ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ میڈیا اور محفلین کی نظر میں

الف نظامی

لائبریرین
باتیں تو سب ٹھیک ہیں لیکن ان پر عمل ہو تو تب ناں۔
شمشاد صاحب ان شاء اللہ عمل بھی ہوگا ، قوم بیدار ہوگئی ہے اور اب آئین پاکستان پر عملدرآمد کا مطالبہ شد و مد سے ہو رہا ہے۔ ایک مثال دیکھیے:

181125_550281991649005_595092028_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین

ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ وہ خود یا ان کے خاندان کا کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی وراثت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ حکومت رہے یا نہ رہے لانگ مارچ کے معاہدے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ وہ ملک کی سیاست اور جمہوری کلچر میں مثال پیش کر رہے ہیں۔ سیاست میں موروثیت کے خلاف ہیں۔ اس لیے خود بھی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے اور قابلیت اور صلاحیت کے باوجود بیٹے بہو سمیت خاندان کا کوئی فرد الیکشن نہیں لڑے گا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ عوام پورے سسٹم سے مایوس اور بے حس ہوتے جا رہے ہیں۔ جمہوریت خود کار استحصالی نظام ہوتا ہے۔ فوجی آمریت کو قبول نہیں کریں گے۔ تمام جماعتوں کے قائدین سے اپیل کروں گا کہ وہ سیاست سے بالاتر ہو کر قوم کے رہنما بنیں۔
لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنے کی طرح پرجوش طویل خطاب کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ امن اور جمہوريت کے ليے مذاکرات ضروری ہوتے ہیں۔ حکومت رہے يا چلی جائے لانگ مارچ ڈيکلريشن کی اتھارٹی پر فرق نہيں پڑے گا۔ ڈیکلريشن قانونی حيثيت حاصل کر چکا ہے۔ حکومت يا پارليمنٹ رہے يا نہ رہے۔ آئین کا آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ موجود رہے گا۔

خبر آپ نے ملاحظہ کی اب ایک جنوری 2013 کو پوسٹ کیا گیا ایک تبصرہ دیکھیے :
اس مارچ کا مقصد "انتخابی اصلاحات" ہیں ، ہمیں اس حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں (کہ یہ تو اپنی مدت پوری کر چکی) بلکہ ہم اس کرپٹ انتخابی نظام میں اصلاح کے خواہاں ہیں جس کے نتیجے میں نااہل اور بے بصیرت نمائندے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں اور ہم منصفانہ و عادلانہ انتخابی نظام چاہتے ہیں۔ اگر انتخابی اصلاحات کے مطالبہ کو اس شرط پر بھی مان لیا جائے کہ تاقیامت اس کا مطالبہ کرنے والے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تو واللہ ہم اس پر بھی راضی ہیں کہ اقتدار مطمع نظر نہیں بلکہ منصفانہ و عادلانہ انتخابی نظام درکار ہے جس کے نتیجے میں اہل اور باکردار لوگ پارلیمنٹ میں آئیں اور اس وطن کی تقدیر کو سنواریں۔
 

Fawad -

محفلین
بظاہر امریکی مولانا کا لانگ مارچ ٹھس ہو چکا۔
دھرنا ئی انقلاب کی اس شاندار ناکامی اور ’’خیرہ کن ‘‘ رسوائی کا مطلب یہ نہیں کہا مریکہ بہادر آرام سے بیٹھ جائے گا انقلاب کا اصل مقصد الیکشن روکنا ہے۔ فی الحال یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا لیکن دوسرے وار کا اندیشہ جوں کا توں ہے۔ اور اگر الیکشن ملتوی نہ ہو سکے توامریکہ کی ناپسندیدہ جماعتوں کو شکست دینے کے لئے کئی طرح کے اتحاد بنائے جائیں گے۔


