ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

جاسم محمد

محفلین
یعنی اسی نوے سال سے زیادہ اضافہ ہوا ہے؟؟؟
1950 سے 2019 تک پاکستانیوں کی اوسط عمر میں 33 سال کا اضافہ ہوا ہے۔
1950: 34 سال
2019: 67 سال
Screenshot-2019-12-24-Pakistan-Life-Expectancy-1950-2019.png
 

سید عمران

محفلین
1950 سے 2019 تک پاکستانیوں کی اوسط عمر میں 33 سال کا اضافہ ہوا ہے۔
1950: 34 سال
2019: 67 سال
Screenshot-2019-12-24-Pakistan-Life-Expectancy-1950-2019.png
۳۴ سال تو کچھ زیادہ ہی کم بتا دی اور ۶۷ یعنی قریباً ۷۰ سال کچھ زیادہ ہی۔۔۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے والدین سے پچھلی والی نسل یعنی نانا دادا اور ان کے ہم عمر بآسانی و بصحت اسی نوے سال تک زندہ رہے جبکہ اس کے بعد والی نسل بمشکل پچاس سے ساٹھ سال نکال پارہی ہے۔۔۔
ہم آئے دن اپنے ہاتھوں دفن کرنے والوں کو دیکھیں یا چارٹوں کو!!!
 
تھوڑی دیر کے لئے مذہب ، دینی جذبات، نظریات و احساسات کو ایک طرف اٹھا رکھتے ہیں اور خالصتاً سائینی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ سنگل سیل ہے کیا جس سے ارتقاء ہوا؟

اس پر غور کیجئے کہ ایک کمپیوٹر پرگرام کس طرح زندہ رہتا ہے؟ مادے کی حالت کی شکل میں ، آپ مقناطیسی طریقے سے پروگرام کو مقناطیسی ڈسک پر محفوظ کرسکتے ہیں یا آپ سالڈ سٹیٹ میں 'سٹیٹ آف میٹر' کی شکل میں ۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اگر آپ اس ہارڈ ڈسک کو ڈی میگنا تائز کردیں تو مادہ تو وہیں رہتا ہے لیکن وہ پرگرام تباہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر آپ کسی ایس ایس ڈی سالڈ سٹیٹ ڈسک کو پگھلا دیں تو تمام مادہ وہیں ہوگا لیکن ، وہ پروگرام جو آپ نے اس میں رکھا تھا وہ تباہ ہوجائے گا۔ اس پراگرام کا لکھا جانا، اس کو مادے کی حالت 'سٹیٹ آف میٹر ' میں محفوظ کرنا اس پروگرام کو زندگی دینے کے مترادف ہے اور اس کو تباہ و برباد کرنا موت کے مترادف ہے۔

اسی طرح ڈی این اے، میں ایک تو وہ تمام ایٹم ہیں جن کو آپ جلا کر ، پگھلا کر بھی ختم نہیں کرسکتے ، اور دوسرے ان ایٹموں کی وہ ترتیب ہے جس سے اس ڈی این اے کا پرگرام بنا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 'سٹیٹ آف میٹر' مادے کی حالت کی مدد سے ڈی این اے کا پروگرام لکھا ہوا ہے۔ خود سے بنا ہے یا بنایا گیا ہے، اس پر ہم بحث ہی نہیں کرتے ۔ صرف دیکھتے ہیں کہ یہ پروگرام کس طرح سے بنا ہوا ہے۔ یہ سٹیٹ آف میٹر ہوتی کیا ہے؟ یہ ہے ایٹم یا پھر مالیکیول کی پولاریٹی جس کی مدد سے کمپیوٹر میں زیرہ یا ون بنتا ہے ۔ ہوتا تو وہی سالٹ سٹیٹ ایلیمنٹ ہا مقناطیسی مادے کا عنصر بس صرف پولایٹی کا فرق زیرو یا ون کا تعین کرتا ہے۔ اسی طرح ڈی این کی میموری اور پروگرام 206 بلین ایٹم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ریفرنس کے لئے دیکھئے
اب یہ آیتم کس طرح آپس میں جڑے ہیں، یعنی ان کو کونسی قوتیں باندھتی ہیں۔ اس کی ایک تو فزیکل وجوہات ہیں ۔ اور دوسری لاجیکل پوزیشن ، جس سے یہ پروگرام اور میموری بنتی ہے۔ کیا ہم انسان آج ڈی این اے کی میموری میں کچھ سٹور کرکے اس کو واپس نکالنے کے قابل ہیں۔ جی بالکل ، ریفرنس دیکھئے یہان بتایا گیا ہے کہ شیکسپیئر کے 154 سونیٹ اس میموری میں سٹور کئے گئے جو ڈی این اے جیسی ہے۔ اگر ہم ڈی این اے کو پگھلا دیں تو نا صرف یہ میموری تباہ بلکہ وہ پروگرام بی تباہ جو ایک سیل سے مکمل انسان تک کے ارتقاء کو صرف 9 مہینے میں مکمل کرتا ہے ، اور یہ عمل اس کے بعد بھی موت تک جاری رہتا ہے۔

