کرنی ھے تعریف آپ کی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فہیم

لائبریرین
اور کیا، اور شہروں والے کیا جانیں کہ گاؤں والوں کی خوراک کیا ہوتی ہے۔


اپنے ہی ملک کے دیہاتی کبھی شہر میں آنکلتے ہیں تو ان کو دیکھ کر عقل حیران ہوجاتی ہے۔ کہ الٰہی یہ بھی آدمی ہیں! جن کی کاٹھیاں لوہے کی ہاتھ پاؤں پتھر کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساگ بھوجی اور جوار باجرے کی روٹی کے سوا اور کچھ میسر نہیں آتا۔ مگر یہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ایک دیہاتی سو سوا سو من کی چوبلدی گاڑی ہانکے لیے چلا جارہا تھا۔ شہر کی بھیڑ دیکھکر بیل بدکے کہ گاڑی کا ایک پہیہ نالی میں جاتا رہا۔ بیلوں نے بہتیرا زور مارا پہیہ جگہ سے نہ کھسکا۔ گاڑیبان نے اتر کر کمر کا سہارا لگا بات کی بات میں گاڑی کو ایسا دھکا دیا کہ بیچ سڑک میں۔ نہ دیہاتیوں کا پانی۔ نہ شہریوں کا ماء اللحم۔ نہ ان کا چبینا اور نہ ہمارے بادام پستے۔ بیشک شہر اور دیہات کی آب و ہوا میں بھی بڑا فرق ہے۔ مگر دیہاتیوں کی توانائی اور ان کا ٹانٹا پن ہے محنت کی وجہ سے۔ شہر کی ایک تو کثرت آبادی کی وجہ سے آب و ہوا خراب۔ اس پر محنت مشقت ندارد۔ جس کو دیکھو بدن پر بوٹی نہیں۔ اور بوٹی ہو تو کہاں سے ہو۔ بیچارے کو کبھی کھلکر بھوک نہیں لگتی۔ اور مارے ہوکے کے کچھ بے اشتہا کھالیتا ہے۔ تو ہضم نہیں ہوتا۔
 

فہیم

لائبریرین
یہ میں رات ہی ٹائپ کررہا تھا۔
تو آپ کی بات پڑھ کو یاد آگیا۔
سو یہاں کاپی پیسٹ کردیا اتنا حصہ :)
 

شمشاد

لائبریرین
فہیم بھائی دیہاتی اگر جسمانی مشقت کرتا ہے تو پھر خوراک بھی تو ویسی ہی چاہیے ناں۔ اس کے علاوہ وہ کچی سبزیاں بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔

میرا گاؤں شہر سے کوئی 6 کلومیٹر دور ہے۔ سودا سلف لینے کے لیے اکثر شہر جانا پڑتا ہے۔ گاؤں کی عورتیں ایسی ہیں کہ گرمیوں میں صبح گھر سے پیدل نکلتی ہیں اور دھوپ تیز ہونے سے پہلے پہلے سودا سلف لیکر، اور لیکر ہی نہیں سر پر اٹھا کر واپس اپنے گھر پہنچ جاتی ہیں۔ شہر کی کوئی عورت اتنا پیدل چل کر تو دکھائے۔ عورت کیا مرد بھی نہیں چل سکتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ میں رات ہی ٹائپ کررہا تھا۔
تو آپ کی بات پڑھ کو یاد آگیا۔
سو یہاں کاپی پیسٹ کردیا اتنا حصہ :)

اپنے ہی ملک کے دیہاتی کبھی شہر میں آنکلتے ہیں تو ان کو دیکھ کر عقل حیران ہوجاتی ہے۔ کہ الٰہی یہ بھی آدمی ہیں! جن کی کاٹھیاں لوہے کی ہاتھ پاؤں پتھر کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساگ بھوجی اور جوار باجرے کی روٹی کے سوا اور کچھ میسر نہیں آتا۔ مگر یہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ایک دیہاتی سو سوا سو من کی چوبلدی گاڑی ہانکے لیے چلا جارہا تھا۔ شہر کی بھیڑ دیکھکر بیل بدکے کہ گاڑی کا ایک پہیہ نالی میں جاتا رہا۔ بیلوں نے بہتیرا زور مارا پہیہ جگہ سے نہ کھسکا۔ گاڑیبان نے اتر کر کمر کا سہارا لگا بات کی بات میں گاڑی کو ایسا دھکا دیا کہ بیچ سڑک میں۔ نہ دیہاتیوں کا پانی۔ نہ شہریوں کا ماء اللحم۔ نہ ان کا چبینا اور نہ ہمارے بادام پستے۔ بیشک شہر اور دیہات کی آب و ہوا میں بھی بڑا فرق ہے۔ مگر دیہاتیوں کی توانائی اور ان کا ٹانٹا پن ہے محنت کی وجہ سے۔ شہر کی ایک تو کثرت آبادی کی وجہ سے آب و ہوا خراب۔ اس پر محنت مشقت ندارد۔ جس کو دیکھو بدن پر بوٹی نہیں۔ اور بوٹی ہو تو کہاں سے ہو۔ بیچارے کو کبھی کھلکر بھوک نہیں لگتی۔ اور مارے ہوکے کے کچھ بے اشتہا کھالیتا ہے۔ تو ہضم نہیں ہوتا۔

یہ اقتباس کہاں سے لیا ہے؟
 

پپو

محفلین
ابھی کہاں ابھی تو مہینہ سے زیادہ وقت پڑا ہے مگر میں آج ضرور مصروف ہو جاؤں گا شام میں رسم مہندی ہے کل بارات اور پرسوں ولیمہ ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top