ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

سید عمران

محفلین
۱) خلیوں کی مشینری، ایٹمی اور مالیکیولر لیول کی ہوتی ہے۔ وہاں پر اجزاء آپس میں بے شمار ترتیبوں میں جڑ سکتے ہیں اور اپنی ترتیبات بدل سکتے ہیں۔
وہی تو سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ ترتیب بدلنے کی صلاحیت ان میں کیسے آتی ہے؟؟؟
 

سین خے

محفلین
نظریہ ارتقاء کو یہ سمجھنا کہ وہ مذہب کے خلاف ہے یا سائنسدان خدا کے وجود کی اس نظریے کے ذریعے نفی کرتے ہیں، یہ مختلف گروہوں کے بنائے ہوئے خیالات ہیں۔ سائنس نہ ایسا کوئی دعویٰ کرتی ہے اور نہ ہی سائنس کا کام خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہے۔ سائنس قدرتی عمل (نیچرل پراسز) کو سمجھتی ہے اور جو نتائج اخذ کئے جاتے ہیں وہ دنیا کے سامنے آجاتے ہیں۔

برکلی یونیورسٹی کی سائٹ پر نظریہ ارتقاء کے حوالے سے کچھ غلط فہمیوں سے متعلق بہت اچھے جوابات دئیے گئے ہیں۔ وہاں پر مذہب اور سائنس کے ٹکراؤ سے متعلق بھی جواب دیا گیا ہے۔ کتنے ہی سائنسدان ہیں جو مذہبی ہیں لیکن وہ آرام سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایمان رکھنا یا نہ رکھنا ہر کسی کا ذاتی فعل ہے۔

MISCONCEPTION: Evolution and religion are incompatible.

CORRECTION: Because of some individuals and groups stridently declaring their beliefs, it's easy to get the impression that science (which includes evolution) and religion are at war; however, the idea that one always has to choose between science and religion is incorrect. People of many different faiths and levels of scientific expertise see no contradiction at all between science and religion. For many of these people, science and religion simply deal with different realms. Science deals with natural causes for natural phenomena, while religion deals with beliefs that are beyond the natural world.

Of course, some religious beliefs explicitly contradict science (e.g., the belief that the world and all life on it was created in six literal days does conflict with evolutionary theory); however, most religious groups have no conflict with the theory of evolution or other scientific findings. In fact, many religious people, including theologians, feel that a deeper understanding of nature actually enriches their faith. Moreover, in the scientific community there are thousands of scientists who are devoutly religious and also accept evolution. For concise statements from many religious organizations regarding evolution, see Voices for Evolution on the NCSE website. To learn more about the relationship between science and religion, visit the Understanding Science website.

Misconceptions about evolution

اسی جواب میں ایک اور لنک بھی دیا گیا ہے۔

Science and religion: Reconcilable differences
dot_clear.gif
dot_clear.gif
dot_clear.gif
dot_clear.gif

dot_clear.gif

dot_clear.gif
dot_clear.gif
With the loud protests of a small number of religious groups over teaching scientific concepts like evolution and the Big Bang in public schools, and the equally loud proclamations of a few scientists with personal, anti-religious philosophies, it can sometimes seem as though science and religion are at war. News outlets offer plenty of reports of school board meetings, congressional sessions, and Sunday sermons in which scientists and religious leaders launch attacks at one another. But just how representative are such conflicts? Not very. The attention given to such clashes glosses over the far more numerous cases in which science and religion harmoniously, and even synergistically, coexist.

dot_clear.gif

In fact, people of many different faiths and levels of scientific expertise see no contradiction at all between science and religion. Many simply acknowledge that the two institutions deal with different realms of human experience. Science investigates the natural world, while religion deals with the spiritual and supernatural — hence, the two can be complementary. Many religious organizations have issued statements declaring that there need not be any conflict between religious faith and the scientific perspective on evolution.1

Furthermore, contrary to stereotype, one certainly doesn't have to be an atheist in order to become a scientist. A 2005 survey of scientists at top research universities found that more than 48% had a religious affiliation and more than 75% believe that religions convey important truths.2 Some scientists — like Francis Collins, former director of the National Human Genome Research Institute, and George Coyne, astronomer and priest — have been outspoken about the satisfaction they find in viewing the world through both a scientific lens and one of personal faith.