ڈی این اے میں موجود یہ پروگرام، بغیر کسی بیرونی مداخلت کے جسم میں موجود ہر طرح کے سیل بناتا ہے اور یہ سیل پھر ایک نیا پروگرام لکھتے ہیں کہ جس سے انسان کا پرسنالیٹی ماڈیول بنتا ہے، جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ اپنی شناخت رکھتا ہے، مزید یارڈئیر، مثلاً آنکھوں کے کیمرے ، کانوں کے مائیکروفون، بولنے کے سپیکر، چلنے پھرنے کا روبوٹک ڈھانچہ ، محسوس کرنے کا الیکترانک نظام ، سب کی تعمیر کے بارے میں اس ڈی این میں موجود ہوتا ہے۔ یہی نہیں ، محبت، نفرت، لڑائی، بچاؤ، جلن، حسد، محنت، صلاحیت جیسے جذبے بھی اسی بنیادی 23 جمع 23 کروموسوم سے تعمیر ہوتے ہیں۔ یہ سیسٹیمیٹک تعمیر، سب کے سامنے ہے اور کس طرح کام کررہی ہے ، اس کے بارے میں معلومات روز بڑھ رہی ہیں۔ کس طرح بنیادی سیل سے مزید ہارڈ وئیر بنایا جاسکتا ہے ، اس کی مثال سیل سے مکمل پھیپھڑے کی تعمیر ہے، یو ٹی ایم بی کا ریفرنس دیکھئے

گویا انسان سیل کی مدد سے مکمل پھیپھڑا بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اسی طرح اعصاب (نروز) اور اعضاء کی ڈیویلپمنٹ پر بہت کام ہو چکا ہے اور جاری ہے۔ کھال کے رنگ، آنکھوں کے رنگ کو ڈی این اے میں تبدیلی کرکے تبدیل کیا جا چکا ہے۔ گویا ، انسان آج ، ڈی این اے کے پروگرام کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ یہ سب اعضاء اور اس کے رنگ ، انسان اور دوسرے جانوروں کے بنیادی سیل سے بنتے ہیں۔ ایک تو ارتقاء وہ ہے جو ہم بلین سالوں میں دیکھتے ہیں۔ اس ارتقاء کی ضرورت اس لئے تھی کہ کوئی بھی ماں چند بلین سال اس نفس واحد کو اپنے پیٹ میں رکھ کر نہیں پال سکتی تھی۔ آپ کو اگر یہ ٹاسک دیا جائے کہ ڈی این اے میں ایک ایسا پروگرام لکھیں جو 4 بلین سال میں سنگل سیل سے انسان یا کسی بھی جاندار کا روپ ڈھال لے گا تو آپ اس کے لئے مناسب حالات یعنی ماں کا پیٹ کہاں سے لائیں گے، جس میں 4 بلین سال اس نفس واحدہ کو رکھیں؟ ارتقاء کے ابتدائی عرصے میں ماں کے پیٹ تو تھا ہی نہیں ۔
ایک ارتقاء جو چار بلین سال پر محیط ہے، جس میں اس نفس واحدہ یا سنگل سیل کا پروگرام بہتر تر ہوا ہے اور ایک ارتقاء وہ ہے جس سے ہم اپنی ہی زندگی ، ماں کے پیٹ میں شروع کرکے ، موت تک اسی ارتقاء میں گذرتے ہیں۔ ایک سیل (نفس واحدہ کے ) ڈی این اے سے مکمل شخصیت تک کا لاجیکل پروگرام بھی ایک ارتقاء ہے۔ جو اولاد کی شکل میں جاری رہتا ہے۔ یہ درست ہے کہ خاکی عناصر زمین پر بہت موجود تھے، لیکن ان ایٹموں کو اس طرح ترتیب دینا کہ وہ ایک پروگرام بن جائے اور انتہائی بہترین طریقے سے چلتا رہے ، انسان کی تعمیر کرتا رہے۔ 206 بلین ایٹموں کا اس طرح ترتیب میں آجانا، ایک معجزہ ہے۔ اب ایسا ہوجانے کا کیا امکان ہے ، یہ سوال آج بھی انسان کی عقل کو حیران کرتا ہے۔ جس کے لئے ہم پھر کسی سپریم آرکیٹیکٹ کا حوالہ تیار کرتے ہیں۔ اس سپریم آرکیٹیکٹ کا تصور ہر مذہب میں الگ ہے۔ مثال کے طور پر فلیپائین کے بہت سے قبیلے جن کے مردوں کا سپرم کاؤنٹ بہت کم ہوتا ہے ، وہ ، دو انسانوں کے ملاپ کو انسان کی پیدائش کی وجہ نہیں سمجھتے۔ لیکن ہم اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ارتقاء جاری ہے، معلومات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری سوچوں کا ارتقاء بھی جاری ہے۔ ہمیں پراگمیٹک رہنے کی ضرورت ہے۔ اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے، یہ سوال کہ ان 206 بلین ایٹموں کو کس نے ترتیب دیا، ممکن ہے اس پروگرام کے اندر ہی اس کا جواب موجود ہو۔ اس وقت کا انتظار ہے :)

