انسان کبھی چاند پر نہیں گیا- ناسا کا اعتراف
ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
یکم اپریل، 2020
ناسا کے سابق چیئرمین جارج میولر نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ انسان چاند پر نہیں گیا اور چاند پر انسان کے اترنے کا دعویٰ جھوٹا ہے- جارج میولر 1963 سے 1969 تک اپالو پروگرام کے چیئرمین تھے- ان کی عمر 89 سال ہے اور انہیں حال ہی میں کورونا وائرس کے حملے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے- جارج میولر نے ہسپتال سے بیان جاری کیا ہے کہ وہ پچاس سال سے اس احساس جرم کے ساتھ جی رہے ہیں کہ وہ تمام دنیا سے جھوٹ بولتے رہے ہیں- لیکن اب جب کہ وہ چند دنوں کے مہمان ہیں، ان کا ضمیر انہیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور تمام دنیا کے سامنے اقرار کریں کہ انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر چاند پر اترنے کا ڈرامہ رچایا تھا
ان کے بیان کے مطابق اس ڈرامے کی منظوری امریکی حکام نے کیبینٹ لیول پر دی تھی- اس پلان کی منظوری 1967 میں صدر نکسن کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر جیمز شیلیسینجر نے دی تھی لیکن صدر نکسن کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی- 1967 تک ناسا کا پلان یہی تھا کہ انسانوں کو اپالو پروگرام کے راکٹ کے ذریعے چاند پر اتارا جائے گا اور پھر انہیں بحفاظت واپس زمین پر لایا جائے گا- لیکن جنوری 1967 میں ناسا کے حکام نے جیمز شیلیسینجر کو ایک خفیہ بریفنگ دی جس میں انہیں مطلع کیا گیا کہ ناسا کے انجینیئرز نے آٹھ سال کی محنت کے بعد اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور یہ تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی اس قابل نہیں ہے کہ وہ انسان کو چاند پر لے جا سکے- اس بریفنگ میں ان نکات کو اجاگر کیا گیا تھا:
1۔ زمین کی فضا سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہے- بائبل میں صاف طور پر لکھا ہے کہ زمین کی فضا سے کوئی انسان باہر نہیں جا سکتا
2- وین ہیلن بیلٹ انسانوں کے لیے جان لیوا ہے- اگر کوئی خلاباز اس بیلٹ سے گذرے گا تو خطرناک شعاعوں سے جل کر بھسم ہو جائے گا- خلانوردوں کو ان شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اب تک جو بھی ٹیکنالوجی ٹیسٹ کی گئی ہے وہ سب فیل ہو گئی ہے
3- چاند پر گریویٹی نہیں ہے اس لیے چاند پر اترنا ہی ممکن نہیں ہے
4- ہمارے پاس کوئی راکٹ ایسا نہیں ہے جو خلا نوردوں کو چاند سے واپس لا سکے- چاند سے واپس لانے کے لیے اتنا ہی بڑا راکٹ درکار ہے جتنا زمین سے چاند پر جانے کے لیے (کیونکہ دونوں طرف کا فاصلہ برابر ہے)- چاند تک وہ راکٹ پہنچایا کیسے جائے گا جس سے خلا نوردوں کو واپس لایا جائے
5- خلا میں راکٹ کا ایندھن نہیں جلے گا کیونکہ خلا میں آکسیجن نہیں ہے- اس لیے زمین کی کشش سے باہر نکلتے ہی راکٹ ٹھس ہو جائے گا اور واپس زمین پر آ گرے گا
6- کچھ سائنس دان (جن میں خلا نورد ورجل گرس گریسن، اور سیفٹی انسپکٹر ٹامس رائل بیرن شامل ہیں) اس بات پر مائل نظر آتے ہیں کہ عوام کے سامنے اپنی شکست تسلیم کر لی جائے- ان سائنس دانوں کو اپنے راستے سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے
چنانچہ اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ اپالو کے پروگرام پر کام بند کر دیا جائے اور اس رقم سے ہالی ووڈ کی ایک ٹیم کے ساتھ معاہدہ کیا جائے تاکہ چاند پر اترنے کی فیک فلمیں بنا کر جاری کی جائیں- اس کے علاوہ خلا نورد ورجل گرس گریسن، اور سیفٹی انسپکٹر ٹامس رائل بیرن سمیت ان تمام لوگوں کو غائب کر دیا جائے جو اس پلان کا بھانڈا پھوڑ سکتے ہیں
چاند پر اترنے کی جعلی فلم بنانے کے لیے ہالی ووڈ کے مشہور ڈائرکٹر سٹینلی ملر کے ساتھ کروڑوں ڈالر کا معاہدہ کیا گیا اور انہیں یہ فلم بنانے کا کام سونپا گیا- اس کام کے لیے ایریا 51 سے ملحقہ علاقے کو چنا گیا- اگرچہ سٹینلی ملر دنیا کے بہترین ڈائرکٹر ہیں لیکن ان کے پاس اس وقت نہ تو کمپیوٹر ٹیکنالوجی تھی اور نہ ہی انہیں سائنس کا کوئی گہرا علم تھا- اس وجہ سے ان کے سٹاف نے جو فلم بنائی اس میں بہت سی غلطیاں موجود تھیں- مثال کے طور پر:
