ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ میڈیا اور محفلین کی نظر میں

آبی ٹوکول

محفلین
ویسے یہ جملہ "اگر کینیڈا کی شہریت چھوڑ دوں تو امتِ مسلمہ کی راہنمائی کون کرے گا؟"
ڈاکٹر صاحب نے کہا کب کوئی کلپ شلپ ہے ؟؟؟؟
 

عاطف بٹ

محفلین
ویسے یہ جملہ "اگر کینیڈا کی شہریت چھوڑ دوں تو امتِ مسلمہ کی راہنمائی کون کرے گا؟"
ڈاکٹر صاحب نے کہا کب کوئی کلپ شلپ ہے ؟؟؟؟
ڈاکٹر صاحب کے اب تک اتنے اور اتنی قسم کے کلپ سامنے آچکے ہیں کہ اب تو بس دو طرح کے کلپس کا انتظار ہے: پہلی قسم کا ذکر کر کے میں دھاگہ مقفل یا حذف نہیں کروانا چاہتا اور دوسری قسم آخری رسومات سے تعلق رکھتی ہے۔ ;)
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کمال لکھا ہے۔۔۔ لطف آ گیا۔۔۔
ویسے تو نذیر ناجی کا بھی اندازِ گفتگو طاہر القادری سے کسی طور کم نہیں۔ یقین نہ آئے تو ان کی فون کال ریکارڈنگ سن لیں جس میں ایک اور صحافی کا شجرۂ نسب بیان فرما رہے ہیں۔ :rollingonthefloor:
تھرڈ کلاس زرد صحافت کے گھسے پٹے پھکڑ پن کا شاہکار
بہت شکریہ بٹ بھائی شراکت پر
نذیر ناجی ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں، جن کی وجہ سے مجھے صحافت، پرانے زمانے کی "قصیدہ گوئی" سے بھی زیادہ ذلت آمیز "پیشہ" لگنے لگی ہے۔ باقی لسٹ میں عطاءالحق قاسمی، اسد اللہ غالب وغیرہ وغیرہ کو شامل سمجھیں۔ آج پاکستان کا عام آدمی (بشمول میرے محلے کا حجام، سبزی والا اور کریانے کی دکان کا مالک) ٹی وی اخبار والوں، سیاستدانوں اوردیگر تمام "بڑے لوگوں" کے بارے میں ایک ہی بات کرتا ہے: "سب چور ہیں۔ سب ملے ہوئے ہیں"۔

فراغت ملے تو ان سب چوروں کے بارے میں انٹرنیٹ پر ایسی مہم شروع کروں کہ نانی یاد آ جائے۔ مگر پھر یہ سوچتا ہوں یہ اس قابل بھی ہیں کہ ان کے ذکر سے کاغذ کا منہ کالا کیا جائے؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
ڈاکٹر صاحب کے اب تک اتنے اور اتنی قسم کے کلپ سامنے آچکے ہیں کہ اب تو بس دو طرح کے کلپس کا انتظار ہے: پہلی قسم کا ذکر کر کے میں دھاگہ مقفل یا حذف نہیں کروانا چاہتا اور دوسری قسم آخری رسومات سے تعلق رکھتی ہے۔ ;)
یعنی ایویں ای یہ ہوائی کسی دشمن نہ ارائی کلپ شلپ کوئی نئی اوکے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ڈاکٹر صاحب کے اب تک اتنے اور اتنی قسم کے کلپ سامنے آچکے ہیں کہ اب تو بس دو طرح کے کلپس کا انتظار ہے: پہلی قسم کا ذکر کر کے میں دھاگہ مقفل یا حذف نہیں کروانا چاہتا اور دوسری قسم آخری رسومات سے تعلق رکھتی ہے۔ ;)
آخری رسومات والی ویڈیو کے متعلق متعدد مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ اس کا تعلق بہت سے لوگوں کے مذہبی عقائد سے ہے۔ اس لیے اس کو نہ ہی چھیڑا جائے تو بہتر ہو۔ البتہ پہلی قسم کے بارے میں آپ نے تجسس میں ڈال دیا۔ پی ایم کر سکتے ہیں؟

میری رائے میں تو قادری صاحب کا سودا اس لیے بک رہا ہے کہ لوگ "بغضِ معاویہ" میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں خود ان کی باتیں اس لیے سنتا ہوں کہ "دشمنوں" کے خوب لتّے لیتے ہیں۔ وہ کسی کے دوست ہوں نہ ہوں، دشمنوں کے دشمن تو ہیں ہی! کیا خیال ہے؟
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
میری رائے میں تو قادری صاحب کا سودا اس لیے بک رہا ہے کہ لوگ "بغضِ معاویہ" میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں خود ان کی باتیں اس لیے سنتا ہوں کہ "دشمنوں" کے خوب لتّے لیتے ہیں۔ وہ کسی کے دوست ہوں نہ ہوں، دشمنوں کے دشمن تو ہیں ہی! کیا خیال ہے؟

