تبسم
محفلین
نہیں اس طرح بھی کو شش کی پھر بھی نہیں کھا سکیتو چینی ڈال لیا کریں
لگانے دئیں بھائی کوئی فایدہ نہیں ہوگاکیا تبسم کو مکھن لگ رہا ہے یہاں ؟
نہیں اس طرح بھی کو شش کی پھر بھی نہیں کھا سکیتو چینی ڈال لیا کریں
لگانے دئیں بھائی کوئی فایدہ نہیں ہوگاکیا تبسم کو مکھن لگ رہا ہے یہاں ؟
نہیں اس طرح بھی کو شش کی پھر بھی نہیں کھا سکی
ہمارے گاؤں میں ہوتی تو دیکھتی کہ لوگ مکھن کیسے کھاتے ہیں اور وہ بھی تازہ مکھن جو ابھی ابھی دہی کو بلونے کے بعد نکالا ہو۔
بالکل، وہ تو ناشتے میں روٹی کے اوپر مکھن رکھ کر اس میں چینی یا شکر ملا کر اسی کا ناشتہ کر لیتے ہیں۔انگلیوں اور ہاتھوں سے بلکہ ہاتھوں ہاتھ کیوں شمشاد بھائی
تو کر لتے بھابھی بنادیتیکیا زبردست ناشتہ ہوتا ہے وہ
اور کیا، اور شہروں والے کیا جانیں کہ گاؤں والوں کی خوراک کیا ہوتی ہے۔
یہ میں رات ہی ٹائپ کررہا تھا۔
تو آپ کی بات پڑھ کو یاد آگیا۔
سو یہاں کاپی پیسٹ کردیا اتنا حصہ
اپنے ہی ملک کے دیہاتی کبھی شہر میں آنکلتے ہیں تو ان کو دیکھ کر عقل حیران ہوجاتی ہے۔ کہ الٰہی یہ بھی آدمی ہیں! جن کی کاٹھیاں لوہے کی ہاتھ پاؤں پتھر کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساگ بھوجی اور جوار باجرے کی روٹی کے سوا اور کچھ میسر نہیں آتا۔ مگر یہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ایک دیہاتی سو سوا سو من کی چوبلدی گاڑی ہانکے لیے چلا جارہا تھا۔ شہر کی بھیڑ دیکھکر بیل بدکے کہ گاڑی کا ایک پہیہ نالی میں جاتا رہا۔ بیلوں نے بہتیرا زور مارا پہیہ جگہ سے نہ کھسکا۔ گاڑیبان نے اتر کر کمر کا سہارا لگا بات کی بات میں گاڑی کو ایسا دھکا دیا کہ بیچ سڑک میں۔ نہ دیہاتیوں کا پانی۔ نہ شہریوں کا ماء اللحم۔ نہ ان کا چبینا اور نہ ہمارے بادام پستے۔ بیشک شہر اور دیہات کی آب و ہوا میں بھی بڑا فرق ہے۔ مگر دیہاتیوں کی توانائی اور ان کا ٹانٹا پن ہے محنت کی وجہ سے۔ شہر کی ایک تو کثرت آبادی کی وجہ سے آب و ہوا خراب۔ اس پر محنت مشقت ندارد۔ جس کو دیکھو بدن پر بوٹی نہیں۔ اور بوٹی ہو تو کہاں سے ہو۔ بیچارے کو کبھی کھلکر بھوک نہیں لگتی۔ اور مارے ہوکے کے کچھ بے اشتہا کھالیتا ہے۔ تو ہضم نہیں ہوتا۔
یہ اقتباس کہاں سے لیا ہے؟
نہیں بھائی میں ابھی نہیں گئی جب جاؤں گی نا کھے کر جاؤں گیلگتا ہے تبسم آج ہی سے شادی، بلکہ شادیوں میں چلی گئی۔