کتب احادیث کی (credibility) معتبریت

ظفری

لائبریرین
میرے خیال میں آپ بات سمجھے نہیں ، میں‌یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی لکھی ہوئی کتا ب اب موجود نہیں‌ہے؟اگر نہیں‌ہےتو ان سے جن لوگوں‌نے سنی یا سن کر یاد کی مطلب ان سے جس نے روایت کی ہے کیا وہ راوی بھی اسی طریقے سے محدیثین کے اعلیٰ معیار پر پورے اترتے ہیں‌؟ اور ان کا ریکارڈ بھی اسی طریقے سے محفوظ ہے جس طرح سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے راویوں کو اپنی کتاب میں‌محفوظ کیا ۔ کیونکہ اگر اصل کتاب موجود نہیں‌تو پھر تو جس نے بھی آگے روایت کی وہ بھی بس ایک راوی ہے اور اس کو بھی اسی چھلنی سے گذرنا چاہیے جس چھلنی سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے راویوں‌کو گذارا تھا۔ورنہ ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں‌کہ وہ معیار برقرار رہا جو امام بخاری نے مقرر کیا تھا۔

آپ نے انتہائی غور طلب اور ذہانت آمیز سوال پوچھا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ذوق بھائی اور آبی ٹوکول ہی اس سوال کا کوئی علمی جواب دے سکتے ہیں‌۔
 

باسم

محفلین
پہلے تو وہ سوال ایسا مضبوط ہونا چاہیے کسی طرح حل نہ ہوتا ہو پھراس کی بنیاد پر اصل نسخہ دیکھنے کی ضرورت پیش آئے جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے
ایک حدیث کا ایک نسخے کے اعتبار سے حوالہ دیا گیا اور وہ دوسرے نسخے (اگر معتبر نسخہ مان لیں جبکہ اس کی کسی ماہر اہل فن کی طرف سے تصدیق نہیں پیش کی گئی)میں دیکھی گئی تو اس نمبر کے تحت نہیں ملی جس سے شبہ پیدا ہوا کہ حدیث موجود نہیں مگر کچھ تلاش سے حدیث مل گئی اور احادیث کی مختلف نسخوں میں کمی زیادتی کا شبہ ختم ہوگیا
بلکہ یہ ثابت ہوگیا کہ احادیث تو موجود ہیں
صرف یہ سوال رہ گیا کہ کتب احادیث میں نمبرنگ کا یہ فرق کیوں ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھے گئے عام دستیاب نسخوں میں اب بھی نمبرنگ نہیں ملتی۔
پہلے کتاب اور باب یا جلد اور صفحات کا حوالہ دیا جاتا تھا کتاب اور باب کا حوالہ طویل تھا اور جلد اور صفحہ کا مختصر لہذا مختصر حوالہ دینے والے کیلیے آسان تھا اور ڈھونڈنے والے کیلیے مشکل لہذا نمبرنگ کی جدت اپنائی گئی اور اسکی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے جسکی وجہ سے اسکا اسٹینڈرڈ نہیں بن سکا یا بنا ہے تو عام نہیں ہوسکا اور مختلف ملکوں میں مختلف لوگوں نے نمبرنگ کی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں احادیث ہوں تو مختلف اشخاص کی نمبرنگ میں فرق ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے ۔
اور اگر نمبر نگ کے اختلاف کو معتبر ہی مانا جائے تو آیات قرآنی کی نمبرنگ بھی مختلف ہے لیکن اس کی بنیاد پر آیات کی کمی کا شائبہ بھی نہیں گزرتا تو معلوم ہوا کہ نمبرنگ کا اختلاف کتب احادیث میں شک کی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔
جہاں تک قدیم ترین مخطوطات کی دستیابی کا سوال ہے تو کتب احادیث کے دستیاب مخطوطات میں سے قدیم ترین مخطوطہ جو عہد تابعین(دوسری صدی ہجری ) میں لکھا گیا الصحیفہ الصادقہ ہے جسے ہمام بن منبہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اورلکھا
کیونکہ یہ صحیفہ بعد میں دوسری بڑی کتب احادیث میں ضم کردیا گیا اس لیے یہ اصل مسودہ پوشیدہ رہا
اور کتب احادیث کے تواتر کی حد تک ثابت ہونے کی وجہ سے اصل نسخوں کی تحقیق کے متعلق اتنی توجہ نہیں دی گئی اب جبکہ معترضین کی طرف سے اصل نسخوں کا سوال اٹھایا جارہا ہے تو اس جانب توجہ دی جارہی اور اس پر تحقیق کا سلسلی جاری ہے
1954 عیسوی میں مشہور محقق جناب ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے برلن اور دمشق سے مذکورہ صحیٍفہ کے دو مخطوطے دریافت کیے اور انہیں تفصیلی تعارف کے ساتھ شائع کیا ، ان مخطوطوں کی صدیوں پرانی تحریر کا موجودہ دور کے مسند امام احمد بن حنبل کے نسخے سے موازنہ کیا
ان دونوں متون میں کوئی حقیقی اور واقعی اختلاف یا فرق نہیں مل سکا سوائے الفاظ کے چند ناقابل ذکر اور معمولی اختلافات کےجو ایک کتاب کے دو مخطوطوں میں ہوا ہی کرتے ہیں دونوں متن قطعا یکساں پائے گئے۔
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تابعین کی کتب دیگر کتاب میں ضم ہوکر بعد کی ضخیم کتب کا ایک حصہ بن گئی تھیں اور اس تدوین میں تمام احتیاطوں کو مدنظر رکھا گیا تھا جس سے ان کا معتبر ہونا برقرار ہے۔
اور یہ بات بھی کہ کسی نسخے کی موجودگی کا علم نہ ہونا اس کے موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی اس لیے کہ 1954 سے پہلے اس مخطوطے کے متعلق بھی معلومات دستیاب نہیں تھیں اب دستیاب ہیں۔
Sahifah Hammam ibn Munabbih: The earliest extant work on the Hadith : comprising as-Sahifah as-sahihah of Abu-Hurairah (d. 58 H./677) prepared for his ... of Centre cultural [sic] islamique)
صحیفہ ہمام بن منبہ امیزون پر
مزید معلوماتی ربط
 