فوج اور عدلیہ سے موصوف نے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ۔۔۔ عدلیہ نے تو "لاتعلقی" کا اعلان کر دیا ہے اور "فوج" کو اب ان کی ضرورت نہیں رہی ہے ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے غرض ہے اور نہ ہی طاہر القادری سے ۔۔۔ ان کو بس دو باتوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔۔۔ کوئی پارٹی سادہ اکثریت نہ لے جائے پارلیمنٹ میں یا پھر کہیں دو تہائی اکثریت لے کر سچ مچ تبدیلی کی پوزیشن میں نہ آ جائے ۔۔۔ اس لیے وہ ایک حد تک ہی "سہولت" فراہم کرتے ہیں ۔۔۔ ہمیں تو پاکستانی سیاست کے منظر نامے میں کوئی بھی "جوہری تبدیلی" واقع ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔۔۔ طاہر القادری صاحب کے پاس بھی اب کچھ نہیں بچا ۔۔۔ وہ دشمنوں کے لتے کیا لیں گے اب ۔۔۔ ان کے دشمنوں میں اب "معتبر" افراد بھی شامل ہو گئے ہیں اور ان پر انگلی اٹھانا خود ان کے بس میں بھی نہیں رہا ۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
نذیر ناجی ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں، جن کی وجہ سے مجھے صحافت، پرانے زمانے کی "قصیدہ گوئی" سے بھی زیادہ ذلت آمیز "پیشہ" لگنے لگی ہے۔ باقی لسٹ میں عطاءالحق قاسمی، اسد اللہ غالب وغیرہ وغیرہ کو شامل سمجھیں۔ آج پاکستان کا عام آدمی (بشمول میرے محلے کا حجام، سبزی والا اور کریانے کی دکان کا مالک) ٹی وی اخبار والوں، سیاستدانوں اوردیگر تمام "بڑے لوگوں" کے بارے میں ایک ہی بات کرتا ہے: "سب چور ہیں۔ سب ملے ہوئے ہیں"۔

فراغت ملے تو ان سب چوروں کے بارے میں انٹرنیٹ پر ایسی مہم شروع کروں کہ نانی یاد آ جائے۔ مگر پھر یہ سوچتا ہوں یہ اس قابل بھی ہیں کہ ان کے ذکر سے کاغذ کا منہ کالا کیا جائے؟
لیکن نذیر ناجی نے اس کالم میں تو حرف بہ حرف درست لکھا ہے طاہر القادری کے متعلق۔
 

نایاب

لائبریرین
ویسے یہ جملہ "اگر کینیڈا کی شہریت چھوڑ دوں تو امتِ مسلمہ کی راہنمائی کون کرے گا؟"
ڈاکٹر صاحب نے کہا کب کوئی کلپ شلپ ہے ؟؟؟؟
یعنی ایویں ای یہ ہوائی کسی دشمن نہ ارائی کلپ شلپ کوئی نئی اوکے
ویسے کدی کدی مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر ساب نے کئی لوکوں کی کھوتی تُپے بن دی ہے جو ان کے مغر ہی لگ گئے ہیں
محترم آبی بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں دوستوں سے زیادہ ان کی مخالفت کرنے والے ان کی شخصیت و حال و قال پر بہت گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ اور ویسے بھی ڈاکٹر صاحب کی نجی و محفلی گفتگو کے ساتھ یہ کھیل بہت پرانا ہے ۔ کہ کوئی اک جملہ اچک لیا اور داستان بنا دی ۔ یہ جملہ بھی کہیں کہا ہوگا ۔ ناقدین لپک لیئے بنا مکمل بیان سنے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
لیکن نذیر ناجی نے اس کالم میں تو حرف بہ حرف درست لکھا ہے طاہر القادری کے متعلق۔
محترم بھائی حرف بہ حرف درست ہے یا کہ جملہ بہ جملہ ۔۔۔
اک دلیل ضرور دے دی ناجی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے حق میں ۔
کہ ڈاکٹر صاحب کے خطاب " شیخ الاسلام " کو چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے فل بنچ نےتسلیم کر لیا۔۔۔۔۔۔۔
ہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
لیکن نذیر ناجی نے اس کالم میں تو حرف بہ حرف درست لکھا ہے طاہر القادری کے متعلق۔
دل کو کیسے سمجھاؤں کہ جو لکھا ہے، ضمیر کی آواز پر لکھا ہے، کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں۔ رہا سچ، تو وہ تو اتنا بولا جا رہا کہ بد ہضمی سی ہو گئی ہے۔ کاش پاکستانی اخبارات و میڈیا، ہفتہءِ خاموشی منائیں۔یقین ہے کہ ان کے سچ سے ان کی خا موشی بہتر ثابت ہو گی۔

اگر یہ "جنیوئن" سچے ہیں تو ان کی بات میں تاثیر کیوں نہیں؟ سچا تو وہ ہوتا ہے جو کہے کہ "اس پہاڑی کے پیچھے سے دشمن کی فوج آ رہی ہے" اور تصدیق کے لیے سیٹلا ئٹ کی ضرورت نہ پڑے۔ دل خود ہی مان جائے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
علامہ صاحب نے بہرحال ایک بات تو ثابت کر کے دکھا دی ۔۔۔ کہ وہ دو سال سے "سونامی سونامی" کرنے والوں سے زیادہ متحرک اور فعال واقع ہوئے ہیں ۔۔ایک ماہ کی قلیل مدت میں انہوں نے اپنے مخالفین کو خوب تگنی کا ناچ نچایا ۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر عمران خان صاحب ان کے دھرنے میں شریک ہو جاتے تو بہت کچھ ممکن ہونے جا رہا تھا ۔۔۔ لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا ۔۔۔ یہ بات الگ کہ ہم اول روز سے علامہ صاحب کی "مخالفت" کر رہے ہیں اور اس مخالفت کی بہت سی وجوہات ہیں ۔۔۔
 