Fawad – Digital Outreach Team – US State Department


بدقسمتی سے پاکستان ميں ہر اہم سياسی اور مذہبی ليڈر پر ان کے مخالفين اور ناقدين کی جانب سے کبھی نا کبھی "امريکی کٹھ پتلی" يا امريکی ايجنٹ ہونے کے الزامات لگتے رہے ہيں۔ اس تناظر ميں تو علامہ طاہر القادری پر بھی اسی نوعيت کے بے بنياد اور غلط الزامات کا لگنا کوئ اچنبے کی بات نہيں ہے۔ ليکن حقيقت يہ ہے کہ طاہر القادری نا تو امريکی شہری ہيں اور نا ہی امريکی حکومت کے کسی بھی ادارے سے ان کا کوئ تعلق ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ مراسلے میں واضح کر ديا گيا تھا کہ ان کے نظريات يا ان کی تحريک کو ہماری حکومت کی جانب سے کو‏ئ تعاون يا سپورٹ حاصل نہيں ہے۔

کسی کو بھی غير ملکی ايجنٹ قرار دے کر اس کی کردار کشی کرنا ايک پرانا وطيرہ ہے۔ حالانکہ آج کے جديد دور ميں مواصلات کے تيز رفتار نظام، معلومات تک آسان رسائ اور سوشل ميڈيا کے ذريعے شعور اور آگاہی کی روشنی ميں يہ سوچنا بھی محال ہے کہ کوئ غير ملکی حکومت سياسی يا مذہبی نظريہ اور سوچ ازسرنو "تخليق" کر سکے يا بغير عوامی پذيرائ اور تعاون کے کوئ تحريک شروع کروا سکے۔

امريکی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ پاکستانيوں کو کسی ايک شخص يا سياسی جماعت کی حمايت کے ليے زبردستی قائل کر سکے۔ جو اس حقيقت کا انکاری ہے وہ درحقيت پاکستان ميں عوام کے سياسی شعور اور فيصلہ کرنے کی صلاحيت کو نظرانداز کر رہا ہے۔ حتمی تجزيے ميں يہ فيصلہ اور اختيار امريکيوں کے نہيں بلکہ پاکستانيوں کے ہاتھ ميں ہے کہ قوم کی رہبری اور قيادت کا اختيار کسے سونپا جائے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

رمان غنی

محفلین
ہماری افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہم خود تو کچھ کرتے نہیں لیکن جب کوئی ایک شخص لوگوں کی بھلائی اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے اٹھتا ہے تو اس کی بشریت کا فائدہ اٹھا کر اس کی خامیاں اور کوتاہیاں ڈھونڈنے میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اور ہر وہ نکتہ تلاش کرتے ہیں جس سے اس کی شخصیت مجروح ہو۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم نے تنقید کا معیار ہی اتنا گرا دیا ہے کہ اس لفظ کو پڑھتے ہی لگتا ہے کہ اب کسی کی صرف خامیوں اور خرابیوں کو ہی ڈھونڈا جانا ہے۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ تنقید کے نام پر گالیوں اور نازیبہ الفاظ تک کا استعمال کرنے میں لوگ تعمل محسوس نہیں کرتے۔​
تنقید اس کی زبان سے کچھ اچھی بھی لگتی ہے جو خود اس کام میں سرگرم ہولیکن تنقید و تبصرہ میں سر فہرست وہ لوگ نظر آتے ہیں جنہیں محض تنقید و تبصرہ کے کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔​
