کثرتِ ازدواج (Polygamy )

اِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۔
بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

ایک عادل اور منصف خدا سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ مردوں کو تو تعدد ازواج کی اجازت دے دے اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا اللہ خود ادنٰی درجے کا انتظام بھی نہ کرے اور اسے صرف اور صرف مردوں کی صوابدید پر چھوڑ دے۔
کیا اس بات کا معمولی سا بھی امکان موجود نہیں کہ نبیؐ کے دور سے لے کر قیامت تک آنے والے کسی بھی زمانے میں تعدد ازواج کی اجازت کو لے کر عورت کی کسی صورت حق تلفی نہیں کی جا سکتی ؟
زیادہ دُور کیوں جایا جائے، موجودہ معاشرے میں بھی ایک مخصوص طبقہ عورت کو صرف جنسی تسکین کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے اور اسے اپنی ملکیت کی کوئی چیز گردانتا ہے۔ پاکستان کے ہی جاگیردارانہ نظام میں عورت کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ کسی مخصوص ماحول اور معاشرت کا پروردہ شخص ایک سے زیادہ شادیاں کر کے ہمیشہ انصاف ہی کرے گا؟
شریعت نے نکاح کے امور میں ہر مرد و زن کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں اور کچھ رعایات بھی دی ہیں۔ جہاں تعدد ازواج کی مشروط اجازت دے کر مردوں کے ساتھ آسانی اور نرمی والا معاملہ اختیار کیا گیا ہے، وہیں عورتوں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر انہیں اپنے ساتھ کسی زیادتی کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے لیے بہتر معاملہ کر سکتی ہیں۔
اسلام میں ایک بیوی رکھنا نہ تو حرام ہے اور نہ ہی شریعت میں صرف ایک نکاح کرنے کو غلط اور معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ خدا نے ناانصافی سے بچنے کے لیے ایک ہی نکاح پر زیادہ زور دیا ہے۔ اگر دو عاقل اور بالغ افراد باہمی رضامندی سے کسی جائز امر پر متفق ہو جائیں جس کی شریعت میں گنجائش موجود ہو تو ایسی شرط نہ تو فاسد ہوتی ہے اور نہ ہی حرام ٹھہرتی ہے۔ اس کی پابندی لازمی ہے اور عہد کو توڑنے والا گنہگار کہلائے گا اور خدا کی عدالت میں جواب دہ ہو گا۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے۔
"کہ تمام شرطوں میں وہ شرطیں سب سے زیادہ پوری کی جانے کے لائق ہیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔" یعنی نکاح کی شرطیں ضرور پوری کرنی ہوں گی۔
پوری دنیا میں Intellectual dishonesty کی جتنی عظیم مثالیں تاریخ کی کتابوں اور مذہبی لٹریچر میں ملتی ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتیں۔ دین میں ایسے بیشتر اختلافی مسائل موجود ہیں جن پر امت کا اجماع نہیں ہو سکا۔ ہر مکتبہء فکر کا الگ الگ عقیدہ ہے۔ اگر عدل کو بنیاد بنا کر معاملات کو غیر جانبداری سے پرکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ حق کی طرف رسائی نہ ہو۔ اور خاص طور پر جہاں بات معاشرے کےنسبتًا کمزور طبقے کے مفادات کی ہو وہاں پر تو یہ معاملہ مزید حساس ہو جاتا ہے.
ڈیولز ایڈووکیٹ بنتے ہوئے، ایک نقطہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ جو شاید اس سے پہلے بھی کسی نے کہا ہے، مزاحاً مگر متعلقہ ہے۔ اگر آپ کے نزدیک تعدد ازواج میں مانع شے صرف عدل ہے، تو پھرُ اس بات کا تعین پہلے ہی سے کیسے کیا جا سکتا ہے کہ عدل نہیں ہو گا؟
آپ کے نزدیک تعدد ازواج کی اجازت ہے اگر کوئی عدل کر سکے۔ پھر کیا ایسے میں یہ شرط شرعاً فاسد نہ ہوُ جائے گی؟ (میری ذاتی رائے میں وہ تمام معاہدے درست ہیں جو با حوش و حواس بلا زور و زبردستی کئے جائیں)
ویسے میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تعدد ازواج کی اجازتُ صرف مرد کو دینا، ایکطرف واضح جھکاؤ ہے اس معاملے میں۔
 

