کثرتِ ازدواج (Polygamy )

فرقان احمد

محفلین
ظاہر ہے وجہ تو ہوتی ہے۔۔۔
جیسے پہلی شادی کے لیے ہوتی ہے!!!

:):):)

محض دوسری شادی کی وجہ سے طلاق لینا ایک حلال کام کو حرام عمل سے آلودہ کرنا ہے، چوں کہ ہماری دینی تربیت نہیں ہوتی لہٰذا اللہ کے ہر حکم پر سر جھکانے کی عادت نہیں ہے، اسی لیے یہ سارے مسائل پیش آتے ہیں۔۔۔
یہ بات دونوں طرف ہے، مرد بھی عملی طور پر اسلام سے دور ہے اور عورت بھی۔۔۔
اس وقت موضوع عدل یا ظلم نہیں ایک سے زائد شادی ہے اس لیے دوسری طرف نہیں جائیں گے، کیوں ظلم پہلی بیوی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور عورتیں بھی مردوں کو ستاسکتی ہیں۔۔۔
شاہ جی، آپ ٹھہرے مفتی، اور ہم تو مفت کے بھی نہیں ہیں۔ :) اب اس کا کیا علاج؟ ہماری آئیں بائیں شائیں کو سنجیدہ نہ لیا کیجیے۔ ہم جب تلک الٹا سیدھا فلسفہ نہ بگھار لیں، ہمیں چین نہیں پڑتا ہے۔ :) چاہے آپ لٹھ لے کے پیچھے پڑے رہیں۔ :)
 
شاہ جی، آپ ٹھہرے مفتی، اور ہم تو مفت کے بھی نہیں ہیں۔ :) اب اس کا کیا علاج؟ ہماری آئیں بائیں شائیں کو سنجیدہ نہ لیا کیجیے۔ ہم جب تلک الٹا سیدھا فلسفہ نہ بگھار لیں، ہمیں چین نہیں پڑتا ہے۔ :) چاہے آپ لٹھ لے کے پیچھے پڑے رہیں۔ :)
بھیا ہم سمجھتے ہیں آپ کے جذبات کو ،ویسے نہ سہی تو ایسے ہی سہی ۔
 
آپ یہاں بھی آلیے دوسروں کو بھڑکانے۔۔۔
بھلا یہاں آپ کا کیا کام؟؟؟
یہ بھی آپ نے خوب کہی ،
ہم اس چکر میں آئے تھے کہ شاید یہاں سے دوسری شادی کرنے کا کوئی آسان طریقہ میسر آجائے ۔
آپ یہاں طریقے بتا رہے ہیں اور ہمارا ذرا بھی خیال نہیں ، حد ہے آپ سے بھیا ۔
 

م حمزہ

محفلین
مرد کے لیے چار شادیوں کی اجازت
جہاں تک چار شادیاں کرنے کی اجازت کا تعلق ہے، یہ بلاشبہ قرآن مجید میں موجود ہے لیکن اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر اور مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہ حکم سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳ میں اس طرح ہے کہ

’’اگر تم خوف کھاؤ کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو، دو دو تین تین اور چار چار۔ اور اگر تم خوف کرو کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے ۔‘‘

بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اس کا پس منظر یہ بیان کیا ہے کہ جاہلیت کے دور میں بہت سے لوگ اپنے خاندان کی یتیم اور بے سہارا بچیوں کو ان کے حسن یا مال کی وجہ سے اپنی بیوی بنا لیتے تھے اور ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتے تھے۔شادیوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی، کوئی بھی شخص جتنی شادیاں چاہتا تھا کر لیتا تھا اور اس طرح عورتیں خاص طور پر یتیم لڑکیاں ظلم اور حق تلفی کا نشانہ بنتی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی رو سے دو پابندیاں عائد کر دیں:

  • ایک یہ کہ خاندان کی کسی یتیم لڑکی کو بیوی بنانے کی صورت میں اگر اس کے حقوق پورے نہیں کر سکتے اور انصاف مہیا نہیں کر سکتے تو اس کے ساتھ شادی مت کرو،
  • اور دوسری یہ کہ چار سے زیادہ بیویاں بیک وقت رکھنے کی ممانعت کردی گئی۔
اس طرح بنیادی طور پر یہ حکم چار تک شادیاں کرنے کے حکم کے طور پر نہیں بلکہ چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی ممانعت کے طور پر ہے، اور اسے بھی آیت کریمہ میں مشروط کر دیا گیا ہے کہ اگر انصاف اور حقوق کے تقاضے پورے کر سکو تو اس کی اجازت ہے ورنہ ایک پر ہی قناعت کرو۔ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت کو اگر معاشرتی مسائل اور ضروریات کے حوالہ سے دیکھا جائے تو اسے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے اور یہ مرد اور عورت دونوں کے حوالے سے ہے۔

مرد کے حوالے سے اس لیے کہ بسا اوقات ایک مرد اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ایک عورت پر قناعت نہیں کرتا تو اس کے لیے یہ راستہ رکھا گیا ہے کہ وہ ناجائز صورتیں اختیار کرنے کے بجائے باقاعدہ نکاح کرے تاکہ جس عورت کے ساتھ وہ یہ تعلق قائم کرے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی بھی مرد کو کسی بھی عورت کے ساتھ جنسی تعلق کی اس وقت تک اجازت نہیں دیتا جب تک وہ اس عورت کے مالی اخراجات اور جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی پرورش اور اخراجات کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر قبول نہ کرے۔ اسلام مغرب کے موجودہ فلسفہ اور کلچر کی طرح جنسی تعلقات کو اس طرح آزاد نہیں چھوڑتا کہ مرد تو اپنا جنسی تقاضا پورا کرکے چلتا بنے اور عورت اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تنہا رہ جائے۔

