چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی

تو میری یہی گذارش ہے کہ ہم پیاز کی پرت پہ پرت کھولنے کے بجائے پہلے یہ متعین کرلیں کہ ہمیں بحث کیا کرنی ہے ۔ یعنی مکالمہ کیا ہونا چاہیئے ۔ سوالات تو اچھے ہیں ۔ مگر کسی خاص موضوع سے منسلک ہوں تو نہ صرف جواب دینے میں آسانی ہوگی بلکہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد آگے بڑھنے کی بھی تحریک پیدا ہوگی ۔
بے شک اس میں حرج ہی کیا ہے ۔ ایک موضوع پر جب گفتگو ہوتی ہے تو اس کے ہر ایک پہلو کو زیر بحث آنا چاہیئے ۔ سائنسی مزاج کے دوست اور مذہبی یا روحانی معاملات کو نہ سمجھنے والے پر علم کا دروازہ بند تو نہیں ہونا چاہیئے ۔ اسی لیئے ہم دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے ۔ تاکہ ملٹی ڈائمنشن علم کی پھوار برسے اور سب اس سے مستفید ہو سکیں ۔ کچھ ہم سیکھیں کچھ ہم سکھا سکیں ۔ یہی ایک علمی گفتگو کا مزاج ہونا چاہیئے ۔
 
آخری تدوین:
اب ہم اس موضوع پر دو متوازی طرق سے بحث کریں گے ۔ ایک سائنسی پہلو جس میں اب تک کی تحقیقات اور ان پر اعتراضات و اعتراضات کے جوابات پر بات ہوگی جسےظفریاور میں مل کر چلائیں گے ۔ ان شاء اللہ اور دوسرا پہلو خودشناسی اور روحانیت کے پہلو سے اس پر گفتگو ہوگی جسےنور سعدیہ شیخ اور میں مل کر چلائیں گے ان شاء اللہ۔

اور اگر کوئی بھی ساتھی اس موضوع کے احاطے کے لیئے کوئی ایسا پہلو جس سے ہم غافل ہوں زیر بحث لانا چاہے تو بھی ان کے ساتھ مل کر میں اس پر گفتگو کرنے کو تیار ہوں کیونکہ معلومات کا تبادلہ اور اس کے تجربات میں تنوع ہی علم کے لیئے زرخیز زمین کا کام کرتا ہے۔

یہ میری تجویز ہے امید ہے کہ ظفری اور نور اس پر غور فرما کر اپنے فیصلے سے آگاہ فرمائیں گے تاکہ بات کو آگے لے کر چلا جائے۔
 
اب ہم اس موضوع پر دو متوازی طرق سے بحث کریں گے ۔ ایک سائنسی پہلو جس میں اب تک کی تحقیقات اور ان پر اعتراضات و اعتراضات کے جوابات پر بات ہوگی جسےظفریاور میں مل کر چلائیں گے ۔ ان شاء اللہ اور دوسرا پہلو خودشناسی اور روحانیت کے پہلو سے اس پر گفتگو ہوگی جسےنور سعدیہ شیخ اور میں مل کر چلائیں گے ان شاء اللہ۔

اور اگر کوئی بھی ساتھی اس موضوع کے احاطے کے لیئے کوئی ایسا پہلو جس سے ہم غافل ہوں زیر بحث لانا چاہے تو بھی ان کے ساتھ مل کر میں اس پر گفتگو کرنے کو تیار ہوں کیونکہ معلومات کا تبادلہ اور اس کے تجربات میں تنوع ہی علم کے لیئے زرخیز زمین کا کام کرتا ہے۔

یہ میری تجویز ہے امید ہے کہ ظفری اور نور اس پر غور فرما کر اپنے فیصلے سے آگاہ فرمائیں گے تاکہ بات کو آگے لے کر چلا جائے۔
مجھے یہاں آپ صاحب علم شخصیات سے ایک سوال کا جواب درکار ہے ،
کیا خیال خوانی یا خیال رسائی کے عمل کرنے کے لیے مطلوبہ شخص کی آواز کا ذہن میں محفوظ ہونا ضروری ہے ؟
 