فاخر رضا

محفلین
کچھ بکھری باتیں مختلف لوگوں سے متاثر ہوکر

١. پہلی شادی والدین کراتے ہیں اور دوسری بندہ خود کرتا ہے اور وہ عورت ہی سے ہوتی ہے. کچھ ذمے داری تو عورت کو بھی دیں کہ وہ کسی کی سوتن بننے سے پرہیز کرے
٢. معاشرے میں جب بے حیائی بڑھے گی تو لوگ گناہ سے کیسے بچیں، جائز طریقوں میں سے ایک نکاح ہے
٣. اگر کسی نے نکاح میں یہ شرط لگائی کہ مرد بیوی کی اجازت کے بغیر دوسرا نکاح نہیں کرسکتا اور وہ پھر بھی کرلے تو پہلا نکاح ختم ہوجائے گا اب اگر پہلی بیوی چاہے تو شرط کو ختم کرکے پہلی بیوی بن کے رہ سکتی ہے
٤. گرم علاقوں میں ایک سے زیادہ شادیوں کا زیادہ رواج ہے جیسے عرب ممالک. اگر وہ لوگ ایک سے زیادہ شادی نہ کریں تو پہلی بیوی مرجائے گی. ایک عورت یقین جانیں اتنا ظلم برداشت نہیں کرسکتی. اس کو برداشت کرنے کے لئے کئی عورتیں ہی ضروری ہیں
٥. ابھی تک کسی نے یہ واضح نہیں کیا کہ دوسری شادی سے پہلی والی پر "کیا" ظلم ہوتا ہے. مثلاً کیا اسے کھانا نہیں ملتا، الگ کمرہ نہیں ملتا، اس کے پیدا کیے بچے اسکول نہیں جاتے یا اسے گھمانا پھرانا چھوڑ دیا جاتا ہے، یا مار پیٹ ہوتی ہے. نیز ظلم کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک عورت اپنی سوتن سے حسد کرتی ہے. اس حسد سے اس کے اچھے اعمال راکھ ہوجاتے ہیں. کیا اس حسد کرنے کی ذمے داری مرد پر عائد ہوگی اور گناہ بھی اس کے نام لکھا جاوے گا. عورت اگر کسی بھی دوسری عورت سے حسد کرے تو اسکا گناہ مرد پر نہیں ہے.
٦. شادی کے بعد اگر یہ پتہ چلے کہ عورت بانجھ ہے. اب مرد کیا دوسری شادی کرے یا پہلی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرے. ذرا سوچ کر بتائیں
٧. دو عورتیں اگر مل بانٹ کر چلیں تو دونوں زیادہ آرام سے رہ سکتی ہیں. آپس میں بہنوں کی طرح کام بانٹ لیں اگر روٹی پکائے تو دوسری جھاڑو دے وغیرہ وغیرہ. اس معاملے میں مشاہدہ یہ ہے کہ دوسری بیوی پر بنیادی طور پر پہلی بیوی ظلم کرتی ہے اور اپنے حصے کا کام بھی اسی سے کراتی ہے. دوسری کے ساتھ نوکرانی والا سلوک کرتی ہے آخر کام مرد اسے طلاق دے دیتا ہے
٨. خواتین اگر سوتن کے فوائد جان لیں تو خود اپنے شوہر کی دوسری شادی کرا کے گھر لائیں مگر انہیں عورت کی (نام نہاد) حقوق کی تنظیموں نے پاگل بنا رکھا ہے
اس مراسلے کو اپنے پاس سیو کرلیا ہے
 