والسلام
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
آنکھوں دیکھے حقائق چارٹ دیکھ دیکھ کر کیسے جھٹلائیں؟؟؟
کسی آبادی کے متعلق اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار بھی "آنکھوں دیکھے" ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ بڑے پیمانے کے اور تصدیق کے زیادہ سخت پیمانوں پر جانچے ہوئے آنکھوں دیکھے حالات۔
 

محمد سعد

محفلین
۳۴ سال تو کچھ زیادہ ہی کم بتا دی اور ۶۷ یعنی قریباً ۷۰ سال کچھ زیادہ ہی۔۔۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے والدین سے پچھلی والی نسل یعنی نانا دادا اور ان کے ہم عمر بآسانی و بصحت اسی نوے سال تک زندہ رہے جبکہ اس کے بعد والی نسل بمشکل پچاس سے ساٹھ سال نکال پارہی ہے۔۔۔
ہم آئے دن اپنے ہاتھوں دفن کرنے والوں کو دیکھیں یا چارٹوں کو!!!
لفظ "اوسط" یا "ایوریج" کا مطلب تو جانتے ہی ہوں گے۔ شماریات میں یہ ایک خاص طرح کی مقدار ہوتی ہے۔ کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں اس کا کیا مطلب ہے؟
 

سید عمران

محفلین
کسی آبادی کے متعلق اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار بھی "آنکھوں دیکھے" ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ بڑے پیمانے کے اور تصدیق کے زیادہ سخت پیمانوں پر جانچے ہوئے آنکھوں دیکھے حالات۔
ٹھیک ہے پھر ان کی آنکھیں، ان کا چارٹ۔۔۔
ہماری آنکھیں ہمارا مشاہدہ!!!
 

سید عمران

محفلین
لفظ "اوسط" یا "ایوریج" کا مطلب تو جانتے ہی ہوں گے۔ شماریات میں یہ ایک خاص طرح کی مقدار ہوتی ہے۔ کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں اس کا کیا مطلب ہے؟
یہ سیکنڈری اسکول کا طالب علم بھی جانتا ہے۔۔۔
ہمارے ذہن میں بھی اس کا وہی مطلب ہے جو اسٹیٹسٹکس میں ہوتا ہے!!!
 

محمد سعد

محفلین
یہ سیکنڈری اسکول کا طالب علم بھی جانتا ہے۔۔۔
ہمارے ذہن میں بھی اس کا وہی مطلب ہے جو اسٹیٹسٹکس میں ہوتا ہے!!!
پھر تو آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کسی ڈیٹا سامپل میں ایک انفرادی پوائنٹ، اس کی اوسط سے کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی۔ ایک سے زائد پوائنٹس بھی ایسے ہو سکتے ہیں۔ اوسط سے اس ڈیٹا پوائنٹ کے مختلف ہونے کا یہ بھی مطلب ہے کہ آپ کو اس کے بالکل مخالف کم از کم ایک اور پوائنٹ بھی پڑا ملے گا۔ یعنی اگر یہ پوائنٹ اوسط سے زیادہ ہے تو کوئی اور پوائنٹ اوسط سے کم بھی ہے۔ اتنا تو سمجھتے ہوں گے؟
 