یہی فعل محترم شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری صاحب کے تعلق سے بھی روا رکھا جارہا ہے ۔ جو ان کے عقیدت مند ہیں وہ ان کی تعریف کے علاوہ کچھ اور سننے کو تیار نہیں اورباقی ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کو کھوج کھوج کر منظر عام پر لانے پر تلے ہوئےہیں۔​
میری نظر میں ڈاکٹر صاحب ایک بہترین مفکر اور خادم دین ہیں۔ ان کا ڈینمارک میں پادریوں کو مباحثہ میں شکست فاش دینا ، یورپ میں مسلمانوں کے ذہنی انتشار کو یکسو کرنا ، پاکستان میں لوگوں کی قلبی اصلاح میں سرگرم رہنا پھر حالیہ دنوں میں کرپٹ انتخابی نظام کے خلاف مظاہرہ کرنا اور اس کے علاوہ متعدد خدمات کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
لیکن ان کا گجرات کاقاتل اعظم نریندر مودی کو زیذ پلس سکیورٹی دیے جانے پر شکریہ کہنا ۔ جس نے تقریباَ ایک ہزار معصوم مسلمانوں کو بد بختوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑدیا اور کتنے اطمینان سے پولس افسروں سے یہ کہتا رہا کہ بھڑاس نکالنے دو۔ ایسے شخص کا صرف اپنی محافظت کے لیے شکریہ ادا کرنا میرے لیے سنگین صدمہ کا باعث بنا۔۔ کاش کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی سکیورٹی ٹھکرا کر بد بخت نریندر مودی سے یہ کہا ہوتا کہ میرا محافظ تو خدا اور رسول ہے تم ان مسلمانوں کی حفاظت کا انتظام کیوں نہیں کرتے۔۔۔
یہ اظہار تشکر تو پھر بھی کسی حد تک برداشت کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس وقت دردو الم کی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان گوش گذار ہوا کہ مسلمانوں کو ماضی بھول کر مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔
محترم و بزرگوار طاہر صاحب ! کیا ہم بھول جائیں اپنی ان بہنوں کو جن کی سر عام عصمتیں لوٹی گئیں۔۔۔ کیا ہم بھول جائیں اپنی ان مائوں کو جنہیں زندہ جلا دیا گیا۔۔۔ کیا ہم بھول جائیں اپنے ان بھائیوں کو جنہیں ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا گیا۔۔۔ کیا ہم بھول جائیں ان معصوم بچوں کو جنہیں صرف مسلمان ہونے کی پاداش میں بے دردی سے قتل کیا گیا۔۔۔ ہم بھول جائیں وہ مسجدیں وہ درگاہیں وہ عبادت گاہیں وہ سب کچھ جنہیں ہماری آنکھوں نے شہید ہوتے دیکھا۔۔؟؟؟؟
آہ افسوس! کاش کے ڈاکٹر صاحب نے ہمارے درد کو سمجھا ہوتا۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
قادری صاحب کا
توہین رسالت کے موقف پر پاکستان میں یہ کہنا کہ
شاتم رسول کا تعلق چاہے جس مذہب سے ہو اُس کی سزا موت ہے
اور مغربی میڈیا کے سامنے کہنا
غیر مسلم کو توہینِ رسالت کی سزا نہیں دی جا سکتی قانون ناقص ہے
پاکستان میں کہنا
قانون میں نے بنوایا ہے
بیرونِ ملک کہنا
قانون میں بہت سے سقم ہیں
62۔ 63 پر تو وہ خود پورے نہیں اُترتے
 

