ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ میڈیا اور محفلین کی نظر میں

طاهر صاحب كی ابتداء جهاں سے هوئي تھی اس جھوٹ كي وجه سے (جو كه مجھ پر ثابت هے) ميرے لئے ان سے محبت كرنا ممكن نهيں۔
کچھ ہمیں بھی اسکی تفصیل سے آگاہ فرمائیے کہ وہ کونسا جھوٹ ہے جو کہ آپ پر ثابت ہوچکا ہے۔ مجھے اس بات سے ہرگز دلچسپی نہیں ہے کہ آپ کس کو پسند کرتے ہیں اور کس کو ناپسند، لیکن چونکہ ایک اوپن فورم میں آپ نے بڑے دعوے سے یہ کہا ہے کہ طاہر القادری نامی شخص کے کسی جھوٹ سے آپ اچھی طرح آگاہ ہیں چنانچہ اس وجہ سے اس سے نفرت آپکے لئے کارِ ثواب ہے، تو اس اوپن فورم میں آپکے اس انداز سے بات کرنے پر ہی میں دلچسپی لے رہا ہوں کہ آخر معاملہ کیا ہے
 

فرسان

محفلین
کچھ ہمیں بھی اسکی تفصیل سے آگاہ فرمائیے کہ وہ کونسا جھوٹ ہے جو کہ آپ پر ثابت ہوچکا ہے۔ مجھے اس بات سے ہرگز دلچسپی نہیں ہے کہ آپ کس کو پسند کرتے ہیں اور کس کو ناپسند، لیکن چونکہ ایک اوپن فورم میں آپ نے بڑے دعوے سے یہ کہا ہے کہ طاہر القادری نامی شخص کے کسی جھوٹ سے آپ اچھی طرح آگاہ ہیں چنانچہ اس وجہ سے اس سے نفرت آپکے لئے کارِ ثواب ہے، تو اس اوپن فورم میں آپکے اس انداز سے بات کرنے پر ہی میں دلچسپی لے رہا ہوں کہ آخر معاملہ کیا ہے

آپ وہ ساری لسٹ مجھے بھیج دیں ویڈیوز کی جو آپ دیکھ چکے ہیں طاہر صاحب پر تاکہ میں آگاہ ہو جاوں بات کہاں سے شروع کروں۔
 

شیزان

لائبریرین
1101723166-1.jpg
12۔جنوری۔2013
1101723166-2.gif
بشکریہ۔ روزنامہ ایکسپریس
 