محمد سعد

محفلین
ٹھیک ہے پھر ان کی آنکھیں، ان کا چارٹ۔۔۔
ہماری آنکھیں ہمارا مشاہدہ!!!
کیا آپ کے خیال میں پاکستان کی حکومت لوگوں کے جینے مرنے کے کسی قسم کے کوئی اعداد و شمار اکٹھے نہیں کرتی اور یہ سارا ڈیٹا "ان" ہی نے ایجاد کیا ہے؟
آخر الذکر صورت میں آپ کے خیال میں "وہ" اس طرح کا ڈیٹا ایجاد کر کے کیا اہداف حاصل کر رہے ہوں گے؟
 

سید عمران

محفلین
کیا آپ کے خیال میں پاکستان کی حکومت لوگوں کے جینے مرنے کے کسی قسم کے کوئی اعداد و شمار اکٹھے نہیں کرتی اور یہ سارا ڈیٹا "ان" ہی نے ایجاد کیا ہے؟
آخر الذکر صورت میں آپ کے خیال میں "وہ" اس طرح کا ڈیٹا ایجاد کر کے کیا اہداف حاصل کر رہے ہوں گے؟
یہ اعداد و شمار حقائق کے بالکل برخلاف ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
کسی بات کو محض دہرانے سے وہ درست ثابت نہیں ہو جایا کرتی۔ کیا آپ ہماری تھوڑی سی مدد کر سکتے ہیں یہ جاننے میں کہ آپ کا دعویٰ کیوں درست ہے؟
کیوں کہ دور دور تک سینکڑوں لوگوں کی زندگی اور موت کا مشاہدہ ہم اس کے برعکس دیکھ رہے ہیں!!!
 

محمد سعد

محفلین
کیوں کہ دور دور تک سینکڑوں لوگوں کی زندگی اور موت کا مشاہدہ ہم اس کے برعکس دیکھ رہے ہیں!!!
کتنے دور تک؟ کون سے سینکڑوں لوگ؟ آپ کا سامپل سائز کتنا بڑا ہے؟ آپ کا ڈیٹا کتنے برسوں پر محیط ہے؟ کیا آپ کے ڈیٹا کو کراس چیک کیا جا سکتا ہے؟
 

سید عمران

محفلین
کتنے دور تک؟ کون سے سینکڑوں لوگ؟ آپ کا سامپل سائز کتنا بڑا ہے؟ آپ کا ڈیٹا کتنے برسوں پر محیط ہے؟ کیا آپ کے ڈیٹا کو کراس چیک کیا جا سکتا ہے؟
دور دور تک سے مراد دور دور کے رشتے دار اور پھر ان کی جان پہچان والے...
اسی طرح دوست اور ان کے جان پہچان والے!!!
 

محمد سعد

محفلین
دور دور تک سے مراد دور دور کے رشتے دار اور پھر ان کی جان پہچان والے...
اسی طرح دوست اور ان کے جان پہچان والے!!!
آپ کے خیال میں یہ پاکستان کی آبادی کا کتنے فیصد بنتا ہو گا؟ کیا آپ کے پاس خود اپنا ریکارڈ کردہ کوئی پرانا ریفرینس ڈیٹا بھی ہے جس سے آپ موجودہ اوسط زندگی کا موازنہ کر رہے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
ارتقا کی تاریخ اور مساوات
بلال الرشید

