کس کس نے جن پری بھوت چڑیل کو دیکھا

شمشاد

لائبریرین
اسی کو بنا دیں اور دیوار سے چپکا دیں تا کہ کچھ دن سکون سے گزر جائیں اس کے۔
 

ماوراء

محفلین
بوچھی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
نہیں نہیں۔۔۔مکھی نہیں۔۔مکھی بنے میری دشمن۔ میں تو پری ہی ٹھیک
273_fairy_1.gif




:p کس دشمن کو مکھی بنانا ہے ۔؟ :lol: نام بتاؤ
نام بتا کر اس دنیا سے جانا ہے کیا مجھے۔ :oops:
 

ماوراء

محفلین
شمشاد نے کہا:
اسی کو بنا دیں اور دیوار سے چپکا دیں تا کہ کچھ دن سکون سے گزر جائیں اس کے۔
دیوار کے ساتھ چپکا۔۔۔ :eek: پھر میں کھانا کیسے کھاؤں گی۔ میں تو بھوکی مر جاؤں گی نہ اس طرح۔ :cry:
سکون سے کچھ دن گزار کر کیا کرنے ہیں۔ بے سکونی میں ہی ٹھیک ہیں۔ :oops:
 

شمشاد

لائبریرین
کھانے کی فکر نہ کرو وہ وقت پر ملتا رہے گا۔ بلکہ ایک ہی دفعہ ہفتے دس دن کا اکٹھا ہی دے دیں گے۔
 

ماوراء

محفلین
کون دیا کرے گا؟ جہاں مجھے آپ دیوار کے ساتھ چپکانے کی بات کر رہے ہیں۔ وہاں کسی کو کیا ضرورت ہے کہ میرے کھانے کا خیال رکھے گا۔ :cry:
 

سجادعلی

محفلین
مجھے ایسی کسی چیز سے واسطہ نہیں پڑا لیکن ایک کہانی (حقیقی واقعہ) سن رکھی ہے وہ سناتا ہوں۔

لگ بھگ چالیس سال پہلے گاوں سے رات کے پچھلے پہر"پچھ پیری" گزرا کرتی تھی۔ وہ جب بھی گزرتی گھنگرووں کی صدا دور دور تک پھیل جاتی۔ لوگ خوف سے گھروں‌میں دبکے رہتے۔ اس کا گزر دو مرتبہ ہوتا تھا۔ یعنی آمد اور رفت ۔
کئی سال تک یہ سلسلہ بلاناغہ چلتا رہا۔ تب ایک نوجوان نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کا پیچھا کرے گا اور لوگوں کو خوف سے نجات دلائے گا۔
پھر ایک رات اس نوجوان نے اسے اپنے سامنے پایا اور مقابلے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ پہلے اُس نے جان چھڑانا چاہی مگرنوجوان چھوڑنے والا نہیں تھا۔ اس نے پچھ پیری کو دبوچ لیا۔
زورآزمائی اور مار کے تبادلے کے بعد پچھ پیری نے رونا شروع کردیا۔کیوں کہ اس کے پیر سیدھے تھے۔معافی چاہی مگر نوجوان نے اسے قتل کرکے لاش وہیں چھوڑ دی۔
صبح معلوم ہوا کہ وہ عورت تھی اور اپنے محبوب سے ملنے کے لیے یہاں‌سے گزر کر جایا کرتی تھی۔
(نوٹ اسی موضوع پر خاورچودھری صاحب کا چھپا ہوا ایک افسانہ بھی ہے)
 

ساجداقبال

محفلین
زورآزمائی اور مار کے تبادلے کے بعد پچھ پیری نے رونا شروع کردیا۔کیوں کہ اس کے پیر سیدھے تھے۔معافی چاہی مگر نوجوان نے اسے قتل کرکے لاش وہیں چھوڑ دی۔
ظالم ۔۔۔۔۔۔۔ اسے تو رات پھرنے کیلیے ایوارڈ ملنا چاہیے تھا بہادری کا۔ اس نے قتل کردیا۔ کیا اس بندے کو کوئی سزا ہوئی؟
 

جیہ

لائبریرین
میں نے تو کوئی بھوت یا چڑیل نہیں دیکھی مگر میرے "وہ" کہتے ہیں کہ میں روز ہی دیکھتا ہوئی ایک چڑیل:grin:
 

محمداحمد

لائبریرین


میں نے کبھی چڑیل تو نہیں دیکھی ، لیکن اُن کا ایک شعر ضرور سنا ہے جو مجھے بہت پسند ہے۔ آپ بھی دیکھیے۔

