چینی بحران کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش، جہانگیر ترین کے ملوث ہونے کا انکشاف

جاسم محمد

محفلین
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں عوام کے ووٹوں نے عظیم بنادیا۔ باجوہ صاحب کے سیلیکشن نے نہیں۔
1970 کا الیکشن بھٹو نے نہیں شیخ مجیب الرحمان نے جیتا تھا۔ بھٹو اگر اس ووٹ کو عزت دینا چاہتا تو خاموشی کے ساتھ ڈھاکہ اسمبلی میں جا کر بیٹھ جاتا۔ اور وہاں سے اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کرتا۔ مگر اسے وزیر اعظم بننے کی جلدی تھی اور یوں اس نے جنرل یحییٰ کے ساتھ مل کر ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا۔ اپنے ساتھی لیڈران سے یہاں تک کہا کہ اگر کوئی اسمبلی میں جا کر بیٹھا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ واقعی ایسے ووٹ کو عزت دینے والے عظیم لیڈر صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔
باقی نواز شریف نے 1985، 1990، 1997 اور 2013 کا الیکشن کس کس جرنیل کے بوٹ پالش کرکے جیتا وہ مجھ سے زیادہ آپ بہتر جانتے ہیں۔
 

آورکزئی

محفلین
جاسم صاحب اپ یہ مانتے ہو یا نہیں کہ نیازی بوگس طریقے سے حکومت میں ایا ہے۔۔ اور وہ اس قابل ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟
 

عباس اعوان

محفلین
جاسم صاحب اپ یہ مانتے ہو یا نہیں کہ نیازی بوگس طریقے سے حکومت میں ایا ہے۔۔ اور وہ اس قابل ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟
عمران خان کو ہم لوگوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعے چُنا ہے۔ ہم چوروں کو دوبارہ اس ملک پر مسلط نہیں ہونے دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ
 
شفاف انکوائری میں وزیر اعظم قانون سے بالاتر نہیں
ویب ڈیسک28 مئ 2020

ویب ڈیسک28 مئ 2020

5ecf863b9f597.png

وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کراچی میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں - فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ چینی پر بنے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے چینی کی برآمدات میں 2 ارب روپے کے فریٹ سپورٹ فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔

کراچی میں وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے سال 2020، 2019 اور 2018 میں کوئی سبسڈی نہیں دی تھی ’ہماری حکومت آخری سبسڈی دسمبر 2017 میں دی گئی تھی اور اس وقت چینی کی قیمت کم ہوئی تھی جبکہ آج اس کی فی کلو قیمت 80 روپے ہوگئی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ نومبر 2019 سے جنوری 2020 تک پاکستان میں چینی کا بحران ہوا جس سے منافع خوروں نے فائدہ اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اس پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ’اس انکوائری رپورٹ کو بنانے میں ایک مرتبہ بھی وزیر اعلیٰ سندھ کو طلب نہیں کیا گیا جبکہ کمیٹی نے 2019 کی قیمتوں کو دیکھا جو ظاہر کرتا ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ کا کوئی عمل دخل نہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں اس رپورٹ کو ان کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کے تحت فرانزک کا حکم دیا گیا جس کے 40 روز تک وزیر اعلیٰ سندھ کو کوئی نوٹس نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ 11 مئی کو مراد علی شاہ کو نوٹس ملا جس پر انہوں نے کمیٹی کے سامنے نہ جانے کا فیصلہ کیا اور دو مرتبہ ملنے والے نوٹسز پر دونوں مرتبہ جواب دیا کہ یہ آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ درآمد اور برآمد کا اختیار صرف وفاق کے پاس ہے، ای سی سی نے دس لاکھ ٹن چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) میں چینی برآمد کرنے کے لیے سمری پیش کرنے کی منظوری دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ برآمد کاروں کو کوئی روایت نہیں دی جائے گی۔

بعد ازاں انہوں نے بتایا کہ 3 دسمبر 2018 کو وزارت تجارت و کامرس نے ایک اور سمری بھیجی جس میں کہا گیا کہ دس لاکھ ٹن کو بڑھا کر گیارہ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے اور فنانس ڈویژن 2 ارب روپے فریٹ سپورٹ کے جاری کرے اور اس میں لچک کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس سمری کو رزاق داؤد نے منظور کیا جس کے بعد وزیر اعظم اور وزیر تجارت نے بھی اس کی منظوری دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس کو بنیاد بناتے ہوئے ای سی سی نے فریٹ سپورٹ کے 2 ارب روپے جاری کیے تھے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اس ہی کی بنیاد پر اپنے صوبے میں سبسڈی دی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق شوگر ایڈوائزری بورڈ نے قیمتوں میں اضافے کی نشاندہی کی مگر اس پر وفاق کی جانب سے کچھ نہیں کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان کے پاس اتنے شواہد ہیں کہ چینی کی برآمدات قیمتوں میں اضافے کی وجہ بنی، جب ان کے پاس اس کے شواہد تھے تو انہوں نے وزیر اعظم کو خط کیوں نہیں لکھا، انہیں اس معاملے پر طلب کیوں نہیں کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’شفاف انکوائری میں وزیر اعظم قانون سے بالاتر نہیں، انہیں مدعو کرکے ان سے سوال جواب کرنے چاہیے تھے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان سب چیزوں سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے اور شفاف تحقیقات کے لیے وزیر اعظم عمران خان سے بھی سوال و جواب ہونے چاہیے‘۔