مجھے یہاں آپ صاحب علم شخصیات سے ایک سوال کا جواب درکار ہے ،
کیا خیال خوانی یا خیال رسائی کے عمل کرنے کے لیے مطلوبہ شخص کی آواز کا ذہن میں محفوظ ہونا ضروری ہے ؟
اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں ۔ ریڈیو پر چلنے والے پروگرامز ایک فری کوئنسی پر ہوتے ہیں جنہیں اس فری کوئنسی والے کسی بھی سیٹ پر سنا جا سکتا ہے جبکہ ٹیلیفون کمپنیوں کے موبائل فونز پر کال کرنے یا اسے وصول کرنے کے لیئے ایک مخصوص نیٹ ورک پر ایک مخصوص نمبر ہونا ضروری ہے اسی طرح سے خیال خوانی کے عمومی طریقے کے لیئے آواز یا تصویر کا ہونا بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن اگر آپ اس کے بغیر مطلوبہ فریکوئنسی تک پہنچ سکیں تو بالکل ضروری نہیں ۔
 
اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں ۔ ریڈیو پر چلنے والے پروگرامز ایک فری کوئنسی پر ہوتے ہیں جنہیں اس فری کوئنسی والے کسی بھی سیٹ پر سنا جا سکتا ہے جبکہ ٹیلیفون کمپنیوں کے موبائل فونز پر کال کرنے یا اسے وصول کرنے کے لیئے ایک مخصوص نیٹ ورک پر ایک مخصوص نمبر ہونا ضروری ہے اسی طرح سے خیال خوانی کے عمومی طریقے کے لیئے آواز یا تصویر کا ہونا بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن اگر آپ اس کے بغیر مطلوبہ فریکوئنسی تک پہنچ سکیں تو بالکل ضروری نہیں ۔
مطلب یہ کہ یہ آپ کی قابلیت پر منحصر ہے ۔
بہت شکریہ فیصل بھائی ۔
 
سائنس کی نظر میں ٹیلی پیتھی کی تعریف

ٹیلی پیتھی کی تعریف (یونانی لفظ ٹیلی کا مطلب "بعید" اورپاتھیا سے مراد درد ، احساس، ادراک، جذبہ، مصیبت، تجربہ") ہے
اسے کسی شخص کی طرف سے معلومات کے بغیر کسی ظاہری واسطے یا تعلق کے انتقال کے لیئے بطور اصطلاح استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلی باربطور اصطلاح اسےایک کلاسیکی اسکالر فریڈرک ڈبلیو ایچ ایرس،جو ایک ذہنی تحقیق کے لئے سوسائٹی کے بانی تھے ، کی طرف سے 1882 میں استعمال کیا گیا - ٹیلی پیتھی کو تجربات میں مناسب کنٹرولز اوردہرایا جانے کی صلاحیت کی کمی کے لئے تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے . تجربات، مشاہدہ اور یکساں حالات میں یکساں نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت میں مادی طور پر قابل تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ سائنس اسے خود ساختہ ہونے اور عطائیت کا نام دیتی ہے-

یورپ میں ٹیلی پیتھی کی تاریخ

۱۸۷۳ کا سال ہے ۔ برطانیہ کا شہر لیورپول ہے روحانیت پر کام کرنے والے کچھ لوگ ایک جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں جن میں چارلس مورس ڈیویس، ایڈمنڈ روجرز، تھامس ایوریٹ ، موریل تھیوبالڈ، ولیم سٹان موزیس، ایشام چارلس، سپیر ٹیمپل مین و غیرہ شامل تھے - یہاں ایک ایسوسی ایشن بنانے کا فیصلہ ہوتا ہے تاکہ روحانیت اور ماوراء النفسیات کے مسائل پر تجربات کیئے جا سکیں اس تجویز کو پیش کرنے والے ایڈمنڈ راجرز اور تھامس ایوریٹ تھے ، ابتدائی طور پر اس تنظیم کا کوئی مذہب نہیں تھا لیکن وہ لوگ عیسائیت کے ہم خیال جانے جاتے تھے ۔ اس ایسوسی ایشن کا نام برطانوی روحانیت کاروں کی قومی انجمن رکھا گیا ۔ ا س کی پہلی کھلی میٹنگ سولہ اپریل اٹھارہ سو چوہتر کو سیموئیل ہال کی زیر صدارت ہوئی ،ایک سال میں ہی اس کے ارکان کی تعداد سینکڑوں میں ہو گئی ۔ اسے ۱۸۷۵ میں لندن میں رسل اسٹریٹ پر منتقل کیا گیا - اس کے ارکان میں بڑے بڑے نام شامل تھے جن میں ایک جرمن سائنسدان جو سماوی طبیعیات (آسٹرو فزکس) کا ماہر تھا بھی شامل تھا ۔ خداع بصری پر ابتدائی کام اسی نے کیا تھا اس کا نام تھا جوہان کارل فریڈرک ژالنر - یہاں سے روحانیت پر تحقیقات کا آغاز ہوا اور یہی تحقیقاتی کام آگے چل کر لندن اتحاد بین الروحانیین اور نفسیاتی مطالعہ کے کالج کی بنیاد بنا -

