چڑیوں کا باجرا

عینی شاہ

محفلین
باجرا تو نہیں رکھا کبھی لیکن روٹی کے چھوٹے چھوٹے پیسیس کر کے جہاں پرندے آتے ہیں وہاں ڈالتی ہوں ۔۔اور پانی تو رکھتی ہوں میں مٹی کے برتن میں :)
 

عینی شاہ

محفلین
جی نیلی آپی پتہ ہے گرمیوں میں جب گرمی زیادہ ہو جاتی ہے تو ایک برتن میں نے دیوار پر بھی رکھا ہے پانی کے لیے اور ٹیرس پر بھی اورمزے کی بات ہے کہ پرندے وہاں بہت رونق لگاتے ہیں ا کر اور ویٹ بھی کرتے ہیں پانی کا :)
 

نیلم

محفلین
بالکل ایسا ہی ہوتا ہے ،،روزانہ چڑیاں میرا بھی انتظار کرتی ہیں ۔ہماری چھت کے پاس بجلی کی تاریں ہیں وہاں بیٹھ کے:)
میں بہت سارا باجرہ ڈالتی ہوں روزانہ سارا فنش ہوجاتا۔۔:)لیکن میرے سامنے نہیں کھاتیں میں ہٹتی ہوں تب کھاتی ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
نیلم کی اس تحریر اور دیگر پوسٹیں پڑھ کر مجھے اشفاق احمد صاحب کا ان کی کتاب زاویہ ۲ میں شامل کیا گیا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جو امید ہے بیشتر احباب نےکی نظر سے گذرا ہوگا، لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا، ان کے پڑھنے کے لئے یہاں پر شئیر کر رہا ہوں:
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹو گراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹو گراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دُنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں ان پر دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑ ہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کاہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفےآباد للیانی سے لگوایا ہے۔میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے۔ اس نے گھر میں پروندوں کے Automatically دانہ کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں دانے ایک ایک کرکے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کرکھاتے رہتے ہیں۔ ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے تھے جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو ، یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانہ ہے۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا آپ کو یہ دانے کس مقصد کے لئے چاہئیں تو میرے بیٹے نے اس کو بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے۔ اس پر اس دکاندار نے کہا آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے۔ اس نے کہا، بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں اور اس رہنمائی کے لئے میں آپ کا عمر بھر شکرگزار رہوں گا۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو وہ نہ ملا۔ جیبوں، گاڑی، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا۔ تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے اٹھا کر واپس دکاندار کے پاس گیا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول آیا ہوں۔ اس دکاندار نے کہا، صاحب آپ کمال کرتے ہیں آپ لے جائیں ، پیسے آ جائیں گے۔ میرے بیٹے نے کہا، "آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں"۔ وہ دکاندار بولا "میں تو آپ کو جانتا ہوں"۔" وہ کیسے؟" میرے بیٹے نے کہا، دکاندار گویا ہوا "صاحب جو شخص پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہوسکتا۔ "
میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بُک نکالی اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں۔
اللہ تعالے آپ کو آسانیان دے اور ان لوگوں کی طرح، جن کے میرے پاس آٹو گراف موجود ہیں ، آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
_________زاویہ ۲ از اشفاق احمد
 

نایاب

لائبریرین
محترم تلمیذ بھائی
بہت خوب شراکت
بلا شک جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی رضا کے لیئے مخلوق کی خدمت کرتے ہیں وہ " بے ایمان " ہو ہی نہیں سکتے ۔
 
عزیزہ نیلم ! بھئی، اپنا تو ایک طریقہ کہہ لیجئے، عادت کہہ لیجئے بنی ہوئی ہے، اور اس میں سب گھر والے (میں، میری بیوی، بچے اور اب ان کے بچے) شامل ہیں۔

جب سرکاری گھر میں رہتے تھے تب بھی اور اب اپنی جھونپڑی بنا لی ہے تب بھی۔ برامدے میں دو تین ہنڈیاں ٹنگی ہیں مہینے دو مہینے بعد ان کو اناج سے بھر دیتے ہیں۔ کبھی موڈ ہوا تو چھت پر بھی کچھ نہ کچھ بکھیر دیا۔ صحن میں پودوں کے ’’اوہلے‘‘ میں ایک دو ’’کنالیوں‘‘ میں پانی رکھا ہے دوسرے چوتھے روز پانی بدل دیتے ہیں۔ مرغیوں کے لئے سوکھی روٹیاں دھوپ میں رکھی ہوتی ہیں۔ کوے، ’’لاہلیاں‘‘، اور پتہ نہیں کس کس قسم کی چڑیاں، جس کا جب ’’موڈ‘‘ ہو آتی ہیں، کھاتی ہیں، پیتی ہیں، چلی جاتی ہیں۔

یہی معصوم تو ہیں جن سے مجھے کوئی لالچ نہیں نہ کوئی ڈر ہے۔ ڈر تو یہ لگتا ہے کہ: کون جانے کس کو کس کے صدقے رزق دیا جا رہا ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ جب زکٰوۃ روک لی جائے گی تو رزق تنگ کر دیا جائے گا، اور انسان کو چرند پرند کے رزق کے حصے سے ملا کرے گا۔
 
