امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس AP کی غلط رپورٹ پر یقین کرنا بیوقوفی اور بزدلی ہے۔۔
بزدل صحافی اور پیسے بٹورنے والے صحافی حضرات یقیناَ وہی لکھیں گے جو انہیں کہا جائے گا۔۔اور ویسے بھی بہت سے صحافی حُبِ لشکرِجھنگوی میں دہشت گردوں کے بارے میں نہیں لکھتے۔۔اور ٹوپی ڈرامہ کر کے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔۔ عوام کی اکثریت بھی حبِ یزید میں دہشتگردوں کو کچھ نہیں بولتی۔ عوام کی کتنی اکثریت نے لشکرِجھنگوی کو برا کہا۔۔۔ ؟
مسلمانوں کے قتلِ عام میں پاکستانی صحافی ہمیشہ منہ بند کر کے چپ چاپ خاموش ہی رہتے ہیں۔۔اور نہ لکھنے اور حق نہ بولنے کے لیئے غیرملکی بہانے تلاش کیئے جاتے ہیں۔۔
نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی بات جواب دینا پڑ رہا ہے ۔ بلوچستان کے زمینی حقائق سے ایک فیصد بھی باخبر ہوتے تو آپ کبھی یہ نہ کہتے کہ یہاں کے صحافی بزدل ہیں۔
وقت کی کمی ہے ۔وقت ملنے پر تفصیل سے جواب دوں گا۔ اس وقت یہاں صرف ان ’’بزدل‘‘ صحافیوں کی تفصیل پیش کروں گا جو پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
(03)ڈاکٹر چشتی مجاہد :۔ ڈاکٹر چشتی مجاہد ماہر امراض چشم کے ساتھ ساتھ وہ شعبہ صحافت سے بھی منسلک تھے جنہیں 9فروری 2008ءکو نامعلوم مسلح افراد ان کے گھر کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا وہ کوئٹہ میں جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کے نمائندہ تھے ان کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ۔
(04)خا دم حسین شیخ :۔ بلوچستان کے علاقے حب سے تعلق رکھنے والے صحافی تھے جنہیں 14 اپریل 2008ء کو نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا خادم شیخ روزنامہ خبریں سے وابستگی رکھتے تھے اس کے علاوہ مقامی سطح پر شائع ہونے والے روزنامہ حب نیوز کے چیف ایڈیٹر بھی تھے ۔
(05)وصی احمد قریشی :۔ بلوچستان کے علاقے خضدار میں روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے لئے خدمات انجام دینے والے صحافی کو 10اپریل2009 ءکو ٹارگٹ کلنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔
(06)فیض ساسولی:۔ فیض محمد ساسولی بلوچستان کے علاقے خضدار کے رہائشی تھے اور شعبہ صحافت سے منسلک تھے خضدار سے بطور نامہ نگار بلوچستان سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ”آزادی“ کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے جنہیں 27جون 2009ءکو ہدف بنا کر نامعلوم مسلح افراد نے موت کی نیند سلادیا ۔ بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے فیض ساسولی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ۔
(07)لالہ حمید بلوچ :۔ بلوچستان کے ضلع گوادر سے تعلق رکھتے تھے ایک طویل عرصہ تک صحافتی خدمات انجام دیتے رہے گوادر پریس کلب کے صدر کے عہدے پر فائز تھے اور روزنامہ ”توار“ مستونگ میں خدمات انجام دے رہے تھے انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ حمید بلوچ کو پاکستانی سکیورٹی فورسز نے 25 اکتوبر کو ا±س وقت حراست میں لے لیا تھا جب وہ تربت سے اپنے آبائی علاقے گوادر جا رہے تھے۔اور18نومبر 2010ءکو ان کی تشدد زدہ گولیوں سے چھلنی لاش تربت شہر کے نواحی علاقے سے ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش ملی ۔
(0
محمد خان ساسولی :۔ محمد خان ساسولی خضدار سے تعلق رکھتے تھے صحافتی اور سماجی حلقوں میں انتہائی متحرک و فعال کردار ادا کرتے رہے خضدار سے مختلف اداروں کےلئے کام کررہے تھے جن میں خبر رساں ادارہ آئی این پی ،روزنامہ زمانہ کوئٹہ ،بلوچستان ٹائمزشامل تھے ان کو بھی نامعلوم مسلح افراد نے 14دسمبر 2010ءکو اس وقت ٹارگٹ بنا کر قتل کردیا جب وہ ورکرزکالونی میں واقع اپنے گھر کے گیٹ پر پہنچے سیاسی اور سماجی حلقوں میں محمد خان ساسولی کا احترام ان کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے کیا جاتا تھا اور وہ بلاامتیاز تمام طبقوں کے لیے کام کرتے تھے بلوچ مسلح دفاع نامی تنظیم کی جانب سے ایک پمفلٹ بھی تقسیم ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ خضدار کے صحافی بی ایس او اور بی این پی کے جلسوں کی رپورٹنگ نہ کریں۔
