کون ہے جو محفل میں آیا ( 35)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زین

لائبریرین
اتنی بڑی تقریر ٹائپ کرنی پڑی ۔ اعداد و شمار کی جادو گری نے دماغ کا دہی بنادیا ۔
کوئٹہ :
مالی سال10-2009کے لئے بلوچستان کا 74ارب24کروڑ70لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15فیصد اضافہ اور4212نئی آسامیوںکا اعلان کیا گیا ہے‘بجٹ میں8ارب 33کروڑ24لاکھ سے زائد خسارہ ظاہر کیا گیا ہے جس کو کم کرنے کے لئے وفاقی حکومت 6ارب روپے امداد فراہم کرے گی ‘بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا‘ترقیاتی منصوبوں کے لئے 18ارب53کروڑ60لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں5ارب 17کروڑ45لاکھ کی بیرونی پراجیکٹ امداد بھی شامل ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 53ارب8کروڑ12لاکھ74ہزار روپے ‘ آمدنی کا مجموعی تخمینہ 59ارب 5کروڑ41لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر خزانہ میر عاصم کرد گیلو نے ہفتہ کو اسپیکر محمد اسلم بھوتانی کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 10-2009 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال10-2009کے مجوزہ صوبائی بجٹ کا مجموعی حجم74ارب24کروڑ70لاکھ روپے ہے ۔اس میں صوبائی ترقیاتی بجٹ 18ارب 53کروڑ 60لاکھ روپے کا ہے ۔جس میں 5ارب 17کروڑ 45لاکھ کی بیرونی پراجیکٹ امداد بھی شامل ہے ۔جبکہ جاری اخراجات کا تخمینہ 53ارب 8کروڑ 12لاکھ 74ہزار روپے کا ہے ،آمدنی کا مجموعی تخمینہ 59ارب 5کروڑ 41لاکھ روپے ہے ،ان میں صوبائی وسائل سے حاصل آمدنی 3ارب 64کروڑ 56لاکھ 65ہزار روپے ہے ۔جبکہ وفاقی محاصل سے حاصل رقم کا تخمینہ 55ارب 40کروڑ 84لاکھ 36ہزار روپے ہے ۔صوبائی وسائل سے حاصل آمدنی کی تفصیلات کے مطابق محصولاتی آمدنی 1ارب 13کروڑ 26لاکھ 71ہزار روپے جبکہ غیر محصولاتی آمدنی 2ارب 51کروڑ 29لاکھ 94ہزار روپے ہے ۔وفاق سے براہ راست منتقلیاں 12ارب 22کروڑ 79لاکھ 99ہزار روپے ،گرانٹس یا امداد 13ارب 97کروڑ 55لاکھ روپے ،قابل تقسیم ٹیکسوں میں حصہ 29ارب 20کروڑ 49لاکھ 37ہزار روپے ہے ۔اس طرح صوبے کی کل آمدنی کا تخمینہ 65ارب 91کروڑ 40لاکھ روپے ہے۔یوں بجٹ 2009-10کا خسارہ 8ارب 33کروڑ 24لاکھ 86ہزار روپے کا ہے ۔وفاقی حکومت نے تین ارب بجٹری سپورٹ اور 3ارب عوامی نمائندوں کا ترقیاتی پروگرام /پی آر پی کا اعلان کر رکھا ہے ۔اس سے بجٹ کا خسارہ کم ہو کر 2ارب 33کروڑ 24لاکھ 86ہزار روپے رہ جائے گا ۔جسے صوبائی وسائل سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ روزگار کے سہولیات مہیا کرنے کے لئے اگلے سال4212آسامیاں پیدا کی جارہی ہیں ،انہوں نے کہا کہ عوام کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلے سال کے لئے ٹیکس فری بجٹ دیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اگلے سال کے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے 50ارب روپے مختص کرنے کا حکم دیا ہے،رواں مالی سال کے بقایا 21ارب روپے بھی اگلے سال میں جاری کئے جائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ اقتصادی مندی اور امن و امان پر اٹھنے والے زائد اخراجات کے باوجود صوبائی حکومت نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں کوئی کٹوتی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ کم از کم پنشن150روپے سے بڑھا کر1000اور 300سے بڑھا کر2000روپے کیا گیا ہے اس فیصلے سے سرکاری خزانے پر400ملین روپے کا مزید بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد ایڈہاک ریلیف الاﺅنس کا اعلان کیا ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں اس سال تقریباً ایک ہزار نئی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں ‘پنجگور ، نوشکی اور کوہلو میں تین کیڈٹ کالجز بہت جلد کام شروع کردیں گے ‘اگلے سال سے 76ملین کی لاگت سے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو اسکالر شپ کا اجراءکیا جارہا ہے جس کے تحت 240ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے طلباءکو وضائف دیئے جائیں گے ‘109 پرائمری اسکولوں کو مڈل کا درجہ اور 108مڈل اسکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دینے ‘4انٹر کالجز کو ڈگری کالج دیا جائےگا‘111نئے اسکول جبکہ 14نئے انٹر کالجز قائم کئے جائیں