La Alma

لائبریرین
ڈیولز ایڈووکیٹ بنتے ہوئے، ایک نقطہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ جو شاید اس سے پہلے بھی کسی نے کہا ہے، مزاحاً مگر متعلقہ ہے۔ اگر آپ کے نزدیک تعدد ازواج میں مانع شے صرف عدل ہے، تو پھرُ اس بات کا تعین پہلے ہی سے کیسے کیا جا سکتا ہے کہ عدل نہیں ہو گا؟
آپ کے نزدیک تعدد ازواج کی اجازت ہے اگر کوئی عدل کر سکے۔ پھر کیا ایسے میں یہ شرط شرعاً فاسد نہ ہوُ جائے گی؟ (میری ذاتی رائے میں وہ تمام معاہدے درست ہیں جو با حوش و حواس بلا زور و زبردستی کئے جائیں)
ویسے میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تعدد ازواج کی اجازتُ صرف مرد کو دینا، ایکطرف واضح جھکاؤ ہے اس معاملے میں۔
انسان ذی شعور مخلوق ہے۔ حفظِ ما تقدم کے طور پر اپنے لیے کوئی بھی فیصلہ لے سکتا ہے۔ ضروری نہیں صرف عدل ہی بنیاد ہو، کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ کتنے کاروباری معاہدے ایسے ہوتے ہیں جس میں کسی ممکنہ نقصان یا خسارے کے پیشِ نظر محفوظ راستہ اپنایا جاتا ہے۔ کیا ایسے تمام کانٹریکٹس یا معاہدے فاسد ٹھہریں گے کیونکہ ابھی کاروبار شروع ہوا نہیں اور کسی بھی فریق کو اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ لازمی خسارہ ہی ہو گا۔ اگر صرف اسی نکتے کو بنیاد بنا کر معاملاتِ زندگی کو آگے بڑھایا جائے تو پھر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں زیادہ تر معاہدے یا ایگریمنٹس عملاً فاسد اور باطل ہی ٹھہریں گے کیونکہ مستقبل میں کسی نے جھانک کر تو نہیں دیکھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
دوسری شادی کے حوالے سے شوہر کے پاس ٹھوس دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ، اسے خود بھی یہ خوف لاحق ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے پہلی بیوی یہ فیصلہ تسلیم نہ کرے اور اپنی راہیں جدا کر لے۔ کیا یہ خوف کم درجے کا ہے کہ اسے دوسری بیوی کے لیے پہلی بیوی اور ممکنہ طور پر بچوں سے بھی محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ اگر وہ اس حد تک جانے کو تیار ہے تو پھر جان لیجیے کہ اسے دوسری شادی کر لینی چاہیے۔ تب کوئی غیر عمومی شرط کسی کام آنی ہے! دراصل نکاح کے معاہدے کو بالکل صاف اور واضح ہونا چاہیے؛ مزید شرائط کا اضافہ نکاح کے سادہ عمل کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ یہ بھی لازم نہیں ہے کہ میاں بیوی کا ساتھ دائمی ہو اور یہ بھی تو لازم کہاں ہے کہ دونوں کے مابین انسیت اور پیار ہمیشہ اسی درجہ رہے جو کہ شادی کے اوائل میں ہوتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ہم عورت کے سماجی مقام و مرتبہ کے حامیان میں سے ہیں تاکہ وہ ہر طرح کے نامساعد حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو۔ ایسی شرائط سے شاید یہ بہتر ہے کہ نکاح کے معاہدے کو آسان رکھا جائے۔ دوسری شادی کے حوالے سے تب بات کرنی چاہیے جب اس کا کوئی معقول جواز موجود ہو۔ شادی سے قبل اس طرح کے مباحث میں الجھنا شاید مناسب روش نہیں۔ واللہ اعلم!
 
آخری تدوین:
انسان ذی شعور مخلوق ہے۔ حفظِ ما تقدم کے طور پر اپنے لیے کوئی بھی فیصلہ لے سکتا ہے۔ ضروری نہیں صرف عدل ہی بنیاد ہو، کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ کتنے کاروباری معاہدے ایسے ہوتے ہیں جس میں کسی ممکنہ نقصان یا خسارے کے پیشِ نظر محفوظ راستہ اپنایا جاتا ہے۔ کیا ایسے تمام کانٹریکٹس یا معاہدے فاسد ٹھہریں گے کیونکہ ابھی کاروبار شروع ہوا نہیں اور کسی بھی فریق کو اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ لازمی خسارہ ہی ہو گا۔ اگر صرف اسی نکتے کو بنیاد بنا کر معاملاتِ زندگی کو آگے بڑھایا جائے تو پھر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں زیادہ تر معاہدے یا ایگریمنٹس عملاً فاسد اور باطل ہی ٹھہریں گے کیونکہ مستقبل میں کسی نے جھانک کر تو نہیں دیکھا۔
یہ زیادہ ایمان دارانہ دلیل ہے۔ گو کہ اس کیلئے شاید شرط حقیقی طور پہ کوئی اثر نہیں رکھتی۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ڈیولز ایڈووکیٹ بنتے ہوئے، ایک نقطہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ جو شاید اس سے پہلے بھی کسی نے کہا ہے، مزاحاً مگر متعلقہ ہے۔ اگر آپ کے نزدیک تعدد ازواج میں مانع شے صرف عدل ہے، تو پھرُ اس بات کا تعین پہلے ہی سے کیسے کیا جا سکتا ہے کہ عدل نہیں ہو گا؟
کیا میں عمران صاحب اور تھوڑے سے فاخر صاحب ڈیولز ہیں ؟:sad:
 