باباجی

محفلین
ہماری افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہم خود تو کچھ کرتے نہیں لیکن جب کوئی ایک شخص لوگوں کی بھلائی اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے اٹھتا ہے تو اس کی بشریت کا فائدہ اٹھا کر اس کی خامیاں اور کوتاہیاں ڈھونڈنے میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اور ہر وہ نکتہ تلاش کرتے ہیں جس سے اس کی شخصیت مجروح ہو۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم نے تنقید کا معیار ہی اتنا گرا دیا ہے کہ اس لفظ کو پڑھتے ہی لگتا ہے کہ اب کسی کی صرف خامیوں اور خرابیوں کو ہی ڈھونڈا جانا ہے۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ تنقید کے نام پر گالیوں اور نازیبہ الفاظ تک کا استعمال کرنے میں لوگ تعمل محسوس نہیں کرتے۔​
تنقید اس کی زبان سے کچھ اچھی بھی لگتی ہے جو خود اس کام میں سرگرم ہولیکن تنقید و تبصرہ میں سر فہرست وہ لوگ نظر آتے ہیں جنہیں محض تنقید و تبصرہ کے کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔​
یہی فعل محترم شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری صاحب کے تعلق سے بھی روا رکھا جارہا ہے ۔ جو ان کے عقیدت مند ہیں وہ ان کی تعریف کے علاوہ کچھ اور سننے کو تیار نہیں اورباقی ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کو کھوج کھوج کر منظر عام پر لانے پر تلے ہوئےہیں۔​
میری نظر میں ڈاکٹر صاحب ایک بہترین مفکر اور خادم دین ہیں۔ ان کا ڈینمارک میں پادریوں کو مباحثہ میں شکست فاش دینا ، یورپ میں مسلمانوں کے ذہنی انتشار کو یکسو کرنا ، پاکستان میں لوگوں کی قلبی اصلاح میں سرگرم رہنا پھر حالیہ دنوں میں کرپٹ انتخابی نظام کے خلاف مظاہرہ کرنا اور اس کے علاوہ متعدد خدمات کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
لیکن ان کا گجرات کاقاتل اعظم نریندر مودی کو زیذ پلس سکیورٹی دیے جانے پر شکریہ کہنا ۔ جس نے تقریباَ ایک ہزار معصوم مسلمانوں کو بد بختوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑدیا اور کتنے اطمینان سے پولس افسروں سے یہ کہتا رہا کہ بھڑاس نکالنے دو۔ ایسے شخص کا صرف اپنی محافظت کے لیے شکریہ ادا کرنا میرے لیے سنگین صدمہ کا باعث بنا۔۔ کاش کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی سکیورٹی ٹھکرا کر بد بخت نریندر مودی سے یہ کہا ہوتا کہ میرا محافظ تو خدا اور رسول ہے تم ان مسلمانوں کی حفاظت کا انتظام کیوں نہیں کرتے۔۔۔
یہ اظہار تشکر تو پھر بھی کسی حد تک برداشت کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس وقت دردو الم کی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان گوش گذار ہوا کہ مسلمانوں کو ماضی بھول کر مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔
محترم و بزرگوار طاہر صاحب ! کیا ہم بھول جائیں اپنی ان بہنوں کو جن کی سر عام عصمتیں لوٹی گئیں۔۔۔ کیا ہم بھول جائیں اپنی ان مائوں کو جنہیں زندہ جلا دیا گیا۔۔۔ کیا ہم بھول جائیں اپنے ان بھائیوں کو جنہیں ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا گیا۔۔۔ کیا ہم بھول جائیں ان معصوم بچوں کو جنہیں صرف مسلمان ہونے کی پاداش میں بے دردی سے قتل کیا گیا۔۔۔ ہم بھول جائیں وہ مسجدیں وہ درگاہیں وہ عبادت گاہیں وہ سب کچھ جنہیں ہماری آنکھوں نے شہید ہوتے دیکھا۔۔؟؟؟؟
آہ افسوس! کاش کے ڈاکٹر صاحب نے ہمارے درد کو سمجھا ہوتا۔۔۔
نریندر مودی سے متعلق بات جو آپ نے شیئر کی ہے مجھے اس کا پہلے علم نہ تھا
اور اس بات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بالکل ڈاکٹر صاحب کو یہی کرنا چاہیئے تھا کہ سیکیورٹی کے لیئے منع کردیتے
 
قادری صاحب کا
توہین رسالت کے موقف پر پاکستان میں یہ کہنا کہ
شاتم رسول کا تعلق چاہے جس مذہب سے ہو اُس کی سزا موت ہے
اور مغربی میڈیا کے سامنے کہنا
غیر مسلم کو توہینِ رسالت کی سزا نہیں دی جا سکتی قانون ناقص ہے
پاکستان میں کہنا
قانون میں نے بنوایا ہے
بیرونِ ملک کہنا
قانون میں بہت سے سقم ہیں
62۔ 63 پر تو وہ خود پورے نہیں اُترتے
حضرت سنی سنائی اور ایڈٹ شدہ چیزیں سننے سے پرہیز کیا کریں، یہ ویڈیو سنیں اور پھر اپنا موقف بیان کیجئے گا۔
فیس بک لنک
چند بے بنیاد اعتراضات رہ جائیں گے ان کی بھی وضاحت کر دوں گا۔ فی الحال اتنا ہی۔
 