عورت کے حوالے سے اس لیے کہ معاشرے میں بسا اوقات ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے کہ عورت کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ یا تو تنہائی کی زندگی گزارے اور یا کسی شادی شدہ مرد کی دوسری یا تیسری بیوی بن کر اپنی زندگی کو بامقصد بنا لے۔ اس صورت میں اسلام نے جائز نکاح کا راستہ بند کرکے بہت سے ناجائز راستے کھولنے کے بجائے ایسی عورت کو زندگی بسر کرنے کا باوقار راستہ دیا ہے، اور ظاہر ہے کہ نکاح تو عورت کی اجازت اور مرضی سے ہی ہوتا ہے اور اگر کوئی عورت اس کے لیے سوچ سمجھ کر تیار ہوتی ہے تو اس کی معاشرتی ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

(ابوعمار زاہد الراشدی)
ربط
 

La Alma

لائبریرین
چونکہ یہ ایک پبلک فورم ہے اور ایسے بہت سے شرعی مسائل جو روزمرہ زندگی میں زیرِ بحث نہیں آتے یا ان پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، تو اکثر لوگ ایسے بحث و مباحث سے اثر قبول کر کے کسی مخصوص نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں اور ایک عمومی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ جو ضروری نہیں ہمیشہ درست ہی ہو۔ لہٰذا دین کے معاملے میں تحقیق کے در کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے ۔
اس موضوع پر ذرا ڈاکٹر ذاکر نائیک کا موقف بھی سنیے ۔ اور بھی حوالہ جات موجود ہیں، لیکن چونکہ اسلام کے لیے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور کافی جانی پہچانی شخصیت بھی ہیں سو ان کے بیان کا ایک لنک پیش کر رہی ہوں۔ شاید دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہو۔

کچھ مکاتیبِ فکر کے حامی افراد کو ان سے اختلاف ہو سکتا ہے اور اختلاف کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ ممکن ہے ان کے نزدیک دوسرا موقف زیادہ درست ہو۔ دین میں کسی پر کوئی جبر یا زور زبردستی تو ہے نہیں۔ لہٰذا میرا مقصد یہاں بحث کو خواہ مخواہ طول دینا ہر گز نہیں۔
 
چونکہ یہ ایک پبلک فورم ہے اور ایسے بہت سے شرعی مسائل جو روزمرہ زندگی میں زیرِ بحث نہیں آتے یا ان پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، تو اکثر لوگ ایسے بحث و مباحث سے اثر قبول کر کے کسی مخصوص نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں اور ایک عمومی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ جو ضروری نہیں ہمیشہ درست ہی ہو۔ لہٰذا دین کے معاملے میں تحقیق کے در کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے ۔
اس موضوع پر ذرا ڈاکٹر ذاکر نائیک کا موقف بھی سنیے ۔ اور بھی حوالہ جات موجود ہیں، لیکن چونکہ اسلام کے لیے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور کافی جانی پہچانی شخصیت بھی ہیں سو ان کے بیان کا ایک لنک پیش کر رہی ہوں۔ شاید دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہو۔

کچھ مکاتیبِ فکر کے حامی افراد کو ان سے اختلاف ہو سکتا ہے اور اختلاف کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ ممکن ہے ان کے نزدیک دوسرا موقف زیادہ درست ہو۔ دین میں کسی پر کوئی جبر یا زور زبردستی تو ہے نہیں۔ لہٰذا میرا مقصد یہاں بحث کو خواہ مخواہ طول دینا ہر گز نہیں۔
ماشاءاللہ ،
بہن آپ نے کیا زبردست اور عمدہ بات کہی ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
گزشتہ دنوں مجھے واٹس ایپ پہ یہ پیغام ملا -سوچا یہاں بھی نقل کر دوں -حضرتؒ یعنی صاحب ملفوظات کا شمار بڑے اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے ذمّے خلق' بشمول علماء و مفتیان کرام 'کی تربیت و تزکیہ کا کام رہا ہے - نہ جانے کیا ماجرا ہے 'حضرت کی باتیں باوجود اختلافی دلیلوں کے دل کو لگتی ہیں بقول شخصے :

ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں

دوسری شادی کے متعلق ملفوظات *از حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب رحمہ اللہ*
(ماخوذ از تربیت عاشقان خدا)
ارشاد فرمایا کہ چار شادی کی اجازت ہے، حکم نہیں ہے، اور یہ اجازت مطلق نہیں اس شرط سے مقید ہے کہ شوہر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین کے کمالِ ایمان اور تقویٰ کے ساتھ یہ شرط نازل ہوئی اور آج کل تو ایمان کا کیا حال ہے۔ اس لیے اس زمانے میں ایک ہی پر صبر ضروری ہے ورنہ دو شادی کرکے اگر دونوں میں برابری نہ کی تو سخت گناہ گار ہوگا۔ پھر اس زمانے میں صحت اور قوّت بھی کمزور ہے۔ اُس زمانے میں خون نکلوانا پڑتا تھا اور اب خون چڑھوانا پڑتا ہے۔ اور موجودہ زمانے میں جس نے بھی دو شادی کی دل کا چین و سکون غائب ہوا۔ لیلیٰ کی تعداد بڑھا کر مولیٰ کی یاد کے قابل نہ رہے۔ نظر کی حفاظت نہ کرنے کا یہ وبال ہے کہ ایک لیلیٰ پر صبر نہیں۔
٭ایک صاحب نے دوسری شادی کی اجازت مانگی کہ میں فتنۂ نساء سے محفوظ رہنے لیے دوسری شادی کرنا چاہتاہوں ۔
ارشاد فرمایا کہ جب بیوی موجود ہے تو کیا یہ فتنۂ نساء سے اسباب ِحفاظت میں سے نہیں ہے؟ اس زمانے میں دو بیویوں میں عدل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا کہ زندگی تلخ ہوگئی، اور آخرت کے مواخذہ کا اندیشہ الگ۔ اس زمانے میں ایک ہی بیوی کا حق ادا ہوجائے تو غنیمت ہے۔
٭ایک صاحب نے مستورات میں خانقاہی کام اور مدرسے کی ترتیب کے لیے دوسری شادی کی اجازت مانگی۔
ارشاد فرمایا کہ مستورات میں خانقاہی کام اور مدرسے کی ترتیب بھی نفس کا بہانہ معلوم ہوتا ہے۔تعجب ہے کہ دوسری شادی کا پیغام بھیجنے کے لیے مشورہ بھی نہیں کیا شاید اس لیے کہ مشورہ میں احتمال تھا کہ آپ کی رائے کے خلاف ہوتا۔ مشایخ کا کام دین کا کام کرنا ہے، لوگوں کو اﷲ والا بنانے میں اپنے اوقات کو صَرف کرنا ہے نہ کہ شادیاں کرنا۔ مشورہ تو پہلے کیا جاتا ہے، موجودہ صورت میں یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا، خود کو فتنے میں نہ ڈالیں یعنی دوسری شادی ہرگز نہ کریں۔
٭ ایک صاحب نے خط لکھا کہ مجھے شدت کے ساتھ الہام ہورہا ہے کہ دوسری شادی کر لوں۔
ارشاد فرمایا کہ دوسری شادی کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے کہ لگتا ہے یہ اﷲ کا الہام ہے تو آپ کا خیال غلط ہے یہ الہام شیطانی ہے۔ غالباً آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سنّت پر عمل کرنا عام سنّتوں کی طرح مستحب ہے، لیکن اس سنّت پر عمل مقید ہے ایک بہت سخت شرط کے ساتھ فَاِنْ خِفْتُمْ اَ لَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ؎پس اگر تم کو غالب احتمال ہو کہ کئی بیویاں کرکے عدل نہ رکھ سکو گے بلکہ کسی بیوی کے حقوق واجبہ ضایع ہوں گے تو پھر ایک ہی بیوی پر بس کرو۔ (بیانُ القرآن) اس زمانے میں ایک ہی بیوی کے حقوق ادا نہیں ہوپاتے چہ جائیکہ دوسری بیوی کے بھی ادا ہوں۔ یہ صحابہ ہی کا ایمان تھا جو چار چار بیویوں میں عدل اور برابری کر سکتے تھے ہم لوگوں میں اب نفس ہی نفس ہے، جس میں حُسن زیادہ ہوگا اس کے ساتھ کم حسین کے حقوق میں عدل کرنا آسان نہیں۔ اندیشہ ہے کہ آخرت میں گردن نپ جائے۔
ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے دوشادیاں کی تھیں۔ کسی نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ نے دو شادیاں کرکے مریدوں کے لیے دو شادیوں کا دروازہ کھول دیا۔ فرمایا کہ نہیں! میں نے دروازہ بند کردیا۔ دیکھویہاں دروازے پر ترازو لٹکی ہوئی ہے کوئی پھل آتا ہے تو یہ نہیں کہ ترازو میں صرف ہم وزن کرکے دونوں بیویوں کو دوں بلکہ مثلاً اگر دو تربوز ایک ہی وزن کے آئے تو ہر تربوز کو کاٹ کر آدھا آدھا کرکے دیتا ہوں کیوں کہ اگر آدھا نہ کروں تو ڈر ہے کہ ایک کے پاس میٹھا چلا جائے اور دوسری کے پاس کم میٹھا جو خلافِ عدل ہے۔ اسی طرح اگر کپڑا دینا ہو تو دونوں کو بالکل ایک طرح کا دیتا ہوں اور کسی بیوی کے پاس اگر چھ گھنٹہ رہا ہوں تو دوسری کی باری پر چھ گھنٹہ گھڑی دیکھ کر اس کے پاس رہتا ہوں وغیرہ۔ اتنا عدل کوئی کرسکتا ہے؟ اس عدل کے باوجود فرمایا کہ دوشادیاں کرنا آسان نہیں۔دو شادیاں اتنی مشکل محسوس
ہوئی کہ بعض وقت خود کشی کا وسوسہ آگیا۔
--------------------
ارشاد فرمایا کہ دوسری شادی سے بیوی بچوں کے جدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور صرف اندیشہ ہی نہیں اس زمانے میں یہ جدائی یقینی ہے، زندگی تلخ ہوجائے گی۔ ہمارے سامنے بہت سے واقعات ہیں کہ جن بیویوں نے خوشی سے اجازت بھی دی شادی کے بعد اپنی اولاد کے ساتھ شوہر کے خلاف محاذ قائم کردیا۔ اگر دل میں کوئی عورت سمائی ہوئی نہیں ہے، ہونا نہ ہونا برابر ہے تو دوسری بیوی کی چاہت کا اتنا سخت تقاضا کیوں؟ جبکہ قضائے شہوت کا محل (بیوی) موجود ہے، نفس سے ہوشیار رہیں، اس کے کید بہت باریک ہوتے ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ دوبیویاں رکھنا اور ان میں برابری کرنا خصوصاً اس دورِ نفس پرستی اور ہوس انگیزی میں سخت دشوار بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے اﷲتعالیٰ نے بشرطِ مساوات اجازت دی ہے،حکم نہیں دیا کہ کئی کئی شادیاں کرو۔ پس اگر مساوات نہ کرسکے جس کا قوی امکان ہے تو اﷲتعالیٰ کا غضب مول لینا ہے۔ اس لیے دُعاکرتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ ان کو اس اقدام سے باز رکھے کہ ان کے لیے بڑی آزمایش اور بڑا امتحان ہوگا جس میں مواخذہ کا اندیشہ زیادہ ہے۔