واقعی بہت ہنسنے والی بات ہے۔۔ڈاکٹر صاحب کو نجانے کیوں مولوی فضل الرحمان، عبدالغفور حیدری، عبدالعزیز برقع پوش، جنابِ منور حسن ، مولوی سمیع الحق ، مولوی فضل اللہ وغیرہ وغیرہ جیّد علمائے کرام نظر نہیں آئے۔۔ان سُچے (بر وزنِ لُچے)موتیوں اور دانوں کے ہوتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا ۔۔۔ بڑی غلط بات لگتی ہے۔۔آئیے دل کھول کر ہنسیں۔۔ہنستے ہنستے آنکھوں میں پانی بھی آجائے تو مضائقہ نہیں:D

او ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو :rolleyes:

اب میں سمجھا رخسار پہ تل کا مطلب
بوہاہاہاہاہاہاہا:ROFLMAO::grin::ROFLMAO:
 

نایاب

لائبریرین
ویسے یہ جملہ "اگر کینیڈا کی شہریت چھوڑ دوں تو امتِ مسلمہ کی راہنمائی کون کرے گا؟"
ڈاکٹر صاحب نے کہا کب کوئی کلپ شلپ ہے ؟؟؟؟
بشکریہ نوائے وقت

news-1360880738-7703.jpg


لاہور (خصوصی نامہ نگار) تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمشن کی تحلیل کے معاملے پر دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کا بطور ادارہ دل سے احترام کرتا ہوں اور اس کے کےخلاف کسی قسم کی کوئی تحریک چلانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں، مجھ پر پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے میں کسی کے کہنے پر جذبات میں آکر کینیڈا کی شہریت ترک کر کے خود کو ایک کمرے میں بند نہیں کر سکتا، حق دعویٰ پر سپریم کورٹ کے سامنے 39 صفحات پر مشتمل بیان پیش کر دیا تھا لیکن اسے نظرانداز کر دیا گیا، میں بطور امیدوار پارلیمنٹ، سکالر اور شیخ الاسلام عدالت نہیں گیا تھا بلکہ ایک شہری اور ووٹر کی حیثیت سے عدالت گیا تھا، عدالت عظمیٰ نے بغیر سنے فیصلہ سنایا جس کا مجھے افسوس ہے، اوورسیز پاکستانی اربوں ڈالر کما کر اپنے ملک کی فلاح و بہبود کےلئے بھیجتے ہیں جبکہ اربوں ڈالر لوٹنے والے اقتدار میں بیٹھے ہیں، باہر جائیدادیں بنانے سے ان کی وفاداری مشکوک اور منقسم نہیں ہوتی؟ الیکشن کمشن کے معاملات پر حکومت مذاکرات کےلئے آتی ہے تو ٹھیک نہیں آنا تو ان کی مرضی ہے میں آج سے ملک کے مختلف حصوں میں شروع ہونےوالی اپنی تحریک کے ذریعے قوم کی تعمیر کا کام شروع کرونگا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین و قانون کسی شہری کو دوہری شہریت اختیار کرنے سے نہیں روکتا، اگر دوہری شہریت اتنی بری چیز ہے تو پاکستان نے اس کے لئے 19 ممالک سے معاہدے کیوں کئے؟ اگر دوہری شہریت کے ذریعے کسی شہری کی پاکستان سے وفاداری مشکوک یا منقسم ہوتی ہے تو قانون نے اسے ختم کیوں نہیں کیا۔ دوہری شہریت کسی کو ووٹ اور بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی البتہ دوہری شہریت کا حامل شخص ممبر پارلیمنٹ منتخب نہیں ہو سکتا۔ عدالت میں میرے نقطہ کو سنا ہی نہیں گیا، صرف دوہری شہریت پر بات کی گئی۔ میں سپریم کورٹ یا اس کے فیصلے پر تنقید نہیں کر رہا میں صرف اس نقطے کی بات کر رہا ہوں جو عدالت میں سنا ہی نہیں گیا۔ پاکستان کا دوہری شہریت کے معاملے پر 1972ءمیں برطانیہ سے معاہدہ ہوا تھا، اس کے بعد 17 مئی 1973ءکو کینیڈا سے معاہدہ طے پایا۔ اوور سیز پاکستانی جن میں دوہری شہریت کے حامل بھی ہیں، نے گذشتہ مالی سال کے دوران 13 بلین ڈالر پاکستان بھیجے جبکہ رواں مالی سال کے سات ماہ میں 8 ارب ڈالر پاکستان میں آ چکے ہیں۔ صرف برطانیہ میں پاکستانیوں نے 100 چیرےٹی رجسٹرڈ کرا رکھی ہیں جن کے ذریعے پاکستان میں مختلف آفتوں میں اربوں ڈالر بھیجے گئے صرف سو میں سے دس تنظیموں نے 2011ءمیں ساڑھے 17 ارب روپے برطانیہ سے پاکستان بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو دوہری شہریت کی بنا پر پارلیمنٹ سے باہر کیا گیا تھا لیکن آج وہی شخص مشیر بن کر بین الاقوامی معاہدے کر رہے ہیں۔ اس وقت سو¶موٹو نوٹس کیوں نہیں لیا جا رہا۔ کراچی کے معاملات پر میرے اخباری بیانات پر سو¶موٹو لیا گیا کیا اس وقت دوہری شہریت نہیں تھی، شفقت اللہ سہیل جو کینیڈین ہے اس کے خط پر نوٹس لیا گیا، منصور اعجاز جو پاکستانی بھی نہیں اس کے بلیک بیری کے ذریعے تاریخ کے سب سے بڑے کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ درخواست گذار کا فرض نہیں کہ وہ اپنی نیک نیتی ثابت کرے۔ جب الیکشن کمشن کے وکیل سے عدالت نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات ملتوی کرانے کےلئے پاکستا ن آ گئے ہیں جب ان سے ثبوت مانگا گیا تو انہوں نے میری 23 دسمبر کے جلسے کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ انتخابات دو سے تین سال کے لئے ملتوی کر دئیے جائیں جس پر میں نے اس سے واضح انکار کیا اور جب اس کی ویڈیو دیکھی گئی تو اس میں کوئی چیز نہ مل سکی تو اس پر الیکشن کمشن کے وکیل نے کہا کہ میں اس بارے میں کلیئر نہیں کہ یہ الفاظ میں نے اس جلسے میں کہے تھے یا کسی اور جگہ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے بریک کے دوران ہی فیصلہ تحریر کر لیا تھا جبکہ اس کے بعد دو لوگوںکو سنا گیا، میں اسے فیصلہ نہیں مانتا اور مجھے اس پر دکھ ہوا ہے۔ میرے کیس میں سماعت کے لئے عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ میں اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ میں عدلیہ کا بطور ادارہ بہت احترام کرتا ہوں اور عدالت میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوتی لیکن میرے کیس میں بغیر سماعت کے فیصلہ دیا گیا، میں فیصلے کے خلاف احتجاج نہیں کر رہا نہ ہی میں قطعی طور پر عدلیہ کے خلاف کوئی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اب دوبارہ عدالت سے رجوع نہیں کیا جائے گا، دیگر معاملات میں کیس ٹو کیس دیکھیں گے۔ انہوں نے کینیڈا کی شہریت کو چھوڑ دینے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ منہاج القرآن کا نیٹ ورک دنیا کے 90 ممالک میں ہے اور میں دنیا میں امت مسلمہ کا سفیر سمجھا جاتا ہوں، پاکستان کے حالات خصوصاً نائن الیون کے بعد جو حالات ہیں پاکستانی پاسپورٹ پر مجھے ویزے کے حصول میں پانچ سے چھ ماہ لگ جائیں جبکہ میں ایک سفر میں نو سے دس ممالک کے سفر کرتا ہوں اگر میں کینیڈا کی شہریت چھوڑ دوں تو امت مسلمہ کی رہنمائی کون کرے گا۔ نائن الیون کے بعد امت مسلمہ دفاعی پوزیشن پر تھی، میں نے ان کا اعتماد بحال کیا اور پوری دنیا میں ان کا کیس لڑا ہے۔ اپنے اعلان کے مطابق 15 فروری سے ملک بھر میں جلسہ عام منعقد کرنے کا آغاز کریں گے اس کا ایجنڈا قوم کی تعمیر اور اسے شعور دینا ہے۔ میں قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر نظام نہ بدلا گیا اور اسی نظام کے تحت انتخابات ہوئے تو اللہ نہ کرے ملک کے وجود کو خطرات لاحق ہو جائینگے۔ انہوں نے لانگ مارچ کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ لانگ مارچ ہو چکا روز روز لانگ مارچ نہیں ہوتے۔


