’ایک ہزار سے زائد شیعہ ہزارہ ہلاک، دو لاکھ نقل مکانی پر مجبور‘
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رہائش پذیر ہزارہ برادری اپنے عقیدے اور نسل دونوں کی بنیاد پر نشانہ بنائی جا رہی ہے اور اب تک جہاں ایک ہزار سے زائد شیعہ ہزارہ اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں وہیں ہزارہ تنظیموں کے مطابق دو لاکھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں یا پھر بیرونِ ملک پناہ لی ہے۔
پاکستان میں حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم ادارے ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے مطابق 1999 سے 2012 تک تیرہ برس کے عرصے میں آٹھ سو شیعہ ہزارہ ہلاک کیے گئے جبکہ رواں برس کے ابتدائی چند ہفتوں میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں دو سو سے زائد افراد کی جان گئی۔
کوئٹہ میں قیام پذیر ہزارہ رہنما عبدالقیوم چنگیزی کا کہنا ہے کہ جہاں ہلاک ہونے والے ہزارہ افراد میں سے اسّی فیصد اپنے عقیدے کی بنا پر نشانہ بنائے جاتے ہیں وہیں بیس فیصد ہلاکتوں کی بنیاد نسلی ہے۔
ہزارہ برادری کی تنظیم ہزارہ قومی جرگہ اور شیعہ تنظیم قومی یکجہتی کونسل کے اعدادوشمار کے مطابق جان و مال کو درپیش خطرات کی وجہ سے 1999 سے لے کر اب تک تقریباً دو لاکھ ہزارہ بلوچستان چھوڑ کر پاکستان کے دیگر شہروں میں منتقل ہوئے یا پھر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
نقل مکانی کرنے والے ہزارہ خود تو شہر چھوڑ آئے ہیں لیکن اب انہیں یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والے نہ جانے کب نشانہ بن جائیں۔
زینب خود تو اسلام آباد آ گئیں تاہم ان کی والدہ اور بہن کوئٹہ میں ہی ہیں۔ ’میری بوڑھی ماں اور اکیس سالہ بہن اکیلے رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے اپنے دونوں بھائیوں کو پاکستان سے باہر بھجوا دیا ہے۔‘
زینب پاکستان سے باہر چلے جانے کے باوجود اپنے بھائیوں کے بارے میں اس خدشے کے تحت بات کرنے کو تیار نہ تھیں کہ انہیں پاکستان سے باہر بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ خوف ایسا ہے کہ پاکستان سے ہزاروں میل دور چلے جانے کے باوجود ہزارہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ پچیس سالہ بتول گذشتہ سال امریکہ پہنچیں۔ انہوں نے اپنے خاندان کو نہیں بتایا تھا کہ وہ یہاں مستقل رہنے کے لیے آئی ہیں۔
ڈیڑھ ماہ تک دربدر ٹھوکریں کھانے کے بعد انہوں نے نیویارک کے علاقے کوئینز میں خواتین کے لیے قائم کردہ مسلم شیلٹر میں رہائش اختیار کی۔ وہ اب سیاسی پناہ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں مگر جنہیں پیچھے چھوڑ آئیں انہیں بھولنا بتول کے لیے بہت مشکل ہے۔
’یہ میرے لیے بہت مشکل فیصلہ تھا۔ میں جب خبروں میں کوئٹہ کے ہزارہ قبرستان کی تصویریں دیکھتی ہوں، تو تسلیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ اتنے سارے لوگوں کو میں جانتی تھی وہ اب ہم میں نہیں ہیں۔‘
ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف کے مطابق بلوچستان میں شیعہ ہزارہ آبادی کو زیادہ تر کوئٹہ اور مستونگ میں نشانہ بنایا گیا ہے اور ان اضلاع میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کی واضح موجودگی ہے۔
رواں برس کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں پہلے علمدار روڈ اور پھر کرانی روڈ پر ہونے والے دونوں بڑے دھماکوں کی ذمہ داری بھی لشکرِ جھنگوی نے ہی قبول کی ہے۔
بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اکبر درانی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دو واقعات کو روکنے میں انٹیلیجینس کی کمزوری ضرور تھی۔’ان تمام دنوں میں جب ہائی الرٹ رہا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اس بار دہشت گردوں نے بارودی مواد تیار کرنے کے لیے نیا طریقہ استعمال کیا، جس کی ہمارے پاس معلومات نہیں تھیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا یہ کمزوری کی بجائے ناکامی نہیں، انہوں نے کہا ’جائز سوال ہے کہ خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں۔ دراصل ہم ایک واقعے کو دیکھ رہے ہیں، ان نو واقعات کو نہیں دیکھتے جو روکے گئے۔ ہم نے شہریوں کو ان ممکنہ واقعات سے محفوظ رکھا ورنہ اس سے کئی گنا زیادہ نقصان ہوتا۔اس طرح ہم ایجنسیوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔‘
ہزارہ رہنما بھی ان دھماکوں کو صرف انٹیلیجنس کی ناکامی قرار دینے کے حق میں نہیں۔ اسلام آباد میں مقیم نوجوان ہزارہ رہنما سجاد چنگیزی کا کہنا ہے کہ ’ہم بار بار کہتے رہے ہیں کہ یہ ایک ستون کی ناکامی نہیں ہے۔ پولیس انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہتی ہے، عدلیہ بھی انہیں سزا دینے میں ناکام ہے۔ اسمبلیوں میں قانون سازی نہیں ہوتی اور خفیہ ادارے ان کو چھوٹ دیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پاکستانی ریاست اسی طرح نااہل رہی، تو بلوچستان سے ایک اقلیتی برادری کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ہزارہ قبیلے کی وجود کو خطرہ لاحق ہے تاہم، ہم آخری دم تک پرامن طریقے سے مزاحمت کریں گے۔‘