پرسوں ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نیویارک میں ہنگامی طور پر ہسپتال کی ضرورت پڑگئی تھی اور اس مقصد کیلئے آرمی کور آف انجینئرز سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے شب و روز محنت کے بعد نیویارک کنونشن سنٹر میں 2900 بستروں کا ہسپتال تیار کرلیا۔
یہ تھا امریکہ، جہاں کے سول ادارے پاکستان سے کروڑ درجے بہتر ہیں، جہاں ٹیکنالوجی اور وسائل ہم سے کئی ہزار گنا بہتر ہیں۔ وہاں ایک ہنگامی ہسپتال بنانے کیلئے آرمی کی خدمات لینا پڑیں۔
دوسری طرف صوبہ پنجاب کی کارکردگی ملاحظہ ہو۔ یہاں ایک ہزار بستروں کا موبائل ہسپتال اللہ کی مہربانی سے صرف نو دن میں بنا لیا گیا جس میں محکمہ صحت پنجاب، ریسکیو 1122 اور ضلعی انتظامیہ شامل تھی اور اس میں آرمی سے کسی قسم کی مدد نہیں لی گئی۔
یہ تصاویر نیویارک کے ہسپتال کی نہیں بلکہ پنجاب حکومت کے تعمیر کردہ فیلڈ ہسپتال کی ہیں۔ کوالٹی اور جدت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
ہزار بستروں کا یہ فیلڈ ہسپتال کرونا کے مریضوں کیلئے وقف ہوگا جہاں تین وقت کا کھانا اور علاج کی جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
بات نیت کی ہے۔ 90 کی دہائی میں نوازشریف دور میں بجلی کی میٹر ریڈنگ کا کام بھی فوج کو سونپ دیا جاتا تھا، شہبازشریف کے حالیہ دور میں ڈی جی خان میں ایک بدمعاش کا مقابلہ کرنے کیلئے فوج طلب کرلی گئی۔ جب جب سیلاب آیا، سول انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتی تھی اور فوج کو آگے کردیا جاتا تھا۔ سندھ میں امن و امان ابھی تک رینجرز کی ذمے داری ہے، سندھ حکومت کرونا کے سلسلے میں جمعہ کی نماز روکنے کیلئے ہر مسجد کے باہر فوج تعینات کرنے کا پلان بنا رہی ہے۔ راشن کی تقسیم بھی فوج کے ذریعے کرنے کا منصوبہ ہے۔
یہ وہ صوبہ ہے جہاں پیپلزپارٹی مسلسل تیسری ٹرم لے رہی ہے۔
عثمان بزدار کے ساتھ تمام تر اختلافات کے باوجود ماننا پڑے گا کہ اس نے پنجاب کو ابھی تک سول انتظامیہ کے ذریعے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ ایک ہزار بستروں کا فیلڈ ہسپتال ریکارڈ مدت میں اور جدید سہولیات سے آراستہ صرف اور صرف سول انتظامیہ کی مدد سے تیار کرلینا عمران خان کی اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جب لیڈرشپ ٹھیک ہو تو اداروں کی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے۔
ویل ڈن، عثمان بزدار!!! بقلم خود باباکوڈا