-------------
ارشاد فرمایا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بہت حسین تھے، مگر ان کی شادی ایسی عورت سے ہوئی جس پر حُسن کا اطلاق ممکن نہ تھا۔ پہلے زمانے میں بچے اتنے شریف ہوتے تھے کہ ماں باپ جہاں رشتہ لگادیں وہ ماں باپ سے لڑتے نہیں تھے کہ میں کیسا ہوں اور آپ نے انتخاب کیسا کیا؟ خون کے رشتوں کی وجہ سے ترجیح دے دی کہ خون کا رشتہ ہے، اس کا حق ادا ہوجائے گا، صلہ رحمی ہوجائے گی، ایک لڑکی کا گھر بس جائے گا۔ ایک دن ایک شاگرد سے کھانا منگوایا، تیز ہوا سے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی کا نقاب ذرا سی دیر کو ہٹ گیا تو دیکھا کہ بیوی امام صاحب کے بالکل برعکس ہے۔ کھانا تو لے آیا، مگر الگ بیٹھ کے رونے لگا۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ کیوں روتا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ کی قسمت پر رو رہا ہوں۔ آپ جس قدر حسین ہیں آپ کی بیوی اتنی ہی غیر حسین ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہنس پڑے اور فرمایا کہ اے بیٹے! میں اس وقت فقہ پر چھ کتابیں لکھ رہا ہوں زیادات، مبسوط، جامع صغیر، جامع کبیر، سیرصغیر،سیر کبیر اور تم لوگوں کو پڑھا بھی رہا ہوں۔ اگر بیوی حسین ہوتی تو اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوتا اس کے حُسن کا مشاہدہ، معاینہ اور ملاحظہ کرتا۔ تم کہتے کہ استاد کنزالدقائق کا گھنٹہ ہوگیا، میں کہتا کہ میں حُسن الدقائق میں مشغول ہوں ۔ پھر جوش میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنے دردِ دل کے لیے منتخب فرماتے ہیں اس کو فانی کھلونوں میں ضایع نہیں کرتے۔
بیوی کے لیے ناک بھوں مت چڑھاؤ کہ ایسی ناک چپٹی ہے، اس کا منہ کالا ہے، مجھے حسین بیوی ملنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی کے پیٹ سے کوئی عالم، حافظ، ولی اللہ پیدا کردے جو قیامت کے دن تمہارے کام آئے، اس لیے ان کو حقیر مت سمجھو۔ صورت کو مت دیکھو۔ بعض وقت زمین کالی ہوتی ہے، مگر غلہ بہت بَڑھیا نکلتا ہے۔ بعض وقت کالی کلوٹی عورت سے ولی اللہ پیدا ہوتے ہیں اور گوری چٹیوں سے شیطان پیدا ہوتے ہیں، اس لیے بیویوں کو حقیر مت سمجھو، ان کے رنگ و روغن کو مت دیکھو۔
کئی مرتبہ لوگوں نے حضرتِ والا سے عرض کیا کہ اگر کسی کو دوزخ کا عذاب چکھنا ہو تو دوسری شادی کرلے۔
ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بندیوں کے لیے سفارش نازل کی عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ؎ کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے رہنا۔ یہ بتاؤ کہ اگر شیخ کہہ دے کہ میری بیٹی کا خیال رکھنا، تم میرے داماد بھی ہو اور میرے خلیفہ بھی ہو،اگر تم نے میری بیٹی کو ستایا تو خلافت چھین لوں گا۔تو بتائیے وہ خلیفہ شیخ کی بیٹی کو ستائے گا؟ وہ تو روزانہ ہاتھ جوڑتا رہے گا کہ اپنے ابّا سے کچھ مت بتانا، اگر کبھی خطا ہوبھی جائے تو ا س کو منا لے گا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اگر تم نے دوسری شادی کی تو میری بیٹی فاطمہ کو غم ہوگا اور اگر فاطمہ کو غم ہوگا تو مجھ کو غم ہوگا لہٰذا میں حقِ ضابطہ سے نہیں کہتا حقِ رابطہ سے کہتا ہوں کہ تم دوسری شادی مت کرنا۔ معلوم ہوا
------------------------------
کہ ہر جگہ قانون بازی نہیں چلتی، خشک ملائیت ٹھیک نہیں ہے، حقِ رابطہ سیکھو اور حقِ رابطہ سے اﷲ سے رابطہ ملتا ہے، اﷲ کا دین محبت کا راستہ ہے خشک قانون کا راستہ نہیں ہے مگر اہلِ رابطہ اور اہلِ محبت کی صحبت میں رہنے سے یہ خشکی دور ہوجاتی ہے جیسے کسی کو نیند نہیں آتی، دماغ میں خشکی بڑھ جاتی ہے تو اطباء لکھتے ہیں کہ اس کی کشتی دریا میں ڈال دو اور رات بھر وہاں سلاؤ تاکہ پانی کی رطوبت اس کی ناک سے داخل ہوکر اس کے دماغ کی خشکی دور کردے تو اہل اﷲ کے دریاؤ ں کے پاس رہو ان شاء اﷲ تعالیٰ ان کے قلب میں جو اﷲ کی محبت ہے وہ آپ کے قلب میں منتقل ہوجائے گی۔
ارشاد فرمایا کہ اسلام میں بیوی کا دل خوش کرنا اور خوش رکھنا بہت بڑی عبادت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بیویوں کے متعلق قرآن پاک میں سفارش کی عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ یعنی اپنی بیویوں سے نیک برتاؤ کرو۔ایک شخص نے کھانے میں نمک تیز کردینے پر بیوی کو معاف کردیا، مرنے کے بعد ایک بزرگ نے خواب دیکھا کہ اس نے کہا اﷲ تعالیٰ نے مجھے اِسی عمل کی برکت سے بخش دیا کہ میں نے اپنی بیوی کے نمک تیز کرنے کو معاف کردیا تھا۔
ارشاد فرمایا کہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے جو چالیس سال کی تھیں شادی کی اور آپ کی۵۲ سال کی عمر مبارک تک زندہ رہیں مگر اُن کی تکلیف کے خیال سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی کہ بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکو تکلیف ہو گی۔
 

