بہت خُوب ۔۔باجرا تو نہیں رکھا کبھی لیکن روٹی کے چھوٹے چھوٹے پیسیس کر کے جہاں پرندے آتے ہیں وہاں ڈالتی ہوں ۔۔اور پانی تو رکھتی ہوں میں مٹی کے برتن میں
جی نیلی آپی پتہ ہے گرمیوں میں جب گرمی زیادہ ہو جاتی ہے تو ایک برتن میں نے دیوار پر بھی رکھا ہے پانی کے لیے اور ٹیرس پر بھی اورمزے کی بات ہے کہ پرندے وہاں بہت رونق لگاتے ہیں ا کر اور ویٹ بھی کرتے ہیں پانی کابہت خُوب ۔۔
جی ضرور۔۔آج اور کل تو بارش ہے ،،پرسوں بناؤں گی تصویراس وقت کے مناظر کی تصاویر بھی بھجیں سب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
شکریہجی ضرور۔۔آج اور کل تو بارش ہے ،،پرسوں بناؤں گی تصویر
کوئی انعام شنام بھی ملے گا تصاویر پر یا ایسے ہی محنت کروا رہے ہیں۔اس وقت کے مناظر کی تصاویر بھی بھجیں سب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
سبحان اللہ کیا عمدہ سوچ ہے بابا صاحبا کینیلم کی اس تحریر اور دیگر پوسٹیں پڑھ کر مجھے اشفاق احمد صاحب کا ان کی کتاب زاویہ ۲ میں شامل کیا گیا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جو امید ہے بیشتر احباب نےکی نظر سے گذرا ہوگا، لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا، ان کے پڑھنے کے لئے یہاں پر شئیر کر رہا ہوں: آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹو گراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹو گراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دُنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں ان پر دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑ ہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کاہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفےآباد للیانی سے لگوایا ہے۔میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے۔ اس نے گھر میں پروندوں کے Automatically دانہ کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں دانے ایک ایک کرکے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کرکھاتے رہتے ہیں۔ ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے تھے جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو ، یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانہ ہے۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا آپ کو یہ دانے کس مقصد کے لئے چاہئیں تو میرے بیٹے نے اس کو بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے۔ اس پر اس دکاندار نے کہا آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے۔ اس نے کہا، بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں اور اس رہنمائی کے لئے میں آپ کا عمر بھر شکرگزار رہوں گا۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو وہ نہ ملا۔ جیبوں، گاڑی، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا۔ تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے اٹھا کر واپس دکاندار کے پاس گیا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول آیا ہوں۔ اس دکاندار نے کہا، صاحب آپ کمال کرتے ہیں آپ لے جائیں ، پیسے آ جائیں گے۔ میرے بیٹے نے کہا، "آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں"۔ وہ دکاندار بولا "میں تو آپ کو جانتا ہوں"۔" وہ کیسے؟" میرے بیٹے نے کہا، دکاندار گویا ہوا "صاحب جو شخص پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہوسکتا۔ "میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بُک نکالی اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں۔اللہ تعالے آپ کو آسانیان دے اور ان لوگوں کی طرح، جن کے میرے پاس آٹو گراف موجود ہیں ، آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔_________زاویہ ۲ از اشفاق احمد
سبحان اللہ!نیلم کی اس تحریر اور دیگر پوسٹیں پڑھ کر مجھے اشفاق احمد صاحب کا ان کی کتاب زاویہ ۲ میں شامل کیا گیا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جو امید ہے بیشتر احباب نےکی نظر سے گذرا ہوگا، لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا، ان کے پڑھنے کے لئے یہاں پر شئیر کر رہا ہوں: آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹو گراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹو گراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دُنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں ان پر دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑ ہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کاہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفےآباد للیانی سے لگوایا ہے۔میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے۔ اس نے گھر میں پروندوں کے Automatically دانہ کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں دانے ایک ایک کرکے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کرکھاتے رہتے ہیں۔ ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے تھے جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو ، یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانہ ہے۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا آپ کو یہ دانے کس مقصد کے لئے چاہئیں تو میرے بیٹے نے اس کو بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے۔ اس پر اس دکاندار نے کہا آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے۔ اس نے کہا، بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں اور اس رہنمائی کے لئے میں آپ کا عمر بھر شکرگزار رہوں گا۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو وہ نہ ملا۔ جیبوں، گاڑی، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا۔ تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے اٹھا کر واپس دکاندار کے پاس گیا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول آیا ہوں۔ اس دکاندار نے کہا، صاحب آپ کمال کرتے ہیں آپ لے جائیں ، پیسے آ جائیں گے۔ میرے بیٹے نے کہا، "آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں"۔ وہ دکاندار بولا "میں تو آپ کو جانتا ہوں"۔" وہ کیسے؟" میرے بیٹے نے کہا، دکاندار گویا ہوا "صاحب جو شخص پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہوسکتا۔ "میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بُک نکالی اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں۔اللہ تعالے آپ کو آسانیان دے اور ان لوگوں کی طرح، جن کے میرے پاس آٹو گراف موجود ہیں ، آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔_________زاویہ ۲ از اشفاق احمد
اس وقت کے مناظر کی تصاویر بھی بھجیں سب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