بے ایمان کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا۔ وہ ایک الزام لگاتا ہےاسکا جواب مل جائے تو اگلا الزام لے آتا ہے، اسکا بھی جواب مل جائے تو پھر کوئی نیا الزام تراش لیتا ہے۔۔۔اور یہ سلسلہ لامتناہی انداز میں چلتا رہتا ہے ۔ ان لوگون میں اگر ذرا سی بھی اخلاقی جرات اور شرم ہوتی تو اپنے الزامات کے غلط ہونے پر معذرت کرتے اور اس طرزِ عمل سے باز آجاتے ۔
1-پہلے الزام لگایا گیا کہ طاہر القادری سسٹم کو ڈی ریل کرنے آیا ہےاور اسکے پیچھے اسٹیبلشمنٹ اور آرمی ہے (امریکہ اور کینیڈا بھی ہے):D تاکہ سیاستدانوںسے جان چھڑا کر ایک ٹیکنوکریٹ عبوری حکومت لائی جائے۔۔۔ لیکن جب یہ غلط ثابت ہوگیا تو کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اپنے تجزیے کے غلط ہونے کا اقرار کرتا بلکہ۔۔۔
2- دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ یہ آدمی دراصل خود نگران وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ یہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔
3- تیسرا الزام لگایا گیا کہ یہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتا ہے اور اپنے بیٹوں کو لانچ کرنے آیا ہے۔۔۔یہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔ تو کہا گیا کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے :D
4- یہ کہا گیا کہ مارچ کروانا اسکے بس کی بات نہیں پلے نئیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ۔۔۔یہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔
5- جب یہ سب غلط ثابت ہوگیا تو پھر یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ جی اس نے ڈینش کارٹونسٹ سے ملاقات کے بعد کینیڈا کی حکومت سے سیاسی پناہ حاصل کی ہے۔۔جب اس الزام کی بھی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور اسکو محض ایک تہمت اور بہتان ثابت کردیا گیا (پورے میڈیا کے سامنے چیلنج کے ساتھ)۔۔تو ان لوگوں کو شرم پھر بھی نہیں آئی۔۔اور یہ کہا گیا کہ:
6- کینیڈین امیگریش پولیس یا انکا ڈپارٹمنٹ اسکو سمن کر رہا ہے ۔۔۔۔یہ الزام بھی غلط ثابت ہوگیا تو پھر یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ:
7- یہ بندہ شکور قادری کے نام سے 27 جنوری کو واپس جارہا ہے۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تقریباّ ناممکن ہے کہ ایک مشہور شخص کسی دوسرے نام کے ساتھ کینیڈا کی شہریت حاصل کرسکے، بڑی لمبی چوڑی verifications ہوتی ہیں، کینیڈا والے اتنے پاگل نہیں کہ طاہر القادری کو شکور القادری کے نام سے شہریت دے دیں۔۔لیکن بے حیائی اسی کا نام ہے کہ بس جو منہ میں آئے بولتے رہو۔ چنانچہ یہ الزام بھی غلط ثابت ہوگیا (کیونکہ کسی نے طاہر القادری کے چیلنج کو قبول نہیں کیا کہ اس الزام کو ثابت کرکے دکھاؤ)۔
8- جب کچھ سمجھ نہیں آئی تو ذاتی حملے شروع۔۔کہا گیا کہ جی اس شخص نے جھوٹا خواب بیان کیا گیا، لیکن جب کہا جائے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے جھوٹ بولا، تو اسکے جواب میں کچھ نہیں بس آئیں بائیں شائیں۔۔۔

حاصلِ کلام یہ کہ۔۔۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا بہ ابد
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
 

زرقا مفتی

محفلین
نظامی صاحب لنک کے لئے شکریہ ۔ معذرت کے ساتھ یہ بھی ایڈٹ شدہ ہے
آپ کے دیئے گئے لنک میں قادری صاحب نے فرمایا
کہ اُن کا تعلق حنفی مسلک سے ہے جس کے مطابق کسی غیر مسلم کو توہین رسالت پر موت کی سزا نہیں دی جا سکتی
اب آپ یہ لنک دیکھئے جس میں فرماتے ہیں کہ اُن کا موقف یہ تھا کہ توہینِ رسالت کا مرتکب چاہے کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اُس کی سزا موت ہے۔ اب یہ مت کہیئے گا کہ یہ قادری صاحب کی آواز ڈب کی گئی ہے۔
 

