چند ادبی لطیفے

مغزل

محفلین
آخری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ بچپن میں ہم بھی خوبصورت ہوا کرتے تھے تو میری پرنانی جنہیں ہم " آبئی " کہتے تھے ۔ وہ مجھے " خکلے باچا " کہا کرتیں تھیں ۔ :cool:

ظفری بھائی ، معاف کرنا یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ، بڑی بوڑھیاں عموماً بچوں سے جھوٹ بول کر بہلاتی ہیں ، ہاہا ا :rollingonthefloor: :rollingonthefloor:
 

طالوت

محفلین
جویریہ کہیں سچ مچ ناراض تو نہیں ہوگئی ۔ :praying:
یہ سچ مچ ناراض اس وقت تک رہتی ہیں جب تک ان کے ہاتھ میں دوسرے کا کان نہ ہو :nailbiting:
یہ ادبی لطیفے سنائے جا رہے ہیں یا ادب کی گت بنائی جا رہی ہے۔

'گُت" (پنجابی) یا درگت (اردو) :confused:
وسلام
 

ساجد

محفلین
ہا ں بھئی! کیوں نہیں ہوتے بے ادب لطیفے؟ یہ سانتا بانتا (سردار جی) کے لطیفے کیا ہیں بھلا؟ اور پھر اب کچھ لطیفے تو سرکاری طور پہ "بے ادب" ٹھہرا دئیے گئے ہیں۔ اب تو موبائل کا ان باکس خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ بس ٹی وی اور اخباروں پہ انہی مسخروں کے لطیفوں پہ گزارا ہے جو گزشتہ 62 برس سے عوام کا "منورنجن" کر رہے ہیں۔:)۔
ایسے وقت میں آپ کے ارسال کردہ لطائف نے شگفتگی کا احساس دلا دیا۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک مشاعرے کی نظامت کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کر رہے تھے۔ جب فنا نظامی کی باری آئی تو مہندر سنگھ نے کہا کہ حضرات اب میں ملک کے چوٹی کے شاعر حضرت فنا نظامی کو زحمت کلام دے رہا یہوں۔ فنا صاحب مائک پر آئے سحر کی پگڑی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے: حضور چوٹی کے شاعر تو آپ ہیں میں تو داڑھی کا شاعر ہوں۔
تشکر: علی گڑھ اردو کلب
 

الف عین

لائبریرین
بے خود دہلوی کافی بد مزاج تھے لیکن چونکہ حضرت داغ کے جا نشین تھے اس لئے سب ہی بہت احترام کرتے تھے۔ ایک بار کسی مجلس میں پہنچے تو ایک نوجوان اپنی غزل سنا رہا تھا ، بے خود کی آمد پر احتراما” سب کھڑے ہو گئے اور انہیں صدر میں نشست دی۔ انہوں نے پوچھا بھئی کیا ہو رہا تھا ، لوگوں نے نوجوان کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ سائل صاحب کے فر زند ہیں، غزل سنا رہے تھے۔ بے خود بولے بھئ وہ تو میرا خواجہ تاش ہے اس اعتبار سے تم میرے بھتیجے ہوئے اس لئے ہم بھی تمہاری غزل سنہیں گے، ہاں میاں سناؤ۔ ۔ ۔ ۔
سائل کے بیٹے نے انتہائی ادب کے ساتھ غزل سنانی شروع کی جو بے خود نے غور سے سنی۔ مقطع سن کے پوچھا میاں کس سے اصلاح لیتے ہو۔ لڑکے نے کہا : اپنے بابا جان سے۔ بے خود بولے : مجھ سے اصلاح لیا کرو اور اچھا کہنے لگو گے۔ سائل کے بیٹے خاموش رہے۔ محفل بر خاست ہو گئی۔ گھر جا کر بیٹے نے باپ کو یہ واقعہ سنایا تو سائل خاموش رہے۔ اگلے دن سائل نے بیٹے سے کہا تیار ہو جاؤ اور میرے ساتھ چلو، راستے سے سیر بھر مٹھائی خریدی اور بے خود کے گھر پہنچے۔ اطلاع کروائی کہ سائل آیا ہے۔ کچھ دیر میں بے خود بیٹھک میں آئے اور سائل کے ساتھ ان کے بیٹے کو دیکھ کر گویا ہوئے۔ بھئی سائل تمہارا بیٹا اچھاکہتا ہے۔ سائل نے کہا : اسی لئے تو لایا ہوں کہ اور اچھا کہنے لگے۔ اور بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر بے خود کے ہاتھ میں دے دیا اور سامنے مٹھائی رکھتے ہوئے بولے : منہ میٹھا کر لو۔


تشکر: علی گڑھ اردو کلب
 

الف عین

لائبریرین
بےخود دہلوی اور سائل دہلوی دونوں داغ کے ارشد تلامذہ میں تھے. دونوں میں باہمی معاصرانہ چشمک بھی تھی. سائل کو شاگردی کے علاوہ داغ کی دامادی کا شرف اور اس کا احساس بھی تھا.تو اپنی زبان کے اور خود اپنے مستند سے بھی کچھ بلند ہونے کے بارے میں فرمایا کہ وہ "جناب داغ کے داماد ہیں اور دلّی والے ہیں". اس کے بعد اور کس سند کی ضرورت رہی.

بے خود اور سائل کسی مشاعرہ میں یکجا نہیں ہوتے تھے، کیونکہ مسئلہ یہ ہوتا کہ سب سے آخر میں کون پڑھے. دونوں ہی استاد تھے اور ایک سے مرتبہ کے تھے. اس لئے منتظمین مشاعرہ کو پریشانی سے دور رکھنے کے لئے دونوں میں سے کوئی ایک ہی مشاعرہ میں آتا تھا. ایک بار کچھ لوگوں کو شرارت سوجھی، اور دونوں کو بتائے بغیر ایک ساتھ مشاعرہ میں بلا لیا. دونوں نے بزم میں ایک دوسرے کو دیکھا ، مگر پلٹ کر کوئی نہ گیا. خاموشی سے آکر مسند پر بیٹھ گئے.دوران مشاعرہ باہم کلام بھی نہ کیا. تمام شاعر پڑھ چکے تو ناظم مشاعرہ بھی خاموش ہو بیٹھے. مجمع منتظر کہ دیکھیں کیا گل کھلتا ہے. چند لمحہ سناٹے کے بعد بے خود نے شیروانی کی جیب سے ایک پرزہ نکالا جس پر ان کی تازہ غزل تھی.

یہ دیکھ کر کہ بے خود ان سے پہلے پڑھنے پر آمادہ ہیں، سائل نے کہا

ہائیں، ہائیں، یہ کیا بد تمیزی ہے؟

بے خود نے یہ سن کہ پرزہ جیب میں واپس رکھتے ہوئے سائل کو جواب دیا:

تو یہ بد تمیزی تم کر لو!

اور یوں مشاعرہ بیخود کی غزل پر تمام ہوا.

تشکر: علی گڑھ اردو کلب
 

الف عین

لائبریرین
ایک بار کسی سبب سے ایک نوجوان شاعر کو فراق گورکھپوری کے پڑھنے کے بعد کلام پڑھنے کے لئے بلایا گیا۔ نوجوان پس و پیش میں تھا اور بار بار فراق صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا کہ فراق جیسے سینئر شاعر کے بعد کیسے پڑھے۔ فراق صاحب نے نوجواں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے: میاں جب تم میرے بعد پیدا ہو سکتے ہو تو میرے بعد کلام کیوں نہیں سنا سکتے۔۔۔

تشکر: علی گڑھ اردو کلب
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب بابا جانی

سائل و بیخؤد کے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ اگلے زمانے میں لوگ کتنے وضعدار تھے
 

الف عین

لائبریرین
بے خود اور سائل پر ہی ایک اور بات، لطیفہ نہیں، ہاد آ گئی۔
کسی کلاسیکی شاعر سے کہا گیا کہ ایسا مصرع یا شعر کہا جائے جس میں ان دونوں بزرگوں کے نام شامل ہوں اور لگے کہ محض نام نہیں ہیں، الفاظ ہیں۔ ان صاحب نے جو مکمل شعر کہا وہ تو یاد نہیں، ایک مصرع یاد رہ گیا
کوئی سمجھا کہ بے خود ہے، کوئی سمجھا کہ سائل ہے
(پہلا مصرع میں ایسا کچھ تھا کہ پڑا ہوں اس طرح میں یار کے کوچے/در پہ۔۔۔۔)
 
Top