یہیں سے یورپ میں حیوانی مقناطیسیت اور روحانیت اور پیرا سائیکولوجی کا آغاز ہوا ، یورپ میں اس کا پہلا مظاہرہ بشپ واشنگٹن ارونگ نے کیا لیکن اس کا دعویٰ ٹیلی پیتھی کا نہیں بلکہ عضلہ شناسی کا تھا ۔ اس وقت کے سائنسدانوں کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ عضلات کی حرکت سے اندازے لگاتا ہے-

یہ تو یورپ میں اس کا آغاز ہے (اس علم کی طرف توجہ اور اس کی تاریخ کل ملا کر کل عمر ۱۴۵ برس کم و بیش ) ۔ لیکن مسلمانوں میں اس کا آغاز کیسے ہوا اور اس کا نام کیا تھا اس پر ہم بعد میں بات کریں گے
 
آخری تدوین:
بہت بہت شکریہ جناب
آپ جیسے علم دوست شخصیت کا ہمارے گھر تشریف لانا عین سعادت ہے. احکامات ماننے کے لیے کوئی threat or fear element ہوگا. بات کیا تب منوائی جاسکتی ہے خود سے جب ہم ہر قسم کے ڈر سے آزاد ہوں
جسم، اس کی حسیات اور جسم کے کمانڈ سسٹم کے ساتھ ہم آہنگی ہونے کے لیے کسی Fear element کا ہونا ضروری تو نہیں۔ ایک دوسرے کی acceptance یعنی قبولیت کا factor بھی تو ہو سکتا ہے۔ ایک دوسرے سے ربط اور ایک تعلق کا احساس بھی اس اطاعت کا محرک ہو سکتا ہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح کسی گھر میں کوئی خاتون اپنے شوہر کا خیال اس کے یا کسی کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنی چاہ کے ہاتھوں رکھے۔ جیسے شوہر پر بیگم کے امورِ خانہ داری میں ہاتھ بٹانے کی وجہ بیگم کی جانب سے کسی قسم کا جذباتی استحصال یا کوئی برتری حاصل ہونے کے بجائے اس کا احساس اور ہاتھ بٹانے کی نیک نیتی کا جذبہ شامل ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی گھر کے بچے اپنے والدین کا کہنا اس لیے نہیں مانتے کہ ان سے ڈرتے ہیں بلکہ ان کا کہنا اس لیے مانتے ہوں کہ انہیں ان کے والدین کی باتیں اچھی طرح سمجھ آ چکی ہوں اور وہ اچھا برا سمجھانے سے سمجھ چکے ہوں۔
 

جاسمن

لائبریرین
بھیا تھوڑا احتیاط سے ،
پتا نہیں نا ان بھائی صاحب کو کونسی طاقتور مخلوق مل گئی ہو ایسا نہ ہو آپ کو طوطا بنا کر پنجرے میں ڈالیں اور چلتے بنے ۔ہم اکیلے محفل میں بس آپ کی یاد میں آہیں ہی بھرتے رہے جائیں ۔

ہاہاہا۔:D
جواب نہیں آپ کا:D
 

جاسمن

لائبریرین

جاسمن

لائبریرین
ایک مہینہ پانچوں نمازیں تکبیر اولیٰ سے قریبی مسجد میں با جماعت ادا فرمائیں روزانہ ایک قرآنی آیت مبارکہ ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور ایک حدیث کا مطالعہ فرمائیں اور ہر قسم کے حرام سے اجتناب فرمائیں۔ غیبت، غصہ اور تکبر سے بچیں۔کچھ بھی ہو جائے کسی سے اپنی ذات کے لیئے جھگڑا نہیں کرنا۔ کر سکتے ہیں تو بسم اللہ ۔۔
۔۔ چیلنج ہے تو ایسے ہی سہی۔
آجاؤ میدان میں
کرنے کے عمل:
1۔پانچ نمازیں
2۔ایک آیت بمعہ ترجمہ
3۔ایک حدیث
چھوڑنے کے عمل:
1۔غصہ
2۔غیبت
3۔تکبر
4۔اپنی ذات کے لئے جھگڑا
آسان بھی ہےاورمشکل بھی۔
کوشش کرتے ہیں انشاءاللہ۔
 