(09)ملک محمد عارف :۔ملک محمد عارف کوئٹہ کے رہائشی تھے اور میڈیا کے ساتھ بطور کیمرہ مین منسلک تھے ایک طویل عرصہ تک پاکستان ٹیلی ویژن میں خدمات انجام دینے کے بعد نیوز ٹی وی چینل ” سماءنیوز “ کے ساتھ وابستگی اختیار کی کوئٹہ بیورو آفیس میں بطور سینئر کیمرہ مین فرائض انجام دے رہے تھے 16اپریل 2010ءکو شہر میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آیا تو حسب روایت کیمرے کے ساتھ وہ بھی اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سول ہسپتال کے شعبہ حادثات میں کوریج کےلئے پہنچے لیکن تھوڑی دیر بعد وہاں ہونے والے خود کش حملے میں خود خبر بن گئے اور جان کی بازی ہار بیٹھے
(10)محمد سرور :۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں محمد سرور نجی ٹی وی چینل آج نیوز میں بطور ڈرائیور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ کوئٹہ میں” یوم القدس کی ریلی کے دوران خود کش حملے اور فائرنگ میں 03ستمبر2010ءکو محمد سرور اپنی جان کی بازی ہار گئے۔
(11) اعجاز رئیسانی :۔ اعجاز احمد رئیسانی کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب کے رہائشی تھے محنتی نوجوان تھے مختلف نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور کیمرہ مین فرائض انجام دینے والے اس کہنہ مشق نے سماءنیوز کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی 03ستمبر کو ہونے والی ”القدس ریلی“ کی کوریج کےلئے میزان چوک پر موجود تھے جہاں خود کش حملہ ہوگیا اور بعد میں ہونے والی فائرنگ کے دوران زخمی ہوئے ہسپتال میں 06ستمبر 2010ءکو ابدی نیند سو گئے
(12)الیاس نذر:۔ الیاس نذر بلوچستان کے ضلع کیچ تربت سے تعلق رکھتے تھے اور ایک طویل عرصے سے کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ” توار “مستونگ کے لئے کام کررہے تھے انہیں اغواءکرنے کے بعد قتل کردیا گیا اور ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش 03جنوری 2011ء کو ملی ۔
(14)عبدوست رند :۔ بلوچستان سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ ”ایگل“ میں تربت سے رپورٹنگ کررہے تھے غیر جانبدارانہ پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کرنے والے 27سالہ عبدوست رند کو 18فروری2011ءکو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں مار کر قتل کردیا ۔
(15)رحمت اللہ شاہین :۔ بلوچستان کے ضلع بولان مچھ سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ شاہین روزنامہ توار کےلئے رپورٹنگ کرتے تھے 18 مارچ 2011ءکو بلوچستان کے علاقے ڈھاڈر سے لاپتہ ہوگئے تھے اور یکم اپریل 2011ءکو ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب سے ملی ۔
(16)ظریف فراز :۔بلوچستان کے علاقے تربت سے تعلق رکھتے تھے تربت کے علاقے کلاتک سے ”شاجو“ کے نام سے ایک سہ ماہی میگزین شائع کرتے تھے اور اس کے چیف ایڈیٹر تھے جنہیں 21اپریل2011ءکو گوادر زیر پوائنٹ کے مقام پر نامعلوم افراد نے بس سے اتارا جس کے بعد 25اپریل2011ءکو تربت میں مرغاپ کے علاقے میں ظریف فراز کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش ملی۔
(17)صدیق عیدو :۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی سے تعلق رکھتے تھے صدیق عیدو حب سے شائع ہونیوالے اردو روزنامہ ’ایگل‘ کے لیے مکران میں رپورٹنگ کرتے اور گوادر میں انسانی حقوق کمیشن کے رکن تھے صدیق عیدو اور یوسف نظر 21 دسمبر 2010ءکو اس وقت نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں اغواءہوئے تھے جب وہ گوادر میں ایک عدالت میں پیشی کے بعد پولیس کی تحویل میں واپس پسنی جارہے تھے بلوچستان کے ساحلی شہر اورماڑہ کراس کے قریب 29اپریل2011ء کی صبح مقامی لیویز کو صدیق عیدو اور یوسف نظر کی تشدد زدہ لاشیں ملیں .