This is not to suggest that science and religion never come into conflict. Though the two generally deal with different realms (natural vs. spiritual), disagreements do arise about where the boundaries between these realms lie when dealing with questions at their interface. And sometimes, one side crosses a boundary in its claims. For example, when religious tenets make strong claims about the natural world (e.g., claiming that the world was created in six days, as some literal interpretations of the Bible might require), faith and science can find themselves in conflict.

Though such clashes may garner print, airwave, and bandwidth headlines, it's important to remember that, behind the scenes and out of the spotlight, many cases exist in which religious and scientific perspectives present no conflict at all. Thousands of scientists busily carry out their research while maintaining personal spiritual beliefs, and an even larger number of everyday folks fruitfully view the natural world through an evidence-based, scientific lens and the supernatural world through a spiritual lens. Accepting a scientific worldview needn't require giving up religious faith.

dot_clear.gif


dot_clear.gif
People of many different faiths and levels of scientific expertise see no contradiction between science and religion.
dot_clear.gif


dot_clear.gif

Science and religion: Reconcilable differences
dot_clear.gif
dot_clear.gif

ارتقاء ایک وسیع نظریہ ہے۔ جب اسے دو سطروں میں سمجھنا شروع کیا جاتا ہے یا سمجھایا جاتا ہے تو انسان کے دماغ میں سوالات اٹھنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
محض سوال ٍپوچھا ہے!!!
اگر چھوٹے پیمانے پر، یعنی انہی جانداروں کے حوالے سے، بھی پوچھتے ہیں تو اگر ان کے اجسام کو اس حد تک "ڈسٹرب" کر دیا جائے کہ وہ زندگی کے لیے درکار پیچیدہ کیمیائی افعال جاری نہ رکھ سکیں تو وہ مر ہی جائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انسان میں ارتقاء محض دماغ اور تعقل میں ہی کیوں محدود رھا۔ نہ شیر جیسے ناخن نہ ہاتھی جیسی جسامت نہ چیتے جیسی رفتار نہ مور جیسے رنگ نہ کچھوے جیسا آرمر نہ عقاب جیسی آنکھیں نہ کتے جیسی شامہ طاقت نہ سیلنٹریٹ جیسی ریجنریشن ۔ نہ یہ نہ وہ نہ ۔۔۔۔۔۔ غرض ان سب طاقتوں کے بدلے اسے درد دل اور دماغ سوزی کا جوہر عطا کیا گیا ۔ اس حساب سے انسان ارتقاء نہیں بلکہ انتزال سے وجود میں آیا۔
یہ تو بہت گھاٹے کا سودا ہوا ۔
انسان کا ارتقا اس خاص سمت میں کیوں ہوا دوسری سمت میں کیوں نہیں بالکل بے معنی اعتراض ہے۔ یہ اعتراض اٹھانے کیلئے آپ خود ہی سے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ انسان کو ڈیزائن (تخلیق) کیا گیا۔ جبکہ آج تک اس تصور کے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے۔
 

جان

محفلین
قبلہ جاسم صاحب کی موجودہ صورت بھی 'محفلی ارتقاء' کے ںتیجے میں وجود میں آئی! ثبوت تو یہیں موجود ہے اور ہم ڈارون کو پیٹ رہے ہیں!
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
انسان کا ارتقا اس خاص سمت میں کیوں ہوا دوسری سمت میں کیوں نہیں بالکل بے معنی اعتراض ہے۔ یہ اعتراض اٹھانے کیلئے آپ خود ہی سے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ انسان کو ڈیزائن (تخلیق) کیا گیا۔ جبکہ آج تک اس تصور کے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے۔
نہیں یہ بات نہیں ۔ دراصل بر چیز کو ہی ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ قادر کے بغیر قدرت اور فاطر کے بغیر فطرت کا تصور محال اور خودفر یبی لگتا ہے,
 