اس موقع پر سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت نے سبسڈی عام کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے دی تھی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چینی کی عالمی قیمت کم ہونے اور بر آمد نہ ہونے پر سبسڈی دی جاتی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’آج فرشتوں کی حکومت میں چینی اتنی مہنگی کیوں ہے‘۔

چینی بحران رپورٹ
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔

بعد ازاں 5 اپریل کو وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 25 اپریل کو اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

تاہم فرانزیک رپورٹ میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر اسے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے عوام کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔

رپورٹ کے سامنے آنے پر اپوزیشن نے اسے مسترد کردیا تھا جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں چینی پر ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی پر مقدمات درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
 

آورکزئی

محفلین
عمران خان کو ہم لوگوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعے چُنا ہے۔ ہم چوروں کو دوبارہ اس ملک پر مسلط نہیں ہونے دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ

ہوسکتا ہے اپ کے ایک ادھ ووٹ پڑے ہوں۔۔۔ لیکن نیازی اپکے ووٹ سے نہیں آگیا۔۔۔ اور ہم ان شاءاللہ اس چوروں کے سردار کو ملک پر مزید بوجھ نہیں پڑنے دیں گے
 

جاسم محمد

محفلین
ہوسکتا ہے اپ کے ایک ادھ ووٹ پڑے ہوں۔۔۔ لیکن نیازی اپکے ووٹ سے نہیں آگیا۔۔۔ اور ہم ان شاءاللہ اس چوروں کے سردار کو ملک پر مزید بوجھ نہیں پڑنے دیں گے
اگرآپ کے اس مفروضے کو سچ مان لیں کہ نیازی ووٹ کی بجائے بوٹ سے آیا ہے تو اگلے الیکشن میں آپ کے ووٹ سے کیسے ہٹے گا؟ آپ کو بہرحال بوٹ والوں کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گا جس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے :)
 

آورکزئی

محفلین
اگرآپ کے اس مفروضے کو سچ مان لیں کہ نیازی ووٹ کی بجائے بوٹ سے آیا ہے تو اگلے الیکشن میں آپ کے ووٹ سے کیسے ہٹے گا؟ آپ کو بہرحال بوٹ والوں کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گا جس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے :)

پھر وہ دعوے تبدیلی کے ؟؟ سب گول مال ہے جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آورکزئی

محفلین
اگرآپ کے اس مفروضے کو سچ مان لیں کہ نیازی ووٹ کی بجائے بوٹ سے آیا ہے تو اگلے الیکشن میں آپ کے ووٹ سے کیسے ہٹے گا؟ آپ کو بہرحال بوٹ والوں کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گا جس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے :)

مفروضہ ؟؟ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ بوٹ کو ہم نے اگر ساتھ ملانا ہوتا تو بات کب کی بن جاتی۔۔۔ لیکن نااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان کا کہنا تھا کہ ’چینی کی عالمی قیمت کم ہونے اور بر آمد نہ ہونے پر سبسڈی دی جاتی ہے‘۔
یہ کونسی معاشی سائنس ہے؟ اگر پاکستان میں چینی کی قیمت عالمی مارکیٹ سے زیادہ ہے تو یہ باہر بر آمد نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں شوگر ملز مالکان کو ہر صورت یہ مہنگی چینی اپنا نقصان کرکے عوام کو سستے داموں بیچنی پڑے گی۔ جب تک کہ چینی کی قیمت گر کر عالمی سطح پر نہیں پہنچ جاتی ۔ مگر پاکستان میں موجود طاقتور شوگر مافیا یہ رسک اٹھانا نہیں چاہتا۔ یوں اپنا سارا نقصان سرکار سے سبسڈی لے کر اور عوام کو مہنگی چینی بیچ کر پورا کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’آج فرشتوں کی حکومت میں چینی اتنی مہنگی کیوں ہے‘۔
رپورٹ کے مطابق آج بھی ایک کلو چینی کی لاگت 40 روپے ہے جو آڑتیوں، سٹہ بازوں، ذخیرہ اندوزوں، ایکسپوٹروں کے ہاتھوں سے گزر کر مارکیٹ میں 80 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مفروضہ ؟؟ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ بوٹ کو ہم نے اگر ساتھ ملانا ہوتا تو بات کب کی بن جاتی۔۔۔ لیکن نااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حکومت صرف بوٹ والوں کو ساتھ ملانے کے بعد ہی گرائی جا سکتی ہے۔ اتنا تو اپوزیشن کو بھی سمجھ میں آگیا ہے۔ آپ کو کیوں سمجھ نہیں آرہا :)
 