کبھی آپ مچھلی اور سمندری حیات سے لے کر ریپٹائلز (رینگنے والے جانور مثلاً سانپ اور مگر مچھ ) میملز (دودھ پلانے والے جانور‘ شیر وغیرہ ) پرائمیٹس (نسبتاً بڑے دماغ والے جانور ) اور گریٹ ایپس (چمپنزی وغیرہ ) کی تاریخِ پیدائش پڑھیں ۔ تاریخِ پیدائش سے مراد یہ کہ وہ پہلی مرتبہ زمین پہ کب نمودار ہوئے ۔ یہ تاریخِ پیدائش پڑھنے سے نظریہ ارتقاآدھے سے زیادہ ویسے ہی سمجھ آجاتا ہے ‘بالکل آسانی کے ساتھ ۔
مچھلی اور سمندر ی حیات 53کروڑ سال قبل سب سے پہلے پیدا ہوئی تھی ۔ ریپٹائلز 31کروڑ سال پہلے‘ یعنی سمندری حیات کے 22کروڑ سال بعد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 22کروڑ سال تک زمین پر زندگی صرف پانی میں تھی اورپھر ریپٹائلز تخلیق ہونا شروع ہوئے ۔زمین پہ اس وقت صرف سمندری حیات اور ریپٹائلز ہی ہو اکرتے تھے ‘ پھر بیس کروڑ سال پہلے میملز پیدا ہونا شروع ہوئے۔اس وقت پرائمیٹس کا زمین پہ کوئی وجود نہیں تھا ۔
8کروڑ سال پہلے میملز میں سے پرائمیٹس نے جنم لیا ‘ جن کے سر نسبتاً بڑے تھے ۔ سونگھنے کی نسبت ان کی دیکھنے کی صلاحیت کہیں بہتر تھی۔اس وقت زمین پہ چمپینزی اور ہومو نی اینڈرتھل جیسے گریٹ ایپس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پونے دو کروڑ سال پہلے کی بات ہے کہ ان پرائمیٹس میں سے گریٹ ایپس پیدا ہونا شروع ہوئے ۔ ان میں سے ایک‘ یعنی انسان پرخدا نے آسمانی عقل اتاری ۔ یہی وجہ ہے کہ باقی ساری سپیشیز کے برعکس یہ صرف لباس ہی نہیں پہنتا اور اینٹوں کے گھر ہی تعمیر نہیں کرتا ‘بلکہ کائنات کی تخلیق پر بھی غور کرتا ہے ۔
یہ ساری تفصیل ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی مدد سے اورفاسلز اور ڈی این اے کے مطالعے سے سامنے آئی ہے ۔ قدیم فاسلز بہت قیمتی ہوتے ہیں ۔نوادرات کی طرح ‘ ان کی قدر و قیمت فاسلز کے ماہرین ہی سمجھتے ہیں ۔ جن مقامات سے یہ فاسلز برآمدہوئے ہیں ‘ وہاں ماہرین دن رات بڑی احتیاط کے ساتھ کھدائی کرتے ہیں ‘ پھرلیبارٹریز میں ان کا مطالعہ کیا جاتاہے ۔ اس کے بعدمختلف جینز کی تفصیلات کے ساتھ یہ تحقیق اور یہ فاسلز پوری دنیا کے ماہرین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ۔یہ ماہرین ان فاسلز اور ڈی این اے کو اس طرح سمجھتے ہیں ‘ جیسا کہ ایک اخبار نویس کسی خبر کی اہمیت کو ۔ سچی خبر پیش کرنے والے صحافی کی طرح قیمتی حقائق سامنے لانے والے سائنسدان کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوتی ہے اور جھوٹ پیش کرنے والے کا نام ساری زندگی کے لیے داغدار ہو جاتا ہے ۔ جہاں سائنس involveہو جاتی ہے ‘ وہاں دھوکہ دینا ویسے ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ایک چیز لیبارٹری میں ثابت کرنا ہوتی ہے اور دنیا بھر سے انتہائی ذہین اور باعلم لوگ اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
گزشتہ صدی میں انسانوں میں عورت اور مرد کی برابری پر بہت بحث ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی طور پر مردوں نے عورتوں کو کمتر قرار دیتے ہوئے انہیں دبائے رکھا۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ انسانی تاریخ میں مختلف اہم مناصب پر مردوں اور عورتوں کی تعیناتی کا تناسب کیا ہے یا یہ بھی چھوڑیے ‘ آج یورپ اور مغرب میں عورت کو مر دسے کمتر سمجھنے والا بری طرح مسترد کر دیا جاتاہے ۔ اس کے باوجود آپ امریکا‘ برطانیہ ‘ روس ‘ چین ‘ بھارت اور یورپی ممالک میں دیکھ لیجیے کہ صدر‘ وزیراعظم ‘ آرمی چیف اور چیف جسٹس کے عہدوں پر خواتین اور مردوں کا تناسب کیا ہے ۔ ساری کہانی کھل کر آپ کے سامنے آجائے گی ۔
