معذرت ہم کو بھی اس دھاگے میں کودنا پڑا۔
پہلے تو جن احباب نے کوئی جن نہیں دیکھا وہ ہماے مراسلے کے دائیں جانب کو بائیں جانب جھکی ہوئی تصویر دیکھ لیں۔ ہمارے بارے میں ایک ڈرامہ بھی بن چکا ہے۔ سکول کے زمانے میں لڑکے بالے ہمیں اسی خطاب سے پکارا کرتے تھے۔ پہلے پہل تو ہم کافی لڑے بھڑے مار کھائی لیکن پھر سمجھوتا کر گئے۔ کم عمری میں یہ راز پا گئے کہ:
تنقید کا برا نہ مانو
دوسرے سے پہلے خود کو برا جانو
اس کے بعد سے افاقہ ہے۔
تفنن بر طرف،
میرے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا آج تک۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات سنانے والے بھی اکثر اپنی کسی کزن کسی دوست کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں کہ اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ مجھے پنڈی میں ایک ایسے فلیٹ میں رہنے کا اتفاق ہوا جس کے عین سامنے قبرستان تھا اورمیرے کمرے کے ٹیرس سے نظر آتا تھا۔ میں اکثر رات تین بجے تک ٹیرس پر بیٹھا قبرستان کو دیکھتا رہتا تھا کبھی کچھ نہیں ہوا۔ ایک دفعہ رات کو ڈھائی بجے گھنگرو کی چھنک سنادی۔ میں تھوڑا ڈرا بھی اور excited بھی ہوا کہ چلو آج کوئی محیرالعقول واقعہ دیکھنے کوملنے والا ہے۔ سو ڈرتا ڈرتا چھت پر جا پہنچا۔ دھت تیرے کی! ایک سوزوکی پک اپ تھی جس پر سامان لدا ہوا تھا اور اس کے پائیدان کے ساتھ خوبصورتی کے لیے زنجیریں لٹکائی گئی تھیں جو سڑک سے رگڑ کھا کر ایسی آواز پیدا کر رہی تھیں۔
سو صاحبو!
زندگی امتحان ہے۔ اور اس امتحان گاہ میں مکمل خاموشی کا انتظام کیا گيا ہے۔ لاکھوں شہاب ثاقب اس زمین سے ٹکراتے ہیں لیکن ایک بھی کسی کے سر پہ نہیں لگا کبھی۔۔۔ خاموش! امتحان ہو رہا ہے۔۔۔
بہت خطرناک قسم کی الٹرا وائلٹ ریز کی مسلسل بوچھاڑ ہے لیکن اوزون میں ہی ٹوٹ کر رہ جاتی ہیں۔۔۔۔ خاموش! نیچے امتحان ہو رہا ہے۔۔۔
شدید قسم کے مقناطیسی طوفان ہیں دیوہیکل اٹھتے ہیں سورج سے کہ سب برباد ہو جائے اگر ایک رمق بھی یہاں پہنچ جائے تو یہ تمام مواصلات، مشینری ترقی دھری کی دھری رہ جائے۔۔۔۔ لیکن خاموش! دیکھتے نہیں امتحان ہو رہا ہے۔۔۔
سورج کی سطح پراٹھنے والے حقیر ترین بلبلے کے پھٹنے کی آواز کئی کروڑ ایٹم بموں کی تباہی لیے ہوئے ہے گر صرف یہی آواز یہاں تک پہنچ جائے تو نہ تصور رہے نہ تخیل رہے۔۔۔ لیکن درمیان میں ہوا نہیں ہے۔۔۔ خاموش! دیکھتے نہیں نیچے امتحان ہو رہا ہے؟
جب یہ سب رکا ہوا ہے تو جنوں کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ جہاں مرضی چھیڑ چھاڑ کرتے پھریں۔۔۔
سو یہ ہے ہمارا فہم اس بابت
باقی وہ لطیفہ تو شاید آپ نے سن رکھا ہو کہ سرد اندھیری گھپ رات میں ایک بھوت دوسرے بھوت کو سمجھا رہا تھا: دیکھو بھائی! یہ انسان ونسان کچھ نہیں ہوتا ایسے ہی باتیں بنی ہوئی ہیں۔
والسلام،
محسن۔