شیزان

لائبریرین
آیئے اسلام آباد تباہ کریں!
جب سے سلطنتوں کی تاریخ تحریری طور پر رقم ہونا شروع ہوئی ہے، تمام مورخین اس پر متفق ہیں کہ کسی بھی ریاست اور اس کے زیر دست صوبوں اور دوسرے اندرونی ڈھانچوں کے مستقبل کا تعین اس ملک کے دارلخلافہ کے حالات سے لگایا جا سکتا ہے۔ سلطنت کی عظمت، ترقی اور استحکام کو جاننے کے لیے پوری سلطنت کا دورہ کرنا ضروری نہیں۔ دارالسلطنت یا مرکز حکومت اگر مطلق العنانی کا شکار نہیں ہے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بد ترین خروج و بغاوت پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے اور خراب حالات کے باوجود بہتری کی گنجائش یقینآ موجود ہے۔ اسی وجہ سے جنگوں میں کوئی بھی شکست اس وقت تک حتمی نہیں سمجھی جاتی، جب تک مرکز کو زیر نہ کیا جائے۔ موجودہ دور میں کابل، بغداد، ترپولی، قاہرہ اور آج کل دمشق چند ایک مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ٹمٹماتی ہوئی حکومتیں اور ڈگمگاتے ہوئے نظام کی آخری سانس طاقت کے مرکز اس شہر سے جڑی ہوتی ہے جس میں حکومت کی بنیاد اورسلطنت کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ دارالخلافہ کا ڈھے جانا یا مفلوج ہو جانا اختتام ریاست کا ابتدا ہوتی ہے اور یہ حکمران کے بےاختیار ہونے کی سب سے بڑی دلیل بھی ہوتی ہے۔
اگرچہ متحدہ موومنٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے ڈرون کا نشانہ بنا دیا ہے مگر آخری خبریں آنے تک 14 جنوری کو پاکستان کی ریاست کا دارالخلافہ مفلوج کرنے کی مکمل تیاری ہو چکی ہے۔ ظاہری طور پر سب کچھ جوں کا توں ہے اور انتظامی ڈھانچہ اپنی میٹنگز اور پھر معمولی تیاریوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے مگر اصل میں یہ شہر ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے سامنے آہستہ آہستہ ڈھیر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اگر مارچ ہوا تو سکول و کالج بند ہوں گے،سڑکوں پر کسی قسم کی گاڑی نہیں چلے گی۔ سارے بازار سنسان ہوں گے اور ہسپتالوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہو گا، اگر اس دوران کے کے گھر فوتگی ہو جائے تو جنازہ پڑھانے کے لیے خاص اجازت درکار ہو گی۔اگر مارچ ہوا تو سڑکوں پر ہجوم کا راج ہو گا، اس کے درمیان موجود ایک غیر ملکی شہریت رکھنے والا شخص یہ فیصلہ کرئے گا کہ اس نے دارالخلافہ میں زندگی معمول پر کب واپس لانی ہے اور اگر اس دوران کوئی دہشت گرد یا مختلف گروہ خودکش حملے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ہزاروں (یا لاکھوں اگر قادری صاحب کے پہلے دعوؤں کو اہمیت دی جائے) افراد یہاں دندناتے پھریں گے اور ان کے بھڑکے ہوئے جذبات پر کوئی قابو نہ پا سکے گا اور طوائف الملوکی عروج پر ہو گی۔
دنیا میں کوئی ملک اپنے داراخلافہ کو اتنی فراخدلی سے باہر سے آنے والوں کے سامنے نہیں پھینک دیتا جیسے کہ اس مملکت خدا داد میں روایت بن گئی ہے، اگر کوئی لیڈر لندن میں اپنے حق میں چھوٹا سا اور انتہائی شریفانہ مظاہرہ کرانا چاہے تو اس کے لئے باقاعدہ اجازت کے سات مراحل سے گزرنا پڑے گا، انتظامیہ جگہ، وقت اور دورانیے کا تعین کرئے گی اور اس پہلو کو پہلے سے طے کیا جائے گا کہ اس اجتماع( جو عمومآ چند درجن سے زائد افراد پر مبنی نہیں ہوتا) کی نوعیت کیا ہو گی، دورانیہ ختم ہوتے ہی ان افراد کو منظم انداز میں گھروں کو واپس جانا ہو گا۔ خلاف ورزی کرنے والے کو گدی سے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ مظاہرے کے آمنے سامنے دائیں بائیں نہ کوئی گزرگاہ بند ہو گی اور نہ ہی کوئی اور شخص اپنے مقررہ کاموں کے اوقات میں ایک سیکنڈ کی تبدیلی کرنے پر مجبور ہو گا۔ قادری صاحب کے ملک کینیڈا میں بھی تمام تر جمہوریت کے باوجود شہری انتظامیہ کی مرضی کے بغیر وہ کسی فٹ پاتھ پر راستہ روک کر ایک لمحے کے لئے بھی کھڑے نہیں ہو سکتے، سڑک پر رکاوٹ کھڑی کرنا تو دور کی بات اور اگر کسی نے ہر حال میں ان حقوق کا استعمال کرنا ہے تو ان کی جگہ یا تو جیل ہو گی اور یا پھر نفسیاتی امراض کا وہ وارڈ جہاں پر بستر کے ساتھ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں موجود ہوتی ہیں مگر چوں کہ پاکستان برطانیہ ہے نہ کینیڈا۔ لہذا اس کا دارالخلافہ ہر قسم کی کاروائی کے لیے کھلا ہے جس کا دل چاہے وہ اس پر قبضہ کر لے، جو جب چاہے اس کو مفلوج کر دے، اگر آج طاہر القادری نے یہ سب کچھ کرنے کی دھمکی دی تھی تو کل اکوڑہ خٹک، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو یہ سب کچھ کرنے سے کون روکے گا، اس سے اگلے روز کوئی اور ہو گا اور پھر عین ممکن ہے، ملک کے ہیجڑے اور خواجہ سراء اپنی قیادت کے کہنے پر شہری ناکہ بندی کر دیں۔ اسلام آباد کے حالات سے اگر آپ پاکستان کی ریاست کو پرکھیں تو یقینآ خیر کی توقع کرنا چھوڑ دیں گے۔ صوبوں کے حالات آپ کے سامنے ہیں، کوئٹہ میں خوفناک اور اندہناک خون ریزی، سوات میں خوفناک دہشت گردی اور کراچی میں معمول ٹارگٹ کلنگ۔ اس بھیانک تصویر کو اگر مکمل کرنا ہو تو اسلام آباد میں تہلکہ مچانا ہو گا۔ نہ جانے ہم کن سرحدوں کا دفاع کر رہے ہیں، اس ریاست کا دارالخلافہ ایک مسلسل شورش کی زد میں ہے، اس کی فصیلیں کمزور اور بنیادیں ہلانے کی کوششیں جاری ہیں ، یہاں کے بزدل حکمران محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر اس کی بربادی کا نظارہ کرتے اور رسمی افسوس کا اظہار کرنے کے سوا کوئی کاوش کرنے کو تیار نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں اسلام آباد ائرپورٹ کے باہر کچھ اس قسم کے اشتہار نصب کرنے چاہیے(اسلام آباد آپ کا ہوا، تمام ملکیوں، برائے نام غیر ملکیوں اور غیر ملکیوں کو دعوت ہے کہ اپنے بوٹوں اور لوٹوں سمیت تشریف لائیں اور جہاں دل چاہے بیٹھ کر اپنا بوجھ ہلکا کریں۔ اس سے آپ کے قدرتی اور جمہوری حق کا اظہار ہو گا اور ریاست کےاختیار کو جانچنے میں مدد ملے گی) اور آخر میں ان سادہ لوح دوستوں کے لئے جو یہ سمجھ بیٹھے کہ 14 جنوری کے طوفان نوح کے بعد ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈالی جائے گی، ان سے ؎گزارش ہے کہ تاریخ ابنِ خلدون کی جلد اول میں بےبنیاد مدعین ہدایت، مکار دین دار اور جعلی صوفیوں کا ذکر پڑھ لیں ، سب معاملہ سمجھ میں آ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔
طلعت حسین
12۔جنوری۔2013
بشکریہ۔ روزنامہ ایکسپریس
 

نایاب

لائبریرین
لانگ مارچ ہی کھٹکا ۔۔۔۔۔۔۔ محترم طلعت حسین کو
سن 2000 کے بعد کتنی بار دارلخلافہ ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان مفلوج ہوا ۔
اور اب جبکہ پاکستان کی بقا اور عوام پاکستان کو کرپشن سے صاف قیادت کی فراہمی پر لانگ مارچ ہو رہا ہے ۔
پاکستان کی مفلوجیت یاد آگئی ۔
کیا ہی ذمہدارانہ دانشوارانہ صحافت ہے
خوب دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں ۔ زرد صحافت کا شاہکار کالم ہے ۔
 

شیزان

لائبریرین
بات تو آپکی درست ہے، لیکن میں نے کالم کے بارے میں عرض کیا تھا ۔۔کالم لکھنے والے یا پوسٹ کرنے والے کے متعلق نہیں۔۔:)

بھائی احمقانہ کالم کوئی احمق ہی لکھ سکتا ہے۔۔جب احمقانہ کہہ دیں تو باقی کہنے کی ضرورت نہیں رہتی

ویسے آپ کے خیال میں طلعت حسین کو کن کی طرف سے لفافہ ملا ہو گا؟;)
 
بھائی احمقانہ کالم کوئی احمق ہی لکھ سکتا ہے۔۔جب احمقانہ کہہ دیں تو باقی کہنے کی ضرورت نہیں رہتی

ویسے آپ کے خیال میں طلعت حسین کو کن کی طرف سے لفافہ ملا ہو گا؟;)
میں نے کسی لفافے کے بارے میں تو کچھ نہیں لکھا۔ یہ تو آپکا حسنِ ظن ہے طلعت حسین کے ساتھ۔
اور جہاں تک احمقانہ کالم کی بات ہے، تو ایسی حماقت کی توقع عقلمندوں سے بھی کی جاسکتی ہے۔۔آپ نے پطرس بخاری کا وہ مشہور جملہ تو ضرور پڑھ رکھا ہوگا۔ اپنے مضمون "کتے" میں وہ اس محاورے (کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ " کیا پتہ کب کوئی کتا بھونکنا چھوڑ کر کاٹنا شروع کردے"
چنانچہ کیا پتہ کب کوئی اچھا بھلا سمجھدار انسان، ایسے کالم لکھنا شروع کردے۔۔:p
 