راسخ

محفلین
تعدد ازواج یہود میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں ویکیپیڈیا کے مضمون یہودیت میں شادی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا میں لکھا جا چکا ہے:
”موشی ربینو کے وقت سے پہلے بنی اسرائیل کے یہاں تعدد ازدواج کا دستور تھا۔ نبی موسٰی نے اسے قائم رہنے دیا یہاں تک کہ انہوں نے اس کی کوئی حد مقرر نہ کی کہ ایک یہودی مرد بیک وقت کئی عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا تھا۔“
 

یاسر شاہ

محفلین
دوسری شادی کے حوالے سے شوہر کے پاس ٹھوس دلیل کا ہونا ضروری ہے
میں یہ سمجھتا ہوں کہ دوسری شادی کے لئے مرد کا خود ٹھوس ہونا زیادہ ضروری ہے-آپ دیکھئے مشرقی روایات کیا ہیں -شوہر عاشق ہوتا ہے اور بیگم معشوق -لہٰذا بیچارا ناز اٹھاتا رہتا ہے -کبھی برتن مانجھتا ہے 'کبھی کھانا پکاتا ہے 'کبھی کپڑے دھوتا ہے الغرض جورو کا غلام بنا رہتا ہے اور جہاں اس نے دوسری شادی کی معاملہ الٹ ہوجاتا ہے -اب بیویاں عاشق ہوتی ہیں اور شوہر معشوق - اس کا انتظار کرتی ہیں یہ گنگناتے ہوئے :

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
 

م حمزہ

محفلین
تعدد ازواج یہود میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں ویکیپیڈیا کے مضمون یہودیت میں شادی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا میں لکھا جا چکا ہے:
”موشی ربینو کے وقت سے پہلے بنی اسرائیل کے یہاں تعدد ازدواج کا دستور تھا۔ نبی موسٰی نے اسے قائم رہنے دیا یہاں تک کہ انہوں نے اس کی کوئی حد مقرر نہ کی کہ ایک یہودی مرد بیک وقت کئی عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا تھا۔“
یہودیوں سے پہلے بھی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تو مشہور ہی ہے۔ آپ کو تو علم ہوگا ہی۔ اسی طرح یعقوب علیہ السلام کے بارے میں بھی۔
 

سید عمران

محفلین
عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا اللہ خود ادنٰی درجے کا انتظام بھی نہ کرے اور اسے صرف اور صرف مردوں کی صوابدید پر چھوڑ دے۔
عورتوں کے حقوق کی حفاظت جتنی اسلام میں ہے نہ کسی اور مذہب میں ہے نہ حقوق نسواں کی تنظیموں کے پاس ہے!!!
اسلام میں ایک بیوی رکھنا نہ تو حرام ہے
اور نہ ہی ایک سے زائد نکاح کرنا حرام!!!
خدا نے ناانصافی سے بچنے کے لیے ایک ہی نکاح پر زیادہ زور دیا ہے۔
یہ زور آزمائی کہاں سے ثابت ہے؟؟؟
دونوں صورتیں صرف اجازت کی ہیں نہ کہ وجوب کی!!!
شریعت نے نکاح کے امور میں ہر مرد و زن کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں اور کچھ رعایات بھی دی ہیں۔ جہاں تعدد ازواج کی مشروط اجازت دے کر مردوں کے ساتھ آسانی اور نرمی والا معاملہ اختیار کیا گیا ہے، وہیں عورتوں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر انہیں اپنے ساتھ کسی زیادتی کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے لیے بہتر معاملہ کر سکتی ہیں۔
صحیح!!!
اسلام میں ایک بیوی رکھنا نہ تو حرام ہے اور نہ ہی شریعت میں صرف ایک نکاح کرنے کو غلط اور معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ خدا نے ناانصافی سے بچنے کے لیے ایک ہی نکاح پر زیادہ زور دیا ہے۔ اگر دو عاقل اور بالغ افراد باہمی رضامندی سے کسی جائز امر پر متفق ہو جائیں جس کی شریعت میں گنجائش موجود ہو تو ایسی شرط نہ تو فاسد ہوتی ہے اور نہ ہی حرام ٹھہرتی ہے۔ اس کی پابندی لازمی ہے اور عہد کو توڑنے والا گنہگار کہلائے گا اور خدا کی عدالت میں جواب دہ ہو گا۔
غلط!!!
دین میں ایسے بیشتر اختلافی مسائل موجود ہیں جن پر امت کا اجماع نہیں ہو سکا۔ ہر مکتبہء فکر کا الگ الگ عقیدہ ہے۔ اگر عدل کو بنیاد بنا کر معاملات کو غیر جانبداری سے پرکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ حق کی طرف رسائی نہ ہو۔ اور خاص طور پر جہاں بات معاشرے کےنسبتًا کمزور طبقے کے مفادات کی ہو وہاں پر تو یہ معاملہ مزید حساس ہو جاتا ہے.
اجماع نصوص قطعیہ میں نہیں ہوتا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
کچھ بکھری باتیں مختلف لوگوں سے متاثر ہوکر