(1
منیراحمد شاکر:۔ منیر احمد شاکر چٹھہ قبائل سے تعلق رکھتے تھے ایک طویل عرصہ سے خبر رساں ادارے ” آن لائن انٹر نیشنل نیوز نیٹ ورک“ کےلئے خضدار سے رپورٹنگ کررہے تھے اس کے علاوہ وہ بلوچی زبان کے نیوز چینل ”سبز بات “ کے لئے بھی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ 14اگست2011ءکو منیر کو نامعلوم موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے اس وقت فائرنگ کرکے قتل کردیا جب پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی اپیل پر یوم سیاہ کی رپورٹنگ اور کوریج کرکے پریس کلب کی طرف آرہے تھے بلوچستان کے علاقے خضدار میں آن لائن انٹر نیشنل نیوز نیٹ ورک کے رپورٹر منیر احمد شاکر سمیت تمام صحافیوں کو بلوچ قوم پرستوں بالخصوص بلوچ علیحدگی پسندوں کے پروگراموں میں شرکت اور ان کی کوریج کرنے سے منع کرتے ہوئے بلوچ مسلح دفاعی آرمی نامی تنظیم نے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
(19)اختر مرزا :۔اختر مرزا بلوچستان کے سینئر صحافی اور روزنامہ جنگ کوئٹہ کے ایڈیٹر تھے 16اکتوبر2011ءکو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ اختر مرزا بلوچستان ہائی کے اس فیصلے کے بعد سخت ذہنی دباو¿ میں تھے جس میں ذرائع ابلاغ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع کرنے سے باز رہیںہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کالعدم تنظیموں نے صحافیوں پر دباو¿ ڈالا اور اصرار کیا کہ ان کے بیانات ہر صورت میں نشر اور شائع ہونگے کالعدم تنظیموں کے صحافیوں پر دباو¿ کےخلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹ نے یکم اکتوبر2011ءکو بلوچستان بھر میں احتجاج بھی کیا ۔
(20)جاوید نصیر رند :۔ جاوید نصیر رند بلوچستان کے علاقے حب سے تعلق رکھتے تھے اور کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ توار کےلئے رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کرتے تھے بلوچستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر انہوں نے روزنامہ توار کو خیر باد کہہ دیا اور حب شہر میں انٹر نیٹ کیفے کھولا ،حب کے مقامی صحافی نیاز شہزاد کے مطابق جاوید نصیر اپنے نیٹ کیفے میں بیٹھے تھے کہ10ستمبر2011ءکو مسلح افراد نے انہیں اغواءکرلیا اور ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ غائب رہنے والے جاوید نصیر کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش 05نومبر2011ءکو خضدار گزگی چوک سے برآمد ہوئی ۔
(21)رزاق گل بلوچ :۔ بلوچستان کے ضلع کیچ تحصیل تربت میں سنگانی سر سے تعلق رکھنے والے رزاق گل بلوچ نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز روزنامہ ”توار“ سے کیا بعد ازاں وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہوگئے 18مئی 2012ءکو ایک نامعلوم فون کال سننے کے بعد رزاق گل گھر سے باہر نکلے واپس نہیں پہنچے 19مئی کو علی الصبح گھر کے قریب ان کی لاش ملی ۔
(23) عبدالقادر حاجی زئی :۔عبدالقادر حاجی زئی بلوچی نیوز چینل ”وش“ میں بطور رپورٹر فرائض انجام دے رہے تھے 28مئی کو واشک تحصیل بیسمہ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے لقمہ اجل بن گئے عبدالقادر حاجیزئی کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان بشام بلوچ نے قبول کی اور دعویٰ کیا کہ مذکورہ صحافی بلوچ دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھا اور سرکار کےلئے مخبری کرتا تھا جس پر اسے نشانہ بنایا گیا۔
(24دلشاد دھانی:۔ دلشاد دھانی گوادر پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری تھے اور گذشتہ بارہ سال سے روزنامہ آزادی کےلئے بظور نامہ نگار فرائض انجام دے رہے جنہیں 31اگست2012ءکو کراچی کے علاقے لیاری میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا دلشاد دھانی گوادر سے کراچی پی ایف یو جے کی ایک ورکشاپ میں شرکت کےلئے گئے ہوئے تھے
