مقدس
میں لائبریری میں پوسٹ نہیں کرسکتا ۔ اس لئے یہاں پوسٹ کررہا ہوں اور اب میں @شگفتہ بہن کو ٹیگ کررہا ہوں
سے اگر کوئی عربی فارسی جماعتوں میں آنکلتا اور آنکھ بچا کر پانی پی لیتا تو مولوی لوگ مٹکے تڑوالے ڈالتے۔
ہر چند تعصبات ِ لغو کی کوئی حد نہ تھی ‘ بایں ہمہ انگریزی حکومت جیسے ان دنوں کی مطمئن تھی‘ آئندہ تابقائے سلطنت انگریزوں کو خواب میں بھی نصیب ہونے والی نہیں۔ لوگوں کو مفید و مضر کے تفرقے کا ‘ برے بھلے کے امتیاز کا سلیقہ نہ تھا۔ سرکار بہ منزلہ مہربان باپ کے تھی اور بھولی بھالی رعیت بجائے معصوم بچوں کے ۔ انگریزی کا پڑھنا ہمارے بھائی بندوں کے لئے کچھ ایسے نا سزا وار ہوا جیسے آمد اور اس کی نسل کے ھق میں گہیوں کا کھا لینا۔ گئے تھے نماز معاف کرانے ‘ الٹے روزے اور گلے پڑے۔ انگریزی زبان‘ انگریزی وضع کو اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس غرض سے کہ انگریزوں کے ساتھ لگاوٹ ہو‘ اختلاط ہو‘ مگر دیکھتے ہیں تو لگاوٹ کے عوض رکاوٹ ہے اور اختلاط کی جگہ نفرت۔ حاکم و محکوم میں کشیدگی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ” دریا میں رہنا مگر مچھ سے بیر“ ۔ دیکھیں آخر کار یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
ذرا مشکل سے اس بات کا پتہ لگے گا کہ کون سی چیز ابن الوقت کو انگریزی وضع اختیار کرنے کی محرک ہوئی۔ وہ ایک ایسے خوشحال اور شریف خاندان کا آدمی تھا جس کے لوگ پاس وضوع کو شرط ِ شرافت سمجھتے تھے۔ شرف ِ علم ان میں متوارث تھا۔ اس خاندان کے لوگ بعض طبیب تھے ‘ بعض مدرس( سرکاری نہیں) بعض مفتی‘ بعض واعظ‘ بعض حافظ‘ بعض صاحب سجادہ طریقت ۔ الغرض ‘ ابن خانہ تمام آفتاب است ‘ لوگ سب نہیں تو اکثرو للاکثر حکم الکل ‘ ہر طرح کے ہنروں سے متصف اور ہر طرح کے کمالات سے متجلی تھے۔ شاہی قلعہ ان سب کے معاش کا متکفل تھا۔ انگریزوں کے ساتھ ان لوگوں کو اگر تعلق تھا تو اسی قدر کہ انگریزی عمل داری میں رہتے تھے ‘ وہ بھی اپنے زعم میں نہیں ۔
ابن الوقت کے کالج میں داخل ہونے کا بھی یہ سبب ہوا کہ شہر کے مشاہیر جو عربی فارسی میں مستند تھے سرکار نے چن چن کر سب کو پابند مدرسہ کرلیا تھا۔ پس ابن الوقت مدرسے میں داخل کیا گیا نہ اس غرض سے کہ مدرسے کی طالب العلمی کو ذریعہ معاش قرار دے کر بلکہ صرف اس لیے کہ اس کی عربی فارسی ٹکسالی ہو ۔ ابن الوقت اپنے وقت کے منتخب نہیں بھی تو اچھے طلباءمیں شمار کیا جاتا تھا۔ مناسب طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض ہم جماعت اس سے خاص خاص چیزوں میں اچھے بھی تھے مگر اس کے مجموعی نمبر کبھی کسی سے ہیٹے نہیں رہے ۔ وجہ کیا تھی کہ جس قدر وہ ریاضی میں کچا تھا ‘ تاریخ‘ جغرافیہ ‘ سیاست مدن ‘ اخلاق وغیرہ سے جن کا اس کو شوق تھا‘ اس خامی کی تلافی بخوبی ہوتی رہتی تھی۔ مدرسے کی ساری پڑھائی میں اس کی پسند کی چیز تاریخ تھی‘ کسی ملک اور کسی وقت کی کیوں نہ ہو۔ اس کی طبیعت عام باتوں میں خوب لگتی تھی۔ جواب مضمون پر ہر سال ایک نقرئی تمغہ ملا کرتا تھا۔ چھ سال ابن الوقت مدرسے میں رہا‘ کسی برس کسی وقت اس نے وہ تمغہ انگریزی‘ عربی‘ فارسی‘ سنسکرت میں کسی کو لینے ہی نہیں دیا۔ جب موقع ملتا تھا ابن الوقت پرانی دلی کے کھنڈروں میں تعطیل کے دنوں کو ضرور صرف کرتا۔غیر ممالک کے لوگ تجارت‘ سیاحت یا کسی دوسری ضرورت سے شہر میں آنکلتے تو ابن الوقت اوبداًان سے ملتا اور ان کے ملک کے حالات و عادات کی تفتیش کرتا۔ اس کا حافظہ معلومات تاریخی کے ذخیرے سے اس قدر معمور تھا کہ وہ معمولی بات چیت میں واقعات زمانہ گزشتہ سے اکثر استشہاد کیا کرتا۔ ایک بار اس نے باتوں ہی باتوں میں سلیٹ پر اپنی یاداشت سے ایشیا کا نقشہ کھینچا اور مشہور شہروں اور پہاڑوں اور دریاﺅں کے مواقع اس میں ثبت کئے ۔ پھر جو ملا کر دیکھا تو بہ تفاوت ِ یسیر اکثر صحیح ۔وہ دنیا کی قوموں اور ذاتوں اور رسموں کی ٹوہ میں لگا رہتا۔ مذہب کے بارے میںاس کی معلومات کتاب الملل و النمل سے کہیں زیادہ تھی ۔جب کوئی کتاب جماعت میں شروع ہوتی ‘اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ اس کا مصنف کون تھا‘ کہاں کا رہنے والا تھا‘ کس زمانے میں تھا‘ کس سے اس نے پڑھا‘ اس کے معاصر کون کون تھے‘ اس کی وقاع عمری میں کون کون سی بات قابل یادگار ہے ۔
تعزز اور ترفع ابن الوقت کے مزاج میں اس درجے کا تھا کہ لوگ اس کی خود داری کو منجربہ کبر خیال کرتے ۔ دوسرے کا احسان اٹھانے کی اس کو سخت عار تھی‘ یہاں تک کہ وہ استاد کی بجائے کسی ہم جماعت سے پوچھنے تک میں مضائقہ کرتا۔ وہ ہمیشہ ایسے مدرس کی جماعت میں رہنا چاہتا جس کی پرنسپل زیادہ عزت کرتا ہو اور اسی سبب سے وہ کئی بار عربی سے فارسی اور فارسی سے عربی میں بدلتا پھرا۔