور بہت سے رازوں کا افشاء تعلق ٹوٹنے اور سزا کی وجہ بن سکتا ہے لہذا ڈرتا ہوں معاف کیجئے گا
 
یہ تو بات ہوئی شوق کی ، جس کے لیے آگ میں کود جانا بھی لکھا ہے ۔۔۔مسئلہ تو یہی ہے کہ انتہائے علم تک کیسے پہنچا جائے جبکہ ابتدائے غور حاصل نہیں ہوا
اگر ابتدائے غور حاصل نہ ہوتا تو یہاں تک کیسے پہنچتیں۔۔؟؟
 
Top