تیرہ سوالات ہیں
بہت اعلی ٰ سوالات ہیں لیکن جیسا پہلے بتا چکا ہوں اسی تعریف کے مطابق کچھ سوالوں کا جواب دے دونگا باقی سوالات کے لیئے وقت چاہیئے۔ ہر سوال کا جواب فی الفور نہیں مل جاتا۔ اور یہ میدان ایسا ہے کہ ایک ہی سوال کا جواب ہر انسان کے لیئے مختلف ہو سکتا ہے ۔
عین ممکن ہے جو جواب میں دوں آپ کی تشفی اس سے نہ ہو سکے لیکن کسی اور کے سوال کا وہی جواب ہو کیونکہ اصل معاملہ تعلق کا ہے۔ جب ایک مخلوق کا خالق سے تعلق استوار ہوتا ہے تو اس کی کیفیت کسی مخلوق کے مخلوق سے تعلق سے موازنہ نہیں کر سکتی ہاں سمجھنے کے لیئے سمجھانے کے لیئے مثالیں دی جا سکتی ہیں جو ٹیڑھی مٹیڑھی اپنے وجود کی طرح نامکمل ہوتے ہوئے کسی کی روح تک پہنچ سکتی ہیں اور کسی کی نہیں
۱۔ آپ کیسے پہنچے؟
۲۔ وہ کونسا راستہ تھا؟
جیسے بتا چکا ہوں کہ پہنچا کہاں ابھی تو سفر شروع کیا ہے۔ کہاں ہوں صرف مالک حقیقی جل جلالہ جانتا ہے ۔ جہاں بھی ہوں وہاں تک پہنچنے میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی عطا ہے کہ اس نے میری زندگی میں ان صاحب کو بھیجا جنہوں نے مجھ سے میرا مقصد حیات پوچھا۔ بات سنی اور پھر ایک دن اور جگہ معین کر کے مجھے وہاں پہنچنے کو کہا ۔ وہاں قرآن سامنے پڑا تھا اور اس میں آیت آیت ترجمہ ہو کر اس بات پر غور ہو رہا تھا کہ اسے ہم آج خود پر کیسے لاگو کر سکتے ہیں- پھر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ متعدد بار مجھے نماز کی تلقین کی پھر سیرت مرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ کتابیں دیں اور ایک دن رات کو میرے گھر آ کر مجھے صرف ایک کاغذ کا دفتر دے کر گئے کہ اسے پڑھ کر سوچ لینا اور جو چاہو عمل کر لینا - وہ پڑھا اور روتا روتا سوگیا- اس کے بعد میری نماز جاری ہوئی-
۳۔سورہ البقرہ میں اللہ پاک سے حضرت ابراہیم نے موت کے بعد زندہ ہونے کی دلیل مانگی ... ...260verse اس میں چار پرندوں کی نشانی سے کیا مراد ہے؟
۴۔ پہاڑ پر رکھنا ہی کیوں مقصود تھا.
۵۔ چار سمتوں سے پرندوں کا زندہ ہوکے واپس ہونا کیا علامت رکھتا؟
یہ سوالات نظری مطالعہ ۔ ظاہری مطالعہ ۔ ظاہری سمجھ اور خود پر لاگو کرنے کی سعی کے بعد کے درجے کے ہیں ۔ کیا آپ پچھلے درجات عبور کر چکیں ۔۔؟؟
٦۔ یہ تو بات واضح ہوئی ہر ذی روح مشاہدہ چاہتی ہے، دیکھنا چاہتی ہے ..ہم بھی کیا ایسے مشاہدے کے لائق ہو سکتے؟
مشاہدہ کرنے کے لائق ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے ۔ مالک حق جل جلالہ نے اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا جتنا چاہا مشاہدہ کروا دیا ۔ البتہ راز کھولنے والوں کو جیسے صاف کیا یہ بھی تاریخ میں موجود ہے -
۷۔ اللہ نے ہمیں بار بار کہا ہے غور کرو، دیکھو، سنو ...جو سنتے نہیں ان کی مثال بدترین جانور کی سی ہے ...ہم کیسے دیکھیں؟
سورۃ البقرہ میں ہے
اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے
الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی اے رب ہمارے! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں نہ پکڑ اے رب ہمارے! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر دے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا کارساز ہے کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد کر (۲۸۶)
اسی آیت کا ترجمہ ایک اور جگہ ایسا ہوا ہے
الله تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو اس کو ثواب بھی اسی کا ملے گا جو ارادہ سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو ارادہ سے کرے۔ اے ہمارے رب ہم پر داروگیر نہ فرمائیے اگر ہم بھول جائیں یا چُوک جائیں اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی سخت حکم نہ بھیجیے جیسے ہم سے پہلے لوگوں پر آپ نے بھیجے تھے اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی ایسا بار (دنیا یا آخرت کا) نہ ڈالیے جس کی ہم کو سہار نہ ہو۔ اور درگزر کیجیئے ہم سے اور بخشش دیجیئے ہم کو اور رحم کیجئیے ہم پر آپ ہمارے کارساز ہیں (اور کارساز طرفدار ہوتا ہے)سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئیے۔ (۲۸۶)
ان سب میں آپ کے اس سوال کا جواب موجود ہے ۔ کسی پر اس کی طاقت کے بغیر بوجھ ڈالتا نہیں میرا رب تو آپ پر کیسے۔۔؟؟
جتنا آپ کی طاقت میں ہے صرف اتنا ہی دیکھنا ضروری ہے نہ اس سے زیادہ نہ آگے
۸۔کوئی اچھی اچھی باتیں جن سے آپ متاثر ہوئے وہ بتلائیں ..کچھ تو ہمیں سیرت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حصہ ملا گا ...وہ بھی ایسے کہ کسی نے اسے اپنا رکھا ہوگا ...
