کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

فرخ منظور

لائبریرین
اُن سے کہہ دی ہے آرزو دل کی
اب مری بات کا جواب کہاں

بات کرنی جسے نہ آتی ہو!
بات سننے کی اس کو تاب کہاں

(داغ دہلوی)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
دم نہیں دل نہیں دماغ نہیں
کوئی دیکھے تو اب وہ داغ نہیں

داغ کو کیوں مٹائے دیتے ہو
دل سے ہو دور یہ وہ داغ نہیں

(داغ دہلوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہ رحم کا نہ تسلّی کا اعتبار رہا
گلہ نہیں ہے، رہا جو مزاجِ یار رہا

ادا تو کر دیا قاصد نے حقِ نامہ بری
انہیں اب آنے، نہ آنے کا اختیار رہا

کسی پہ چاکِ گریباں کا عیب کھُل نہ سکا
یونہی بندھا جو مرے آنسوؤں کا تار رہا

گواہِ حال ہیں اس پر ہٹے ہوئے تختے
پسِ فنا بھی تڑپتا تہِ مزار رہا

(ہدف لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اب تو میرے حال پر لطف و کرم فرمائیے
ہو چکے ہونے جو تھے جور و جفا دو چار دن

وہ پری کہتا ہے دیوانہ بنا کر زلف کا
قصد لو، جا کر کرو اپنی دوا دو چار دن

یہ بڑا اندھیر ہے اِک رات بھی آئے نہ تم
چاندنی کیا کیا ہوئی اے مہ لقا دو چار دن

واہ رے وعدہ ترا قربان وعدے کے ترے
ایک دن کے ہو گئے اے بے وفا دو چار دن

اے بتِ کافر تری اللہ رے بے پروائیاں
آشنا دو چار دن، نا آشنا دو چار دن

مدعائے وصل سن کر وہ صنم کہنے لگا
بیٹھ کر مسجد میں کر، یادِ خدا دو چار دن

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
عشق کا احترام کرتے ہیں
دل کا قصّہ تمام کرتے ہیں

قابلِ گفتگو رقیب نہیں
آپ کس سے کلام کرتے ہیں؟

آپ کے منہ لگی ہے دختِ رز
باتیں ہونٹوں سے جام کرتے ہیں

یا الٰہی حلال ہوں واعظ
دختِ رز کو حرام کرتے ہیں

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

انتہا

محفلین
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی، کیا مجازی کا
آج تیری نگہ سے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
اے ولی سروقد دیکھوں گا
وقت آیا ہے سرفرازی کا
ولی دکنی
 

فرخ منظور

لائبریرین
بادہ نوشی پر رہا دارومدار اب کے برس
طاق پر رکھے رہے سب کاروبار اب کے برس

ہوش کس کو ہے جو پہنائے کسی کو بیڑیاں
ہو رہے آپ دیوانے لُہار، اب کے برس

خوب اپنا ساقئ دریا دل اپنے ساتھ ہے
کھیلتے پھریے بطِ مے کا شکار اب کے برس

ہو گئی فرقت میں اک اک شاخ سوہانِ روح
دل کو برمانے لگی صوتِ ہزار اب کے برس

ابرِ تر پر پھبتیاں ہوں گی کفِ سیلاب کی
جوش پر ہے گریۂ بے اختیار اب کے برس

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
صبا کی کتنی غزلیں ہو چکی ہیں فرخ، ایک ای بک تمہارے نام کر دی جائے؟

اعجاز صاحب، ابھی مزید بھی کچھ انتخاب کر رہا ہوں۔ صبا کی مکمل غزلوں کے لئے الگ دھاگہ بناتا ہوں جبکہ چند اشعار کا انتخاب یہاں پوسٹ کرتا ہوں۔ ویسے نوید صادق صاحب نے بھی میر وزیر علی صبا کا ایک انتخاب کر رکھا ہے لیکن یہ وہ غزلوں کا انتخاب نہیں بلکہ صرف اشعار کا انتخاب ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی دیکھا ہے فرخ، وہاں نوید صادق نے بھی کچھ غزلیں تقریباً مکمل پوسٹ کر رکھی ہیں۔ تم کچھ مزید ٹائپ کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو انتظار کر لیتا ہوں، ورنہ برقی انتخاب کا مواد تو ہو گیا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ابھی دیکھا ہے فرخ، وہاں نوید صادق نے بھی کچھ غزلیں تقریباً مکمل پوسٹ کر رکھی ہیں۔ تم کچھ مزید ٹائپ کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو انتظار کر لیتا ہوں، ورنہ برقی انتخاب کا مواد تو ہو گیا ہے۔

اگر آپ ای بک بنانا چاہتے ہیں تو بے شک بنا لیں۔ بعد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
خط لکھا یار کو تو شوقِ جوابِ خط میں
آنکھیں رو رو کے نہ کیں خونِ کبوتر کس دن

کبھی دریا کہا اے شوخ کبھی ابر کہا
پھبتی سوجھی نہ تجھے دیدہء تر پر کس دن

مانتا ہی نہیں پہلو میں دلِ خانہ خراب
دوڑے جاتے نہیں ہم یار کے در پر کس دن

ہائے کس یاس سے کہتا ہوں شبِ فرقت میں
دیکھیے، اُن سے ملاتا ہے مقدر کس دن

کس قدر طالبِ دیدار ہیں اللہ اللہ!
دیکھیے ہوتا ہے ہنگامہء محشر کس دن

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اُٹھ کے پہلو سے کدھر آپ ہیں جانے والے
جگر و دل ہیں تڑپ کر نکل آنے والے

کوئی غصے میں تری آنکھوں کے تیور دیکھے
شیر بن کر یہی آہو ہیں ڈرانے والے

مرگئے عاشقِ نالاں تو کہا اس بت نے
سو گئے، فتنۂ محشر کو جگانے والے

حالِ دل شب کو جو کہنے گئے، فرمایا
لیجیے، آئے مری نیند اڑانے والے

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
تم قتل کرو گے جو مجھے تیغِ نگہ سے
منہ دیکھ کے رہ جائے گی تلوار تمہارا

بوسے لبِ شیریں کے عنایت نہیں ہوتے
پرہیز میں مر جائے گا بیمار تمہارا

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 
Top