ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
جاسمن صاحبہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شرح بزبان نیرنگ حاضر ہے۔ ظہیراحمدظہیر بھائی سے معذرت۔۔۔۔
دوستو! وقت تو گزر ہی جاتا ہے۔ اس لیے گزرے وقت کی ہی بات کی جا سکتی ہے۔ لہذا اسی ترکیب کے پیش نظر گزرے دنوں کی بات ہے کہ نقار خانے میں، اوہ معذرت میرا مطلب تھا کہ طرح طرح کی آوازوں میں، اللہ اللہ۔۔۔ اس سے جانے ہمیں کیوں منڈی منڈی یاد آرہی ہے۔ اوہ ہو۔۔۔ یہ تو ہم مدعا سے ہٹ گئے۔
ہاں تو دوستو! ہم بات کر رہے تھے گزرے زمانے کی، جس میں ایک ست رنگی گلشن ہوتا تھا۔ ہائیں۔ یہ کیا کہہ گئے ہم۔ قبل اس کے کوئی ہم پر حد جاری کرے۔ ہم دو چار رنگ جمع تفریق کر لیتے ہیں۔ ہاں تو میاں ایک دس رنگی گلشن تھا۔ چھوڑو یار! ہزار رنگی گلشن تھا۔ اس میں ہزار طرح کی آوازیں تھیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ یہ گلشن ہی تھا۔ یا واقعتاً کسی اور طرف اشارہ ہے۔ خیر چھوڑیں جی گلشن اور آوازوں کو ۔ ہاں تو ان پرندوں میں ایک پرندہ ایسا بھی تھا۔ جس کی آواز بہت اچھی تھی۔ ہاں ہاں میاں ہمیں معلوم ہے یہ جھوٹ ہے۔ بیٹھ جائیے جائیے۔ کہانی چلنے دیجیے۔ خوش رنگ بھی تھا۔ ہاں ہاں مذکر پرندہ۔ میاں مذکر پرندے بھی خوش رنگ ہوتے ہیں۔ خوش ادا بھی تھا۔ بڑا رکھ رکھاؤ والا پرندہ تھا۔ سب ہی اس سے خوش تھے۔ غم کے دنوں میں بلبل کی پراکسی بھی لگاتا تھا۔ اور بہار کے دنوں میں رئیس فروغ بھی بن جاتا تھا کہ پاگل پنچھی بعد میں چہکے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ہاں معذرت ہمارے حاضرین میں ایک تعداد نابالغوں کی بھی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ایسا پرندہ جو شکل و آواز دونوں سے خوبصورت تھا۔ اور بلند پرواز رکھتا تھا۔
جی کیا فرما رہے آپ؟
بہت بولتا تھا؟
نہیں نہیں میاں! بہت نہیں بولتا تھا۔ عرصے سے بول رہا تھا۔ اس لیے زیادہ بولنے کا دھوکا ہوا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بہت بلند پرواز تھا۔ آواز بدلنے پر قادر تھا۔ نئی میاں! سٹینڈ اپ کامیڈین نہیں تھا۔نئی آواز سے مراد نت نئے خیالات پیش کرنا ہے۔ ساز بنانے والوں کی جان تھا۔ اوہ یہ کیا ہفوات بک گئے ہم۔ ہمارا مطلب تھا کہ ساز میں سوز اس سے تھا۔ جی جی ۔۔۔۔
ہائے ۔۔۔ لیکن ہوا کیا۔ یہاں کہانی میں موڑ ہے۔ پانی پلائیے۔۔۔
پانی پی چکنے کے بعد۔۔۔۔
یعنی کہ وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ ہائے۔۔۔ ارے نہیں۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ کسی صیاد نے نہیں پکڑا۔ مطلب پکڑا تو وہ گیا مگر کچھ آواز وہ نکال سکتا ہے۔ صیاد کی طرف سے ایسی بھی سختی نہیں۔ ہوا یہ کہ دوپہر ناشتے پر رات کے کھانے کے دوران کچھ اونچ نیچ ہوگئی۔ اور یہ سب کو خوش چھوڑ کر چل دیے۔ کیوں کہ راوی نے لکھا ہے کہ ان کے بعد کوئی اشک ندامت نہ تھا اور نہ ہی کوئی غمگیں باتیں کرتا تھا۔ اللہ اللہ،، ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ ایسے میں اداسی کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ۔۔۔۔۔ الخ
بھائیو! مختصراً یہ کہ ہمارے دیرینہ پرندے ہم چوگا و ہم قفس محمداحمد بھائی جو مدت العمر سے لاپتا تھے اور ان کو کسی ایجنسی نے بھی نہیں اٹھایا تھا۔ ان سے گزارش ہے کہ نومولود کی غوں غاں کے دوران ہماری کوں کاں بھی سنیں اور واپس آئیں۔
پس منظر میں موسیقی۔۔۔۔ سانول موڑ مہاراں۔۔۔۔۔۔
نین میاں ! تشریح کےسو میں سے سو نمبر ، پانچ نمبر خوش خطی کے اور پانچ سو نمبر خوش بیانی کے! تو یہ کُل مل ملا کے آپ کے نمبر ہوئے ایک سو اٹھتر ۔
نئیں میاں ، حساب غلط نہیں ہے ۔ دو سو ستائیس نمبر کٹے بیچ میں پانی پینے کے اور دو سو نمبر کٹے مجھ دریائے سندھ کو راوی کہنے کے ۔