اس کے جواب میں تو کتابوں کی کتابیں لکھ دیں تو بھی کم ہیں آپ مجھ سے میری ذات کی حد تک اس موضوع کا احاطہ کروانے کی کوشش میں ہیں تو جان لیجئے غدیر خم کی حدیث میرا نصب العین ہے اور اسی پر چلنے کی سعی میں میرا سفر جاری ہے
۹۔نص سے مراد کیا ہے
جس بات یا چیز کا ذکر قرآن کریم میں کھلے الفاظ میں ہے لیکن مولوی حضرات بریکٹیں ، حاشیئے ڈال کر اس مطلب کو کچھ کا کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
۱۰۔ سوال آتا ہے میرے پاس نفس کی لاتعداد برائیاں ہیں .... جھوٹ بھی بول لیتی ہوں، نماز بھی کبھی کبھی چھوڑ دیتی ہوں. اللہ کے سامنے خشوع و خضوع سے نماز نہیں پڑھتی بلکہ دماغ میں ساری دنیا چلتی ہے کبھی تو خود سے سوال کرتی ہوں کہ مین نے اپنی نماز میں اللہ کو سجدہ کب کیا؟
آپ کو نماز میں کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ صاف نیت کے ساتھ ( دل وہ مالک خود ہی لگا لے گا ۔) کوشش کریں کہ جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا ترجمہ سیکھ لیں اور عربی الفاظ کو ایک ایک کرکے آہستہ آہستہ پڑھیں اور اس پس منظر میں دل میں اس کےترجمے کو ایسے بیان کریں کہ آپ مالک حق کے سامنے ہیں اور ان الفاظ میں اپنا سب کچھ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا ہے ۔ جیسے آپ اکیلی اس مالک کے سامنے کھڑی ہیں اور کائنات کا وجود ہی نہیں ہے صرف آپ ہیں اور وہ ہے۔
۱۱۔ Strong affirmationکیسے حاصل ہوتی ہے؟
جب مالک آپ کو دوبارہ اپنے دربار میں حاضری کے لیئے بلا لے تو اس کے بعد کیا سٹرانگ افرمیشن درکار ہوگی۔۔؟؟
۱۲۔گائیڈ کے بنا بھی قران پاک اچھا جان سکتے ہیں مگر سورہ الممتحنہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت کی تھی تو بیعت کی وجہ تھی کیا؟
کیا آپ کی مراد اس آیت مبارکہ سے ہے۔۔؟؟
۱۳۔روح کی بیماریوں کا مسیحا بھی تو ہونا چاہیے اور اگر خود کو خود درست کرنا ہو قران پاک سے اور strong affirmation سے تو کیسے کیا جائے کہ ذہن میں نہ خوف ہے نہ لالچ ..؟؟
سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ یہی وہ راہ نجات ہے جو ہمارے مالک حقیقی جل جلالہ نے ہمارے واسطے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور اس راہ نجات کی عملی تفسیر سرکار دوعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت ہے ۔ اور حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کے علاوہ کوئی دوسری رسی نہ ہے نہ ہوگی جو حق سے منسلک ہے۔
جب قرآن کا ایک ایک شوشہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس کی وعید بھی حق اس کی ترغیب بھی حق اسے لانے والے ہادی و مرشد دوعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام بھی حق اور ان کا ہر وہ فرمان بھی حق جو صحیح اسناد کے ساتھ ہم تک پہنچا اور قرآن کریم کے کسی حکم یا امتناع کے خلاف نہیں ہے ۔ تو ایسے میں جب اس سفر پر نکلیں گے تو اللہ کی عطا سے اس سوال کا عملی جواب مل جائے گا۔
بنانے والا تمام نسخے اور طریقہ استعمال دے چکا ، اپنے بھیجے ہوئے حکیم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام امراض بیان کرچکا علاج بتا چکا اب کون سا نیا حکیم ڈھونڈنے نکلے ہیں ۔ وہ خود اپنی طرف آنے والوں کی رہ نمائی فرماتا ہے ۔ اس کی جانب ایک قدم اٹھا کر دیکھیں وہ آپ کی طرف دوڑتا ہوا نہ آئے اور محسوس نہ ہو تو کہیئے گا