سید عمران

محفلین
گزشتہ دنوں مجھے واٹس ایپ پہ یہ پیغام ملا -سوچا یہاں بھی نقل کر دوں -حضرتؒ یعنی صاحب ملفوظات کا شمار بڑے اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے ذمّے خلق' بشمول علماء و مفتیان کرام 'کی تربیت و تزکیہ کا کام رہا ہے - نہ جانے کیا ماجرا ہے 'حضرت کی باتیں باوجود اختلافی دلیلوں کے دل کو لگتی ہیں بقول شخصے :

ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں

دوسری شادی کے متعلق ملفوظات *از حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب رحمہ اللہ*
(ماخوذ از تربیت عاشقان خدا)
ارشاد فرمایا کہ چار شادی کی اجازت ہے، حکم نہیں ہے، اور یہ اجازت مطلق نہیں اس شرط سے مقید ہے کہ شوہر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین کے کمالِ ایمان اور تقویٰ کے ساتھ یہ شرط نازل ہوئی اور آج کل تو ایمان کا کیا حال ہے۔ اس لیے اس زمانے میں ایک ہی پر صبر ضروری ہے ورنہ دو شادی کرکے اگر دونوں میں برابری نہ کی تو سخت گناہ گار ہوگا۔ پھر اس زمانے میں صحت اور قوّت بھی کمزور ہے۔ اُس زمانے میں خون نکلوانا پڑتا تھا اور اب خون چڑھوانا پڑتا ہے۔ اور موجودہ زمانے میں جس نے بھی دو شادی کی دل کا چین و سکون غائب ہوا۔ لیلیٰ کی تعداد بڑھا کر مولیٰ کی یاد کے قابل نہ رہے۔ نظر کی حفاظت نہ کرنے کا یہ وبال ہے کہ ایک لیلیٰ پر صبر نہیں۔
٭ایک صاحب نے دوسری شادی کی اجازت مانگی کہ میں فتنۂ نساء سے محفوظ رہنے لیے دوسری شادی کرنا چاہتاہوں ۔
ارشاد فرمایا کہ جب بیوی موجود ہے تو کیا یہ فتنۂ نساء سے اسباب ِحفاظت میں سے نہیں ہے؟ اس زمانے میں دو بیویوں میں عدل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا کہ زندگی تلخ ہوگئی، اور آخرت کے مواخذہ کا اندیشہ الگ۔ اس زمانے میں ایک ہی بیوی کا حق ادا ہوجائے تو غنیمت ہے۔
٭ایک صاحب نے مستورات میں خانقاہی کام اور مدرسے کی ترتیب کے لیے دوسری شادی کی اجازت مانگی۔
ارشاد فرمایا کہ مستورات میں خانقاہی کام اور مدرسے کی ترتیب بھی نفس کا بہانہ معلوم ہوتا ہے۔تعجب ہے کہ دوسری شادی کا پیغام بھیجنے کے لیے مشورہ بھی نہیں کیا شاید اس لیے کہ مشورہ میں احتمال تھا کہ آپ کی رائے کے خلاف ہوتا۔ مشایخ کا کام دین کا کام کرنا ہے، لوگوں کو اﷲ والا بنانے میں اپنے اوقات کو صَرف کرنا ہے نہ کہ شادیاں کرنا۔ مشورہ تو پہلے کیا جاتا ہے، موجودہ صورت میں یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا، خود کو فتنے میں نہ ڈالیں یعنی دوسری شادی ہرگز نہ کریں۔
٭ ایک صاحب نے خط لکھا کہ مجھے شدت کے ساتھ الہام ہورہا ہے کہ دوسری شادی کر لوں۔
ارشاد فرمایا کہ دوسری شادی کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے کہ لگتا ہے یہ اﷲ کا الہام ہے تو آپ کا خیال غلط ہے یہ الہام شیطانی ہے۔ غالباً آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سنّت پر عمل کرنا عام سنّتوں کی طرح مستحب ہے، لیکن اس سنّت پر عمل مقید ہے ایک بہت سخت شرط کے ساتھ فَاِنْ خِفْتُمْ اَ لَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ؎پس اگر تم کو غالب احتمال ہو کہ کئی بیویاں کرکے عدل نہ رکھ سکو گے بلکہ کسی بیوی کے حقوق واجبہ ضایع ہوں گے تو پھر ایک ہی بیوی پر بس کرو۔ (بیانُ القرآن) اس زمانے میں ایک ہی بیوی کے حقوق ادا نہیں ہوپاتے چہ جائیکہ دوسری بیوی کے بھی ادا ہوں۔ یہ صحابہ ہی کا ایمان تھا جو چار چار بیویوں میں عدل اور برابری کر سکتے تھے ہم لوگوں میں اب نفس ہی نفس ہے، جس میں حُسن زیادہ ہوگا اس کے ساتھ کم حسین کے حقوق میں عدل کرنا آسان نہیں۔ اندیشہ ہے کہ آخرت میں گردن نپ جائے۔
ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے دوشادیاں کی تھیں۔ کسی نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ نے دو شادیاں کرکے مریدوں کے لیے دو شادیوں کا دروازہ کھول دیا۔ فرمایا کہ نہیں! میں نے دروازہ بند کردیا۔ دیکھویہاں دروازے پر ترازو لٹکی ہوئی ہے کوئی پھل آتا ہے تو یہ نہیں کہ ترازو میں صرف ہم وزن کرکے دونوں بیویوں کو دوں بلکہ مثلاً اگر دو تربوز ایک ہی وزن کے آئے تو ہر تربوز کو کاٹ کر آدھا آدھا کرکے دیتا ہوں کیوں کہ اگر آدھا نہ کروں تو ڈر ہے کہ ایک کے پاس میٹھا چلا جائے اور دوسری کے پاس کم میٹھا جو خلافِ عدل ہے۔ اسی طرح اگر کپڑا دینا ہو تو دونوں کو بالکل ایک طرح کا دیتا ہوں اور کسی بیوی کے پاس اگر چھ گھنٹہ رہا ہوں تو دوسری کی باری پر چھ گھنٹہ گھڑی دیکھ کر اس کے پاس رہتا ہوں وغیرہ۔ اتنا عدل کوئی کرسکتا ہے؟ اس عدل کے باوجود فرمایا کہ دوشادیاں کرنا آسان نہیں۔دو شادیاں اتنی مشکل محسوس
ہوئی کہ بعض وقت خود کشی کا وسوسہ آگیا۔
--------------------
ارشاد فرمایا کہ دوسری شادی سے بیوی بچوں کے جدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور صرف اندیشہ ہی نہیں اس زمانے میں یہ جدائی یقینی ہے، زندگی تلخ ہوجائے گی۔ ہمارے سامنے بہت سے واقعات ہیں کہ جن بیویوں نے خوشی سے اجازت بھی دی شادی کے بعد اپنی اولاد کے ساتھ شوہر کے خلاف محاذ قائم کردیا۔ اگر دل میں کوئی عورت سمائی ہوئی نہیں ہے، ہونا نہ ہونا برابر ہے تو دوسری بیوی کی چاہت کا اتنا سخت تقاضا کیوں؟ جبکہ قضائے شہوت کا محل (بیوی) موجود ہے، نفس سے ہوشیار رہیں، اس کے کید بہت باریک ہوتے ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ دوبیویاں رکھنا اور ان میں برابری کرنا خصوصاً اس دورِ نفس پرستی اور ہوس انگیزی میں سخت دشوار بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے اﷲتعالیٰ نے بشرطِ مساوات اجازت دی ہے،حکم نہیں دیا کہ کئی کئی شادیاں کرو۔ پس اگر مساوات نہ کرسکے جس کا قوی امکان ہے تو اﷲتعالیٰ کا غضب مول لینا ہے۔ اس لیے دُعاکرتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ ان کو اس اقدام سے باز رکھے کہ ان کے لیے بڑی آزمایش اور بڑا امتحان ہوگا جس میں مواخذہ کا اندیشہ زیادہ ہے۔
-------------
ارشاد فرمایا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بہت حسین تھے، مگر ان کی شادی ایسی عورت سے ہوئی جس پر حُسن کا اطلاق ممکن نہ تھا۔ پہلے زمانے میں بچے اتنے شریف ہوتے تھے کہ ماں باپ جہاں رشتہ لگادیں وہ ماں باپ سے لڑتے نہیں تھے کہ میں کیسا ہوں اور آپ نے انتخاب کیسا کیا؟ خون کے رشتوں کی وجہ سے ترجیح دے دی کہ خون کا رشتہ ہے، اس کا حق ادا ہوجائے گا، صلہ رحمی ہوجائے گی، ایک لڑکی کا گھر بس جائے گا۔ ایک دن ایک شاگرد سے کھانا منگوایا، تیز ہوا سے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی کا نقاب ذرا سی دیر کو ہٹ گیا تو دیکھا کہ بیوی امام صاحب کے بالکل برعکس ہے۔ کھانا تو لے آیا، مگر الگ بیٹھ کے رونے لگا۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ کیوں روتا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ کی قسمت پر رو رہا ہوں۔ آپ جس قدر حسین ہیں آپ کی بیوی اتنی ہی غیر حسین ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہنس پڑے اور فرمایا کہ اے بیٹے! میں اس وقت فقہ پر چھ کتابیں لکھ رہا ہوں زیادات، مبسوط، جامع صغیر، جامع کبیر، سیرصغیر،سیر کبیر اور تم لوگوں کو پڑھا بھی رہا ہوں۔ اگر بیوی حسین ہوتی تو اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوتا اس کے حُسن کا مشاہدہ، معاینہ اور ملاحظہ کرتا۔ تم کہتے کہ استاد کنزالدقائق کا گھنٹہ ہوگیا، میں کہتا کہ میں حُسن الدقائق میں مشغول ہوں ۔ پھر جوش میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنے دردِ دل کے لیے منتخب فرماتے ہیں اس کو فانی کھلونوں میں ضایع نہیں کرتے۔
