وارث صاحب انتہائی لطیف پیرائے میں تخلص کے استعال کے متعلق بیان فرما ہی چکے ہیں لیکن چونکہ ہم ان کے دستِ محبت پر بیعت ہیں لہٰذا "تائیداً" کچھ عرض کرنا نہ صرف اپنے لیے باعثِ شرف و عزت جانتے ہیں بلکہ اسے مال و دولت میں اضافے کا تعویذ بھی مانتے ہیں۔
شاعری میں ایسی کئی صنائع ہیں جن کا استعمال شعر کو خوبصورت بنا دیتا اور قاری کے دل و دماغ کو معانی کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت بھی لطف دیتی ہے۔ شاعر انہی صنائع کو اگر "بر محل" اور "تکنیک" کے ساتھ استعمال کرے تو اس کا شعر گراں مایہ کہلاتا ہے جب کہ اس کے بر عکس ان کا بھونڈا استعمال شعر کو پستی میں گرا دیتا ہے۔
محمود مغل صاحب اور جیہ صاحبہ کی ادبی بحث بھی اسی قسم کی ایک صنعت کے متعلق ہے اور یہی قاعدہ اس پر لاگو ہوتا ہے کہ بر محل اور عمدگی کے ساتھ تخلص کو بطور صفت، اسم یا فعل برتنا اعلیٰ پائے کے شعرا کا خاصہ رہا ہے لیکن بہرحال اس شعر سے یہ واضح ہوتا ہو کہ تخلص کا یہ استعمال کسباً ہے۔ جیسا کہ وارث صاحب نے چند شعرا کے نام بھی لیے ان میں کئی اور ناموں کے ساتھ ایک نام خمارؔ بارہ بنکوی کا بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
میرؔ کے درج ذیل شعر کی تشریح میں بھی کئی شارحین کا اتفاق ہے کہ اس میں میرؔ صاحب نے تخلص کو بطور اسم، بمعنی بادشاہ استعمال کیا ہے۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