ارتقا کی تاریخ اور مساوات
بلال الرشید
کبھی آپ مچھلی اور سمندری حیات سے لے کر ریپٹائلز (رینگنے والے جانور مثلاً سانپ اور مگر مچھ ) میملز (دودھ پلانے والے جانور‘ شیر وغیرہ ) پرائمیٹس (نسبتاً بڑے دماغ والے جانور ) اور گریٹ ایپس (چمپنزی وغیرہ ) کی تاریخِ پیدائش پڑھیں ۔ تاریخِ پیدائش سے مراد یہ کہ وہ پہلی مرتبہ زمین پہ کب نمودار ہوئے ۔ یہ تاریخِ پیدائش پڑھنے سے نظریہ ارتقاآدھے سے زیادہ ویسے ہی سمجھ آجاتا ہے ‘بالکل آسانی کے ساتھ ۔
مچھلی اور سمندر ی حیات 53کروڑ سال قبل سب سے پہلے پیدا ہوئی تھی ۔ ریپٹائلز 31کروڑ سال پہلے‘ یعنی سمندری حیات کے 22کروڑ سال بعد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 22کروڑ سال تک زمین پر زندگی صرف پانی میں تھی اورپھر ریپٹائلز تخلیق ہونا شروع ہوئے ۔زمین پہ اس وقت صرف سمندری حیات اور ریپٹائلز ہی ہو اکرتے تھے ‘ پھر بیس کروڑ سال پہلے میملز پیدا ہونا شروع ہوئے۔اس وقت پرائمیٹس کا زمین پہ کوئی وجود نہیں تھا ۔
8کروڑ سال پہلے میملز میں سے پرائمیٹس نے جنم لیا ‘ جن کے سر نسبتاً بڑے تھے ۔ سونگھنے کی نسبت ان کی دیکھنے کی صلاحیت کہیں بہتر تھی۔اس وقت زمین پہ چمپینزی اور ہومو نی اینڈرتھل جیسے گریٹ ایپس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پونے دو کروڑ سال پہلے کی بات ہے کہ ان پرائمیٹس میں سے گریٹ ایپس پیدا ہونا شروع ہوئے ۔ ان میں سے ایک‘ یعنی انسان پرخدا نے آسمانی عقل اتاری ۔ یہی وجہ ہے کہ باقی ساری سپیشیز کے برعکس یہ صرف لباس ہی نہیں پہنتا اور اینٹوں کے گھر ہی تعمیر نہیں کرتا ‘بلکہ کائنات کی تخلیق پر بھی غور کرتا ہے ۔
یہ ساری تفصیل ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی مدد سے اورفاسلز اور ڈی این اے کے مطالعے سے سامنے آئی ہے ۔ قدیم فاسلز بہت قیمتی ہوتے ہیں ۔نوادرات کی طرح ‘ ان کی قدر و قیمت فاسلز کے ماہرین ہی سمجھتے ہیں ۔ جن مقامات سے یہ فاسلز برآمدہوئے ہیں ‘ وہاں ماہرین دن رات بڑی احتیاط کے ساتھ کھدائی کرتے ہیں ‘ پھرلیبارٹریز میں ان کا مطالعہ کیا جاتاہے ۔ اس کے بعدمختلف جینز کی تفصیلات کے ساتھ یہ تحقیق اور یہ فاسلز پوری دنیا کے ماہرین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ۔یہ ماہرین ان فاسلز اور ڈی این اے کو اس طرح سمجھتے ہیں ‘ جیسا کہ ایک اخبار نویس کسی خبر کی اہمیت کو ۔ سچی خبر پیش کرنے والے صحافی کی طرح قیمتی حقائق سامنے لانے والے سائنسدان کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوتی ہے اور جھوٹ پیش کرنے والے کا نام ساری زندگی کے لیے داغدار ہو جاتا ہے ۔ جہاں سائنس involveہو جاتی ہے ‘ وہاں دھوکہ دینا ویسے ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ایک چیز لیبارٹری میں ثابت کرنا ہوتی ہے اور دنیا بھر سے انتہائی ذہین اور باعلم لوگ اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
گزشتہ صدی میں انسانوں میں عورت اور مرد کی برابری پر بہت بحث ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی طور پر مردوں نے عورتوں کو کمتر قرار دیتے ہوئے انہیں دبائے رکھا۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ انسانی تاریخ میں مختلف اہم مناصب پر مردوں اور عورتوں کی تعیناتی کا تناسب کیا ہے یا یہ بھی چھوڑیے ‘ آج یورپ اور مغرب میں عورت کو مر دسے کمتر سمجھنے والا بری طرح مسترد کر دیا جاتاہے ۔ اس کے باوجود آپ امریکا‘ برطانیہ ‘ روس ‘ چین ‘ بھارت اور یورپی ممالک میں دیکھ لیجیے کہ صدر‘ وزیراعظم ‘ آرمی چیف اور چیف جسٹس کے عہدوں پر خواتین اور مردوں کا تناسب کیا ہے ۔ ساری کہانی کھل کر آپ کے سامنے آجائے گی ۔