بیوی کے لیے ناک بھوں مت چڑھاؤ کہ ایسی ناک چپٹی ہے، اس کا منہ کالا ہے، مجھے حسین بیوی ملنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی کے پیٹ سے کوئی عالم، حافظ، ولی اللہ پیدا کردے جو قیامت کے دن تمہارے کام آئے، اس لیے ان کو حقیر مت سمجھو۔ صورت کو مت دیکھو۔ بعض وقت زمین کالی ہوتی ہے، مگر غلہ بہت بَڑھیا نکلتا ہے۔ بعض وقت کالی کلوٹی عورت سے ولی اللہ پیدا ہوتے ہیں اور گوری چٹیوں سے شیطان پیدا ہوتے ہیں، اس لیے بیویوں کو حقیر مت سمجھو، ان کے رنگ و روغن کو مت دیکھو۔
کئی مرتبہ لوگوں نے حضرتِ والا سے عرض کیا کہ اگر کسی کو دوزخ کا عذاب چکھنا ہو تو دوسری شادی کرلے۔
ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بندیوں کے لیے سفارش نازل کی عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ؎ کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے رہنا۔ یہ بتاؤ کہ اگر شیخ کہہ دے کہ میری بیٹی کا خیال رکھنا، تم میرے داماد بھی ہو اور میرے خلیفہ بھی ہو،اگر تم نے میری بیٹی کو ستایا تو خلافت چھین لوں گا۔تو بتائیے وہ خلیفہ شیخ کی بیٹی کو ستائے گا؟ وہ تو روزانہ ہاتھ جوڑتا رہے گا کہ اپنے ابّا سے کچھ مت بتانا، اگر کبھی خطا ہوبھی جائے تو ا س کو منا لے گا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اگر تم نے دوسری شادی کی تو میری بیٹی فاطمہ کو غم ہوگا اور اگر فاطمہ کو غم ہوگا تو مجھ کو غم ہوگا لہٰذا میں حقِ ضابطہ سے نہیں کہتا حقِ رابطہ سے کہتا ہوں کہ تم دوسری شادی مت کرنا۔ معلوم ہوا
------------------------------
کہ ہر جگہ قانون بازی نہیں چلتی، خشک ملائیت ٹھیک نہیں ہے، حقِ رابطہ سیکھو اور حقِ رابطہ سے اﷲ سے رابطہ ملتا ہے، اﷲ کا دین محبت کا راستہ ہے خشک قانون کا راستہ نہیں ہے مگر اہلِ رابطہ اور اہلِ محبت کی صحبت میں رہنے سے یہ خشکی دور ہوجاتی ہے جیسے کسی کو نیند نہیں آتی، دماغ میں خشکی بڑھ جاتی ہے تو اطباء لکھتے ہیں کہ اس کی کشتی دریا میں ڈال دو اور رات بھر وہاں سلاؤ تاکہ پانی کی رطوبت اس کی ناک سے داخل ہوکر اس کے دماغ کی خشکی دور کردے تو اہل اﷲ کے دریاؤ ں کے پاس رہو ان شاء اﷲ تعالیٰ ان کے قلب میں جو اﷲ کی محبت ہے وہ آپ کے قلب میں منتقل ہوجائے گی۔
ارشاد فرمایا کہ اسلام میں بیوی کا دل خوش کرنا اور خوش رکھنا بہت بڑی عبادت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بیویوں کے متعلق قرآن پاک میں سفارش کی عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ یعنی اپنی بیویوں سے نیک برتاؤ کرو۔ایک شخص نے کھانے میں نمک تیز کردینے پر بیوی کو معاف کردیا، مرنے کے بعد ایک بزرگ نے خواب دیکھا کہ اس نے کہا اﷲ تعالیٰ نے مجھے اِسی عمل کی برکت سے بخش دیا کہ میں نے اپنی بیوی کے نمک تیز کرنے کو معاف کردیا تھا۔
ارشاد فرمایا کہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے جو چالیس سال کی تھیں شادی کی اور آپ کی۵۲ سال کی عمر مبارک تک زندہ رہیں مگر اُن کی تکلیف کے خیال سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی کہ بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکو تکلیف ہو گی۔
یہاں بات دوسری شادی کے مفاسد و فوائد پر نہیں اللہ کی اس اجازت پر اعتراض پر ہورہی ہے۔۔۔
یہاں ساری زور آزمائی اس باب کا دروازہ بند کرنےپر ہے۔۔۔
جیسے مغرب میں دوسرے نکاح پر پابندی لگا کر حرام کاری کا درواز کھول دیا گیا ہے۔۔۔
وہاں دوسرا نکاح کرنا جرم ہے البتہ زنا ہر روز نئے پارٹنر سے کرو اس کی ممانعت نہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
شوہر کو دوسری شادی سے روکنا شرعاً جائز نہیں۔۔۔
اور اگر شوہر نے شرط مان کر بھی دوسری شادی کرلی تو پہلی بیوی کیا کرلے گی؟؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
شوہر کو دوسری شادی سے روکنا شرعاً جائز نہیں۔۔۔
دل چاہ رہا ہے کہ یہ فتویٰ سنہری حروف میں بڑا بڑا سا کسی با ریش خطاط سے لکھوا کر اور خوبصورت سا فریم کروا کر، گھر کی ہر دیوار پر ٹانک دوں، لیکن یہ سوچ کر دل بجھ سا جاتا ہے کہ پھر میری بیوی نے اس کے ساتھ مجھے بھی دیوار پر ہی ٹانک دینا ہے! :)
 