رمان غنی

محفلین
بے ایمان کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا۔ وہ ایک الزام لگاتا ہےاسکا جواب مل جائے تو اگلا الزام لے آتا ہے، اسکا بھی جواب مل جائے تو پھر کوئی نیا الزام تراش لیتا ہے۔۔۔ اور یہ سلسلہ لامتناہی انداز میں چلتا رہتا ہے ۔ ان لوگون میں اگر ذرا سی بھی اخلاقی جرات اور شرم ہوتی تو اپنے الزامات کے غلط ہونے پر معذرت کرتے اور اس طرزِ عمل سے باز آجاتے ۔
1-پہلے الزام لگایا گیا کہ طاہر القادری سسٹم کو ڈی ریل کرنے آیا ہےاور اسکے پیچھے اسٹیبلشمنٹ اور آرمی ہے (امریکہ اور کینیڈا بھی ہے):D تاکہ سیاستدانوںسے جان چھڑا کر ایک ٹیکنوکریٹ عبوری حکومت لائی جائے۔۔۔ لیکن جب یہ غلط ثابت ہوگیا تو کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اپنے تجزیے کے غلط ہونے کا اقرار کرتا بلکہ۔۔۔
2- دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ یہ آدمی دراصل خود نگران وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ یہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔
3- تیسرا الزام لگایا گیا کہ یہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتا ہے اور اپنے بیٹوں کو لانچ کرنے آیا ہے۔۔۔ یہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔ تو کہا گیا کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے :D
4- یہ کہا گیا کہ مارچ کروانا اسکے بس کی بات نہیں پلے نئیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ۔۔۔ یہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔
5- جب یہ سب غلط ثابت ہوگیا تو پھر یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ جی اس نے ڈینش کارٹونسٹ سے ملاقات کے بعد کینیڈا کی حکومت سے سیاسی پناہ حاصل کی ہے۔۔جب اس الزام کی بھی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور اسکو محض ایک تہمت اور بہتان ثابت کردیا گیا (پورے میڈیا کے سامنے چیلنج کے ساتھ)۔۔تو ان لوگوں کو شرم پھر بھی نہیں آئی۔۔اور یہ کہا گیا کہ:
6- کینیڈین امیگریش پولیس یا انکا ڈپارٹمنٹ اسکو سمن کر رہا ہے ۔۔۔ ۔یہ الزام بھی غلط ثابت ہوگیا تو پھر یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ:
7- یہ بندہ شکور قادری کے نام سے 27 جنوری کو واپس جارہا ہے۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تقریباّ ناممکن ہے کہ ایک مشہور شخص کسی دوسرے نام کے ساتھ کینیڈا کی شہریت حاصل کرسکے، بڑی لمبی چوڑی verifications ہوتی ہیں، کینیڈا والے اتنے پاگل نہیں کہ طاہر القادری کو شکور القادری کے نام سے شہریت دے دیں۔۔لیکن بے حیائی اسی کا نام ہے کہ بس جو منہ میں آئے بولتے رہو۔ چنانچہ یہ الزام بھی غلط ثابت ہوگیا (کیونکہ کسی نے طاہر القادری کے چیلنج کو قبول نہیں کیا کہ اس الزام کو ثابت کرکے دکھاؤ)۔
8- جب کچھ سمجھ نہیں آئی تو ذاتی حملے شروع۔۔کہا گیا کہ جی اس شخص نے جھوٹا خواب بیان کیا گیا، لیکن جب کہا جائے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے جھوٹ بولا، تو اسکے جواب میں کچھ نہیں بس آئیں بائیں شائیں۔۔۔

حاصلِ کلام یہ کہ۔۔۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا بہ ابد
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
میں آپ کی بات سے متفق ہوں غزنوی بھائی۔۔۔ لیکن کسی کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں نے ڈاکٹر صاحب پر کوئی نیا الزام لگایا ہے۔۔۔ میں تو ان کے خاک پا کے برابر بھی نہیں۔۔۔ میں کون ہوتا ہوں ایسی بزرگ شخصیت پر الزام لگانے والا۔۔ میں نے تو صرف اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا ہے۔۔ ان کا بیان پڑھ کر مجھے ذاتی طور پر جو تکلیف ہوئی اسے بتانے کی کوشش کی ہے اور اپنی ناقص سمجھ سے اسے بہتر نہیں جانا ہے۔۔ بہت ممکن ہے ان کا یہ بیان کسی حکمت کے تحت ہو۔۔ جس طرح انہوں نے کسی حکمت ہی کے تحت اپنے پورے مارچ میں ایک بار بھی مصطفوی انقلاب کا نعرہ نہیں لگایا۔۔۔ اور اس مارچ کو مذہب سے نہ جوڑنے کی بار بار تلقین کرتے رہے۔۔۔
 
Top