اگر آپ مختلف جانوروں میں دیکھیں توآپ کو کئی ایسی سپیشیز نظر آئیں گی ‘ جن میں خواتین حکومت کرتی ہیں ۔ لگڑ بھگڑ اور بونوبو میں خواتین ہی Dominantہوتی ہیں ۔ کچھ مکڑوں میں تو مادائیں ملاپ کے بعد نر کو مار کے کھا بھی جاتی ہیں ۔ انسانوں میں خواتین میں یہ احسا س کیوں پیدا ہوا کہ انہیں دبایا جا رہا ہے ۔اس لیے کہ ایک طویل عرصے تک جسمانی قوت اور جنگ لڑنے کی صلاحیت ہی فیصلہ کن تھی اور خواتین میں جنگ لڑنے والیوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ 99فیصد سپہ سالار مرد تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے شعور میں اضافہ ہواتو خواتین نے یہ ثابت کرنے کی ٹھان لی کہ ہم مردوں سے کمتر ہرگز نہیں ۔ انہوں نے تحریکیں چلائیں‘ خصوصاً تعلیم کے میدان میں انہوں نے مردوں کو شکست دینا شروع کی۔ اکثر جب کسی بورڈ کا نتیجہ سامنے آتا ہے تو زیادہ تر پوزیشنز لڑکیاں جیت جاتی ہیں ۔
اگر آپ بندروں اور شیر وغیرہ کو دیکھیں تو ان میں نر dominantہیں ۔ اکثر شکار شیرنیاں کرتی ہیں‘ لیکن اپنی سرحدوں کی مستقل حفاظت اور باہر سے آنے والے کسی بھی نر کو اندر داخل ہونے سے روکنے کی ذمہ داری نر ہی نبھاتے ہیں ۔ اگر باہر سے آنے والے نر ایک گروہ کے نر شیروں کوقتل کر دیں یا بھگا دیں تو شیرنیوں کے پاس اپنے بچے قتل کروانے کے باوجود نئے نروں کے ساتھ ملاپ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔ اسی طرح دنیا میں جہاں بھی غیر ملکی قابض آتے ہیں ‘ تووہاں مقامی خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔
بہرحال خواتین نے یہ ثابت کرنے کی ٹھانی کہ ہم کسی سے کم نہیں۔جرمنی‘ بنگلہ دیش‘ پاکستان اوربرطانیہ جیسے ممالک میں وہ اقتدار حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہیں ۔ ویسے اگر آپ سائنسی بنیادوں پر اس بات کا جائزہ لیں کہ خواتین کا دماغ کیا مردوں سے کمتر ہے تو ایسا نہیں ۔ بے شمار خواتین انتہائی sharpدماغ رکھتی ہیں اور مردوں سے بھرے ہوئے ایک ادارے کو لیڈ کرنے کی اتنی ہی صلاحیت رکھتی ہیں ‘ جتنی کہ مرد۔آج یونیورسٹیوں میں ایم بی بی ایس سے لے کر سی اے اور پی ایچ ڈی تک ‘ وہ اپنی صلاحیت کو ثابت کر رہی ہیں۔ مائوں کے کیرئیر کی سب سے بڑی قربانی ‘جو اولاد کو دینا پڑتی ہے ‘ وہ ماں کا دودھ ہے ۔سائنس بھی اس بات کا اعتراف کر تی ہے کہ بعد میں اس کی تلافی نہیں ہو سکتی ۔ خدا نے میملز میں میمری گلینڈ پیدا کیا ہے اور دودھ کی صورت میں ماں کے جسم میں بچّے کا رزق پیدا کیا ہے ۔ اب‘ اگر اسے ڈبے کا دودھ پینا پڑر ہا ہے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے ۔
خیر اگر آپ ارتقا کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو مچھلی سے لے کر ریپٹائلز‘ میملز‘ پرائمیٹس اور گریٹ ایپس تک کے بارے میں صرف اتنا پڑھ لیں کہ پہلی بار وہ کب کرۂ ارض پہ نمودار ہوئے ۔ اس کے بعد بہت سی باتیں آپ پر کھلنا شروع ہو جائیں گی ۔ اگر آپ سچ جاننا چاہیں تو یہ اتنا مشکل نہیں ہوتا ۔ اگر آپ اس بات کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں کہ کسی بھی معاملے میں ماہرین کا اتفاقِ رائے کیا کہتا ہے ۔ غیر متنازع حقائق کیا ہیں ۔ سچ سے جھوٹ کو الگ کرتے ہوئے انسان اگر ان غیر متنازع حقائق کو پڑھنے کے قابل ہو جائے تو ارتقا سمیت کسی بھی معاملے پر آپ سچ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ ارتقا ہوا ہے ۔ یہ 53کروڑ سال کا عرصہ ہے ‘جس میں سمندری حیات سے لے کر گریٹ ایپس تک کا سفر طے ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بندر کی اولاد ہے ۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ زمین پہ جتنے بھی جاندار ہیں ‘ ان سب کا جدّ امجد ایک تھا اور وہ تھا پہلا زندہ خلیہ‘ جو اپنی موت سے پہلے اپنے جیسے دو خلیات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا