چودھری مصطفی
محفلین
ڈیولز ایڈووکیٹ بنتے ہوئے، ایک نقطہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ جو شاید اس سے پہلے بھی کسی نے کہا ہے، مزاحاً مگر متعلقہ ہے۔ اگر آپ کے نزدیک تعدد ازواج میں مانع شے صرف عدل ہے، تو پھرُ اس بات کا تعین پہلے ہی سے کیسے کیا جا سکتا ہے کہ عدل نہیں ہو گا؟اِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۔
بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
ایک عادل اور منصف خدا سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ مردوں کو تو تعدد ازواج کی اجازت دے دے اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا اللہ خود ادنٰی درجے کا انتظام بھی نہ کرے اور اسے صرف اور صرف مردوں کی صوابدید پر چھوڑ دے۔
کیا اس بات کا معمولی سا بھی امکان موجود نہیں کہ نبیؐ کے دور سے لے کر قیامت تک آنے والے کسی بھی زمانے میں تعدد ازواج کی اجازت کو لے کر عورت کی کسی صورت حق تلفی نہیں کی جا سکتی ؟
زیادہ دُور کیوں جایا جائے، موجودہ معاشرے میں بھی ایک مخصوص طبقہ عورت کو صرف جنسی تسکین کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے اور اسے اپنی ملکیت کی کوئی چیز گردانتا ہے۔ پاکستان کے ہی جاگیردارانہ نظام میں عورت کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ کسی مخصوص ماحول اور معاشرت کا پروردہ شخص ایک سے زیادہ شادیاں کر کے ہمیشہ انصاف ہی کرے گا؟
شریعت نے نکاح کے امور میں ہر مرد و زن کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں اور کچھ رعایات بھی دی ہیں۔ جہاں تعدد ازواج کی مشروط اجازت دے کر مردوں کے ساتھ آسانی اور نرمی والا معاملہ اختیار کیا گیا ہے، وہیں عورتوں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر انہیں اپنے ساتھ کسی زیادتی کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے لیے بہتر معاملہ کر سکتی ہیں۔
اسلام میں ایک بیوی رکھنا نہ تو حرام ہے اور نہ ہی شریعت میں صرف ایک نکاح کرنے کو غلط اور معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ خدا نے ناانصافی سے بچنے کے لیے ایک ہی نکاح پر زیادہ زور دیا ہے۔ اگر دو عاقل اور بالغ افراد باہمی رضامندی سے کسی جائز امر پر متفق ہو جائیں جس کی شریعت میں گنجائش موجود ہو تو ایسی شرط نہ تو فاسد ہوتی ہے اور نہ ہی حرام ٹھہرتی ہے۔ اس کی پابندی لازمی ہے اور عہد کو توڑنے والا گنہگار کہلائے گا اور خدا کی عدالت میں جواب دہ ہو گا۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے۔
"کہ تمام شرطوں میں وہ شرطیں سب سے زیادہ پوری کی جانے کے لائق ہیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔" یعنی نکاح کی شرطیں ضرور پوری کرنی ہوں گی۔
پوری دنیا میں Intellectual dishonesty کی جتنی عظیم مثالیں تاریخ کی کتابوں اور مذہبی لٹریچر میں ملتی ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتیں۔ دین میں ایسے بیشتر اختلافی مسائل موجود ہیں جن پر امت کا اجماع نہیں ہو سکا۔ ہر مکتبہء فکر کا الگ الگ عقیدہ ہے۔ اگر عدل کو بنیاد بنا کر معاملات کو غیر جانبداری سے پرکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ حق کی طرف رسائی نہ ہو۔ اور خاص طور پر جہاں بات معاشرے کےنسبتًا کمزور طبقے کے مفادات کی ہو وہاں پر تو یہ معاملہ مزید حساس ہو جاتا ہے.
آپ کے نزدیک تعدد ازواج کی اجازت ہے اگر کوئی عدل کر سکے۔ پھر کیا ایسے میں یہ شرط شرعاً فاسد نہ ہوُ جائے گی؟ (میری ذاتی رائے میں وہ تمام معاہدے درست ہیں جو با حوش و حواس بلا زور و زبردستی کئے جائیں)
ویسے میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تعدد ازواج کی اجازتُ صرف مرد کو دینا، ایکطرف واضح جھکاؤ ہے اس معاملے میں۔