جاسم محمد

محفلین
نہیں یہ بات نہیں ۔ دراصل بر چیز کو ہی ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ قادر کے بغیر قدرت اور فاطر کے بغیر فطرت کا تصور محال اور خودفر یبی لگتا ہے,
ٹھیک ہے یہ آپ کا نکتہ نظر ہو سکتا ہے۔ میں صرف نظریہ ارتقا کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں کہ اس میں تخلیق و ڈیزائن کی کوئی گنجائش نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ٹھیک ہے یہ آپ کا نکتہ نظر ہو سکتا ہے۔ میں صرف نظریہ ارتقا کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں کہ اس میں تخلیق و ڈیزائن کی کوئی گنجائش نہیں۔
اگر تخلیق اور ڈیزائن کی گنجائش نہیں تو نیچرل سلیکشن کی کیا توجیہ ہوگی؟ کیا محض اتفاق سے یہ قدرتی قوانین وضع اور منظم ہوگئے.
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اگر تخلیق اور ڈیزائن کی گنجائش نہیں تو نیچرل سلیکشن کی کیا توجیہ ہوگی؟ کیا محض اتفاق سے یہ قدرتی قوانین وضع اور منظم ہوگئے.
قوانین فطرت تو سائنسدانوں نے فطرت پر انتھک تحقیق اور تجربات کے بعد اپنے علم و فائدے کیلئے اخذ کئے ہیں۔ تاکہ ان کو بروئے کار لا کر فطرت کے مزید راز دریافت کئے جا سکیں۔
جہاں تک نیچرل سلیکشن یا فطری انتخاب کا سوال ہے تو اس کے لئے کسی تخلیق یا ڈیزائن کی ضرورت نہیں۔ اسے کسی علاقہ میں پھوٹی جان لیوا وبا سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ جو انسان اس وبا کے خلاف فطری طور پر مدافعت پیدا کر کے محفوظ رہے وہ اپنی نسل کو آگے بڑھا پائیں گے۔ جو وبا کا شکار ہو کر فوت ہو گئے ان کی نسل آگے نہ چل پائے گی۔ یہی وہ فطرتی انتخاب یا نیچرل سلیکشن کا عمل ہے جس کی وجہ سے روئے زمین پر زندگی اس قدر وسیع حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کی حامل ہوئی۔
جو انواع اپنے ماحول سے مقابلہ نہیں کر پاتی وہ معدوم ہو جاتی ہیں۔ جبکہ وہ انواع جو فطرتی طور پر اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتی ہیں وہ زندہ رہتی ہیں اورمعدوم انواع کی جگہ لے لیتی ہیں۔
مثال کے طور پر 6 کروڑ سال قبل ڈائنورسارز دنیا پر راج کرتے تھے۔ لیکن ایک شہاب ثاقب نے ڈائنوسارز سمیت 75 فیصد انواع کا روئے زمین سے مکمل صفایا کردیا۔ کیونکہ وہ انواع یکدم اس ماحولیاتی تبدیلی سے جو شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے پر پیدا ہوئی تھی کا مقابلہ نہ کر سکے تھے۔ البتہ چھوٹے حجم کے ممالیہ اس شدید ماحول سے مقابلہ کر کے زندہ بچ گئے اور یوں ارتقا کرتے کرتے قریبا 2 لاکھ سال قبل انسان کی شکل اختیار کر گئے۔
New clues unearthed about mammals’ rapid evolution after dinosaur extinction
 

جاسم محمد

محفلین
یقیناً خدا نے ہر شے تخلیق کی ہے، اب اس کا طریقہ کار اگر 'ارتقائی' ہے تو یہ بھی خدا کی مرضی ہے۔ اگر ہم یہ بھی یقین کر لیں کہ کائنات کا وجود سینگولیریٹی سے ہوا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ سینگولیریٹی کس چیز کے ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اور وہ چیز خود کس چیز کے ارتقاء کے ذریعے وجود میں آئی؟ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے اس لیے بات اس نقطے پہ پہنچ جاتی ہے کہ کائنات چاہے جہاں سے بھی شروع ہو، خود بخود عدم سے وجود میں نہیں آ گئی، یقیناً اس کا خالق موجود ہے اور اس کی مرضی کہ وہ کائنات میں موجود چیزوں کی تخلیق ارتقائی عمل سے گزار کر کرے یا نہ کرے تو لہذا 'ثبوت' کا نہ ملنا اس چیز کی گواہی نہیں ہوتا کہ وہ چیز ہو نہیں سکتی!
یہ محض ایک مغالطہ (Fallacy) ہے جو اکثر مسیحی Creationists (اہل تخلیق) استعمال کرتے رہتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ سائنس کے پاس فی الحال ہر سوال کا جواب نہیں۔ البتہ جواب کا نہ ہونا خالق و تخلیق کے حق میں کوئی منطقی دلیل نہیں ۔
Screenshot-2019-12-22-God-of-the-gaps-Wikipedia.png

