لو جی سجنو ، مترو ، بیلیو ، بھراوو تے پیاری اور دلاری بہنو۔
آج کل لاہور میں دعوتی موسم ہے۔ یعنی گرمی ختم اور سردی کا آغاز ۔ مزاجوں کا چڑچڑا پن کافی حد تک ختم ہو جاتا ہے ایسے موسم میں۔ شاید اسی لئے ہمیں عاطف بھائی نے آج مچھلی کھانے کی دعوت دے ڈالی ۔ اتنی سی بات پر اگر کوئی
عاطف بٹ بھائی کو عام موسم میں چڑچڑا سمجھیں گے تو یہ اس کی کوڑھ مغزی کا سائن بورڈ ہو گا ۔
ارادہ تھا کہ گوالمنڈی کی مشہور دکان سردار مچھلی فروش پر دھاوا بولیں گے لیکن فوڈ سٹریٹ میں داخل ہوتے ہی ایک نئی دکان پر نظر پڑ گئی۔جمِ غفیر دیکھ کر گماں ہوتا تھا کہ لڑائی ہو گئی ہے اور اب باقیات میں سے بندے تلاش کئے جا رہے ہیں لیکن قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ یہ سب مچھلی کے دیوانے ہیں۔ لوگوں کے اشتیاق سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ مچھلی اور مادھوری میں سے یہاں کون زیادہ پاپولر ہو گا۔ وائے قسمت کہ مادھوری وہاں تھی نہیں اس لئے ہم نے بھی مچھلی کے حق میں ووٹ دے دیا۔
بڑے سے تھال میں مچھلی کو اس قرینے سے سجایا گیا تھا کہ وہ مچھلی کم کرینہ کپور زیادہ لگتی تھی۔ ویسی ہی خوبصوت اور نوابوں کو بھا جانے والی۔
بٹ صاحب نے مچھلی کو ہاتھ میں اٹھایا اور اس کے اعضائے رئیسہ کا بغور مطالعہ کرنا شروع کر دیا ۔ میرے استفسار پر چونک گئے اور فرمانے لگے ”دیکھ رہا ہوں کہ یہ تازہ ہے یا نہیں“۔ اب یہ تو بٹ صاحب ہی بتائیں گے کہ مچھلی کی تازگی کا ثبوت کیا ہوتا ہے۔ پھر خود ہی بتانے لگے ”بالکل تازہ مچھلی ہے“ ....خشک دریائے راوی کی ۔ ہم نے کہا ہمیں تو مچھلی کھانے سے غرض ہے بھلے ستلج بیاس کی ہو یا گنگا جمنا کی۔ ویسے بھی الہ آبادی مچھلی سے تو ہم اس کے ہندوستانی نیشنل ہونے کا خوب بدلہ لیتے ، برصغیری جو ہوئے ، ”دشمن “ کی مچھلی پر تیز مرچ لگاتے اور اپنے وطن کا نمک اس پر ملتے ، اجوائن البتہ اسی کے دیس کی لگاتے کہ کھانے میں زیادہ مزہ آئے۔
بہر کیف یہ معلوم کئے بغیر کہ اس مچھلی کی کیا شہریت یعنی جنسیہ تھی ، بٹ صاحب نے ایک ہجوم میں گھس کر اس کے لئے رقم ادا کر کے پرچی حاصل کر لی۔ 60 یا 70 لوگوں نے مچھلی کے تھال اور تلنے والی کڑاہی کے گرد یوں گھیرا ڈال رکھا تھا کہ یا تو مچھلی بھاگی جا رہی ہے یا پھر پانچوں گھی میں ڈالنے کے بعد وہ اپنا سر کڑاہی میں ڈالنا چاہ رہے ہیں۔
اس اودھم کو دیکھ کر دل نے کہا ارے بندگانِ خدا ، تمہاری قومی زندگی 65 برس سے اوپر ہو چکی اور ملی زندگی کے حساب سے تم ڈیڑھ ہزار برس کے ہونے والے ہو ۔ کیا ابھی بھی تمہیں قطار بنانا نہیں آئی۔ وہی ہلڑ بازی ، شور شرابہ اور ہاتھ پہ ہاتھ ماری کے نمونے دیکھنے کو ملے جو 65 برس سے ہماری پہچان ہیں۔
ہمیں ایک جگہ بٹھا کر بٹ صاحب مچھلی کی عکاسی میں مشغول ہو گئے۔ میں نے کہا بھی حضور رہنے دیجئے میں تصویروں کے بغیر بھی بتا دوں گا کہ دعوت آپ کی طرف سے ہے لیکن بٹ کی ہٹ کے آگے کس کی چلتی ہے۔ بالک ہٹ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ میری بات سے اتنا ضرور ہوا کہ انہوں نے تلی ہوئی مچھلی کی تصویر نہیں بنائی۔ ویسے بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو تیار ہو کر مردوں کے سامنے آ جائیں تو انہیں دنیا کا ہوش نہیں رہتا ، ان میں سے ایک مچھلی بھی ہے ۔
باباجی اسی طرح چھاپے کی زد میں آئے تھے
سیر سے زیادہ مچھلی دونوں نے سیر ہو کر کھائی۔ بٹ جی نے بوتل کا نام لیا تو میں چونک گیا کہ جناب بھی اس کے شوقین ہیں۔ فرمانے لگے یہ بتاؤ کون سی پینی ہے ہم نے کہا بھئی ہمیں تو اس موسم میں ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے اس لئے بوتل بھی ہری ہی پئیں گے۔ سو ہماری فرمائش پر سپرائٹ حاضر کر دی گئی اور بٹ جی نے کالی بوتل کا آرڈر دیا صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک بوتل ختم ہونے پر دوسری بھی منگوا لی۔
کھانا کھا کر واپس ڈیرے پر آئے اور چائے پی کر میں نے اپنے گھر اور بٹ جی نے دفتر کی راہ لی۔