شیزان

لائبریرین
میں نے کسی لفافے کے بارے میں تو کچھ نہیں لکھا۔ یہ تو آپکا حسنِ ظن ہے طلعت حسین کے ساتھ۔
اور جہاں تک احمقانہ کالم کی بات ہے، تو ایسی حماقت کی توقع عقلمندوں سے بھی کی جاسکتی ہے۔۔آپ نے پطرس بخاری کا وہ مشہور جملہ تو ضرور پڑھ رکھا ہوگا۔ اپنے مضمون "کتے" میں وہ اس محاورے (کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ " کیا پتہ کب کوئی کتا بھونکنا چھوڑ کر کاٹنا شروع کردے"
چنانچہ کیا پتہ کب کوئی اچھا بھلا سمجھدار انسان، ایسے کالم لکھنا شروع کردے۔۔:p
میرے حسنِ ظن کو چھوڑیئے۔۔ :) کہ ہمیں تو ہمیشہ "ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ" والی صورتحال کا سامنا رہا۔۔
چلیں اس سے یہ بات تو ثابت ہوئی کہ آپ سمجھتے ہیں کہ طلعت حسین ایک سمجھدار کالم نویس ہیں۔۔ :rolleyes::)اور اس میں مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بےباک اور سمجھدار صحافی ہیں اور تمام لفافوں سے بھی دور دور رہے ہیں۔۔۔
 
کتنا برا عنوان چنا ہے ۔ پہلے ہی ملک کے حالات دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ، مستزاد لوگ اتنی بری باتیں شروع کر دیتے ہیں ۔ اللہ اس ملک کے چپے چپے کو سلامت رکھے ۔
 
دنیا میں کوئی ملک اپنے داراخلافہ کو اتنی فراخدلی سے باہر سے آنے والوں کے سامنے نہیں پھینک دیتا جیسے کہ اس مملکت خدا داد میں روایت بن گئی ہے، اگر کوئی لیڈر لندن میں اپنے حق میں چھوٹا سا اور انتہائی شریفانہ مظاہرہ کرانا چاہے تو اس کے لئے باقاعدہ اجازت کے سات مراحل سے گزرنا پڑے گا، انتظامیہ جگہ، وقت اور دورانیے کا تعین کرئے گی اور اس پہلو کو پہلے سے طے کیا جائے گا کہ اس اجتماع( جو عمومآ چند درجن سے زائد افراد پر مبنی نہیں ہوتا) کی نوعیت کیا ہو گی، دورانیہ ختم ہوتے ہی ان افراد کو منظم انداز میں گھروں کو واپس جانا ہو گا۔ خلاف ورزی کرنے والے کو گدی سے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ مظاہرے کے آمنے سامنے دائیں بائیں نہ کوئی گزرگاہ بند ہو گی اور نہ ہی کوئی اور شخص اپنے مقررہ کاموں کے اوقات میں ایک سیکنڈ کی تبدیلی کرنے پر مجبور ہو گا۔ قادری صاحب کے ملک کینیڈا میں بھی تمام تر جمہوریت کے باوجود شہری انتظامیہ کی مرضی کے بغیر وہ کسی فٹ پاتھ پر راستہ روک کر ایک لمحے کے لئے بھی کھڑے نہیں ہو سکتے، سڑک پر رکاوٹ کھڑی کرنا تو دور کی بات اور اگر کسی نے ہر حال میں ان حقوق کا استعمال کرنا ہے تو ان کی جگہ یا تو جیل ہو گی اور یا پھر نفسیاتی امراض کا وہ وارڈ جہاں پر بستر کے ساتھ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں موجود ہوتی ہیں مگر چوں کہ پاکستان برطانیہ ہے نہ کینیڈا۔ لہذا اس کا دارالخلافہ ہر قسم کی کاروائی کے لیے کھلا ہے جس کا دل چاہے وہ اس پر قبضہ کر لے، جو جب چاہے اس کو مفلوج کر دے
بہت خوب ۔
 
محمود احمد غزنوی جی طاہر القادری سے بڑا احمق کوئی ہوگا بھلا کہ کینیڈا کا آرام اور سکون و چھوڑ کر آیا ہے پاکستان کے حالات تھیک کرنے؟؟؟؟
بھلا طاہر القادری سے بڑا احمق اور کون ہوگا جو کہتا ہے کہ خاندانی سیاست ختم کرو اس احمق کم عقل بے وقوف ترین شخص کو یہ نہیں پتہ کہ ہم غلام قوم ہیں ہم نے ہمیشہ غلامی کی ہے پہلے ہم افغانوں کے غلام تھے پھر مغلوں کے غلام ہوئے پھر انگریزوں کے غلام ہوئے اور پھر جاتے جاتے ان کا ایک لارڈ میکالے اپنا کالے قانون کے تحت ہم کو کالے انگریزوں کے سپرد کرگیا ہے۔
طاہر القادری کم عقل و احمق انسان ۔۔۔۔۔ وڈا آیا حالات ٹھیک کرنے والا
 