١. پہلی شادی والدین کراتے ہیں اور دوسری بندہ خود کرتا ہے اور وہ عورت ہی سے ہوتی ہے. کچھ ذمے داری تو عورت کو بھی دیں کہ وہ کسی کی سوتن بننے سے پرہیز کرے
٢. معاشرے میں جب بے حیائی بڑھے گی تو لوگ گناہ سے کیسے بچیں، جائز طریقوں میں سے ایک نکاح ہے
٣. اگر کسی نے نکاح میں یہ شرط لگائی کہ مرد بیوی کی اجازت کے بغیر دوسرا نکاح نہیں کرسکتا اور وہ پھر بھی کرلے تو پہلا نکاح ختم ہوجائے گا اب اگر پہلی بیوی چاہے تو شرط کو ختم کرکے پہلی بیوی بن کے رہ سکتی ہے
٤. گرم علاقوں میں ایک سے زیادہ شادیوں کا زیادہ رواج ہے جیسے عرب ممالک. اگر وہ لوگ ایک سے زیادہ شادی نہ کریں تو پہلی بیوی مرجائے گی. ایک عورت یقین جانیں اتنا ظلم برداشت نہیں کرسکتی. اس کو برداشت کرنے کے لئے کئی عورتیں ہی ضروری ہیں
٥. ابھی تک کسی نے یہ واضح نہیں کیا کہ دوسری شادی سے پہلی والی پر "کیا" ظلم ہوتا ہے. مثلاً کیا اسے کھانا نہیں ملتا، الگ کمرہ نہیں ملتا، اس کے پیدا کیے بچے اسکول نہیں جاتے یا اسے گھمانا پھرانا چھوڑ دیا جاتا ہے، یا مار پیٹ ہوتی ہے. نیز ظلم کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک عورت اپنی سوتن سے حسد کرتی ہے. اس حسد سے اس کے اچھے اعمال راکھ ہوجاتے ہیں. کیا اس حسد کرنے کی ذمے داری مرد پر عائد ہوگی اور گناہ بھی اس کے نام لکھا جاوے گا. عورت اگر کسی بھی دوسری عورت سے حسد کرے تو اسکا گناہ مرد پر نہیں ہے.
٦. شادی کے بعد اگر یہ پتہ چلے کہ عورت بانجھ ہے. اب مرد کیا دوسری شادی کرے یا پہلی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرے. ذرا سوچ کر بتائیں
٧. دو عورتیں اگر مل بانٹ کر چلیں تو دونوں زیادہ آرام سے رہ سکتی ہیں. آپس میں بہنوں کی طرح کام بانٹ لیں اگر روٹی پکائے تو دوسری جھاڑو دے وغیرہ وغیرہ. اس معاملے میں مشاہدہ یہ ہے کہ دوسری بیوی پر بنیادی طور پر پہلی بیوی ظلم کرتی ہے اور اپنے حصے کا کام بھی اسی سے کراتی ہے. دوسری کے ساتھ نوکرانی والا سلوک کرتی ہے آخر کام مرد اسے طلاق دے دیتا ہے
٨. خواتین اگر سوتن کے فوائد جان لیں تو خود اپنے شوہر کی دوسری شادی کرا کے گھر لائیں مگر انہیں عورت کی (نام نہاد) حقوق کی تنظیموں نے پاگل بنا رکھا ہے
اس مراسلے کو اپنے پاس سیو کرلیا ہے
اس تقریر کا عنوان ہونا چاہیے۔۔۔
ایک سے زائد نکاح کے ایک سو ایک فائدے!!!
 

سید عمران

محفلین
دوسری شادی کے حوالے سے شوہر کے پاس ٹھوس دلیل کا ہونا ضروری ہے۔
مثلاً؟؟؟
مزید یہ کہ ، اسے خود بھی یہ خوف لاحق ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے پہلی بیوی یہ فیصلہ تسلیم نہ کرے اور اپنی راہیں جدا کر لے۔
کیوں؟؟؟
کیا پہلی بیوی کے لیے طلاق لینے کی ٹھوس وجہ کا ہونا ضروری نہیں؟؟؟
شوہر کی دوسری شادی نہ جرم ہے نہ بری بات، اس کے لیے ٹھوس ثبوت چاہیے تو شرعاً ایک جائز کام کرنے پر طلاق لینا جائز کیوں ہوجائے گاجبکہ بلاوجہ طلاق لینا اللہ کے نزدیک مبغوض ترین اعمال میں سے ہے؟؟؟
ہم بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ یہودی بڑی شد و مد سے چاہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا خاندانی نظام تباہ ہوجائے، اس کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری ہیں۔۔۔
نکاح میں اعتراض در اعتراض قائم کرکے مشکل اور طلاقوں کو عام کیاجارہا ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں طلاق یافتہ عورت یا مرد کا دوبارہ گھر بسا نا ناممکن نہیں تو دشوار ترین ضرور ہے۔۔۔
لہٰذا شریعت کے واضح احکامات میں بھی فی لگوایا جارہا ہے اور عورتوں کو ان مظالم کا خوف دلا کر مردوں سے باغی کیا جارہا ہے جن سے ان کا کبھی واسطہ پڑا ہے نہ پڑنے کا غالب امکان ہے!!!
ہم عورت کے سماجی مقام و مرتبہ کے حامیان میں سے ہیں تاکہ وہ ہر طرح کے نامساعد حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو۔
ان کے لیے اللہ ہم سے زیادہ اپنی بندیوں پر مہربان ہے۔ وہ کسی پر بھی نامساعد حالات بھیجتا ہے تو اس سے نکلنے کی بے شمار راہیں بھی دیتا ہے، جلد یا بدیر۔ اس کی مدد کے بغیر کوئی کسی کو نامساعد حالات سے نہیں نکال سکتا!!!
ایسی شرائط سے شاید یہ بہتر ہے کہ نکاح کے معاہدے کو آسان رکھا جائے۔
نکاح جن مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے وہ سب پر عیاں ہے، ان کے لیے کوئی شرط عائد نہیں کرتا نہ اس کی ضرورت ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی خاص مسئلہ ہے تو وہ شرط عائد تو کرسکتا ہے لیکن عموماً ایسی جگہ نکاح ہی نہیں کیا جاتا جہاں شرط و شرائط عائد کرنے کی ضرورتیں پیش آئیں۔۔۔
مرد کے لیے دوسرا نکاح نہ کرنے کی شرط لگانا شرعاً غلط ہے، اللہ کی شریعت میں دخل اندازی اور اس کے احکامات نہ ماننے کی سرکشی کی ایک مثال ہے، ایسی واہیات شرط لگانے سے بھی نہ لگے گی!!!
دوسری شادی کے حوالے سے تب بات کرنی چاہیے جب اس کا کوئی معقول جواز موجود ہو۔ شادی سے قبل اس طرح کے مباحث میں الجھنا شاید مناسب روش نہیں۔
بالکل صحیح فرمایا!!!
 

