سائل مجھ کو کہتے ہیں شاد میں اس سے ہوتا ہوں
(یہ مصرع یاد نہیں رہا)
دکھیا ہوں ملنگتا ہوں بول نہ ہوگا کیوں بالا
غالب میرے دادا تھے اور میں غالب کا پوتا ہوں
دوسرا مصرع کوئی دوست بتا سکیں تو عنایت ہوگی وارث
یہ ڈائیلاگ تو عدم کے لیے جوش ملیح آبادی نے مارا تھا شایددہلی کے ایک ہند و پاک مشاعرے میں عبد الحمید عدم پنڈت ہری چند اختر کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ گئے اور پوچھنے لگے: " پنڈت جی مجھے پہچانا؟ میں عدم ہوں۔
اختر نے عدم کا موٹا تازہ جسم دیکھتے ہوئے مسکرا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا:
" اگر یہی عدم ہے تو وجود کیا ہوگا۔"
جناب تابش صدیقی صاحب بہت عمدہایک دفعہ مولانا ظفر علی خان کے نام مہاشہ کرشنؔ ، ایڈیٹر ’’پرتاب‘‘ کا ایک دعوت نامہ آیا جس میں لکھا تھا:
’’(فلاں) دن پروشنا (فلاں) سمت بکرمی میرے سُپّتر ویرندر کا مُونڈن سنسکار ہوگا۔ شریمان سے نویدن ہے کہ پدھار کر مجھے اور میرے پریوار پر کرپا کریں‘‘۔ (شُبھ چنتک کرشن)
(فلاں دن میرے بیٹے ویرندر کی سرمنڈائی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تشریف لاکر مجھ پر اور میرے خاندان پر مہربانی کریں)
مولانا نے آواز دی:
’’سالک صاحب! ذرا آیئے گا۔ فرمایا کہ مہربانی کرکے اس دعوت نامے کا جواب میری طرف سے آپ ہی لکھ دیجیے۔ برسات کے دن ہیں، بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ میں کہاں جاؤں گا۔ معذرت کردیجیے‘‘۔
میں نے اسی وقت قلم اٹھایا اور لکھا:
’’جمیل المناقب، عمیم الاحسان معلی الالقاب، مدیرِ پرتاب
السلام علیٰ من التبع الہدیٰ
نامۂ عنبر شمامہ شرفِ صدور لایا۔ ازبسکہ تقاطرِ امطار بحدے ہے کہ مانعِ ایاب و ذہاب ہے۔ لہٰذا میری حاضری متعذّر ہے۔
العُذر عِندَ کِرامِ النَّاسِ مقبول‘‘۔
الرّاجی الی الرحمۃ والغفران
ظفر علی خان
مہاشہ کرشن نے یہ خط پڑھنے کی کوشش کی۔ کچھ پلے پڑنا تو درکنار، وہ پڑھنے میں بھی ناکام رہے۔ آخر مولانا کو دفتر ’’زمیندار‘‘ ٹیلی فون کرکے پوچھا:
’’مولانا! آپ کا خط تو مل گیا، لیکن یہ فرمایئے کہ آپ آسکیں گے یا نہیں؟‘‘
اس پر مولانا ظفر علی خان نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور مہاشہ جی سے کہا کہ:
’’آپ کا خط میں نے ایک پنڈت جی سے پڑھوایا تھا۔ آپ بھی کسی مولوی صاحب کو بلاکر میرا خط پڑھوا لیجیے‘‘۔
(ماخوذ ’’نوادراتِ سخن‘‘ صفحہ 82، 83)
بشکریہ ہفت روزہ فرائیڈے سپیشل
ڈیلس بہتر نہ ہو گا؟
واقعی اس کی اردو کبھی نہیں سنی۔ طوفان تو بہت ہی جنرل ہے۔ٹارنیڈو ( شدیدطوفانِ باد و باراں)
ٹرانسلٹریشن میں یہ مسئلہ تو رہتا ہی ہے ۔ اس سلسلے میں میرا اصول یہ ہے کہ جو انگریزی نام جس املا کے ساتھ اردو میں مستعمل اور معروف ہوگئے ہیں انہیں اسی طرح لکھنا چاہیے کہ اصل مقصد تو ابلاغ ہے ۔ اب ٹیکساس معروف اور مستعمل ہے تو اسے ٹیکسس لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ڈیلس بہتر نہ ہو گا؟
لڑی کے عنوان پر غور کریں*مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ* سے کسی انگریز نے کہا،
انسان داڑھی کے بغیر پیدا ہوا ہے،
اس لئے اُسے داڑھی نہیں رکھنی چاہیے،
مولانا نے برجستہ کہا،
پھر تو انسان دانتوں کے بغیر پیدا ہوا ہے،
*اس کے دانت بھی توڑ دیئے جائیں،*
درست کہا آپ نے 🙏🏻🙏🏻لڑی کے عنوان پر غور کریں