اگر یہ واقعہ سچا ہے تو بہت شرم کی بات ہے . ایسی قوم کو بھلا کون سدھار سکتا ہے جسکے ادیب اور دانشور بھی بد دیانتی اور سفارش جیسی برائیوں میں مبتلا ہوں؟احمد ندیم قاسمی کی ایک عزیزہ نے اردو ایم اے کا امتحان دیا تو پتا چلا کہ اس کے پرچے صوفی غلام مصطفٰے تبسم کے پاس چیک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ قاسمی صاحب سفارش کے لیے اس عزیزہ کو ساتھ لے کر صوفی صاحب کے گھر پہنچے۔ صوفی صاحب دعا سلام کے بعد فوراً ہی اٹھ کر کمرے کے اندر چلے گئے، جب وہ کافی دیر تک باہر تشریف نہ لائے، تو قاسمی صاحب کو صوفی صاحب کے برتاؤ پر بہت افسوس ہوا کہ چائے پوچھی نہ آنے کا مقصد سُنا اور اٹھ کر چلے گئے۔ اتنے میں صوفی صاحب ایک پرچہ ہاتھ میں لیے باہر آئے اور اسے قاسمی کو دیتے ہوئے پوچھا کہ فرمائیے، اس میں کتنے نمبر دے دوں؟ قاسمی صاحب اس پر بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں اس کام کے سلسلے میں آیا ہوں۔ اس پر صوفی صاحب بولے "بھئی کل ۳۲ پرچے میرے پاس آئے تھے، اور ۳۱ اصحاب اس سے پہلے میرے پاس سفارش کے لیے آ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ اس آخری پرچے کے سلسلے میں آئے ہوں گے۔"
ایک سے بڑھ کر ایک
ہری چند اختر جوش صاحب سے ملنے گئے، جاتے ہی پوچھا، “جناب! آپ کے مزاج کیسے ہیں؟“
جوش صاحب نے فرمایا، “آپ تو غلط اردو بولتے ہیں، یہ آپ نے کیسے کہا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں، جب کہ میرا تو ایک مزاج ہے نا کہ بہت سے مزاج۔“
کچھ دن بعد اختر کی پھر جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے فرمایا، “ابھی ابھی جگن ناتھ آزاد صاحب کے والد تشریف لائے تھے۔“
اس پر اختر صاحب نے فرمایا، “کتنے؟“
اگر یہ واقعہ سچا ہے تو بہت شرم کی بات ہے . ایسی قوم کو بھلا کون سدھار سکتا ہے جسکے ادیب اور دانشور بھی بد دیانتی اور سفارش جیسی برائیوں میں مبتلا ہوں؟
احمد ندیم قاسمی والا "لطیفہ" بجائے لطیفے کے ایک المناک واقعہ معلوم ہورہا ہے۔
شمشاد بھائی یہ واقعہ کہاں سے لیا گیا ہے ؟