جاسمن

لائبریرین
جب عشق کرنا ہی ٹھہرا تو اپنے مالک جل جلالہ سے کیوں نہ کیا جائے جس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو ہماری ہدایت کے لیئے اس دنیا میں بھیجا۔ جس نے لاکھوں برس سے آدم کی اولاد کو تنہا نہیں چھوڑا اور تاقیامت نہیں چھوڑے گا۔ الا یہ کہ آدم کی اولاد خود سے اس سے جڑے رہنا پسند نہ کرے اور اس کے راستے کو ترک کر دے (نعوذ باللہ من ذلک) ۔ تو ایسوں کے لیئے راندہ درگاہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)

اپنی ذات کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ (میں) بھی ایک خطرناک فتنہ ہے

میرے مرشد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وہ ہیں جو سب مرشدوں کے مرشد ہیں۔ جب تک ان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے در تک نہ پہنچا تھا در در پھرتا تھا۔ لیکن جب پہنچا تو ایسے راستے سے جو سب دروں سے الگ تھا جس کی توقع بھی نہ کی تھی ۔ اور وہ راستہ مجھے کہیں راستے میں ملا مجھ پر اس نے محنت کی اور مجھے گائیڈ پڑھنے کا طریقہ بتایا۔ قاری اور مولوی کا فرق بتایا اور پھر ایک ایک آیت سمجھاتے ہوئے اب بھی مجھ پر محنت کر رہا ہے۔ جب قرآن رٹتا تھا تو کیفیت کا حصول نہ تھا جب قرآن پڑھا تو جانا کہ توحید کیا ہے۔ اور توحید کی لذت تمام پیری مریدی کی لذتوں سے ماورا ہے۔ قرآن پڑھنے سننے کا لطف تمام لطف ہائے معلوم سے ماورا ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ پیغام ہے جو محجوب معشوق حقیقی جل جلالہ نے محبوب و معشوق ثانی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہاتھوں ہم تک بھیجا اور اس کا ایک ایک لفظ ہمی سے یعنی صرف ہمی سے مخاطب ہو کر بھیجا گیا ہے۔ گو کہ اس میں کفار کو بھی مخاطب کیا گیا ہے لیکن وہ بھی ہماری ہی تعلیم کے لیئے اور محبوب و معشوق ثانی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے تخاطب بھی ہماری ہی تعلیم کے لیئے ہے ۔ اس کی تمام آیات نہ تو اتنی مشکل ہیں کہ اپنی ذات کی حد تک آپ انہیں سمجھ کر خود پر لاگو ہی نہ کر سکیں اور نہ ہی اس قدر گنجلک ہیں کہ آپ کو انہیں سمجھنے کے لیئے سات سالہ درس نظامی کرنا پڑے - اللہ کی عطا ہے کہ میری کوشش اب یہی ہوتی ہے کہ قرآن پڑھتے وقت یہ خیال ہو کہ یہ میرے مالک نے میرے لیئے ہی بھیجا ہے اور اس کے احکام و اوامر میرے لیئے ہیں۔ مرشد پاک سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کروں تو سمجھ آتا ہے کہ دین کا حال خراب کرنے میں اور فرقوں کی تشکیل میں مولویوں (علماء نے نہیں ) کا بہت بڑا کردار ہے ۔ علمائے دین وہ تھے اور ہیں جنکے علوم کا مرجع و مصدر قرآن کریم اور صحیح احادیث اور درست قابل تصدیق و قابل اعتماد مصادر سے حاصل کردہ معلومات ہیں - جبکہ ضعیف الاسناد احادیث ، اور ایسی احادیث جو ایسے گھڑی گئی ہوں کہ دراصل قرآن کے نص کے مخالف ہوں کا جھنڈا پکڑ کر کھڑے بابے، علماء ، پیر، فقیر، مولوی سب کے سب دکان دار ہیں۔ جنہیں اپنی دکان داری سے مطلب ہے وہ دکان جس کا سامان دیومالائی داستانیں اور کرامتیں اور قصے کہانیاں ہیں اور قیمت میں کثرت کی ہوس ہے وہ کثرت واہ واہ سے شروع ہو کر طاقت و سلطنت تک جاتی ہے اور یہی وہ کثرت کی ہوس ہے جس میں ہلاکت ہے-

آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اپنا آپ گنہ گار دکھتا ہے اور اس نظر آنے کے باوجود آپ کا سر سجدے میں جھک جاتا ہے اکڑ کر اٹھ نہیں جاتا اس خوش قسمتی اس کرم کو ضائع مت کیجئے بلکہ جب کھڑے ہوں مالک کے سامنےاس کے دربار میں تو میں سوچوں کہ چالان ہوجائے تو ایک پولیس والے کے سامنے کیسے کھڑے ہوتا ہوں ۔ کیس عدالت میں ہو اور جج کے پاس فیصلے کی آخری پیشی ہو اور مجھے علم ہو کہ میں مجرم ہیں تو کیسے کھڑے ہونگا۔ یا کم از کم اگر میرے عیب ہی میرے ان اعزاء کے سامنے کھل گئے جنہیں میں جانتا ہوں تو ان کا سامنا کیسے ہوگا۔۔؟؟
تو کیا ہمارا بنانے والا جو لاکھوں سالوں سے ہماری رکھوالی کرتا آرہا ہے اور تاقیامت کرنے والا ہے اور تمام عیوب کا جاننے اور ڈھک کر رکھنے والا ہے اس کے سامنے کیسے کھڑے ہونا ہے یہ بھی کوئی آ کر مجھے سکھائے گا جبکہ اسی کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے وہ مالک جل جلالہ ہمیں اس کا نہ صرف طریقہ بتا چکا بلکہ سرکار دوعالم علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعے عملی نمونہ بھی دکھا چکا-
خود شناسی۔۔۔
کیا کسی معمولی موبائل کو اس کے بنانے والے کی دی ہوئی گائیڈ کے بغیر آپ سمجھ اور جان سکتے ہیں۔۔؟؟ یقینا نہیں تو ساری مشینیں بنانے والے اس دوٹانگوں اور ایک سر والے اس عجوبے کو اس کے بنانے والے کی گائیڈ کے بغیر کیسے جان سکتے ہیں ۔ اور اپنی ذات سے بڑھ کر کون ہے جو اپنی ذات سے ریلیٹ کر سکے اور گائیڈ کی روشنی میں اپنے تمام فنکشنز کو سمجھ کر درست استعمال کی طرف سفر شروع کر سکے۔۔؟؟

آئیے آج نماز میں کھڑے ہوں تو اللہ کو اپنے محلے کے چوہدری، تھانے دار، ایک جج، حاکم سے زیادہ عزت اور رعب والا سمجھ کر تو دیکھیں - نتیجہ آپ خود دیکھ لیں گے مجھے یقین دلانے کے لیئے کسی نئی مثال کی ضرورت نہیں پڑے گی - قرآن کو تفسیروں اور تفسیر در تفسیر کے صفحہ نمبر اور حاشیہ نمبر سے آگے بڑھ کر صرف ترجمہ سے پڑھنے سے شروع کیجئے کہ آغاز سادی بات سے ہی ہوگا -
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو بلا حیل و حجت تسلیم کرنے کا دعویٰ کرنے اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو آخری نبی و رسول ماننے کا دعویٰ کرنے والوں کو مسلمان سمجھیں ۔ فرقوں میں تقسیم نہ ہوں بلکہ امت میں یک جا ہونے کی کوشش کریں ۔ بحث میں مت پڑیں کہ یہ آپ کے اپنے ہدف کی طرف ارتکاز سے آپ کو دور کرتی ہے۔ اور اطاعت کے مطلب کو سمجھیں کہ اس میں کیا کیوں کیسے نہیں ہوتا ۔ بس ماننا ہوتا ہے - حرام سے اجتناب رکھیں ۔ پسند ناپسند محبت اور نفرت کا ایک ہی پیمانہ ہو اور وہ ہو (للہ) (اللہ کے لیئے) پھر دیکھنا ایک ایک کر کے نئی دنیائیں دریافت ہوتی جائیں گی

اللہ مہربان ہمیں اس پہ عمل کی توفیق و آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین


تیرہ سوالات ہیں
بہت اعلی ٰ سوالات ہیں لیکن جیسا پہلے بتا چکا ہوں اسی تعریف کے مطابق کچھ سوالوں کا جواب دے دونگا باقی سوالات کے لیئے وقت چاہیئے۔ ہر سوال کا جواب فی الفور نہیں مل جاتا۔ اور یہ میدان ایسا ہے کہ ایک ہی سوال کا جواب ہر انسان کے لیئے مختلف ہو سکتا ہے ۔
عین ممکن ہے جو جواب میں دوں آپ کی تشفی اس سے نہ ہو سکے لیکن کسی اور کے سوال کا وہی جواب ہو کیونکہ اصل معاملہ تعلق کا ہے۔ جب ایک مخلوق کا خالق سے تعلق استوار ہوتا ہے تو اس کی کیفیت کسی مخلوق کے مخلوق سے تعلق سے موازنہ نہیں کر سکتی ہاں سمجھنے کے لیئے سمجھانے کے لیئے مثالیں دی جا سکتی ہیں جو ٹیڑھی مٹیڑھی اپنے وجود کی طرح نامکمل ہوتے ہوئے کسی کی روح تک پہنچ سکتی ہیں اور کسی کی نہیں


۱۔ آپ کیسے پہنچے؟
۲۔ وہ کونسا راستہ تھا؟

جیسے بتا چکا ہوں کہ پہنچا کہاں ابھی تو سفر شروع کیا ہے۔ کہاں ہوں صرف مالک حقیقی جل جلالہ جانتا ہے ۔ جہاں بھی ہوں وہاں تک پہنچنے میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی عطا ہے کہ اس نے میری زندگی میں ان صاحب کو بھیجا جنہوں نے مجھ سے میرا مقصد حیات پوچھا۔ بات سنی اور پھر ایک دن اور جگہ معین کر کے مجھے وہاں پہنچنے کو کہا ۔ وہاں قرآن سامنے پڑا تھا اور اس میں آیت آیت ترجمہ ہو کر اس بات پر غور ہو رہا تھا کہ اسے ہم آج خود پر کیسے لاگو کر سکتے ہیں- پھر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ متعدد بار مجھے نماز کی تلقین کی پھر سیرت مرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ کتابیں دیں اور ایک دن رات کو میرے گھر آ کر مجھے صرف ایک کاغذ کا دفتر دے کر گئے کہ اسے پڑھ کر سوچ لینا اور جو چاہو عمل کر لینا - وہ پڑھا اور روتا روتا سوگیا- اس کے بعد میری نماز جاری ہوئی-
۳۔سورہ البقرہ میں اللہ پاک سے حضرت ابراہیم نے موت کے بعد زندہ ہونے کی دلیل مانگی ... ...260verse اس میں چار پرندوں کی نشانی سے کیا مراد ہے؟
۴۔ پہاڑ پر رکھنا ہی کیوں مقصود تھا.
۵۔ چار سمتوں سے پرندوں کا زندہ ہوکے واپس ہونا کیا علامت رکھتا؟

یہ سوالات نظری مطالعہ ۔ ظاہری مطالعہ ۔ ظاہری سمجھ اور خود پر لاگو کرنے کی سعی کے بعد کے درجے کے ہیں ۔ کیا آپ پچھلے درجات عبور کر چکیں ۔۔؟؟

٦۔ یہ تو بات واضح ہوئی ہر ذی روح مشاہدہ چاہتی ہے، دیکھنا چاہتی ہے ..ہم بھی کیا ایسے مشاہدے کے لائق ہو سکتے؟

مشاہدہ کرنے کے لائق ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے ۔ مالک حق جل جلالہ نے اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا جتنا چاہا مشاہدہ کروا دیا ۔ البتہ راز کھولنے والوں کو جیسے صاف کیا یہ بھی تاریخ میں موجود ہے -


۷۔ اللہ نے ہمیں بار بار کہا ہے غور کرو، دیکھو، سنو ...جو سنتے نہیں ان کی مثال بدترین جانور کی سی ہے ...ہم کیسے دیکھیں؟


سورۃ البقرہ میں ہے

2_286.gif

2_286.jpg
اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے

الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی اے رب ہمارے! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں نہ پکڑ اے رب ہمارے! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر دے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا کارساز ہے کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد کر (۲۸۶)

اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے

الله تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو اس کو ثواب بھی اسی کا ملے گا جو ارادہ سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو ارادہ سے کرے۔ اے ہمارے رب ہم پر داروگیر نہ فرمائیے اگر ہم بھول جائیں یا چُوک جائیں اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی سخت حکم نہ بھیجیے جیسے ہم سے پہلے لوگوں پر آپ نے بھیجے تھے اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی ایسا بار (دنیا یا آخرت کا) نہ ڈالیے جس کی ہم کو سہار نہ ہو۔ اور درگزر کیجیئے ہم سے اور بخشش دیجیئے ہم کو اور رحم کیجئیے ہم پر آپ ہمارے کارساز ہیں (اور کارساز طرفدار ہوتا ہے)سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئیے۔ (۲۸۶)


ان سب میں آپ کے اس سوال کا جواب موجود ہے ۔ کسی پر اس کی طاقت کے بغیر بوجھ ڈالتا نہیں میرا رب تو آپ پر کیسے۔۔؟؟
جتنا آپ کی طاقت میں ہے صرف اتنا ہی دیکھنا ضروری ہے نہ اس سے زیادہ نہ آگے




۸۔کوئی اچھی اچھی باتیں جن سے آپ متاثر ہوئے وہ بتلائیں ..کچھ تو ہمیں سیرت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حصہ ملا گا ...وہ بھی ایسے کہ کسی نے اسے اپنا رکھا ہوگا ...

اس کے جواب میں تو کتابوں کی کتابیں لکھ دیں تو بھی کم ہیں آپ مجھ سے میری ذات کی حد تک اس موضوع کا احاطہ کروانے کی کوشش میں ہیں تو جان لیجئے غدیر خم کی حدیث میرا نصب العین ہے اور اسی پر چلنے کی سعی میں میرا سفر جاری ہے

۹۔نص سے مراد کیا ہے

جس بات یا چیز کا ذکر قرآن کریم میں کھلے الفاظ میں ہے لیکن مولوی حضرات بریکٹیں ، حاشیئے ڈال کر اس مطلب کو کچھ کا کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

۱۰۔ سوال آتا ہے میرے پاس نفس کی لاتعداد برائیاں ہیں .... جھوٹ بھی بول لیتی ہوں، نماز بھی کبھی کبھی چھوڑ دیتی ہوں. اللہ کے سامنے خشوع و خضوع سے نماز نہیں پڑھتی بلکہ دماغ میں ساری دنیا چلتی ہے کبھی تو خود سے سوال کرتی ہوں کہ مین نے اپنی نماز میں اللہ کو سجدہ کب کیا؟

آپ کو نماز میں کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ صاف نیت کے ساتھ ( دل وہ مالک خود ہی لگا لے گا ۔) کوشش کریں کہ جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا ترجمہ سیکھ لیں اور عربی الفاظ کو ایک ایک کرکے آہستہ آہستہ پڑھیں اور اس پس منظر میں دل میں اس کےترجمے کو ایسے بیان کریں کہ آپ مالک حق کے سامنے ہیں اور ان الفاظ میں اپنا سب کچھ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا ہے ۔ جیسے آپ اکیلی اس مالک کے سامنے کھڑی ہیں اور کائنات کا وجود ہی نہیں ہے صرف آپ ہیں اور وہ ہے۔


۱۱۔ Strong affirmationکیسے حاصل ہوتی ہے؟

جب مالک آپ کو دوبارہ اپنے دربار میں حاضری کے لیئے بلا لے تو اس کے بعد کیا سٹرانگ افرمیشن درکار ہوگی۔۔؟؟

۱۲۔گائیڈ کے بنا بھی قران پاک اچھا جان سکتے ہیں مگر سورہ الممتحنہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت کی تھی تو بیعت کی وجہ تھی کیا؟

60_12.jpg
کیا آپ کی مراد اس آیت مبارکہ سے ہے۔۔؟؟

۱۳۔روح کی بیماریوں کا مسیحا بھی تو ہونا چاہیے اور اگر خود کو خود درست کرنا ہو قران پاک سے اور strong affirmation سے تو کیسے کیا جائے کہ ذہن میں نہ خوف ہے نہ لالچ ..؟؟

سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ یہی وہ راہ نجات ہے جو ہمارے مالک حقیقی جل جلالہ نے ہمارے واسطے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور اس راہ نجات کی عملی تفسیر سرکار دوعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت ہے ۔ اور حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کے علاوہ کوئی دوسری رسی نہ ہے نہ ہوگی جو حق سے منسلک ہے۔
جب قرآن کا ایک ایک شوشہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس کی وعید بھی حق اس کی ترغیب بھی حق اسے لانے والے ہادی و مرشد دوعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام بھی حق اور ان کا ہر وہ فرمان بھی حق جو صحیح اسناد کے ساتھ ہم تک پہنچا اور قرآن کریم کے کسی حکم یا امتناع کے خلاف نہیں ہے ۔ تو ایسے میں جب اس سفر پر نکلیں گے تو اللہ کی عطا سے اس سوال کا عملی جواب مل جائے گا۔

بنانے والا تمام نسخے اور طریقہ استعمال دے چکا ، اپنے بھیجے ہوئے حکیم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام امراض بیان کرچکا علاج بتا چکا اب کون سا نیا حکیم ڈھونڈنے نکلے ہیں ۔ وہ خود اپنی طرف آنے والوں کی رہ نمائی فرماتا ہے ۔ اس کی جانب ایک قدم اٹھا کر دیکھیں وہ آپ کی طرف دوڑتا ہوا نہ آئے اور محسوس نہ ہو تو کہیئے گا

بے شک!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اب جب تک نور سعدیہ شیخ اور ظفری کا جواب موصول نہیں ہوگا ہم خاموشی سے انتظار کریں گے تاکہ دو کام ہو جائیں۔
۱۔ نور کو خود کو سمیٹنے کا موقع مل سکے
۲۔ ظفری کا جواب مل سکے
میں تو اس بات کو سائنس سے بالکل ہٹ کے کرنا چاہتی ہو. ..پھر بھی جیسے آپ صاحبان علم لیے چلیں بات کو
 

imissu4ever

محفلین
ٹیلی پیتھی سے میرا تعارف دیوتا کے ذریعے ہوا بچپن میں بہت پڑھا مگر جب بات فرہاد کے بچوں اور اس سے آگے نکل گئ تو دلچسپی ختم ہوگئ
یہ علم نہیں ایک فن ہے جوکہ کوئ بھی حاصل کرسکتا ہے
کچھ افراد کے سنسر اللہ تعالی کے فضل سے ٹیون ہوئے یا ہو جاتے ہیں
کچھ اپنی لگن اور جستجو سے منزل پا لیتے ہیں
کچھ پنگ پانگ بال کی طرح ٹکریں کھا رہے ہوتے ہیں اس امید پر کہ کسی وقت پول ہو جائیں گے
اور میری طرح کچھ صرف باتیں کرتے ہیں
بچپن میں ایک دو دفعہ رئیس امروہوی مرحوم سے ملاقات ہوئ
وہ نفسیات ما بعد النفسیات کے ماہر تھے
مجھے انکے بارے میں گمان ہے کہ وہ اس فن کے ماہر تھے
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم اسے پسند آ جائیں ۔ آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
ٹیلی پیتھی سے میرا تعارف دیوتا کے ذریعے ہوا بچپن میں بہت پڑھا مگر جب بات فرہاد کے بچوں اور اس سے آگے نکل گئ تو دلچسپی ختم ہوگئ
یہ علم نہیں ایک فن ہے جوکہ کوئ بھی حاصل کرسکتا ہے
کچھ افراد کے سنسر اللہ تعالی کے فضل سے ٹیون ہوئے یا ہو جاتے ہیں
کچھ اپنی لگن اور جستجو سے منزل پا لیتے ہیں
کچھ پنگ پانگ بال کی طرح ٹکریں کھا رہے ہوتے ہیں اس امید پر کہ کسی وقت پول ہو جائیں گے
اور میری طرح کچھ صرف باتیں کرتے ہیں
بچپن میں ایک دو دفعہ رئیس امروہوی مرحوم سے ملاقات ہوئ
وہ نفسیات ما بعد النفسیات کے ماہر تھے
مجھے انکے بارے میں گمان ہے کہ وہ اس فن کے ماہر تھے
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم اسے پسند آ جائیں ۔ آمین
کچھ اس ملاقات کا احوال بتائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس بات کی وضاحت کیجیے کہ سنسر اللہ کے فضل سے ٹیون ہوتے ہیں اگر ہوتے تو ان کو اسکی خبر بھی ہوتی ہے یا نہیں ؟ یعنی کسب سے کچھ نہیں ملتا ؟
 
Top