ڈاکٹر نعیم جشتی
محفلین
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
انہیں جس قدر ہم بھلاتے رہے
وہ اتنا ہمیں یاد آتے رہے
سنایا جو ہم نے انہیں حال دل
وہ ہںستے رہے مسکراتے رہے
ہمیں چاہئے تھی بس ان کی خوشی
ستم ان کے چپ چاپ اٹھاتے رہے
ہم ان کی اداؤں کو سمجھے وفا
وہ نظریں ملا کے چراتے رہے
ہماری زباں پر نہ آیا گلہ
فسانے مگر وہ سناتے رہے
خودی ہم سے کھیلا محبت کا کھیل
خودی ہم پہ تہمت لگاتے رہے
وہ از خود عنایات کرتے رہے
پر احسان کر کے جتاتے رہے
خدا جانےکیا ان کےدل میں تھا شک
خدا بن کے وہ آزماتے رہے
ہر اک شخص کو کر کےمیرےخلاف
وہ خود مجھ سے ملتے ملاتے رہے
مرض کا بہانہ بنا کر نعیم
وہ دنیا کو پاگل بناتے رہے
انہیں جس قدر ہم بھلاتے رہے
وہ اتنا ہمیں یاد آتے رہے
سنایا جو ہم نے انہیں حال دل
وہ ہںستے رہے مسکراتے رہے
ہمیں چاہئے تھی بس ان کی خوشی
ستم ان کے چپ چاپ اٹھاتے رہے
ہم ان کی اداؤں کو سمجھے وفا
وہ نظریں ملا کے چراتے رہے
ہماری زباں پر نہ آیا گلہ
فسانے مگر وہ سناتے رہے
خودی ہم سے کھیلا محبت کا کھیل
خودی ہم پہ تہمت لگاتے رہے
وہ از خود عنایات کرتے رہے
پر احسان کر کے جتاتے رہے
خدا جانےکیا ان کےدل میں تھا شک
خدا بن کے وہ آزماتے رہے
ہر اک شخص کو کر کےمیرےخلاف
وہ خود مجھ سے ملتے ملاتے رہے
مرض کا بہانہ بنا کر نعیم
وہ دنیا کو پاگل بناتے رہے