(25)عبدالحق بلوچ :۔ عبدالحق بلوچ گذشتہ 12سال سے صحافت کے شعبہ سے وابستہ تھے خضدار سے روزنامہ توار ،روزنامہ عوام کوئٹہ اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کےلئے فرائض انجام دے رہے اور خضدار پریس کلب میں جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے 29ستمبر 2012ءکی شام پریس کلب سے گھر کی طرف جارہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا
(26)خالد موسیٰ:بلوچستان کے ضلع کیچ تربت میں کراچی کے موقر اردو روزنامہ’ امت‘ کے نمائندے خالد موسیٰ کو23اکتوبر2012ءنامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے اس وقت موت کی نیند سلادیا جب وہ نماز ظہر ادا کرنے جا رہے تھے قتل کے واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی۔
خضدارپریس کلب کے صدر ندیم گرگناڑی کے دو جوانسال صاحبزادوں 27 سالہ سراج ندیم اور 20 سالہ منظور ندیم پر 25اکتوبر2012 کو نامعلوم مسلح افراد نے خضدار شہر میں اس وقت حملہ کیا جب وہ ایک کار میں عید گاہ روڈ سے گزر رہے تھے فائرنگ سے سراج ندیم موقع پر جاں بحق جبکہ منظور ندیم زخمی ہو گئے تھے منظور ندیم خضدار میں ہی زیر علاج تھے کہ 26اکتوبر2012ء کو زخموں کی تاب نہ لا تے ہوئے چل بسے
(27)عبدالاحد بلوچ:عبدالاحدبلوچ بلوچستان کے ضلع پنجگور سے مو¿قر اردو روزنامہ آج کل کےلئے ایک طویل عرصہ تک فرائض انجام دیتے رہے نامعلوم مسلح افراد نے 15نومبر2012ءکو پنجگور کے علاقے گرمکان میں اندھا دھند فائرنگ کرکے موت کی نیند سلادیا
) (28رحمت اللہ عابد:۔رحمت اللہ عابد گذشتہ پانچ چھ سال سے بلوچستان کے ضلع پنجگور سے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹ پریس پاکستان اور نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے لئے رپورٹنگ کررہے تھے 18نومبر 2012ءکو نامعلوم مسلح افراد نے پنجگور کے علاقے وش بود میں انہیں اس وقت نشانہ بناکر قتل کردیا جب وہ حجام کی دکان سے بال بنوا کر نکل رہے تھے۔
(30)سیف الرحمن بلوچ :۔سیف الرحمن بلوچ نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز روزنامہ آساپ سے کیا ایک طویل عرسہ تک کراچی میں بیورو چیف کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے بعد ازاں کوئٹہ منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے آساپ کے ساتھ وابستگی برقرار رکھی اور پھر نیوز ون کے ساتھ منسلک ہوگئے 2010ءمیں انہوں نے سماءنیوز کے ساتھ وابستگی اختیار 10جنوری 2013ءکو علمدار روڈ پر ہونے والے خود حملہ کی کوریج کےلئے پہنچے اور خود خبر بن گئے علمدار روڈ پر ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی
(31)محمد عمران شیخ: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نجی ٹی وی چینل سماءنیوز کے ساتھ 35سالہ محمد عمران شیخ گذشتہ پانچ سال سے بطور کیمرہ مین اپنے فرائض انجام دے رہے تھے 10جنوری 2013ءکوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر یکے بعد دیگرے ہونے والے بم دھماکوں کی کوریج کے دوران جان بحق ہوگئے بم دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے ترجمان ابوبکر صدیق نے قبول کی
(32)محمد اقبال :۔ محمد اقبال صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ پانچ سال سے خبر رساں ادارے نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل (این این آئی) کے ساتھ بطور کمپیوٹر آپریٹر اور فوٹو جرنلسٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے 10جنوری2013ءکو علمدار روڈ پر ہونے والے بم دھماکے کی کوریج کےلئے گئے جہاں دوسرا دھماکہ ہوا زد میں آکر جاں بحق ہوگئے واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے ترجمان ابوبکر صدیق نے قبول کی ۔
اور ان سب واقعات کے باوجود کوئٹہ کے کسی صحافی نے صحافت سے تعلق ترک نہیں کیا۔