نیلم کی اس تحریر اور دیگر پوسٹیں پڑھ کر مجھے اشفاق احمد صاحب کا ان کی کتاب زاویہ ۲ میں شامل کیا گیا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جو امید ہے بیشتر احباب نےکی نظر سے گذرا ہوگا، لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا، ان کے پڑھنے کے لئے یہاں پر شئیر کر رہا ہوں:
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹو گراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹو گراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دُنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں ان پر دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑ ہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کاہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفےآباد للیانی سے لگوایا ہے۔میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے۔ اس نے گھر میں پروندوں کے Automatically دانہ کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں دانے ایک ایک کرکے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کرکھاتے رہتے ہیں۔ ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے تھے جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو ، یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانہ ہے۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا آپ کو یہ دانے کس مقصد کے لئے چاہئیں تو میرے بیٹے نے اس کو بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے۔ اس پر اس دکاندار نے کہا آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے۔ اس نے کہا، بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں اور اس رہنمائی کے لئے میں آپ کا عمر بھر شکرگزار رہوں گا۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو وہ نہ ملا۔ جیبوں، گاڑی، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا۔ تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے اٹھا کر واپس دکاندار کے پاس گیا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول آیا ہوں۔ اس دکاندار نے کہا، صاحب آپ کمال کرتے ہیں آپ لے جائیں ، پیسے آ جائیں گے۔ میرے بیٹے نے کہا، "آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں"۔ وہ دکاندار بولا "میں تو آپ کو جانتا ہوں"۔" وہ کیسے؟" میرے بیٹے نے کہا، دکاندار گویا ہوا "صاحب جو شخص پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہوسکتا۔ "
میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بُک نکالی اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں۔
اللہ تعالے آپ کو آسانیان دے اور ان لوگوں کی طرح، جن کے میرے پاس آٹو گراف موجود ہیں ، آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
_________زاویہ ۲ از اشفاق احمد
سبحان اللہ کیا عمدہ سوچ ہے بابا صاحبا کی

ویسے یہ مصطفیٰ آباد (للیانی ) ہمارا قریبی شہر ہے اور ہم لوگ اکثر سامان وغیرہ خریدنے وہاں جاتے ہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
باجرہ تو نانی اماں کی طرف ہی ڈالنے کا موقع ملتا ہے لیکن اپنے گھر میں تو روٹی کے چھوٹے چھوٹے تکڑے کر کے جہاں پرندے آتے ہیں، وہاں ڈال دیتے ہیں اور ساتھ میں پانی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نیلم کی اس تحریر اور دیگر پوسٹیں پڑھ کر مجھے اشفاق احمد صاحب کا ان کی کتاب زاویہ ۲ میں شامل کیا گیا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جو امید ہے بیشتر احباب نےکی نظر سے گذرا ہوگا، لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا، ان کے پڑھنے کے لئے یہاں پر شئیر کر رہا ہوں:
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹو گراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹو گراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دُنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں ان پر دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑ ہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کاہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفےآباد للیانی سے لگوایا ہے۔میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے۔ اس نے گھر میں پروندوں کے Automatically دانہ کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں دانے ایک ایک کرکے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کرکھاتے رہتے ہیں۔ ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے تھے جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو ، یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانہ ہے۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا آپ کو یہ دانے کس مقصد کے لئے چاہئیں تو میرے بیٹے نے اس کو بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے۔ اس پر اس دکاندار نے کہا آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے۔ اس نے کہا، بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں اور اس رہنمائی کے لئے میں آپ کا عمر بھر شکرگزار رہوں گا۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو وہ نہ ملا۔ جیبوں، گاڑی، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا۔ تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے اٹھا کر واپس دکاندار کے پاس گیا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول آیا ہوں۔ اس دکاندار نے کہا، صاحب آپ کمال کرتے ہیں آپ لے جائیں ، پیسے آ جائیں گے۔ میرے بیٹے نے کہا، "آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں"۔ وہ دکاندار بولا "میں تو آپ کو جانتا ہوں"۔" وہ کیسے؟" میرے بیٹے نے کہا، دکاندار گویا ہوا "صاحب جو شخص پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہوسکتا۔ "
میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بُک نکالی اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں۔
اللہ تعالے آپ کو آسانیان دے اور ان لوگوں کی طرح، جن کے میرے پاس آٹو گراف موجود ہیں ، آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
_________زاویہ ۲ از اشفاق احمد
سبحان اللہ!
کیا خوبصورت سچ ہے اشفاق احمد کی۔
شکریہ
 

نیلم

محفلین
اس وقت کے مناظر کی تصاویر بھی بھجیں سب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
image-1_zps5bbb7d76.jpg

یہ تصویر میں نے چڑیوں سے چُھپ کے بنائی ہے مجھے دیکھتے ہی اُڑ جاتی ہیں 5،6 تھی اُس باقی اُڑگئی تھیں :)
ہمارے گھر کی چھت ہے یہ
 
Top