اک اور رودا د
بشکریہ روزنامہ قدرت

اسلام آباد(قدرت نیوز) سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی درخواست خارج کرتے ہوئے مختصر حکم نامہ میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63(1)C کے تحت طاہرالقادری پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کے اہل نہیں،وہ اپنا حق دعویٰ ثابت نہیں کر سکے،درخواست گزار بنیادی حقوق اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہا۔طاہرالقادری نے جو زبان استعمال کی وہ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے تاہم عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ بدھ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کب ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ طاہرالقادری نے کہا کہ این اے 127 لاہور سے 2002ء میں منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت میں ایک پاکستانی شہری ہی تھا اور دوہری شہریت نہیں رکھتا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 31 مارچ 2005ء میں پہلی پاسپورٹ کاپی حاصل کی۔ طاہرالقادری نے بتایا کہ 1997ء میں شہریت نہیں ملی تھی صرف وزٹ ویزا حاصل کیا تھا۔ منہاج القرآن کے سربراہ کے طور پر لینڈنگ دستاویز کے تحت جانے کی اجازت ملی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے لینڈنگ ویزا کے دوران شہریت حاصل نہیں کی تھی۔ طاہرالقادری نے بتایا کہ اس وقت مستقل ویزا مل گیا تھا تاہم پاکستانی پاسپورٹ ہی تھا۔ مذہبی راہنماء کے طور پر ملک میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس وقت تک درخواست دائر نہیں کی گئی تھی۔ پروفیشنل گراؤنڈ پر مذہبی سکالر تھا جس کے تحت ڈاکٹر انجینئرز اور دیگر کو اجازت دی جاتی تھی۔ مارکنگ نمبر دئیے جاتے تھے اور اس کے تحت ویزا دیا جاتا تھا صرف ریکارڈ آف لینڈنگ تھا اور یہ اس وقت تک ریاست تک شہریت نہیں مل گئی۔مستقل ویزا کی وجہ سے اجازت دی گئی بعد میں کنفرمیشن آف سٹیزن شپ دی گئی اس وقت تک حلف لیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حلف لینے کا طریق کار کیا ہوتا ہے؟۔ طاہرالقادری نے بتایا کہ پوری دنیا میں ایک ہی طرح کا قانون ہے۔ لینڈنگ ریکارڈ کے مطابق جب آپ 1000 دن رہائش رکھ لیتے ہیں تب آپ شہریت کیلئے درخواست دیتے ہیں تب آپ کے اپنے ملک کے پاسپورٹ پر شہریت کیلئے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس وقت حلف لیا جاتا ہے۔ پہلا اوتھ ہوتا ہے دوسرا پاسپورٹ ہوتا ہے۔ جیسے ہی معاملات کنفرم ہوتے ہیں شہریت حاصل ہوجاتی ہے اور تین سے سات دن کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ 2005ء میں شہریت حاصل کی۔ میں نے ایک سال قبل ہی پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 2004ء میں کس دن استعفیٰ دیا تھا صحیح تاریخ یاد نہیں۔ تقریباً دس ماہ سے زائد کا عرصہ بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ اس معاملے سے متاثر ہیں یا نہیں‘ آپ نے اپنی درخواست میں بہت اہم باتیں کہی ہیں اس وجہ سے آپ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ پہلے مجھے اس حوالے سے کچھ فیصلے بتانے ہیں۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ججز کے سوالات کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ پہلے فیصلے بتانا شروع کریں‘ ممکن ہے کہ مزید اس معاملے میں کسی دلائل کی ضرورت نہیں رہے گی۔ طاہرالقادری نے کہا کہ کچھ میرے بھی حقوق ہیں اسلئے پہلے کچھ فیصلے بتانا چاہتا ہوں پھر آپ کے تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دوں گا۔ان فیصلوں میں لوکس اسٹینڈ آئی کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ہے۔ رٹ پٹیشن میں درخواست گزار کا ذاتی حق متاثر ہونا ضروری نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارے سوالات کے جواب دیں۔ آپ کا کیا حق متاثر ہوا ہے جو کچھ آپ کو بتایا ہے ان کو یاد رکھیں۔ آپ ذاتی حیثیت سے آئے ہیں منہاج القرآن کے تحت نہیں آئے۔ طاہرالقادری نے کہا کہ آئینی درخواست کیلئے یہ ضروری نہیں ہے تیسرا دن ہے آپ نے کنسائز سٹیٹمنٹ پڑھنے کا حق نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ایک ہفتہ بھی دے سکتے ہیں آپ کو سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ آپ نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیا جوبنیادی حق متاثر ہوا وہ بتادیں آپ بیان پڑھ دیں۔طاہرالقادری نے کہا کہ آج تیسرا دن ہے آپ دوہری شہریت کے حوالے سے میرا ٹرائل کررہے ہیں لاکھوں افراد بیرون ملک مقیم ہیں۔ میڈیا نے ٹرائل کیا ہے۔ جناب کا ایک ایک لفظ دنیا میں جارہا ہے مجھے بھی کچھ بولنے دیں۔بنچ نے جو سوالات کئے ہیں وہ کیس سے متعلقہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پارلیمنٹ میں نہیں جاسکتے آپ ایسا کیا ذاتی حیثیت سے لائے ہیں۔ 18 کروڑ افراد کا بھی حق ہے آپ دسمبر میں آتے ہیں اور آئینی ادارے پر حملہ کررہے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ میں آپ کے بیانات سے متفق نہیں ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا اگر غلط کہے گا تو ہم اسے بھی دیکھیں گے۔جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ میڈیا پر دروازے بند نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں ملک میں مارشل لاء کی حکومت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 342 ممبران بیٹھے ہیں۔ سینٹ کے ممبران اور لوکل ممبران ہیں‘ کئی سیاسی جماعتیں بھی باہر بیٹھی ہیں ان کو الیکشن کمیشن پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ کو سوالات کے جواب دینا پڑیں گے۔ آپ نے جو فیصلہ پڑھ کر سنایا وہ بہت اہم ہے۔ آپ سیاسی جماعت کے ہیڈ کے طور پر نہیں آئے آپ سے بہتر سکالر دنیا میں نہیں ہے۔ حلف کا مقصد کیا ہوتا ہے آپ بھی سمجھتے ہوں گے ہم نے کس کا حلف لینا ہے اگر ہم مسلمان ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ دوہری شہریت رکھنا کوئی جرم نہیں ہے بہت کچھ بتلادیا ہے آپ بار بار کیوں پوچھ رہے ہیں؟۔تیسرے ملک میں داخلے کیلئے مسائل ہوتے ہیں اسلئے کینیڈا کی شہریت حاصل کی۔ میں ترجمہ نہیں وضاحت کررہا ہوں۔ یہ دوہری شہریت اور شہری شہریت کو ڈیل کرتا ہے۔ اگر کسی تیسرے ملک میں جائیں جہاں آپ کی شہریت نہیں ہے تو کینیڈین حکومت اس بات کی اجازت دے رہی ہے تو کوئی بھی رکاوٹ ہوگی تو وہ اس کی مدد کریں گے۔ اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پاکستان کیلئے پاکستانی پاسپورٹ جبکہ 93 ممالک میں جانے کیلئے کینیڈین شہری کے طور پر جاتے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستانی پاکستانی ہے یہ ایک سفری دستاویز ہے جس کے تحت جانا پڑتا ہے۔ آپ تین روز سے میری دوہری شہریت کا ٹرائل کررہے ہیں مجھے بھی کچھ بو لنے کی اجازت دیں پہلے فیصلہ دیں کہ میں 184(3) کے تحت درخواست دے سکتا ہوں یا نہیں؟اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سوالات کا مقصد یہی ہے کہ آپ کے حوالے سے ہم نے فیصلہ دینا ہے۔ طاہرالقادری نے الجہاد کیس کا حوالہ بھی دیا جس میں لوکس اسٹینڈ آئی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 184(3) کی درخواست کیلئے لوکس اسٹینڈ آئی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ جب اس طرح کے معاملات آتے ہیں تو سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ آئے روز درجنوں درخواستیں آتی ہیں آپ آئیں گے تو سوالات اٹھیں گے۔ آپ کے بعد ہم نے اٹارنی جنرل کو بھی سننا ہے۔انہوں نے وطن پارٹی کیس کا بھی حوالہ دیا۔ پاکستان سٹیل ملز نجکاری کیس کا فیصلہ تھا۔ آپ تو خود کسی بھی عوامی مفاف عامہ کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ لوکس اسٹینڈ آئی ہائیکورٹ میں ضروری ہے مگر سپریم کورٹ میں اس کی ضرورت نہیں رہتی۔عوامی مفاد عامہ کا کوئی بھی سوال ہو تو آپ نوٹس لے سکتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اس کا یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ سے سوالات نہ کئے۔ طاہرالقادری نے کہا کہ اوتھ پر بات کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ آپ کو مزید سن سکیں۔ طاہرالقادری نے لوکس اسٹینڈ آئی پر آخری فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا دائرہ اختیار سماعت تک ہے۔ 199 کا دائرہ کار محدود ہے جس کا 184(3) کا دائرہ محدود نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو دیکھنا پڑے گا کہ کھٹکھٹانے والا کون ہے۔ آپ ججز کیساتھ ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہتے۔ طاہرالقادری نے کہا کہ آپ مشرف ڈکٹیٹر کا حلف لیتے ہیں آپ کی وفاداری مشکوک نہیں ہوئی؟۔ ایک ہماری وفادار کو مشکوک سمجھ رہے ہیں آپ نے تین دن سیاسی سوالات کئے ہیں بہت ہوگیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی عدالت کی بے توقیری کرنے کے حوالے سے کارروائی کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لوکس اسٹینڈ ائی کے حوالے سے انہیں مقدمہ دائر کرنے کا حق حاصل ہے۔ 31 جولائی کے فیصلے پر انحصار کررہے ہیں اس میں پاکستان بار کونسل اس پر ری وزٹ کرچکی ہے اس پر قرارداد منظور ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کی قرارداد سے کیا فیصلہ غیر ضروری ہوجائے گا۔جسٹس گلزار نے کہا کہ کیس کچھ ہے اور آپ کچھ کہہ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آئین کی بات کرتا ہوں آپ اگر اس سے ہٹیں گے تو مجھے روکنے کا حق حاصل ہے۔ آپ نے 184(3) کو خود ہی وسعت دے دی ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں آپ خود بہت آگے چلے گئے ہیں۔ زندگی کے حقوق میں بھی وسعت دے دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ان سے مفاد عامہ اور ذاتی حق متاثر ہونے کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے اس کیس کا جواب نہیں دیا۔ آپ کیا کہیں گے کیا ہم نے اس حوالے سے عدالت کی اتھارٹی کم کرنے کی کوشس کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز اور درخواست گزار کے حقوق برابر ہیں۔ چیف جسٹس نے 2005ء سے دوہری شہریت حاصل کی یہاں نہیں آسکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دوہری شہریت کے حوالے سے آپ کا فیصلہ ہی غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ میں آپ سے اختلاف کرتا ہوں۔ آپ اگر مجھ سے وہی سننا چاہتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں تو وہ میں نہیں کہہ سکتا۔ آپ پوچھیں کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ ہماری راہنمائی کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے عدالت کو بدنام کرنا شروع کردیا۔ اس وقت صدر کون تھا یہ انہیں معلوم نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو بدنام نہیں کرنا چاہتے آئینی بات کرنی چاہئے۔ اگر بدنیتی پر مبنی معاملہ ہو تو 184(3) کے تحت درخواست دی جاسکتی ہے۔ اس معاملے میں کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔ درخواست گزار نے عدالت کو ایک معلومات دی ہے جس پر عدالت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے کہ اگر اس میں قانونی نکتہ موجود ہے اور اس میں عوامی مفاد کا معاملہ بھی ہے تو یقینی بات ہے کہ عدالت کو اس کا جائزہ لینا پڑے گا اور اپنے اختیار کو استعمال کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس اتنی تعداد میں ممبران پارلیمنٹ بنے بیٹھے ہیں۔ دس کروڑ ووٹر بیٹھے ہوئے ہیں سب کو پتہ ہے کہ جون 2011ء میں الیکشن کمیشن بنا اور کئی الیکشن ہوئے‘ ووٹر فہرستیں بنیں۔ عوام دوبارہ منتخب نہیں کریں گے تو وہ چلی جائے گی۔ ایک شخص آیا ہے جو اس کیخلاف اور الیکشن کمیشن غلط بنا ہے آپ اس کو بونافائیڈی سمجھتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ یہ ضرور دیکھ سکتے ہیں کہ پہلے کیوں نہیں چیلنج نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن کی تصاویر دکھا رہے ہیں وہ فارغ ہوچکے ہیں اس سسٹم کو چلنے نہیں دیا جارہا۔ ہمیں اس ملک کو جمہوری انداز میں چلانا چاہئے۔ ہم سے بارہاء پوچھا ہے۔ آپ صاف ہاتھون سے نہیں آئے ہیں اس کو ضرور دیکھیں وہ بونافائیڈی نہیں ہے۔ کئی مرتبہ سوالات کئے ہیں ملک کا بارڈر کراس کرتے ہیں تو کینیڈین ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیڈین پاسپورٹ کوئی جرم نہیں ہے وہ پیش کیا جاسکتا ہے اس میں بدنیتی نہیں ہے اس کی وجہ سے درخواست گزار کو نہیں روکا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے منیر پراچہ دلائل کا آغاز کیا کہ 184(3) کے تحت تین شرائط لاگو ہوتی ہیں کس کا بنیادی حق متاثر ہوا ہے عوامی مفاد عامہ کا معاملہ ہو‘ حق وہ ہو جو آئین کے مطابق ہے۔ ان کا کوئی حق متاثر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی مفاد عاملہ کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب تو ناراض ہوگئے ہیں آپ پڑھ لیں۔ منیر پراچہ نے طاہرالقادری کی پوری درخواست پڑھ کر سنائی۔ درخواست میں کسی حق کے متاثر ہونے کی بات نہیں کی گئی۔ دسمبر میں آتے ہیں اور ان کا اصل مقصد الیکشن ملتوی کرانا ہے۔ 21 دسمبر کو آئے۔ پاکستان آنے سے قبل سلوگن متعارف کروایا گیا سیاست نہیں ریاست بچاؤ رکھا گیا۔ انہوں نے پہلی تقریر میں دو سال کیلئے الیکشن ملتوی کرنے کے حوالے سے آئینی جواز دیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں لاہور میں کہا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کونسی تقریر اور کب کہا ہے اس کی کاپی ہمیں دیں۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا۔ انہوں نے انتخابی اصلاحات کی بات کی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کی بات کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں الیکشن ملتوی کرنے کی ایسی کوئی بات نہیں کی۔ ہم آئینی کتاب دیکھ کر یا ٹی وی دیکھ کر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ منیر پراچہ نے کہا کہ انہوں نے آئین کی مطابق بات کی اور دیگر ممالک کے فیصلوں کے حوالے دئیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس اپنی نوعیت کا ایک منفرعد کیس ہے۔ تقریر کا بندوبست کریں آپ کے پاس ہے یا نہیں۔ منیر پراچہ نے کہا کہ اس کیلئے وقت چاہئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس سیاسی تقریریں نہیں ہوئیں۔ ہمارے پاس تو آئینی باتیں کی تھیں۔ نجی ٹی وی کے نمائندے سے کہا کہ وہ تقریر کا بندوبست کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آدھا گھنٹہ دیتے ہیں اس کو دیکھ لیں۔ منیر پراچہ نے کہا کہ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ دو سال کا ذکر کیا تھا پوری طرح یاد نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب یہ آپ پر ہے وہ حصہ ہمیں سنوادیں آپ ارینج کرلیں۔ کس نے آپ کو بتایا تھا کہ انہوں نے اپنی بات میں یہ جملے کہے ہیں۔ منیر پراچہ نے کہا کہ تقریر میں نے خود سنی ہے قادری صاحب سے پوچھ لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اس بیان کی تردید کردی ہے ان سے کیا پوچھیں پہلے آپ تاریخیں بتلادیں۔ منیر پراچہ نے بتایا کہ پورے ملک میں اشتہارات لگائے گئے 23 دسمبر 2012ء کو تقریر کی۔ 62 اور 63 لاگو کرنے کیلئے اگر دو سال بھی لگتے ہیں تو لگانے چاہئیں۔ انہوں نے ایک آرٹیکل کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں التواء کو غلط قرار نہیں دیا گیا تھا پہلے انہوں نے ممبران کی بات کی تھی اب چیف الیکشن کمشنر کی بات بھی شامل ہوگئی۔ حکومتی ٹیم سے مذاکرات میں ان کا نام نہیں تھا۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک سمیت وکلاء کے وفد نے اس حوالے سے اجلاس میں کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا کرنا غیر آئینی ہوگا۔ 184(3) کے تحت یہ رٹ پٹیشن ہے۔ اس میں عدالت کو تمام ایشوز کو دیکھنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن کے ممبر کو 11 جون 2011ء کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر 16 جولائی 2012ء کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ ممبر کو دو سال کے قریب جبکہ چیف الیکشن کمشنر کو سات ماہ ہوگئے ہیں۔ کئی ضمنی انتخابات ہوچکے ہیں۔ 16 مارچ 2013ء کو اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے ضمنی الیکشن کروائے گئے‘ 11 جون 2011ء تک کتنے انتخابات ہوئے‘ نوٹیفکیشن بتائیں۔ یہ گزٹ آف پاکستان میں بھی ہوں گے۔ منیر پراچہ نے کہا کہ ہارے ہوئے امیدواروں نے ان ضمنی انتخابات کو غلط قرار دیا ہو کسی سیاسی جماعت نے الیکشن کمیشن کی تشکیل پر بات نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہم درخواست کے میرٹ پر نہیں گئے۔ منیر پراچہ نے بتایا کہ حکومت ختم ہونے والی ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس 60 سے 90 روز ہیں نئے انتخابات کیلئے‘ اس اہم وقت میں یہ درخواست دائر کرنا شکوک پیدا کراتا ہے۔ یہ درخواست بدنیتی پر مبنی ہے جس کا مقصد الیکشن کا التواء کرنا ہے۔ اس سے انتخابات متاثر ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تقریر کے وہ حصے ہمیں ضرور بھجوانے ہیں۔ منیر پراچہ نے کہا کہ اس کیس میں صوابدیدی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس درخواست کی سماعت کرنا صحیح ہوگا۔ اگر کل تک معاملات چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس ہے جو کچھ ہے وہ عدالت میں جمع کروائیں۔ قومی اسمبلی اور پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے لطیف قریشی پیش ہوئے اور کہا کہ وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے جس پر عدالت حیران رہ گئی کہ اتنے اہم معاملے پر وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حالات صحیح نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ نہیں کہنا۔ طاہرالقادری نے کہا کہ میں نے انتخابات کے التواء کی بات نہیں کی اس حوالے سے اپنی تقریر انہوں نے عدالت کے حوالے کی۔عدالت نے فیصلہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ وجوہات بعد میں تحریر کی جائیں گی۔فیصلہ میں کہا گیا کہ درخواست گزار ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درخواست دائر کی کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔عدالت میں صوابدیدی اختیارات کے حوالے سے درخواست دی تھی۔ حقائق یہ ہیں کہ ان کے کسی بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی انہوں نے کہا اور نہ بتایا اور درخواست میں بھی یہ موجود نہیں تھا۔ درخواست گزار ناکام ہوئے ہیں کہ وہ ان حالات سے کس طرح سے متاثر ہیں اور کیوں آئے ہیں۔ نازک حالات میں ان کا کوئی لوکس اسٹینڈ نہیں بنتا۔ اس سٹیج پر جب وہ درخواست کررہے ہیں وہ ایک دوہری شہریت رکھتے ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ ان پر آئین کے آرٹیکل 63(1) کی پابندی لاگو ہوتی ہے جس کی عدالت وضاحت کرچکی ہے تاہم یہ واضح ہے کہ وہ ایک ووٹر کے طور پر جیسے دوسرے اوورسیز پاکستانی ہیں جن کے نام بطور ووٹر درج ہیں‘ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ حق ان کا آئینی اور قانونی ہے۔ عدالت 1984ء کے عدالتی فیصلے میں اس بات کو کلیئر کرچکی ہے۔ درخواست خارج کی جاتی ہے۔ درخواست کے حوالے سے یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ان کے دلائل کے پوائنٹس نوٹ کراتے وقت طاہرالقادری نے غیر ضروری باتیں عدالت کیخلاف کہنا شروع کردیں اور اس کے اختیارات کو چیلنج کیا ہے۔ ان کیخلاف آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کی جانی تھی تاہم اس کو اختیار کرتے وقت ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کیخلاف کارروائی نہیں چاہتے اس کو کیس ٹو کیس چلایا جائے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم دوستو یہ " اٹارنی جنرل " کیا عہدہ ہوتا ہے ۔ اور اس کے فرائض کیا ہوتے ہیں ۔ یہ کسی مقدمے میں کس کی نمائندگی کرتا ہے ۔؟
کوئی آگہی سے نوازتے دعائیں پائے ۔۔۔۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
بس کر دیں ، اب پھٹے غبارے کی کوکنی تو بن سکتی اسے دوبارہ پھلایا نہیں جا سکتا۔ اتنا وقت تو عدالت نے بھی نہیں دیا "شیخ الاسلام" کو ، جتنا محفلین دے رہے ہیں۔
 
Top