آورکزئی

محفلین
یہ حکومت صرف بوٹ والوں کو ساتھ ملانے کے بعد ہی گرائی جا سکتی ہے۔ اتنا تو اپوزیشن کو بھی سمجھ میں آگیا ہے۔ آپ کو کیوں سمجھ نہیں آرہا :)

پھر اس نظام کو ایسے ہی مفلوج رہنے دیں۔۔۔۔ کھانے دیں بوٹ والوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
رپورٹ کے مطابق آج بھی ایک کلو چینی کی لاگت 40 روپے ہے جو آڑتیوں، سٹہ بازوں، ذخیرہ اندوزوں، ایکسپوٹروں کے ہاتھوں سے گزر کر مارکیٹ میں 80 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
ایسی رپورٹیں آپ کے یا وزیرِ خزانہ ہی کے پاس آتی ہیں۔ یا تو یہ نیازی حکومت کے خلاف ایک سازش لگتی ہے کہ ٹماٹر آپ لوگوں کو سترہ روپے کلو ملتے تھے اور مارکیٹ میں دوسو رو روپے کلو ملتے تھے اسی طرح سے چینی آپ کو چالیس روپے کلو ملتے ہے اور ہم عوام تک پہنچتے پہنچتے چھیاسی روپے کلو ہوجاتی ہے۔

کیا پچھلے ادوار میں جس قیمت پر شوگر مل سے نکلتی تھی کلو کریانہ اسٹور پر اسی قیمت پر بکتی تھی۔ یوتھیوں کی پروپیگنڈا کو شیئر کرنے سے گریز کیجیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا پچھلے ادوار میں جس قیمت پر شوگر مل سے نکلتی تھی کلو کریانہ اسٹور پر اسی قیمت پر بکتی تھی۔ یوتھیوں کی پروپیگنڈا کو شیئر کرنے سے گریز کیجیے۔
۲۰۱۰ میں چینی ۱۰۰ روپے کلو سے زائد بکتی رہی ہے جب ڈالر کی قیمت صرف ۸۰ روپے تھی
Sugar price touches Rs 101 per kg | Pakistan Today
 

جاسم محمد

محفلین
ایسی رپورٹیں آپ کے یا وزیرِ خزانہ ہی کے پاس آتی ہیں
یہ انکوائری کمیشن رپورٹ میں ہی درج ہے کہ پاکستان میں فی کلو چینی کی قیمت صرف ۴۰ روپے ہے۔ اس کے باوجود شوگر مافیا پچھلے پانچ سالوں میں ۲۷ ارب روپے کی سبسڈی عوام کیلئے ریلیف کے نام پر لے اڑا
 
۲۰۱۰ میں چینی ۱۰۰ روپے کلو سے زائد بکتی رہی ہے جب ڈالر کی قیمت صرف ۸۰ روپے تھی
بھائی جان آپ کو پچھلے ادوار سے کیا واسطہ اور کیا تعلق۔ آپ تو کنٹینر پر چڑھے بڑے بڑے دعوے کرکے سیلیکٹر کو بھائے تھے۔ کہاں گئی وہ مدینہ کی ریاست قسم دوم۔ اب تو وزیرِ اعظم خود اپنے وزراء کے ساتھ مل کر کرپشن کررہا ہے اور آپ لگے ہیں اسے ڈیفنڈ کرنے کہ پچھلے دور میں بھی یہی کچھ ہوتا تھا۔
 
پچھلے پانچ سالوں میں ۲۷ ارب روپے کی سبسڈی عوام کیلئے ریلیف کے نام پر لے اڑا

الحمدللہ کہ پچھلے دو سالوں میں صادق اور امین وزیرِ اعظم نیازی نے یہ سبسڈی دی، خود بھی کھایا آوروں کو بھی کھلایا۔ ھٰذا من فضل ربی۔
 

سید ذیشان

محفلین
سیدھی سی بات ہے جب بھیڑوں کے رکھولے بھیڑئیے ہونگے تو یہی نتیجہ نکلے گا۔ قانون بنانے والوں کا کام ان صنعتکاروں سے عوام کو تحفظ دینا ہے۔ جب قانون یہی صنعت کار بنائیں گے اور حکومت بھی یہی کریں گے تو یہی کچھ ہوگا جو ہو رہا پے۔
 
Top