فرقان احمد

محفلین
ہم نے تبصرہ کیا تھا، دوسری شادی کے حوالے سے شوہر کے پاس ٹھوس دلیل کا ہونا ضروری ہے۔
آپ نے فرمایا،
یعنی آپ کے خیال میں بغیر کسی مقصد اور منطق کے دوسری شادی کی طرف پیش رفت کی جا سکتی ہے؛ کوئی تو کوئی وجہ ہوتی ہی ہے محترم یا شاید ہونی ہی چاہیے۔ اب تک کم از کم ہمارا یہی خیال رہا ہے۔ اور ہمارے خیالات بدلتے رہتے ہیں؛ یہ بات الگ ہے۔ :)

----
ہمارے تبصرہ کچھ یوں تھا،
مزید یہ کہ ، اسے خود بھی یہ خوف لاحق ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے پہلی بیوی یہ فیصلہ تسلیم نہ کرے اور اپنی راہیں جدا کر لے
آپ نے فرمایا،
کیوں؟؟؟
کیا پہلی بیوی کے لیے طلاق لینے کی ٹھوس وجہ کا ہونا ضروری نہیں؟؟؟
شوہر کی دوسری شادی نہ جرم ہے نہ بری بات، اس کے لیے ٹھوس ثبوت چاہیے تو شرعاً ایک جائز کام کرنے پر طلاق لینا جائز کیوں ہوجائے گاجبکہ بلاوجہ طلاق لینا اللہ کے نزدیک مبغوض ترین اعمال میں سے ہے؟؟؟
ہم بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ یہودی بڑی شد و مد سے چاہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا خاندانی نظام تباہ ہوجائے، اس کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری ہیں۔۔۔
نکاح میں اعتراض در اعتراض قائم کرکے مشکل اور طلاقوں کو عام کیاجارہا ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں طلاق یافتہ عورت یا مرد کا دوبارہ گھر بسا نا ناممکن نہیں تو دشوار ترین ضرور ہے۔۔۔
لہٰذا شریعت کے واضح احکامات میں بھی فی لگوایا جارہا ہے اور عورتوں کو ان مظالم کا خوف دلا کر مردوں سے باغی کیا جارہا ہے جن سے ان کا کبھی واسطہ پڑا ہے نہ پڑنے کا غالب امکان ہے!!!
کیا پہلی بیوی کے پاس یہ حق موجود نہیں رہتا ہے؟ ہمارے خیال میں پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر دوسری شادی کی طرف بڑھے تو اس کے پاس رشتہ ختم کرنے کا ایک جواز پیدا ہو سکتا ہے جو کہ مستحسن نہیں ہے تاہم اسے ناممکنات کی ذیل میں بھی نہیں رکھا جا سکتا۔
----
واللہ اعلم بالصواب!
 
بھائی لوگ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئے ہیں۔
رہنے دیں، اگر آپ کو یہ مرحلہ درپیش آیا تو تحقیق کر لیجئے گا۔ خوامخواہ اتنی محنت کر رہے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
یعنی آپ کے خیال میں بغیر کسی مقصد اور منطق کے دوسری شادی کی طرف پیش رفت کی جا سکتی ہے
ظاہر ہے وجہ تو ہوتی ہے۔۔۔
جیسے پہلی شادی کے لیے ہوتی ہے!!!
ہمارے خیالات بدلتے رہتے ہیں؛ یہ بات الگ ہے۔
:):):)
کیا پہلی بیوی کے پاس یہ حق موجود نہیں رہتا ہے؟ ہمارے خیال میں پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر دوسری شادی کی طرف بڑھے تو اس کے پاس رشتہ ختم کرنے کا ایک جواز پیدا ہو سکتا ہے جو کہ مستحسن نہیں ہے تاہم اسے ناممکنات کی ذیل میں بھی نہیں رکھا جا سکتا۔
محض دوسری شادی کی وجہ سے طلاق لینا ایک حلال کام کو حرام عمل سے آلودہ کرنا ہے، چوں کہ ہماری دینی تربیت نہیں ہوتی لہٰذا اللہ کے ہر حکم پر سر جھکانے کی عادت نہیں ہے، اسی لیے یہ سارے مسائل پیش آتے ہیں۔۔۔
یہ بات دونوں طرف ہے، مرد بھی عملی طور پر اسلام سے دور ہے اور عورت بھی۔۔۔
اس وقت موضوع عدل یا ظلم نہیں ایک سے زائد شادی ہے اس لیے دوسری طرف نہیں جائیں گے، کیوں ظلم پہلی بیوی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور عورتیں بھی مردوں کو ستاسکتی ہیں۔۔۔
 
Top