کافر کون؟ (محمد حنیف)
وسطی پنجاب میں ایک تھا شہر، شہر میں ایک تھا ڈاکٹر، ڈاکٹروں کی تھی ایک تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن۔
یہ تنظیم اچھے برے وقتوں میں الیکشن ضرور کرواتی ہے۔ انتخاب ہوئے اور ہمارا ڈاکٹر صدر منتخب ہوا اور صدر بنے کے چند دن بعد ہی اسے گولی مار دی گئی کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ مارے جانے والا ڈاکٹر شیعہ ہے۔ جمہوریت کا سفر جاری رہا۔ انتخاب دوبارہ ہوا نتیجے کو حسن اتفاق اس لیے نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ دوبارہ منتخب ہونے والا صدر بھی شیعہ تھا اور وہ بھی صدر بننے کے چند ہفتے بعد ہی قتل کر دیا گیا۔
انتخاب روک دیا گیا۔ سینیئر ڈاکٹروں کا ایک وفد ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس پہنچا اور فریاد کی کہ اس شہر میں کوئی مسئلہ ہے ہمارے دو ساتھیوں کو یکے بعد دیگرے قتل کردیا گیا ہے کچھ کریں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے فرمایا کہ آپ نے شاید اخبار میں پڑھا ہو ہمارے ایک پولیس کے ایس پی صاحب کو پنجاب کے ایک ضلع میں قتل کر دیا گیا تھا وہ بھی شیعہ تھے۔ ہم سی ایس پی افسروں کا ایک وفد لے کر وزیر اعلیٰ صاحب کے پاس گئے تھے اور عرض کی تھی کہ مسئلہ بڑھتا جارہا ہے کچھ کریں۔ وزیراعلیٰ صاحب نے فرمایا تھا کہ اس مسئلے پر اعلیٰ سطح پر غور ہو رہا ہے جلد بازی سے کام لیں گے تو فرقہ واریت پھیلنے کا خدشہ ہے۔ تو میں بھی آپ سے یہی کہ سکتا ہو کہ تھوڑا صبر کریں غور و فکر جاری ہے۔
یہ کہانی بیس سال پرانی ہے پاکستان میں شیعہ برادری کو اس سے پہلے بھی نشانہ بنایا جارہا تھا، اب بھی بنایا جا رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ غور و فکر آج بھی جاری ہے۔
اس بحث میں یہ سوال شامل نہیں ہے کہ شیعہ برادری کو کون نشانہ بنارہا ہے۔ کافی عرصے تک ہندوستان اسرائیل وغیرہ کے نام لیے جاتے رہے لیکن مارنے والوں کے اعترافات اتنے بلند آواز ہیں، ان کے لہجے اتنے مقامی ہیں اور وہ جس دھڑلے سے پاکستان کی مساجد، اس کے گلی کوچوں میں اپنے کارناموں پر فخر کرتے ہیں اور اس مشن کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں اس سے کسی کے ذہن میں یہ شک نہیں رہا کہ کم از کم تین دہائیوں سے جاری اس شیعہ کش مہم کی فکری بنیاد ہو سکتا ہے کہیں اور پڑی ہو۔ ریال اور دینار شاید ہمارے برادر اسلامی ملکوں سے آئے ہوں، لیکن اب یہ مقامی مشن ہے اور اب اس کے تانے بانے سپاہ صحابہ کے مسجد اور مدرسوں سے نکل کر بازاروں میں پڑے چندے کے ڈبوں، عدالتوں میں سہمے ہوئے ججوں سے ہوتے ہوئے خفیہ اداروں کے ان مفکروں تک جا ملتے ہیں جو اپنے آپ کو ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ کہتے ہیں۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ نظریاتی سرحدیں اب اتنی سکڑ گئی ہیں کہ اس میں صرف دیوبندی نظریہ بھی پوری طرح سما نہیں پا رہا۔
لیکن غور و فکر بہرحال جاری ہے۔ زیادہ تر دانشور حلقے اس بات پر بحث کرتے پائے جاتے ہیں کہ اس شیعہ کش مہم کو کیا کہنا چاہیے۔
1- کیا یہ ایک قتل عام ہے؟
2- کیا انہیں چن چن کر مارا جا رہا ہے؟
3- کیا یہ شیعہ نسل کشی کی مہم ہے؟
4- یا یہ محض ملک دشمنوں کا پروپیگنڈا ہے۔ مر تو یہاں ہر کوئی رہا ہے پھر شیعہ اتنا شور کیوں مچا رہے ہیں؟
اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ مت کہو شیعہ مارا گیا، یہ کیوں نہیں کہتے مسلمان مارا گیا۔ لیکن یہ کہنے والے محب وطن خود شیعہ نہیں ہوتے اور انہیں غالباً اندر سے یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ مارنے والوں کا نام نہیں لیں گے تو جان کی امان پائیں گے۔
شیعہ نہیں پاکستانی مارے جا رہے ہیں کی پالیسی پر عمل کر کے انشورنس پالیسی لینے والوں میں سادہ دل محب وطن پاکستانی ہی نہیں بلکہ وہ شاطر سیاستدان بھی شامل ہیں جو چند ووٹوں کے لیے پورے ملک کی شیعہ آبادی کی جانوں کا سودا کرنے کو تیار ہیں اور وہ سینیئر صحافی بھی جو تیس سال سے اس مہم کے گواہ ہیں لیکن قاتلوں کا نام لیتے ہوئے یوں شرماتے ہیں جیسے پردہ دار بیویاں اپنے شوہر کا نام لیتے ہوئے شرماتی ہیں۔
پہلے چن چن کر مارنے والوں کا ہاتھ روکنے والا نہیں رہا تو ان کے حوصلے بلند ہوئے اور قتل عام شروع ہوا جب اس پر بھی پورا معاشرہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا کہ نہیں یہ تو عام پاکستانی مر رہے ہیں تب نسل کشی کا ایسا ماحول بنا کہ ایسے لوگ جن کے دل فرقہ واریت سے پاک ہیں، جو محرم کی سبیل سے شربت کا گلاس پی لیتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ شیعہ نہیں پاکستانی مارے جا رہے ہیں اور اس کے پیچھے بھی ایک سازش ہے۔
ربط