God of the gaps - Wikipedia
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قوانین فطرت تو سائنسدانوں نے فطرت پر انتھک تحقیق اور تجربات کے بعد اپنے علم و فائدے کیلئے اخذ کئے ہیں۔ تاکہ ان کو بروئے کار لا کر فطرت کے مزید راز دریافت کئے جا سکیں۔
یہ نکتہ بہت خوب لگا۔ یہی میرا نقطہء نظر ہے۔
اب یہ دیکھیئے کہ فائدے یا نقصان کا تعین کرنا سائنس کا کام ہی نہیں ۔ یہ نفع و نقصان کے فیصلے آپ کو اس سطح پر کرنے ہوتے ہیں جو سائنسدانوں کا میدان ہی نہیں ۔ ہر سائنسدان چونکہ ایک انسان بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے نقصان اور فائدے کا تعین اپنی فکر کی اعلی تر سطح پر کر تا ہے اور پھر سائنس کے اصولوں سے خوب استفادہ کرتا ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
چارٹ دیکھ لیا تھا۔۔۔
اسی لیے یہ سوال اٹھا ہے کہ سب سے پہلی نوع نے کس چیز سے ارتقاء کیا؟؟؟
زمین پر زندگی کی ابتداء بے جان مادے میں جان پڑنے پر شروع ہوئی۔ جان پڑنے سے مراد یہ ہے کہ کچھ مالیکولز نے فطری طور پرارتقا کرتے ہوئے خود کو دہرانا شروع کر دیا۔ یہ جاندار مالیکولز پھر فطرتی انتخاب کے عمل سے گزر کر پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ اور یوں چل سو چل نت نئی اقسام کی انواع روئے زمین پر نظر آنے لگی۔
Evolution 101: From Soup to Cells - the Origin of Life
 

جاسم محمد

محفلین
۱) ہمیں جانوروں سے زیادہ اپنی فکر ہے اسی لیے ان سوالات کا جواب چاہتے ہیں۔۔۔
۲) اگر اس کا قیمہ نکال دیا جائے یا جلا دیا جائے تب بھی نہیں مرے گی کیا؟؟؟
1۔ انسانوں سے متعلق آپ کے سوالات علم فلسفہ ، دین و مذہب کے زمرہ میں آتے ہیں۔ یہ سائنس کی ڈومین نہیں۔
2۔ اگر اس غیرمرئی مخلوق کے سیلز کو جلا کر یا پیس کر ختم کر دیا جائے تو پھر یقینا مر جائے گی۔ البتہ اسے طبعی طور پر بڑھاپا و موت نہیں آسکتی۔ اس لحاظ سے اس نے دیگر انواع پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔
 

جان

محفلین
یہ سچ ہے کہ سائنس کے پاس فی الحال ہر سوال کا جواب نہیں۔
جب سائنس کے پاس ہر سوال کا جواب نہیں تو مجھے یقین ہے کہ سائنسی طبقہ بھی مذہبی طبقے کی طرح ہوائی دعوے نہیں کرتا۔ میں پھر وہی بات دہراؤں گا کہ 'ثبوت' کا نہ ملنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ چیز ہو نہیں سکتی، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ سائنس ابھی اس لیول تک پہنچی ہی نہ ہو جو اس کے لیے درکار ہے۔ اس لیے سائنس اگر یہ دعوی کرتی ہے کہ خدا نہیں ہے تو یہ مضحکہ خیز دعوی ہے کیونکہ اس دعوے کے پیچھے ابھی تک کوئی عملی 'ثبوت' سائنس کے پاس نہیں ہے! یہاں 'گاڈ آف گیپس' فٹ ہی نہیں بیٹھتا کیونکہ ہم تو مذہب کی بات ہی نہیں کر رہے کہ اس کا کیا دعوی ہے اور وہ دعوی کس بنیاد پہ ہے، ہم یہاں سائنسی مضمون کو سائنس کی نقطہ نظر سے دیکھیں گے اور اگر سائنس بغیر ثبوت کے اتنا بڑا دعوی کر سکتی ہے تو پھر اس میں اور اس مذہبی طبقے میں جو اپنی ڈومین سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی فرق نہیں!
 

