کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

اے ابرِ تر تو اور کسی سمت کو برس
اس ملک میں ہماری ہے یہ چشمِ تر ہی بس

حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
اک برگِ گُل گرا نہ جہاں تھا میرا قفس

مژگاں بھی بہہ گئیں مِرے رونے سے چشم کی
سیلاب موج مارے تو ٹھہرے ہے کوئی خس

مجنوں کادل ہوں محملِ لیلیٰ سے ہوں جدا
تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالہءجرس

اے گِریہ اس کے دل میں اثر خوب ہی کیا
روتا ہوں جب میں سامنے اس کے تو دے ہے ہنس

اس کی زباں کے عہد سے کیونکر نکل سکوں
کہتا ہوں ایک میں تو سناتا ہے مجھ کو دس

حیراں ہوں میر نزع میں، اب کیا کروں بھلا
احوالِ دل بہت ہے مجھے فرصت یک نفس

میر تقی میرؔ
 

سید زبیر

محفلین
مژگاں بھی بہہ گئیں مِرے رونے سے چشم کی
سیلاب موج مارے تو ٹھہرے ہے کوئی خس
بہت خوب ، شرقی صاحب عمدہ انتخاب ہے
 
تا بمقدور انتظار کیا
دل نے پھر زور بے قرار کیا​

ہم فقیروں سے بے ادائی کی
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا​

دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفا کار تجھ سا یار کیا​

یہ تواہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا​

ایک ناوک نے اسکی مژگاں کے
طائرِ سدرہ تک شکار کیا​

صدرگِ جاں کو تاب دے باہم
تیری زلفوں کا ایک تار کیا​

سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا​
میر تقی میر​
 
خبرِ تحیّرِ عشق سُن ، نہ جنوں رہا نہ پری رہی​
نہ تو تُو رہا ، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی​
شہہِ بے خودی نے عطاءکیا مجھے اب لباسِ برہنگی​
نہ خِرد کی بخیہ گری رہی نہ جنُوں کی پردہ دری رہی​
چلی سمتِ غیب سے وہ ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا​
مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دل کہیں سو ہری رہی​
نظرِ تغافلِ یار کا گِلہ کس زباں سیں کروں بیاں​
کہ شرابِ صد قدح آرزو خُمِ دل میں تھی سو بھری رہی​
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخہءعشق کا​
کہ کتاب عقل کی، طاق پر جیوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی​
ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر سیں عیاں ہوا​
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری کوں جلوہ گری رہی​
کِیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کوں​
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی​
سراج اورنگ آبادی​
 

فرخ منظور

لائبریرین
پانی ہو بہہ گئے مرے اعضا نَیَن کی راہ
باقی ہے جوں حباب، نفس پیرہن کے بیچ

بعد از شباب ہوں تری انکھیاں زیادہ مست
ہوتی ہے زور کیف شرابِ کہن کے بیچ

سودا میں اپنے یار سے چاہا کہ کچھ کہوں
ایسی کی اِک نگہ کہ رہی من کی من کے بیچ

(سودا)
 

فرخ منظور

لائبریرین
چمن ہے کس کے گرفتار زلف و کاکُل کا
کہ اس قدر ہے پریشان حال سنبل کا

کبھو گزر نہ کیا خاک پر مری ظالم
میں ابتدا ہی سے کشتہ ہوں اس تغافل کا

خبر شتاب لے سودا کے حال کی پیارے
نہیں ہے وقت مری جان یہ تامّل کا

(سودا)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہمارے دردِ دل کے تئیں یہ کب بے درد پوچھیں ہیں
ہم اپنے جی سے عاجز ہیں، انہوں کو عیش سوجھے ہیں

(قائم چاند پوری)
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ صاحب!
پہلے مصرع شاید صحیح نہیں لکھا گیا ہے دیکھ لیں گے تو عنایت ہوگی
تشکّر

قبلہ، کلیاتِ قائم چاند پوری مرتبہ سید اقتدا حسین میں صفحہ نمبر 156 پر مطبوعہ مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور کے ایڈیشن دسمبر 1965 میں یہ شعر یوں ہی درج ہے۔ آپ کچھ وضاحت کر سکتے ہیں کہ اس شعر میں کیا غلطی ہے؟
 

طارق شاہ

محفلین
قبلہ، کلیاتِ قائم چاند پوری مرتبہ سید اقتدا حسین میں صفحہ نمبر 156 پر مطبوعہ مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور کے ایڈیشن دسمبر 1965 میں یہ شعر یوں ہی درج ہے۔ آپ کچھ وضاحت کر سکتے ہیں کہ اس شعر میں کیا غلطی ہے؟
چلیں یوں ہے تو یوں ہی سہی!
تشکّر ، اور
زحمت کے لئے معذرت
بہت خوش رہیں
 

طارق شاہ

محفلین
قبلہ، کلیاتِ قائم چاند پوری مرتبہ سید اقتدا حسین میں صفحہ نمبر 156 پر مطبوعہ مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور کے ایڈیشن دسمبر 1965 میں یہ شعر یوں ہی درج ہے۔ آپ کچھ وضاحت کر سکتے ہیں کہ اس شعر میں کیا غلطی ہے؟

چلیں یوں ہے تو یوں ہی سہی!
تشکّر ، اور
زحمت کے لئے معذرت
بہت خوش رہیں

یہ یوں بھی لکھا کہ میری وضاحت آپ کب مانیں گے
گیند زیادہ گہرے پانی میں ہے ، کسی اچھے پیراک کو آواز دیں تو حصول ہو
تشکّر
 

فرخ منظور

لائبریرین
گریہ عاشقِ بے تاب پہ ہنس کر بولے​
اب تو بے فصل بھی برسات ہوا کرتی ہے​

دینے والوں کا بھی منہ آپ نے دیکھا ہے کبھی​
ایک بوسے کی بھی خیرات ہوا کرتی ہے​

غم کھلاتے ہیں وہ مہمان بلا کر مجھ کو​
یہ ضیافت، یہ مدارات ہوا کرتی ہے​

داغ صاحب سے کبھی گرم تھی صحبت دن رات​
اب تو برسوں میں ملاقات ہوا کرتی ہے​

(داغ دہلوی)​
 
Top