یوسف-2

محفلین
السلام علیکم، اصل میں حدیث کی کتابوں میں گنتی کے کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف نسخوں‌میں دیے گئے نمبر میں فرق آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے ایک متن والی حدیث کو ایک ہی گنا ہے چاہے وہ ایک سے زیادہ اسناد کے ساتھ لکھی گئی ہو اور کسی دوسرے نے ہر سند کو الگ الگ نمبر دے دیا ہے۔ کچھ علماء نے حدیث کے ساتھ بیان ہونے والے صحابہ کے اقوال وغیرہ پر بھی نمبر لگا دیے ہیں۔ چنانچہ اصل فرق صرف گنتی کے طریقے کا ہے جس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ احادیث میں کمی بیشی ہے۔
حدیث کا ریفرنس دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نمبر کی بجائے کتاب اور باب کا نام درج کر دیا جائے۔ لیکن اگر نمبر ہی لکھنا چاہیں تو ساتھ وضاحت کر دینی چاہیے کہ کونسا ترقیمی نظام اختیار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کے دو مشہور ترقیمی نظام یعنی گنتی کے طریقے ہیں، ایک ترقیم العالمیۃ ہے اور دوسری فواد عبدالباقی رحمہ اللہ کی ترقیم۔
والسلام علیکم

غالبا" ایسا ہی "مسئلہ" قرآن مجید کی آیات کی تعداد سے متعلق پیش ہے۔ مشہور تعداد 6666 ہے (اگر میں غلطی پر نہیں تو) ،لیکن بعض کتب میں یہ تعداد مختلگ بھی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک بعض لوگ ہر صورت سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو بھی ایک آیت "گنتے" ہیں، بعض نہیں گنتے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بعض محققین میں یہ اختلاف بھی ہے کہ فلاں آیت اس لفظ پر ختم ہوتی ہے، جب بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت یہاں نہیں بلکہ وہاں تک ہے۔
یعنی گو قرآن مجید میں " الحمد سے والناس" تک بالترتیب الفاظ بلکہ حروف اور اعراب تک متفقہ ہیں اور ان میں کوئ "اختلاف" نہیں ہے، لیکن آیات کی "کل تعداد" میں "فرق" اس لئے بیان کیا جاتا ہے کہ مختلف لوگوں نے "آیات کی گنتی" کا طریقہ کار مختلف اپنایا ہے۔
صحاح ستہ کی کتب میں احادیث کی گنتی یا کل تعداد میں اختلاف کا سب بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

طارق راحیل

محفلین
تاریخ اسلام پر کوئی تحریر مکمل ہونی چاہئے جو مستند حوالہ جات پر مبنی ہو یا جو بھی ذرائع دستیاب ہوں
مگر اردو میں اور محفل فورم کی بہترین کاوش ہو گی
اس کے لئے اہل علم کو بھی مدوعو کیا جا سکتا ہے

ہم جیسے کم علم لوگ استفادہ اور آنے والوں کے لئے مشعل راہ اور علم کے لئے اچھی چیز ہو گی
کیا کہتے ہیں آپ؟
 

باذوق

محفلین
آپ نے انتہائی غور طلب اور ذہانت آمیز سوال پوچھا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ذوق بھائی اور آبی ٹوکول ہی اس سوال کا کوئی علمی جواب دے سکتے ہیں‌۔
ذرہ نوازی کا شکریہ :smile2:
میرے خیال میں آپ بات سمجھے نہیں ، میں‌یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی لکھی ہوئی کتا ب اب موجود نہیں‌ہے؟اگر نہیں‌ہےتو ان سے جن لوگوں‌نے سنی یا سن کر یاد کی مطلب ان سے جس نے روایت کی ہے کیا وہ راوی بھی اسی طریقے سے محدیثین کے اعلیٰ معیار پر پورے اترتے ہیں‌؟ اور ان کا ریکارڈ بھی اسی طریقے سے محفوظ ہے جس طرح سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے راویوں کو اپنی کتاب میں‌محفوظ کیا ۔ کیونکہ اگر اصل کتاب موجود نہیں‌تو پھر تو جس نے بھی آگے روایت کی وہ بھی بس ایک راوی ہے اور اس کو بھی اسی چھلنی سے گذرنا چاہیے جس چھلنی سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے راویوں‌کو گذارا تھا۔ورنہ ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں‌کہ وہ معیار برقرار رہا جو امام بخاری نے مقرر کیا تھا۔
امام بخاری علیہ الرحمۃ کی اصل کتاب کے موجود رہنے یا نہ رہنے سے ایک عام آدمی کو کیا فرق پڑے گا؟ کیونکہ قرآن بھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر کاتبین نے جو تحریراً محفوظ کیا تھا اس کا سراغ ملنا بھی محال ہے۔ اس کے باوجود ہم قرآن کے اسی "قرآن" ہونے کی تصدیق کرتے ہیں جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا تھا۔ ہم خارجی شواہد پر یقین کرتے ہیں کہ جنہوں نے قرآن سننے اور لکھنے والے صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے لے کر ایک سنگل کتاب کی شکل میں جمع کیا ۔۔۔ اور اس کے بعد والوں نے جو اس سے نقل کیا ۔۔۔ یہ تمام نقول لفظ بہ لفظ بالکل وہی قرآن ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ "خارجی شواہد" کے لیے جب ہم اس میدان کے ماہرین کی متفقہ آراء پر یقین کرتے ہیں ۔۔۔ بعینہ اسی طرح احادیث کے معاملے میں محدثین کی متفقہ اجماعی آراء کو اہمیت دی جانی چاہیے۔
کم از کم میرے مطالعے سے کسی نامور اور معتبر محدث (یاد رہے کہ میں یہاں "محدث" کہہ رہا ہوں ، محقق یا عالم دین یا مذہبی پیشوا یا مستشرق نہیں!) کا ایسا قول نہیں گزرا جس میں موجودہ کتابی شکل میں موجود بخاری کے کسی نسخے کی حدیث کو امام بخاری علیہ الرحمۃ کی روایت اور پھر ان کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ماننے سے انکار کیا گیا ہو۔
جہاں تک قدیم ترین مخطوطات کی دستیابی کا سوال ہے تو کتب احادیث کے دستیاب مخطوطات میں سے قدیم ترین مخطوطہ جو عہد تابعین(دوسری صدی ہجری ) میں لکھا گیا الصحیفہ الصادقہ ہے جسے ہمام بن منبہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اورلکھا
کیونکہ یہ صحیفہ بعد میں دوسری بڑی کتب احادیث میں ضم کردیا گیا اس لیے یہ اصل مسودہ پوشیدہ رہا
ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور صحیفہ ہمام بن منبہ
 
اب تک سب سے پرانا نسخہ جو منظر عام پر آیا ہے وہ ٧٩٤ صدی ہجری کا ہے۔

ایک نسخے کا اور دعوی کی جاتا ہے کہ
بھتیجے عبداللہ حیدر نے جس قدیم ترین مخطوطے کا ذکر کیا ہے ، وہ مخطوطہ """ الفانسو منجانا """نامی ایک مستشرق کی طرف سے ۱۹۳۶ میں نشر کیا ، جو کہ ۳۷۰ ہجری میں لکھا گیا تھا ،

370 ہجری میں یہ نسخہ لکھا گیا تھا۔۔۔۔ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سنہ 12 ہجری میں ہوئی ۔ ان کی وفات کے 358 سال بعد یہ جمع کیا گیا کہ رسول اللہ صلعم نے کیا فرمایا تھا۔ کافی مستند لگتا ہے ۔ کون صاحب قائید اعظم کے تمام کے تمام اقوال جمع کرنے کے موڈ میں ہیں؟؟؟ ان کے انتقال کو صرف اور صرف 64 سال ہوئے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ جو نسخہ 794 صدی ہجری میں لکھا گیا تھا ۔۔ اب تک سامنے آنے والے نسخوں میں وہی سب سے قدیم نسخہ موجود ہے۔ ابن حجر کی فتح الباری صحیح البخاری بھی اسی دور میں سامنے آئی۔ کتب روایات میں کتب کا سلسلہ اس قدر ٹوٹا ہوا کیوں؟
 

شاکر

محفلین
خاں صاحب،
کتب احادیث پر اعتراضات شوق سے جاری رکھئے۔ ذرا ایک نیا دھاگا کھول کر یہ بھی بتا دیجئے گا کہ آج کے دور میں قرآن کا قدیم سے قدیم مکمل نسخہ کس صدی کا دستیاب ہے۔ ایک ایسا معیار جس پر خود قرآن پورا اتر سکے، اسی پر کتب احادیث کو بھی پرکھا جانا چاہئے۔ امید ہے کہ اتنا تو آپ اتفاق کریں گے ہم سے۔
 
خاں صاحب،
کتب احادیث پر اعتراضات شوق سے جاری رکھئے۔ ذرا ایک نیا دھاگا کھول کر یہ بھی بتا دیجئے گا کہ آج کے دور میں قرآن کا قدیم سے قدیم مکمل نسخہ کس صدی کا دستیاب ہے۔ ایک ایسا معیار جس پر خود قرآن پورا اتر سکے، اسی پر کتب احادیث کو بھی پرکھا جانا چاہئے۔ امید ہے کہ اتنا تو آپ اتفاق کریں گے ہم سے۔

قرآن حکیم پر مسلمان کا ایمان ہے ۔ یہ اللہ کا کلام ہے نا کہ کہانیوں کی کتاب۔ آپ کے سوال کا دودھ کا دودھ پانی کا پانی اسی وقت ہو جاتا ہے جب آپ اپنی کتب روایات پر ایمان لانے سے انکار کردیتے ہیں۔ یہ کہانیوں کی کتب اور تاریخی کتب لوگوں کی معلومات کے لئے لکھی گئی تھیں نا کہ ایمان کا حصہ بنانے کے لئے۔

قرآں حکیم کے سامنے ان کتب کی کوئی حیثیت نہیں ۔ ان کتب کی ہر کہانی یا روایت کے قابل قبول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہر روایت قرآن حکیم کے بیان کردوہ اصولوں کے عین مطابق ہو۔ قرآں حکیم کے معتبر ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ قرآن حیم پر ایمان رکھتے ہیں ۔ کیا آپ کا ایمان قرآں حکیم پر ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالی کا کلام ہے اور محفوظ ہے؟

کیا آپ کا کتب روایات پر ایمان ہے کہ یہ بھی قرآن کی طرح اللہ تعالی کا کلام ہے اور زمانے کی خرد برد سے محفوظ ہے؟؟؟
تو کون کون سی کتب روایات پر آپ کا ایمان ہے ؟؟؟ لسٹ فراہم کردیجئے۔
370 سال بعد پہلی بار لکھی گئیں ان کتب روایات پر ایمان لانے کا حکم کس نے دیا تھا ، اللہ تعالی نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ ؟؟

اب تک میں نے دیکھا ہے یہ سوالات پوچھتے ہی وہ شیطان کے چیلے غائب ہوجاتے ہیں جو ان کتب پر ایمان رکھنے کا دوسروں کو کہتے رہتے ہیں ۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کیا ہیں ؟
 

عاطف بٹ

محفلین
اب تک میں نے دیکھا ہے یہ سوالات پوچھتے ہی وہ شیطان کے چیلے غائب ہوجاتے ہیں جو ان کتب پر ایمان رکھنے کا دوسروں کو کہتے رہتے ہیں ۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کیا ہیں ؟
خان صاحب، آپ تو امریکی انتظامیہ کے ان شیطانوں کی چھتر چھایا میں بیٹھے ہیں جن سے بڑا شیطان ڈھونڈنے بھی کہیں نہیں ملے گا تو آپ سے بڑا شیطان کا چیلا کون ہوگا بھلا؟ آپ دلائل و براہین کے سامنے آنے پر کسی بات کو ماننے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ الٹا کج بحثی پر اتر آتے ہیں۔ آپ جیسے بھگوڑے ایک جگہ سے مار پڑنے پر بھاگتے ہیں تو دوسری جگہ جا کر سینگ اڑا لیتے ہیں اور پھر وہاں سے پھینٹی پڑتی ہے تو اگلی جگہ کی تلاش میں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ پہلے ٹھنڈے دل سے فیصلہ کریں کہ آپ بحث کسی بات کے مبرہن ہونے پر اسے ماننے کے لئے کررہے ہیں یا محض سینگ پھنسانے کے لئے؟
 
حضرت عثمان ابن عفان کا تالیف کردہ نسخہ تو موجود ہے جو انھوں نبی کریمﷺ کی حیات ہی میں مکمل کیا۔
جو نسخہ نبی کریم نے مکمل کیا تھا اس کی گواہی خود قرآن حکیم میں موجود ہے۔چونکہ ہمارا ایمان قرآن حکیم پر ہے اس لئے ہم اس گواہی کو مانتے ہیں ، چونکہ قرآن حکیم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا ہوا ہے اس لئے یہ ہمارے لئے مسئلہ ہی نہیں ہے۔ پھر قرآن حکیم سے کیا اختلاف ہے کسی کو بھی۔ یہ سوال دنیا کے ہر فرد سے ہے۔ اگر کسی کو کوئی اختلاف ہوتا تو آج دنیا مخالفین کے ڈراموں سے گونج رہی ہوتی۔
 

شاکر

محفلین
تو کون کون سی کتب روایات پر آپ کا ایمان ہے ؟؟؟ لسٹ فراہم کردیجئے۔
370 سال بعد پہلی بار لکھی گئیں ان کتب روایات پر ایمان لانے کا حکم کس نے دیا تھا ، اللہ تعالی نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ ؟؟

اب تک میں نے دیکھا ہے یہ سوالات پوچھتے ہی وہ شیطان کے چیلے غائب ہوجاتے ہیں جو ان کتب پر ایمان رکھنے کا دوسروں کو کہتے رہتے ہیں ۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کیا ہیں ؟
یہاں ایمان کی نہیں دلائل کی بات ہو رہی ہے۔ دونوں کو خلط ملط نہ کیجئے۔ اور اگر آپ کو ایمان پر بات کرنی ہے، تو علیحدہ دھاگا کھول لیجئے۔

آپ کا استدلال یہ ہے کہ کتب احادیث کا قدیم سے قدیم نسخہ بھی اتنے صدیوں بعد کا ہے۔ لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ اور اس پر آپ نے قائداعظم کے اقوال کی مثال بھی دی۔
ہمارا آپ کے دعویٰ پر جوابی سوال فقط اتنا ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین کا لکھا ہوا قرآن آج کہیں موجود ہے؟
نیز یہ چھوٹی سی بات بتانے میں کیا حرج ہے کہ آپ کی تحقیق کے مطابق قرآن کا قدیم سے قدیم نسخہ کس صدی کا موجود ہے؟

ہمارا استدلال فقط اتنا ہے کہ آپ کتب احادیث کے لئے ایک ایسا معیار مقرر کر رہے ہیں (یعنی آج کے دور میں کتب احادیث کا وہ نسخہ دستیاب نہیں، جو ان کے مولفین نے خود لکھا ہو، لہٰذا وہ ناقابل اعتبار ہیں)، کہ جس پر خود قرآن بھی پورا نہیں اترتا۔ (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین کے ہاتھ کا لکھا قرآن بھی آج کہیں دستیاب نہیں)۔
اب یا تو آپ اپنے استدلال کی غیر معقولیت واضح ہو جانے کے بعد اس سے دستبردار ہو جائیں اور یا پھر ثابت کیجئے کہ قرآن کا اولین نسخہ آج بھی مکمل حالت میں فلاں جگہ موجود ہے۔

نوٹ: گزارش ہے کہ احسن انداز میں بات کیجئے۔ اوپر لال رنگ میں ملون الفاظ اور ان جیسے دیگر الفاظ استعمال کرنا محفل (اور محفل فورم) کے آداب کے منافی ہے۔


حضرت عثمان ابن عفان کا تالیف کردہ نسخہ تو موجود ہے جو انھوں نبی کریمﷺ کی حیات ہی میں مکمل کیا۔
عثمان صاحب، ایسا نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں قرآن کا کوئی نسخہ مکمل نہیں کیا۔
پھر، اس وقت قرآن کے جو قدیم ترین نسخے موجود ہیں۔ ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک سے زائد نسخے منسوب ہیں اور تمام نسخوں میں وہ خون بھی موجود ہے، جو ان کی شہادت کے وقت، جبکہ وہ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، لگ گیا تھا۔ اور ان تمام نسخوں میں ایک ہی جگہ خون کے ذرات کا ہونا ، دراصل ان تمام نسخوں ہی کو ناقابل اعتبار بنا دیتا ہے۔
 

انتہا

محفلین
خاں صاحب،
کتب احادیث پر اعتراضات شوق سے جاری رکھئے۔ ذرا ایک نیا دھاگا کھول کر یہ بھی بتا دیجئے گا کہ آج کے دور میں قرآن کا قدیم سے قدیم مکمل نسخہ کس صدی کا دستیاب ہے۔ ایک ایسا معیار جس پر خود قرآن پورا اتر سکے، اسی پر کتب احادیث کو بھی پرکھا جانا چاہئے۔ امید ہے کہ اتنا تو آپ اتفاق کریں گے ہم سے۔
بھائی صاحبۙ! کدھر سر پھوڑ رہے ہیں، اپنا وقت کہیں اور قیمتی بنائیے، ابھی انھوں نے صرف آپ کو شیطان کا چیلا کہا ہے، ابھی آگے دیکھیے مزید کتنی خوب صورت زبان آپ کے لیے یہ استعمال کرتے ہیں۔
قرآن پر ایمان والے قرآن کے اخلاق سے خالی ہیں۔
جن کی اپنی زندگیاں قرآن مخالف ہوں وہ کیا قرآن سمجھیں سمجھائیں گے۔
ہاں اپنی الٹی سیدھی کو ضرور قرآن سے زبردستی ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔
 
یہاں ایمان کی نہیں دلائل کی بات ہو رہی ہے۔ دونوں کو خلط ملط نہ کیجئے۔ اور اگر آپ کو ایمان پر بات کرنی ہے، تو علیحدہ دھاگا کھول لیجئے۔

آپ کا استدلال یہ ہے کہ کتب احادیث کا قدیم سے قدیم نسخہ بھی اتنے صدیوں بعد کا ہے۔ لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ اور اس پر آپ نے قائداعظم کے اقوال کی مثال بھی دی۔
ہمارا آپ کے دعویٰ پر جوابی سوال فقط اتنا ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین کا لکھا ہوا قرآن آج کہیں موجود ہے؟
نیز یہ چھوٹی سی بات بتانے میں کیا حرج ہے کہ آپ کی تحقیق کے مطابق قرآن کا قدیم سے قدیم نسخہ کس صدی کا موجود ہے؟

ہمارا استدلال فقط اتنا ہے کہ آپ کتب احادیث کے لئے ایک ایسا معیار مقرر کر رہے ہیں (یعنی آج کے دور میں کتب احادیث کا وہ نسخہ دستیاب نہیں، جو ان کے مولفین نے خود لکھا ہو، لہٰذا وہ ناقابل اعتبار ہیں)، کہ جس پر خود قرآن بھی پورا نہیں اترتا۔ (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین کے ہاتھ کا لکھا قرآن بھی آج کہیں دستیاب نہیں)۔
اب یا تو آپ اپنے استدلال کی غیر معقولیت واضح ہو جانے کے بعد اس سے دستبردار ہو جائیں اور یا پھر ثابت کیجئے کہ قرآن کا اولین نسخہ آج بھی مکمل حالت میں فلاں جگہ موجود ہے۔

نوٹ: گزارش ہے کہ احسن انداز میں بات کیجئے۔ اوپر لال رنگ میں ملون الفاظ اور ان جیسے دیگر الفاظ استعمال کرنا محفل (اور محفل فورم) کے آداب کے منافی ہے۔



عثمان صاحب، ایسا نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں قرآن کا کوئی نسخہ مکمل نہیں کیا۔
پھر، اس وقت قرآن کے جو قدیم ترین نسخے موجود ہیں۔ ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک سے زائد نسخے منسوب ہیں اور تمام نسخوں میں وہ خون بھی موجود ہے، جو ان کی شہادت کے وقت، جبکہ وہ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، لگ گیا تھا۔ اور ان تمام نسخوں میں ایک ہی جگہ خون کے ذرات کا ہونا ، دراصل ان تمام نسخوں ہی کو ناقابل اعتبار بنا دیتا ہے۔

قران حکیم اللہ تعالی کا کلام اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے۔ لیکن حدیث انسانوں کی جمع شدہ تاریخ ہے۔ آپ صرف اتنا بتا دیجئے کہ آپ کا قرآن حکیم پر موجود حالت میں ایمان ہے یا آپ قرآن حکیم کے موجودہ متن کو چیلنج کرتے ہیں کہ یہ اصل قرآن حکیم نہیں ہے۔ آپ کو پھر اس کے مطابق قرآن سے جواب دے دیا جائے گا۔ یہ بھی بتائیے کہ آپ کتب روایات پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر آپ کو آپ کو کتب روایات سے جواب دیا جائے گا۔ آپ واضح طور پر بتا دیجئے کہ آپ کا ایمان کس کتاب پر ہے۔؟

نوٹ : آپ کو یا یہاں کسی بھی شخص کو شیطان کا چیلا نہیں کہا گیا ہے۔ تھوڑی سمجھ داری سے کام لیں۔ آپ مسلمان ہیں ۔ جو لوگ قران جلاتے ہیں۔ قرآن کو نہیں مانتے ہیں۔ بری بری فلمیں بناتے ہیں ، ان کو اسی محفل کے آداب کے مطابق کس کس نام سے نوازا جاتا ہے۔ تو قرآن کو نا ماننے والوں کو میں وہی الفاظ استعمال کیوں نہیں کرسکتا؟
 