جان

محفلین
زمین پر زندگی کی ابتداء بے جان مادے میں جان پڑنے پر شروع ہوئی۔ جان پڑنے سے مراد یہ ہے کہ کچھ مالیکولز نے فطری طور پرارتقا کرتے ہوئے خود کو دہرانا شروع کر دیا۔
ان میں یہ 'فطری طور پر' ارتقائی صلاحیت کیسے وجود میں آ گئی اور ایسی زبر دست صلاحیت کہ وہ اس عمل کو دہراتے ہوئے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے ہو گئے! ہم یوں بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی نے ان کو ڈیزائن ہی اسی طرزِ عمل پہ کیا ہو؟ یہ کیوں ممکن نہیں؟ یہ دعوی اس فطری دعوے سے زیادہ مضبوط ہے! ظاہر ہے جب آپ 'فطری طور پر' کہہ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس خود اس 'فطری' عمل کی توجیہ نہیں ہے اور ایسا کہہ کر 'تخلیق' کو سائیڈ لائن لگانے کی سعی کرنے کے مرتکب ٹھہرتے ہیں! یعنی جہاں سائنسی حدیں زمانہ فی الوقت میں جواب تلاش نہ کر سکیں وہاں 'فطری' کا صیغہ استعمال کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی بات کے سمجھ نہ آنے پر مذہبی طبقہ 'خدا' کی بات کرتا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
اس لیے سائنس اگر یہ دعوی کرتی ہے کہ خدا نہیں ہے تو یہ مضحکہ خیز دعوی ہے کیونکہ اس دعوے کے پیچھے ابھی تک کوئی عملی 'ثبوت' سائنس کے پاس نہیں ہے!
سائنس نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا اور نہ ہی کر سکتی ہے کیونکہ خالق، تخلیق، مخلوق وغیرہ سب کے سب فلسفیانہ یا مذہبی نظریات ہیں جو سائنس کی ڈومین سے باہر ہیں۔
سائنس بنیادی طور پر ایمان و یقین کی ڈومین سے باہر کام کرتی ہے۔ جب سائنس کہتی ہے کہ روئے زمین پر اتنا وسیع حیاتیاتی تنوع ارتقا کا نتیجہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اس پر مکمل ایمان و یقین ہے۔ بلکہ سائنس کا کہنا ہے کہ اسے دستیاب شواہد کی بنیاد پر معلوم ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ یعنی اب اسے جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔ اور اگر کوئی فلسفہ و مذہب اسے من و عن تسلیم نہیں کرتا تو وہ غلطی پر ہے۔
یہی وہ بنیادی فرق ہے جو فلسفہ و مذہب کو سائنس سے جدا کرتا ہے۔ یعنی کسی چیز پر محض یقین و ایمان ہونا (مذہب)۔ اور کسی چیز کا حتمی علم ہونا (سائنس)۔ اسی لیے یہ دو مختلف ڈومین ہیں اور ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
 

زیک

مسافر
نہیں یہ بات نہیں ۔ دراصل بر چیز کو ہی ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ قادر کے بغیر قدرت اور فاطر کے بغیر فطرت کا تصور محال اور خودفر یبی لگتا ہے,
اگر تخلیق اور ڈیزائن کی گنجائش نہیں تو نیچرل سلیکشن کی کیا توجیہ ہوگی؟ کیا محض اتفاق سے یہ قدرتی قوانین وضع اور منظم ہوگئے.
ایک نظام ہے جیسے فزکس کے قوانین بھی ہیں اور کیمسٹری کے اصول بھی۔ خالق اور تخلیق کا اس سے تعلق نہیں کہ آپ کسی بھی نظام کو خالق کا تخلیق کردہ کہہ کر اسے نہیں سمجھ سکتے۔

آپ کا ایمان الگ لیول کی چیز ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے کہ اکثر مذاہب میں انسان یا انسانوں کی اوریجن سٹوریز ہیں۔ اگر آپ ان کہانیوں کو لٹرل معنی میں حقیقت سمجھیں تو سائنس سے تصادم ہو گا ورنہ نہیں۔
 
Top