ابتدا میں ہی سارے شہرکو مفلوج کر کے رکھ دیا ۔ اللہ جانے آگے یہ ’انقلاب ‘ کیا رنگ دکھائے گا ۔ اسی طرح ان حضرت نے پرویز مشرف کی حمایت میں چار دن میلہ لگایا تھا ۔ بعد میں چپ کر کے بیٹھ گئے ۔
ور اسلام آباد میں بلیو ایریا میں سٹیج بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اللہ کرے بعد میں پہچانا جائے ۔
 
جو لوگ لانگ مارچ کے حق میں ہیں ان سے پوچھنا یہ ہے کہ وہ تبدیلی کیسے لانا چاہتے ہیں بلٹ سے یا بیلٹ سے۔ اگر اس طرح سڑک پر طاقت دکھانی ہے تو پھر 40 لاکھ طاہر کے تو 50 لاکھ زرداری کے ۔۔ پھر جو بھی کھپے ۔۔۔ جس کی توپ بڑی وہ جیتا ۔۔۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے کہ بندوقوں ، فسادوں سے فیصلہ کرنا ہے تو پھر امریکہ بہادر کی شکایت کیوں کرتے ہو کہ افغانستان میں گھس گیا ، عراق میں گھس گیا۔ یہ تو بھائی تمہارا ہی آئین ہے کہ گولی سے فیصلہ ہوگا ۔۔ اختلاف کی سزا موت ۔۔۔۔ جو لوگ بیلٹ چھوڑ کر بلٹ کے حامی ہیں ہاتھ اٹھائیں۔ تاکہ پیپلز پارٹی بھی اپنی گھن گرج لے کر آجائے۔۔۔۔ طاہر پادری ۔۔۔ پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنے کی ایک اور بڑی سازش ہے۔ سرحدوں کے دفاع کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے دارلخلافہ پر حملہ کرنے والے ایک غیر ملکی تخریب کار -- طاہر -- کو دہشت گردی کی کورٹ میں لے جایا جائے اور اور اس کو اس کے جرم کی سزائے موت دے دی جائے
 

عاطف بٹ

محفلین
لانگ مارچ ہی کھٹکا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ محترم طلعت حسین کو
سن 2000 کے بعد کتنی بار دارلخلافہ ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان مفلوج ہوا ۔
اور اب جبکہ پاکستان کی بقا اور عوام پاکستان کو کرپشن سے صاف قیادت کی فراہمی پر لانگ مارچ ہو رہا ہے ۔
پاکستان کی مفلوجیت یاد آگئی ۔
کیا ہی ذمہدارانہ دانشوارانہ صحافت ہے
خوب دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں ۔ زرد صحافت کا شاہکار کالم ہے ۔
نایاب بھائی، مجھے آپ کے نقطہء نظر سے اختلاف کے باوجود اس پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی میں ایسا کرنے کا کوئی حق رکھتا ہوں لیکن اگر آپ طلعت حسین سے واقف ہوتے تو کم از کم ان کے نقطہء نظر کے اظہار کو زرد صحافت کا نام نہ دیتے!
 
بہرحال مسلمان ہے ، پادری نہیں کہنا چاہیے ۔
جو لوگ لانگ مارچ کے حق میں ہیں ان سے پوچھنا یہ ہے کہ وہ تبدیلی کیسے لانا چاہتے ہیں بلٹ سے یا بیلٹ سے۔ اگر اس طرح سڑک پر طاقت دکھانی ہے تو پھر 40 لاکھ طاہر کے تو 50 لاکھ زرداری کے ۔۔ پھر جو بھی کھپے ۔۔۔ جس کی توپ بڑی وہ جیتا ۔۔۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے کہ بندوقوں ، فسادوں سے فیصلہ کرنا ہے تو پھر امریکہ بہادر کی شکایت کیوں کرتے ہو کہ افغانستان میں گھس گیا ، عراق میں گھس گیا۔ یہ تو بھائی تمہارا ہی آئین ہے کہ گولی سے فیصلہ ہوگا ۔۔ اختلاف کی سزا موت ۔۔۔ ۔ جو لوگ بیلٹ چھوڑ کر بلٹ کے حامی ہیں ہاتھ اٹھائیں۔ تاکہ پیپلز پارٹی بھی اپنی گھن گرج لے کر آجائے۔۔۔ طاہر پادری ۔۔۔ پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنے کی ایک اور بڑی سازش ہے۔ سرحدوں کے دفاع کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے دارلخلافہ پر حملہ کرنے والے ایک غیر ملکی تخریب کار -- طاہر -- کو دہشت گردی کی کورٹ میں لے جایا جائے اور اور اس کو اس کے جرم کی سزائے موت دے دی جائے
 
Top