سراج اورنگ آبادی کے چند اشعار
آبِ رواں ہے حاصلِ عمرِ شتاب رو
لوحِ فنا میں نقش نہیں ہے ثبات کا
اے بت پرست دیدہء بینا سیں دیکھ توں
یک ذات میں ظہور ہو کئی صفات کا
مے خانہء وحدت کا جو کوئی جام پیا ہے
آرام کے کوچے سے نکل بے خبر آیا
پردہء سری کھلا ہے جس اوپر
عالمِ ظاہر کا وو غافل ہوا
گر کرے احوالِ شبنم پر نظر
رُتبہ خورشید کیا کم ہویگا
اپنی قسمت کے غم و عیش میں شاکر ہوں سراج
جو منجم نے ازل کے، میری تقویم کیا
سب جگت ڈھونڈ پھرا یار نہ پایا لیکن
دل کے گوشہ میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
درپیش ہے ہم کوں سفرِ منزل مقصود
بس آہِ سحر گاہ یہ سامان ہمارا
جو کوئی شغلِ کثرت سیں خالی ہوا
وہ اسرارِ وحدت کا حالی ہوا
حیف ہے اس کی تماشا بینی
چشمِ باطن کوں جو کئی وا نہ کیا
جو اٹھا مجلسِ ناسوتی میں
محرم خلوتِ لاہوت ہوا