1۔ چاند پر اترنے والی شٹل کے نیچے اسکے طاقتور انجن سے نکلنے والے بلاسٹ کا کوئی نشان تک موجود نہیں ہے۔ حالانکہ وہ نیچے سب کچھ اڑا دیتی ہے۔
2- اس فوٹیج میں ستارے کہیں نظر نہیں آرہے جبکہ آسمان بلکل سیاہ ہے۔
3- لائٹ صرف چند سو گز کے علاقے میں ہی نظر آرہی ہے اور اسکے باہر اندھیرا جیسے کوئی سٹیج تیار کی گئی ہو۔
4- اس فوٹیج میں امریکی پرچم ہوا سے پھڑپھڑا رہا ہے جبکہ چاند پر ہوا کا کوئی وجود نہیں ہے۔
5- راکٹ کے بلاسٹ کا شور 150 سے 160 ڈیسابل ہوتا ہے جو کان پھاڑ دیتا ہے۔ اس فوٹیج میں اتنے شور کے ساتھ اترنے والے شٹل کے اندر خلابازوں کی بات چیت صاف سنائی دے رہی ہے اور ایک سرسراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
6-ویڈیو کو دگنی رفتار سے چلایا جائے تو اس میں چہل قدمی کرنے والے خلاباز اور چاند گاڑی بلکل نارمل انداز میں چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں جیسے زمین پر۔
7- چاند کی سطح پاؤڈر کی طرح ہے۔ تب شٹل کی دوبارہ پرواز کے بعد اس کے نیچے آنے والے طوفان سے " چاند پر انسانی قدموں کے نشانات " مٹ کیوں نیہں گئے؟
8- شٹل کا واپس اڑنا تو لگتا ہی نہیں کہ دھماکے کے زور پر اڑی بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس کو اوپر کسی چیز سے باندھ کر کھینچا گیا ہے۔
سٹینلی ملر نے اس دوران جو سینکڑوں ہزاروں تصاویر لیں ان پر اٹھنے والے سوالات اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہیں مثلاً:
1- بڑے بڑے کیمرے خلابازوں کے سینوں پر بندھے ہوئے تھے جن کی وجہ سے ان کے لیے جھکنا تک مشکل تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے " محض تکے " سے ہزاروں تصویریں لیں جنکی فریمنگ بلکل پرفیکٹ ہے۔
2- بہت ساری تصاویر ایسی ہیں جن میں مختلف چیزوں کے سائے بلکل مختلف زاویے پر ہیں گویا سورج کے بجائے روشنی کا منبع کہیں نزدیک ہی تھا۔
3- بعض تصاویر ایسی ہیں جن میں سورج یا روشنی خلاباز کے عین پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود سامنے سے اس خلاباز کی ساری جزئیات بلکل واضح نظر آرہی ہیں جیسے سامنے سے بھی روشنی کا بندوبست کیا گیا ہو۔
4- کچھ تصاویر ایسی بھی ہیں جن کا پس منظر ایک جیسا ہے لیکن کچھ میں خلائی شٹل ہی موجود نہیں۔ وہ تصاویر کب لی گئیں؟
5- ان ساری تصاویر کی کوالٹی زیادہ اچھی نہیں جبکہ اس دور میں بہت اچھے کیمرے موجود تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملر نے جان بوجھ کر ذرا غیر واضح تصاویر بنوائیں۔
چونکہ ناسا کے جنرل سٹاف کو اس ڈرامے سے مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا تھا اس لیے ان فلموں کو صرف جارج میولر اور چند دوسرے حکام کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا- چونکہ جارج میولر خود سائنس دان نہیں ہیں اس لیے وہ ان فلموں میں ان غلطیوں کی نشاندہی نہیں کر پائے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے- چنانچہ ان کی منظوری سے ان فلموں کو ریلیز کر دیا گیا- بعد میں لوگوں نے ان غلطیوں کی نشاندہی کی لیکن اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا-
جارج میولر کے اس بیان سے ناسا کے ہیڈکواٹرز میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اب انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ اس بیان کو پھیلنے سے کیسے روکا جائے- حکومت امریکہ نے تمام نیوز چینلز اور تمام اخباروں کو نوٹس جاری کیا ہے کہ جارج میولر کا یہ بیان شائع کیا گیا تو ان کے خلاف نہ صرف قانونی کاروائی کی جائے گی بلکہ ان کے سربراہان کو خفیہ پولیس گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں ڈال دے گی جس کے بعد کسی کو ان کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا- اس وجہ سے یہ خبر کسی بڑے اخبار یا نیٹ ورک نے نشر نہیں کی
اصل مضمون