چند ادبی لطیفے

جیہ

لائبریرین
ادبی لطائف کیا ہوئے ؟
(یہ گاڑھی ادبی بحثیں کسی اورموقع کے لئے رکھ چھوڑئیے)
وسلام
جلد ہی حاضر ہوتی ہوں

وارث صاحب انتہائی لطیف پیرائے میں تخلص کے استعال کے متعلق بیان فرما ہی چکے ہیں لیکن چونکہ ہم ان کے دستِ محبت پر بیعت ہیں لہٰذا "تائیداً" کچھ عرض کرنا نہ صرف اپنے لیے باعثِ شرف و عزت جانتے ہیں بلکہ اسے مال و دولت میں اضافے کا تعویذ بھی مانتے ہیں۔

شاعری میں ایسی کئی صنائع ہیں جن کا استعمال شعر کو خوبصورت بنا دیتا اور قاری کے دل و دماغ کو معانی کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت بھی لطف دیتی ہے۔ شاعر انہی صنائع کو اگر "بر محل" اور "تکنیک" کے ساتھ استعمال کرے تو اس کا شعر گراں مایہ کہلاتا ہے جب کہ اس کے بر عکس ان کا بھونڈا استعمال شعر کو پستی میں گرا دیتا ہے۔
محمود مغل صاحب اور جیہ صاحبہ کی ادبی بحث بھی اسی قسم کی ایک صنعت کے متعلق ہے اور یہی قاعدہ اس پر لاگو ہوتا ہے کہ بر محل اور عمدگی کے ساتھ تخلص کو بطور صفت، اسم یا فعل برتنا اعلیٰ پائے کے شعرا کا خاصہ رہا ہے لیکن بہرحال اس شعر سے یہ واضح ہوتا ہو کہ تخلص کا یہ استعمال کسباً ہے۔ جیسا کہ وارث صاحب نے چند شعرا کے نام بھی لیے ان میں کئی اور ناموں کے ساتھ ایک نام خمارؔ بارہ بنکوی کا بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
میرؔ کے درج ذیل شعر کی تشریح میں بھی کئی شارحین کا اتفاق ہے کہ اس میں میرؔ صاحب نے تخلص کو بطور اسم، بمعنی بادشاہ استعمال کیا ہے۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے​
اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
ماشاء اللہ

میں نے تو ابھی دیکھا ہے اس کو۔۔
وارث سے میں متفق ہوں۔ لیکن اس کی وضاحت میں یہ کہوں گا کہ تخلص محض نام کے طور پر آئے، محض تقطیع کے لئے تو وہ بھی معیوب نہیں، جائز تو ہے لیکن حسن بھی نہیں۔
بجا ارشاد
 

طالوت

محفلین
قبلہ :
ادیب کا عشق محض محفل آرائی اور تفریح طبع نہیں ، شکریہ

حضور چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ جو موضوع تھا اس کی مناسبت سے ہی عرض کیا تھا ۔ رہا ادیب کا عشق تو وہ کیا ہے اسے جانے دیجئے مجھے ان معاملات سے دلچسپی نہیں ورنہ ادب ، ادیب اور ان کے درمیانی عشق کی بہت سی باتیں ہیں جو ناگواری کا سبب بن سکتی ہین ۔
وسلام
 

جیہ

لائبریرین
تو لیجے تخلص ہی کے بارے میں ایک لطیفہ

مشہور مزاح گو شاعر احمق پھپھوندوی ایک مشاعرے میں بلائے گئے جس میں بہت سے شاعر ان کے ناپسندیدہ تھے ۔ انہوں نے اپنے تخلص کا سہارا لے کر ان پر یہ چوٹ کی۔

ادب نوازئیِ اہلِ ادب کا کیا کہنا
مشاعروں میں اب احمق بلائے جاتے ہیں
 

جیہ

لائبریرین
برسات کا موسم تھا۔ یونیورسٹی میں چاروں طرف گھاس اگ آئی تھی۔ گھسیارے گھاس کاٹنے میں جتے ہوئے تھے۔
ممتاز شاعر پروفیسر مجنون گورکھپوری کی کلاس جاری تھی۔ ایک گھسیارن کلاس کے سامنے والے برآمدے سے گزری۔ طلبا کی نظریں لا محالہ اس کی طرف اٹھیں۔ مجنون نے بھی اس جانب دیکھا اور بے ساختہ بولے:

"یہ کون ہے؟"

ایک گوشے سے آواز آئی۔۔۔۔۔ " لیلٰی گورکھپوری"

یہ سننا تھا کہ سارے کلاس میں قہقہے گونجنے لگے۔
 

میر انیس

لائبریرین
تو لیجے تخلص ہی کے بارے میں ایک لطیفہ

مشہور مزاح گو شاعر احمق پھپھوندوی ایک مشاعرے میں بلائے گئے جس میں بہت سے شاعر ان کے ناپسندیدہ تھے ۔ انہوں نے اپنے تخلص کا سہارا لے کر ان پر یہ چوٹ کی۔

ادب نوازئیِ اہلِ ادب کا کیا کہنا
مشاعروں میں اب احمق بلائے جاتے ہیں

واہ بہت زبردست ۔دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر بھی چوٹ ہوگئی
 

جیہ

لائبریرین
حفیظ جالندھری سر عبد القادر کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سنا رہے تھے۔ جلسے کے اختتام پر منتظم جلسہ نے بتایا کہ 300روپیہ جمع ہوئے۔

حفیظ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میری نظم کا اعجاز ہے۔

"لیکن حضور!" منتظم نے متانت سے کہا ، "200 روپیہ ایک ایسے شخص نے دئے ہیں جو بہرا تھا۔"
 

جیہ

لائبریرین
مشہور شاعر محسن احسان علیل تھے۔ احمد فراز عیادت کے لئے گئے۔ دیکھا کہ محسن احسان کے بستر پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ چادر بھی میلی تھی۔ احمد فراز نے صورت حال دیکھ کر مسکراتے ہوے محسن سے کہا

یار اگر بیوی بدل نہیں سکتے تو کم از کم بستر ہی بدل دیجئے
 

جیہ

لائبریرین
مشتاق احمد یوسفی نے کسی کی آپ بیتی احمد فراز کو بذریعہ ڈاک بیجھی۔ ساتھ میں ایک سطری رقعہ لکھا۔

"مطلوبہ آب پیتی ارسال خدمت ہے۔ سنائیں آپ اپنی "پاپ بیتی" کب لکھ رہے ہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ریل میں سفر کر رہے تھے ۔ دورانِ سفر ٹکٹ چیکر نے ان سے ٹکٹ مانگا تو بیدی صاحب نے اپنی جیبیں ٹٹولیں مگر ٹکٹ کا پتا نہیں تھا ۔
ٹکٹ چیکر بیدی صاحب کو پہچانتا تھا ۔ کہنے لگا " مجھے آپ پر بھروسہ ہے ، آپ نے یقیناً ٹکٹ خریدا ہوگا ۔"
بیدی صاحب پریشانی سے بولے " بھائی ! بات آپ کے بھروسے کی نہیں ، مسئلہ تو سفر کا ہے ۔ اگر ٹکٹ نہ ملا تو یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ مجھے اُترنا کہاں ہے ۔ ؟ "
 

جیہ

لائبریرین
پشتو کے مشہور ادیب پریشان خٹک مرحوم کو ایک سیمینار کے سلسلے میں کراچی جانا تھا۔ منتظمین نے انہیں لینے کے لئے ائر پورٹ گاڑی بھیجی تھی جس کا ڈرائیور ایک ان پڑھ پٹھان تھا۔ وہ ایک تختی، جس پر پریشان خٹک کا نام لکھا تھا، اٹھائے جہاز کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ شومئی قسمت سے جہاز لیٹ ہو گیا۔ جہاز آنے کے بعد جب پریشان خٹک جہاز سے اتر کر باہر آئے تو دیکھا ایک شخص ان کے نام کی تختی اٹھائے کھڑا ہے۔ وہ سیدھا اس کے پاس گئے اور بطور تعارف کہا: "میں پریشان ہوں"

ڈرائیور نے انہیں غصے میں دیکھا اور کہا" زہ مڑہ! ہم تم سے زیادہ پریشان ہے"
 
Top