کتابچۂ لطائف و مزاحیہ تحاریر (بلا تبصرہ - احباب صرف اپنا تاثر دیں۔ شکریہ)

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک لڑکے نے کلاس میں ایک لڑکی کو محبت بھرا خط لکھا کہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو کل سرخ جوڑا پہن کر آنا۔ خط ایک کتاب میں رکھ کر کہا کہ گھر جا کر پڑھ لینا۔ اگلے دن لڑکی زرد رنگ کے کپڑے پہن کر آئی اور کتاب واپس کردی۔

لڑکا اداس ہو گیا۔

وقت بیت گیا اور لڑکی کی کہیں اور شادی ہو گئی۔

کچھ سال بیتے جب ایک دن کتابوں کی صفائی کرتے وقت لڑکے کو اس کتاب سے ایک پرچی ملی جس میں اسی لڑکی نے لکھا تھا؛
”مجھے بھی تم سے بہت محبت ہے مگر میں چاہتی ہوں تم میرے گھر والوں سے میرا ہاتھ مانگو۔ اور ہاں میں بہت غریب ہوں اور میرے پاس سرخ جوڑا خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ تمہاری اپنی۔“

لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

سبق: سال میں ایک بارلڑکوں کو نصاب کی کتابیں کھول کر دیکھ لینی چاہئیے۔

نوٹ: اور ہاں! اب آپ لوگ اپنی کتابیں مت کھنگالنے بیٹھ جانا۔ آپ کا وقت گزر گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ایک بس میں کچھ خواتین جا رہی تھیں۔ اتفاق ایسا تھا کہ وہ سب کی سب ساسیں اور بہوؤیں تھیں۔
ساسیں بس کے اگلے حصےمیں تھیں جبکہ بہوؤیں بس کے پچھلے حصے میں تھیں۔

بس حادثے سے دو چار ہوئی اور بس کا اگلا حصہ مکمل تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں تمام کی تمام ساسیں ہلاک ہو گئیں۔

حادثے کے بعد تمام کی تمام بہوؤیں رونے پیٹنے لگیں اور خوب رو دھو کے چپ کر گئیں، جبکہ ایک بہو مسلسل روتی رہی اور بین ڈالتی رہی۔

دوسری ساتھیوں نے اسے تسلی دلاسہ دیا اور کہا کہ سب کے ساتھ یہ حادثہ ہوا ہے، اب بس بھی کرو اور چپ کر جاؤ۔ آخر ایسی کیا بات تھی جو تم ابھی تک رو رہی ہو۔

کہنے لگی، وہ آج آئی ہی نہیں تھی۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک مداح ملاقات کو تشریف لائے۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اس نوجوان لڑکے نے اشارے سے سلام کیا۔ میں سمجھا کورونا ایس او پیز کو فالو کر رہا ہے تو میں نے بھی ارطغرل سٹائل میں جوابی سلامی اشارہ کر دیا۔ اس نوجوان نے پھر اشاروں کی زبان میں میرا حال پوچھنا شروع کیا۔ تب مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ اتنا پیارا نوجوان ہے مگر بولنے سے قاصر ہے۔ میں نے اپنے قدردان سے پوچھا؛

"تنویر صاحب یہ سن بھی سکتا ہے یا نہیں؟"

اس سے قبل کہ تنویر صاحب میرا سوال سنتے اور جواب دیتے اس نوجوان نے اپنے منہ کی جانب اشارہ کر کے تھمبز اپ کا اشارہ کر دیا۔

مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ بس منہ میں زبان نہیں مگر باقی سب اوکے ہے۔ تنویر صاحب ہوٹل کے بیرے کو آرڈر دینے میں مشغول تھے انہوں نے نوٹس نہیں کیا۔ آرڈر دے کر وہ فری ہوئے اور مجھ سے آ کر حال احوال پوچھنے لگے تو اتنے میں اس گونگے جوان نے منہ سے پچکاری ماری اور بولا؛

”لو تنویر بھائی مے نکل ریا اوں“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک عالمہ سے دوسری شادی کے فضائل و برکات سننے کے بعد ایک عورت اٹھ کر اس کے پاس آئی اور سرگوشی میں پوچھا؛ کیا آپ واقعی مرد کی دوسری شادی کے حق میں ہیں؟

عالمہ نے جواب دیا؛ جی بالکل!

عورت بولی؛ اللہ کا شکر ہے پہلے میں آپ سے بات کرتے جھجھکتی تھی، دراصل میں آپ کے خاوند کی دوسری بیوی ہوں۔

عالمہ بے ہوش!
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک شخص ٹیلی فون پر ؛ کون بول رہا ہے؟
جواب آیا؛ میں بول رہا ہوں۔
پہلا شخص؛ کتنی عجیب بات ہے، ادھر بھی میں بول رہا ہوں۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
امیدوار نے انٹرویو لینے والے افسر سے کہا؛
”جناب نوکری کی تلاش میں میرے جوتے گھس چکے ہیں۔“

افسر نے سوچ کر کہا؛
”تم انٹرویو کے دوران یہ بات کوئی پانچ بار دہرا چکے ہو۔ پہلے فیصلہ کر لو کہ تمہیں نوکری چاہیئے یا جوتے۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
مالک (نئے ملازم سے)؛
دیکھو! میں نے تم پر کتنا اعتماد کیا ہے کہ پورے گھر کی چابیاں تمہارے سپرد کر رکھی ہیں۔