ہمارے پائوں اُلٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن، بہت پیچھے نکل آئے
ویسے اگر اس شعر کا / کی خالق اگر یہ پوسٹ دیکھ لے تو اس سے معذرت

 

محسن حجازی

محفلین
معذرت ہم کو بھی اس دھاگے میں کودنا پڑا۔

پہلے تو جن احباب نے کوئی جن نہیں دیکھا وہ ہماے مراسلے کے دائیں جانب کو بائیں جانب جھکی ہوئی تصویر دیکھ لیں۔ ہمارے بارے میں ایک ڈرامہ بھی بن چکا ہے۔ سکول کے زمانے میں لڑکے بالے ہمیں اسی خطاب سے پکارا کرتے تھے۔ پہلے پہل تو ہم کافی لڑے بھڑے مار کھائی لیکن پھر سمجھوتا کر گئے۔ کم عمری میں یہ راز پا گئے کہ:
تنقید کا برا نہ مانو
دوسرے سے پہلے خود کو برا جانو

اس کے بعد سے افاقہ ہے۔

تفنن بر طرف،
میرے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا آج تک۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات سنانے والے بھی اکثر اپنی کسی کزن کسی دوست کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں کہ اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ مجھے پنڈی میں ایک ایسے فلیٹ میں رہنے کا اتفاق ہوا جس کے عین سامنے قبرستان تھا اورمیرے کمرے کے ٹیرس سے نظر آتا تھا۔ میں اکثر رات تین بجے تک ٹیرس پر بیٹھا قبرستان کو دیکھتا رہتا تھا کبھی کچھ نہیں ہوا۔ ایک دفعہ رات کو ڈھائی بجے گھنگرو کی چھنک سنادی۔ میں تھوڑا ڈرا بھی اور excited بھی ہوا کہ چلو آج کوئی محیرالعقول واقعہ دیکھنے کوملنے والا ہے۔ سو ڈرتا ڈرتا چھت پر جا پہنچا۔ دھت تیرے کی! ایک سوزوکی پک اپ تھی جس پر سامان لدا ہوا تھا اور اس کے پائیدان کے ساتھ خوبصورتی کے لیے زنجیریں لٹکائی گئی تھیں جو سڑک سے رگڑ کھا کر ایسی آواز پیدا کر رہی تھیں۔ :grin: :grin:

سو صاحبو!
زندگی امتحان ہے۔ اور اس امتحان گاہ میں مکمل خاموشی کا انتظام کیا گيا ہے۔ لاکھوں شہاب ثاقب اس زمین سے ٹکراتے ہیں لیکن ایک بھی کسی کے سر پہ نہیں لگا کبھی۔۔۔ خاموش! امتحان ہو رہا ہے۔۔۔
بہت خطرناک قسم کی الٹرا وائلٹ ریز کی مسلسل بوچھاڑ ہے لیکن اوزون میں ہی ٹوٹ کر رہ جاتی ہیں۔۔۔۔ خاموش! نیچے امتحان ہو رہا ہے۔۔۔
شدید قسم کے مقناطیسی طوفان ہیں دیوہیکل اٹھتے ہیں سورج سے کہ سب برباد ہو جائے اگر ایک رمق بھی یہاں پہنچ جائے تو یہ تمام مواصلات، مشینری ترقی دھری کی دھری رہ جائے۔۔۔۔ لیکن خاموش! دیکھتے نہیں امتحان ہو رہا ہے۔۔۔
سورج کی سطح پراٹھنے والے حقیر ترین بلبلے کے پھٹنے کی آواز کئی کروڑ ایٹم بموں کی تباہی لیے ہوئے ہے گر صرف یہی آواز یہاں تک پہنچ جائے تو نہ تصور رہے نہ تخیل رہے۔۔۔ لیکن درمیان میں ہوا نہیں ہے۔۔۔ خاموش! دیکھتے نہیں نیچے امتحان ہو رہا ہے؟
جب یہ سب رکا ہوا ہے تو جنوں کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ جہاں مرضی چھیڑ چھاڑ کرتے پھریں۔۔۔

سو یہ ہے ہمارا فہم اس بابت

باقی وہ لطیفہ تو شاید آپ نے سن رکھا ہو کہ سرد اندھیری گھپ رات میں ایک بھوت دوسرے بھوت کو سمجھا رہا تھا: دیکھو بھائی! یہ انسان ونسان کچھ نہیں ہوتا ایسے ہی باتیں بنی ہوئی ہیں۔ :grin: :grin: :grin:

والسلام،
محسن۔
 
Top