شاکر

محفلین
قران حکیم اللہ تعالی کا کلام اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے۔ لیکن حدیث انسانوں کی جمع شدہ تاریخ ہے۔ آپ صرف اتنا بتا دیجئے کہ آپ کا قرآن حکیم پر موجود حالت میں ایمان ہے یا آپ قرآن حکیم کے موجودہ متن کو چیلنج کرتے ہیں کہ یہ اصل قرآن حکیم نہیں ہے۔ آپ کو پھر اس کے مطابق قرآن سے جواب دے دیا جائے گا۔ یہ بھی بتائیے کہ آپ کتب روایات پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر آپ کو آپ کو کتب روایات سے جواب دیا جائے گا۔ آپ واضح طور پر بتا دیجئے کہ آپ کا ایمان کس کتاب پر ہے۔؟
محترم، آپ مجھے کوئی غیر مسلم سمجھ کر جواب دے دیجئے۔ فرض کر لیں میرا ایمان قرآن پر نہیں ہے۔ اور میں فقط دلیل کی بات مانتا ہوں۔ جیسے آپ دلیل کے تحت کتب احادیث پر شکوک پھیلا رہے ہیں۔ تو اسی دلیل کے تحت وہی شک اگر کوئی غیر مسلم قرآن پر بھی کر دے تو آپ کا کیا جواب ہوگا، یہی جاننے میں دلچسپی ہے۔ ایمان کی بات کے لئے پہلے بھی گزارش کی تھی، علیحدہ دھاگا کھول لیں۔
 
قابل صد احترام غیر مسلم برادر من ، قرآن پر مسلمان کا ایمان ہے اور اس کے مطابق ان دیکھے پر ایمان لاتے ہیں، میں صرف اور صرف قرآن حکیم کی آیات ان لوگوں سے شئیر کرتا ہوں جو مسلمان ہیں اور جن کا ایمان قرآن حکیم پر ہے۔ وہ لوگ جو امریکی غیر مسلم ہیں ان کو ان کے ایمان کے مطابق بالمشافہ معلومات فراہم کرتا ہوں۔ آپ اگر بالمشافہ ملاقات کرسکیں تو آپ کو ہر قسم کی معلومات اور دلائیل فراہم کرکے خوشی محسوس کروں گا۔

جب آپ قرآن پر ایمان لاکر مسلمان ہو جائیں تو پھر قرآن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کتاب کی شکل میں مکمل ہوجانے کے بارے میں بات کریں گے ۔

ایک قرآن کے ماننے والے مسلمان کے لئے کتب روایت صرف اور صرف تاریخ ہے جو کہ ہجرت کے 350 سال بعد جمع کی گئی ۔ اس میں سے جو کچھ قرآن کے مطابق ہے مسلمان اس کو مانتا ہے اور جو جو کچھ قرآن کے مطابق نہیں اس کو نہیں مانتا۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو قرآن حکیم کی جگہ صرف اور صرف روایات کی کتب پر ایمان رکھتے ہیں۔ آپ کو آپ کا مذہب مبارک ہو۔ شکریہ۔
 

شاکر

محفلین
قابل صد احترام غیر مسلم برادر من ، قرآن پر مسلمان کا ایمان ہے اور اس کے مطابق ان دیکھے پر ایمان لاتے ہیں، میں صرف اور صرف قرآن حکیم کی آیات ان لوگوں سے شئیر کرتا ہوں جو مسلمان ہیں اور جن کا ایمان قرآن حکیم پر ہے۔ وہ لوگ جو امریکی غیر مسلم ہیں ان کو ان کے ایمان کے مطابق بالمشافہ معلومات فراہم کرتا ہوں۔ آپ اگر بالمشافہ ملاقات کرسکیں تو آپ کو ہر قسم کی معلومات اور دلائیل فراہم کرکے خوشی محسوس کروں گا۔
جب آپ قرآن پر ایمان لاکر مسلمان ہو جائیں تو پھر قرآن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کتاب کی شکل میں مکمل ہوجانے کے بارے میں بات کریں گے ۔

قرآن کی حقانیت کا ثبوت کسی غیر مسلم کے مذہب کی نوعیت پر منحصر نہیں ہے۔ اور ایسے کیا دلائل ہیں جو بالمشافہ ملاقات ہی پر مہیا کئے جا سکتے ہیں؟ آپ انٹرنیٹ کی اس مشارکت ہی کو آدھی ملاقات سمجھیں اور وہ معلومات اور دلائل پیش کیجئے جو بالمشافہ ملاقات میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی بہانے ایک کے بجائے زیادہ لوگ نفع حاصل کر لیں گے۔ اور انٹرنیٹ پر ان دلائل کا مستقل ریکارڈ بھی رہے گا۔
 
Top