”کیا خاک اعتماد کیا ہے۔ تجوری کو تو ان میں سے کوئی بھی نہیں لگتی اور بیگم صاحبہ کی الماری کا تالا بھی نہیں کھلتا۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک دیہاتی شہر گیا۔ جب وہ بازار سے گزرا تو اس نے مٹھائیوں کی دکان دیکھی۔ وہ دکان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور مٹھائیوں کی طرف دیکھنے لگا۔

حلوائی نے اس سے پو چھا کہ کیا کر رہے ہو؟

دیہاتی نے کہا؛ تمہاری مٹھائیوں کی خوشبو سے اپنا دل خوش کر رہا ہوں۔

حلوائی نے بیوقوف سمجھ کر اسے لوٹنے کے ارادے سے کہا؛ تم مجھے خوشبو کی قیمت ادا کرو!؟

دیہاتی ذرا ہوشیار نکلا۔ اس نے چند سکّے جھنکارے اور جیب میں رکھ لیے۔

حلوائی چونکا؛ یہ کیا؟

دیہاتی:میں نے سکّوں کے شور سے تمہاری مٹھائیوں کی خوشبو کی قیمت ادا کر دی ہے۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک خاتون کار لے کر سروس اسٹیشن پہنچیں۔ کار میں بے شمار ڈینٹ پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے لڑکے سے کہا؛
کیا یہاں کاریں دھوئی جاتی ہیں؟

لڑکا بولا؛ جی ہاں، دھوئی جاتی ہیں، لیکن استری نہیں کی جاتیں۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
سوال:
میرا خیال ہے کہ قدرت ایسی اشیائے مدرکہ سے مل کر بنی ہے جو ایک دوسرے کے کُل اور جزو کی حیثیت سے شامل ہیں جہاں اضدادی اسلوبِ تفکر تمام اشیائے مدرکہ کو سمجھنے کے لئے کیا گیا ہے وہاں فلسفیانہ دقیقہ رسی، توازنِ اتصال اور اضدادی مادیت کو قوتیاتی رتبہ حاصل ہے۔ کائنات کی حیاتِ مادی ہی مقدم ہے۔ اس کی حیاتِ روحانی ثانوی اور استخراجی ہے۔ اعصابی کیفیتیں اور نا آسودہ جبلتیں در اصل خارجی چیزوں اور ان کے ارتقا کا عکس نہیں ہیں بلکہ خارجی چیزیں ہیں اور ان کا ارتقا حقیقت کی شکل میں او تصور کا محض عکس ہیں جو وجودِ کائنات سے قبل تھا۔ مفکروں کے نزدیک کائنات اور جملہ نظامات ابدی اور استقراری ہیں اور خیالِ نفسِ ناطقہ پر عالمِ بالا لے ترشحات کا نتیجہ ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کائنات کا ارتقا تجویز اور تردید کے تصادم سے عبارت ہو گا تو پھر تدریجی وقفے کے بعد نقطۂ تغیر کب ظہور پذیر ہو گا؟ وہ کون سی تردید ہو گی جو تجویز سے متصادم ہو کر نئی ترکیب کو وجود میں لائے گی؟

جواب:
اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک صاحب جو غالباً شکاری تھے اپنی آپ بیتی بچّوں کو سنا رہے تھے کہ کس طرح وہ جنگل میں چھُپتے پھر رہے تھے اور ایک شیر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ بچّے طرح طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔
شیر کا رنگ کیسا تھا؟
آپ کی شیر سے دشمنی تھی کیا؟
شیر دُبلا تھا یا موٹا؟
آپ نے شیر کی کمر پر لٹھ کیوں نہیں مارا؟
کیا آپ ڈرپوک تھے جو شیر سے ڈر رہے تھے؟

وہ تھوڑی سی بات کرتے اور سب بچے چلّا کر پوچھتے؛پھر کیا ہوا؟ اور ساتھ ہی بے تُکے سوالات کی بوچھاڑ ہو جاتی۔ وہ بالکل تنگ آ چکے تھے۔ ایک مرتبہ بچوں نے پھر پوچھا کہ پھر کیا ہُوا؟

”پھر کیا ہونا تھا؟“ وہ اپنے بال نوچ کر بولے؛ ”پھر شیر نے مجھے کھا لیا!“

اور بچوں نے تالیاں بجائیں۔ ہپ ہپ ہرے کیا۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک ہوٹل کے کمروں میں اس قسم کا نوٹس فریم کروا کے دیوار پر لٹکایا ہوا تھا؛ ”پلنگ پر لیٹ کر سیگریٹ نہ پئیں، نیچے گرنے والی راکھ بستر کے علاوہ آپ کی بھی ہو سکتی ہے۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
سوال جواب

قرارداد مقاصد پر دستخط کہاں ہوئے تھے؟
صفحے کے نچلے حصے پر

علامہ اقبال کب پیدا ہوئے تھے؟
اپنی سالگرہ کے دن

ٹیپو سلطان کی وفات کس جنگ میں ہوئی؟
آخری جنگ میں
 

شعیب گناترا

لائبریرین
سیلفی بنانا اتنا اہم ہوگیا کہ لگتا یے ہماری قوم نے علامہ اقبال کے تصورِ خودی کا مطلب خود کی تصویر یعنی سیلفی بنانا لے لیا ہے۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
جب سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلے۔۔۔ تو گھی کے ڈبے کو گرم کرلیں۔۔۔ ہر چیز میں انگلی کرنا ضروری نہیں ہوتا!
 
Top