اگر آپ مختلف جانوروں میں دیکھیں توآپ کو کئی ایسی سپیشیز نظر آئیں گی ‘ جن میں خواتین حکومت کرتی ہیں ۔ لگڑ بھگڑ اور بونوبو میں خواتین ہی Dominantہوتی ہیں ۔ کچھ مکڑوں میں تو مادائیں ملاپ کے بعد نر کو مار کے کھا بھی جاتی ہیں ۔ انسانوں میں خواتین میں یہ احسا س کیوں پیدا ہوا کہ انہیں دبایا جا رہا ہے ۔اس لیے کہ ایک طویل عرصے تک جسمانی قوت اور جنگ لڑنے کی صلاحیت ہی فیصلہ کن تھی اور خواتین میں جنگ لڑنے والیوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ 99فیصد سپہ سالار مرد تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے شعور میں اضافہ ہواتو خواتین نے یہ ثابت کرنے کی ٹھان لی کہ ہم مردوں سے کمتر ہرگز نہیں ۔ انہوں نے تحریکیں چلائیں‘ خصوصاً تعلیم کے میدان میں انہوں نے مردوں کو شکست دینا شروع کی۔ اکثر جب کسی بورڈ کا نتیجہ سامنے آتا ہے تو زیادہ تر پوزیشنز لڑکیاں جیت جاتی ہیں ۔
اگر آپ بندروں اور شیر وغیرہ کو دیکھیں تو ان میں نر dominantہیں ۔ اکثر شکار شیرنیاں کرتی ہیں‘ لیکن اپنی سرحدوں کی مستقل حفاظت اور باہر سے آنے والے کسی بھی نر کو اندر داخل ہونے سے روکنے کی ذمہ داری نر ہی نبھاتے ہیں ۔ اگر باہر سے آنے والے نر ایک گروہ کے نر شیروں کوقتل کر دیں یا بھگا دیں تو شیرنیوں کے پاس اپنے بچے قتل کروانے کے باوجود نئے نروں کے ساتھ ملاپ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔ اسی طرح دنیا میں جہاں بھی غیر ملکی قابض آتے ہیں ‘ تووہاں مقامی خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔
بہرحال خواتین نے یہ ثابت کرنے کی ٹھانی کہ ہم کسی سے کم نہیں۔جرمنی‘ بنگلہ دیش‘ پاکستان اوربرطانیہ جیسے ممالک میں وہ اقتدار حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہیں ۔ ویسے اگر آپ سائنسی بنیادوں پر اس بات کا جائزہ لیں کہ خواتین کا دماغ کیا مردوں سے کمتر ہے تو ایسا نہیں ۔ بے شمار خواتین انتہائی sharpدماغ رکھتی ہیں اور مردوں سے بھرے ہوئے ایک ادارے کو لیڈ کرنے کی اتنی ہی صلاحیت رکھتی ہیں ‘ جتنی کہ مرد۔آج یونیورسٹیوں میں ایم بی بی ایس سے لے کر سی اے اور پی ایچ ڈی تک ‘ وہ اپنی صلاحیت کو ثابت کر رہی ہیں۔ مائوں کے کیرئیر کی سب سے بڑی قربانی ‘جو اولاد کو دینا پڑتی ہے ‘ وہ ماں کا دودھ ہے ۔سائنس بھی اس بات کا اعتراف کر تی ہے کہ بعد میں اس کی تلافی نہیں ہو سکتی ۔ خدا نے میملز میں میمری گلینڈ پیدا کیا ہے اور دودھ کی صورت میں ماں کے جسم میں بچّے کا رزق پیدا کیا ہے ۔ اب‘ اگر اسے ڈبے کا دودھ پینا پڑر ہا ہے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے ۔
خیر اگر آپ ارتقا کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو مچھلی سے لے کر ریپٹائلز‘ میملز‘ پرائمیٹس اور گریٹ ایپس تک کے بارے میں صرف اتنا پڑھ لیں کہ پہلی بار وہ کب کرۂ ارض پہ نمودار ہوئے ۔ اس کے بعد بہت سی باتیں آپ پر کھلنا شروع ہو جائیں گی ۔ اگر آپ سچ جاننا چاہیں تو یہ اتنا مشکل نہیں ہوتا ۔ اگر آپ اس بات کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں کہ کسی بھی معاملے میں ماہرین کا اتفاقِ رائے کیا کہتا ہے ۔ غیر متنازع حقائق کیا ہیں ۔ سچ سے جھوٹ کو الگ کرتے ہوئے انسان اگر ان غیر متنازع حقائق کو پڑھنے کے قابل ہو جائے تو ارتقا سمیت کسی بھی معاملے پر آپ سچ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ ارتقا ہوا ہے ۔ یہ 53کروڑ سال کا عرصہ ہے ‘جس میں سمندری حیات سے لے کر گریٹ ایپس تک کا سفر طے ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بندر کی اولاد ہے ۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ زمین پہ جتنے بھی جاندار ہیں ‘ ان سب کا جدّ امجد ایک تھا اور وہ تھا پہلا زندہ خلیہ‘ جو اپنی موت سے پہلے اپنے جیسے دو خلیات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا
 
Top