پہلے تو وہ سوال ایسا مضبوط ہونا چاہیے کسی طرح حل نہ ہوتا ہو پھراس کی بنیاد پر اصل نسخہ دیکھنے کی ضرورت پیش آئے جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے
ایک حدیث کا ایک نسخے کے اعتبار سے حوالہ دیا گیا اور وہ دوسرے نسخے (اگر معتبر نسخہ مان لیں جبکہ اس کی کسی ماہر اہل فن کی طرف سے تصدیق نہیں پیش کی گئی)میں دیکھی گئی تو اس نمبر کے تحت نہیں ملی جس سے شبہ پیدا ہوا کہ حدیث موجود نہیں مگر کچھ تلاش سے حدیث مل گئی اور احادیث کی مختلف نسخوں میں کمی زیادتی کا شبہ ختم ہوگیا
بلکہ یہ ثابت ہوگیا کہ احادیث تو موجود ہیں
صرف یہ سوال رہ گیا کہ کتب احادیث میں نمبرنگ کا یہ فرق کیوں ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھے گئے عام دستیاب نسخوں میں اب بھی نمبرنگ نہیں ملتی۔
پہلے کتاب اور باب یا جلد اور صفحات کا حوالہ دیا جاتا تھا کتاب اور باب کا حوالہ طویل تھا اور جلد اور صفحہ کا مختصر لہذا مختصر حوالہ دینے والے کیلیے آسان تھا اور ڈھونڈنے والے کیلیے مشکل لہذا نمبرنگ کی جدت اپنائی گئی اور اسکی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے جسکی وجہ سے اسکا اسٹینڈرڈ نہیں بن سکا یا بنا ہے تو عام نہیں ہوسکا اور مختلف ملکوں میں مختلف لوگوں نے نمبرنگ کی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں احادیث ہوں تو مختلف اشخاص کی نمبرنگ میں فرق ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے ۔
اور اگر نمبر نگ کے اختلاف کو معتبر ہی مانا جائے تو آیات قرآنی کی نمبرنگ بھی مختلف ہے لیکن اس کی بنیاد پر آیات کی کمی کا شائبہ بھی نہیں گزرتا تو معلوم ہوا کہ نمبرنگ کا اختلاف کتب احادیث میں شک کی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔
جہاں تک قدیم ترین مخطوطات کی دستیابی کا سوال ہے تو کتب احادیث کے دستیاب مخطوطات میں سے قدیم ترین مخطوطہ جو عہد تابعین(دوسری صدی ہجری ) میں لکھا گیا الصحیفہ الصادقہ ہے جسے ہمام بن منبہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اورلکھا
کیونکہ یہ صحیفہ بعد میں دوسری بڑی کتب احادیث میں ضم کردیا گیا اس لیے یہ اصل مسودہ پوشیدہ رہا
اور کتب احادیث کے تواتر کی حد تک ثابت ہونے کی وجہ سے اصل نسخوں کی تحقیق کے متعلق اتنی توجہ نہیں دی گئی اب جبکہ معترضین کی طرف سے اصل نسخوں کا سوال اٹھایا جارہا ہے تو اس جانب توجہ دی جارہی اور اس پر تحقیق کا سلسلی جاری ہے
1954 عیسوی میں مشہور محقق جناب ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے برلن اور دمشق سے مذکورہ صحیٍفہ کے دو مخطوطے دریافت کیے اور انہیں تفصیلی تعارف کے ساتھ شائع کیا ، ان مخطوطوں کی صدیوں پرانی تحریر کا موجودہ دور کے مسند امام احمد بن حنبل کے نسخے سے موازنہ کیا
ان دونوں متون میں کوئی حقیقی اور واقعی اختلاف یا فرق نہیں مل سکا سوائے الفاظ کے چند ناقابل ذکر اور معمولی اختلافات کےجو ایک کتاب کے دو مخطوطوں میں ہوا ہی کرتے ہیں دونوں متن قطعا یکساں پائے گئے۔
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تابعین کی کتب دیگر کتاب میں ضم ہوکر بعد کی ضخیم کتب کا ایک حصہ بن گئی تھیں اور اس تدوین میں تمام احتیاطوں کو مدنظر رکھا گیا تھا جس سے ان کا معتبر ہونا برقرار ہے۔
اور یہ بات بھی کہ کسی نسخے کی موجودگی کا علم نہ ہونا اس کے موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی اس لیے کہ 1954 سے پہلے اس مخطوطے کے متعلق بھی معلومات دستیاب نہیں تھیں اب دستیاب ہیں۔
Sahifah Hammam ibn Munabbih: The earliest extant work on the Hadith : comprising as-Sahifah as-sahihah of Abu-Hurairah (d. 58 H./677) prepared for his ... of Centre cultural [sic] islamique)
صحیفہ ہمام بن منبہ امیزون پر
مزید معلوماتی ربط