وجی

لائبریرین
دل چاہ رہا ہے کہ یہ فتویٰ سنہری حروف میں بڑا بڑا سا کسی با ریش خطاط سے لکھوا کر اور خوبصورت سا فریم کروا کر، گھر کی ہر دیوار پر ٹانک دوں، لیکن یہ سوچ کر دل بجھ سا جاتا ہے کہ پھر میری بیوی نے اس کے ساتھ مجھے بھی دیوار پر ہی ٹانک دینا ہے! :)
پھولوں کے ساتھ ؟؟
 

اے خان

محفلین
دل چاہ رہا ہے کہ یہ فتویٰ سنہری حروف میں بڑا بڑا سا کسی با ریش خطاط سے لکھوا کر اور خوبصورت سا فریم کروا کر، گھر کی ہر دیوار پر ٹانک دوں، لیکن یہ سوچ کر دل بجھ سا جاتا ہے کہ پھر میری بیوی نے اس کے ساتھ مجھے بھی دیوار پر ہی ٹانک دینا ہے! :)
میں بھی سوچ رہا تھا کہ شادیوں کی بات ہورہی ہے اور وارث بھائی کا تبصرہ نظر نہیں آرہا
بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے
 

محمد وارث

لائبریرین
اجی یہ پھولوں کے ساتھ دیوار پر ٹانکنے کی روایت ہمارے مشرقی ہمسائیوں کی ہے، ہماری اتنی قسمت کہاں! :)

میں بھی سوچ رہا تھا کہ شادیوں کی بات ہورہی ہے اور وارث بھائی کا تبصرہ نظر نہیں آرہا
بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے
خان صاحب یہاں بہت گھمبیر مسائل چل رہے تھے سو میں یہی سوچ رہا تھا کہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے تو ہم "لا چار" بھی حاضر ہوں۔ :)
 

اے خان

محفلین
یہی بات میں تمہارے بار ے میں سوچ رہا تھا مگر تمہارا تو ابھی پہلا معاملہ ہی اٹکا ہوا ہے ۔۔۔ :)
اسی بات پر تو رونا آتا ہے. اسلامی طریقے سے شادی کتنے آسانی سے ہوجاتی ہے . بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے ایک مولوی صاحب محلے میں آجاتا اور تھوڑی سی تقریر کرکے شادی کے فوائد بیان کرتا اور لوگوں کے دل نرم ہوجاتے اور ایک دن میں کئی شادیاں ہوجاتی جسے عرف عام میں ہمارے ہاں شریعت کہتے ہیں. لیکن میری قسمت کہ وہ مولوی مجھے ملا ہی نہیں...
اب تو شادی کرنا بہت مشکل ہوگئی ہے ہمارے گاؤں کے جوان تو شادی کے چکر میں چار چار سال سعودی عرب میں گزار لیتے ہیں :(
 

سید عمران

محفلین
ایک دن میں کئی شادیاں ہوجاتی جسے عرف عام میں ہمارے ہاں شریعت کہتے ہیں.
شریعت کا نیا مفہوم!!!
لیکن میری قسمت کہ وہ مولوی مجھے ملا ہی نہیں...
ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟
ہمارے گاؤں کے جوان تو شادی کے چکر میں چار چار سال سعودی عرب میں گزار لیتے ہیں
افسوس!!!
یہاں پہلی شادی نہیں ہورہی اور امت اگلی کی فکر میں دہل رہی ہے!!!
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے ایک مولوی صاحب محلے میں آجاتا اور تھوڑی سی تقریر کرکے شادی کے فوائد بیان کرتا اور لوگوں کے دل نرم ہوجاتے اور ایک دن میں کئی شادیاں ہوجاتی جسے عرف عام میں ہمارے ہاں شریعت کہتے ہیں. لیکن میری قسمت کہ وہ مولوی مجھے ملا ہی نہیں...
سنا ہے کہ آج کل یہ مولانا صاحب، صورتِ خضر افریقہ کے جنگلات کے دورے پہ ہیں ۔محکمہ ہائے تفتیشات بشمول ایف بی آئی سراغ رسانی میں حتی المقدور کوشش کررہی ہے ۔ اگر اللہ نے چاہا تو پانچ ایک سال میں ڈھونڈھ ہی لیں گے۔ تب تک کیلئے مفتی صاحب کو ساتھ لے کر
گاؤں گاؤں گھومیں ۔
قریہ قریہ پھریں ۔
گلی گلی چکر لگائیں۔
چرخِ کہن (صرف ادبی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے)
کی نوازش رہی تو کوئی
پھول سی
نا سہی
قبول صورت
نا سہی
دل میں اتر جانے والی
نہ سہی
جنس مخالف تو مل ہی جائے گی۔ :D
 
Top