گے‘پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی گرانٹ 150ملین روپے سے بڑھا کو 200ملین روپے کردی گئی ‘صحت کے 19جاری اور71نا مکمل منصوبوں کی تکمیل کے لئے324.01ملین مختص کئے گئے ‘شعبہ زراعت کے مختلف منصوبوں کے لئے295.386ملین کی رقم دی گئی ہے ‘ صوبے کے تمام دیہی آبادی کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لئے 264.072ملین کی نئی اسکیموں کا اجراءاور 25.740 ملین کی لاگت سے 13گزشتہ نا مکمل اسکیمات کی تکمیل ہوئی ہے ، اگلے سال سے صوبے کے دور دراز علاقوں کے شہید بے نظیر بھٹو واٹر سپلائی سکیم کا آغاز کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک اسکیم کے تحت بلوچستان میں100ڈیم تعمیر ہوں گے۔ اس سال کوئٹہ میں اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کے لئے 100ایکڑ زمین محکمہ کو الاٹ کردی گئی ہے جبکہ 550ملین کی لاگت سے نوجوانوں کے لئے ایک مکمل ٹرینگ سینٹر کی تعمیر کا کام مکمل کرلیا گیا ، انہوں نے کہا کہ خوراک کی مد میں سالانہ600 ملین کی سبسڈی کی رقم اگلے سال سے 600ملین سے بڑھا کر ایک ارب کی جارہی ہے ‘سڑکوں کی تعمیر کے لئے 4817.718ملین کی لاگت سے 196اسکیمات پر جاری ہیں ‘کوئٹہ میں ٹریفک جام کا مسئلہ حل کرنے کے لئے شہر میں کوئلہ پھاٹک اور سریاب میں دو فلائی اوورزتعمیر کیے جانے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی بحالی پر اب تک 2.13ارب روپے خرچ ہوئے ہیں ،وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مالی سال کے دوران68.225ملین روپے دہشتگردی کے متاثرین میں تقسیم کئے جاچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان سیاسی افہام و تفہیم کے لئے ناراض بھائیوں سے مذاکرات کئے جارہے ہیں ‘ صوبائی حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں اب تک126افراد کے بارے میں پتا لگایا جاچکا ہے ۔وزیرخزانہ میر عاصم کرد گیلونے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ موجودہ حکومت کو مالی بحران گزشتہ حکومت سے ورثے میں ملا،مخلوط حکومت نے محمد اسلم خان رئیسانی کی قیادت میں اپنے پہلے بجٹ کے فوراً بعد صوبہ کی مجموعی مالی ، انتظامی اور امن وامان کی صورتحال پر توجہ مرکز کی،انہوں نے کہا کہ ہم نے مالی صورت حال کو بد حال پایا حکومتی عملداری اور انتظامی مشینری تقریباً غیر فعال ہوچکی تھی ۔ بلوچستان کو21ارب روپے کی خطیر رقیم اوور ڈرافٹ کا سامنا تھا جو کہ بڑھتا ہی جارہا تھا اور جس کی ادائیگی میں صوبہ کے ناکافی وسائل کا ایک بڑا حصہ ادا کرنا پڑرہا تھا۔اس سے نہ صرف ہمارے ترقیاتی اخراجات پر برا اثر پڑرہا تھا بلکہ جاری اخراجات بھی متاثر ہورہے تھے۔امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی، سابقہ ادوار کی حکومتی عدم دلچسپی، اندرونی بے چینی، بیرونی اور علاقائی خلفشار اور حکومتی مشینری کو غیر مستحکم کررہے تھے۔ حکومتی عمل داری میں روز افزوں کمی واقع ہورہی تھی۔نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی حکومت نے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کی بجائے ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں ایک دوہری حکومت حکمت عملی واضع کی جس کے طمابق ایک طرف کمزور اقتصادی صورتحال کو سنبھالا اور دوسری جانب حکومت سے اختلافات رکھنے والی ناراض سیاسی قوتوں سے با معنی مفاہمت کے عمل کا آغازکیا۔ صوبائی حکومت کو درپیش مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی استحکام کے بغیر کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یہ مانتے ہوئے جناب وزیراعلیٰ نے اوور ڈرافٹ کو آسان قرضہ میں بدلنے کی کوششوں کا آغاز کیا ۔ وہ اس سلسلہ میں وفاقی حکومت سے متواتر رابطہ میں رہے۔اسی مقصد کے لئے وہ گورنر اسٹیٹ بنک کے پاس کراچی تشریف لے گئے۔ اس کے نتیجہ میں گورنر صاحبہ کی کوئٹہ آمد پر اوور ڈرافٹ کو آسان قرضہ میں بدلنے کے معاہدہ کو حتمی شکل دی گئی۔ اسٹیٹ بنک نے بلوچستان کے لئے مہیا ویز اینڈ مینز(ways and meas) کی سہولت کو1.7ارب سے بڑھا کر 2.5ارب کردیا۔ یوں صوبہ کے لئے کچھ مالی گنجائش پیدا ہوئی۔اوور ڈرافٹ کا آسان قرضہ میں تبدیلی کی سہولت کے باوجود ہمیں اس واجب الادا رقم پر ماہانہ350ملین روپے ادا کرنے پڑرہے تھے جو کہ ہمارے محدود وسائل پر ایک بھاری بوجھ تھا۔اس دوران آپ کی حکومت اس کمر توڑ مالی بوجھ سے نجات کے لئے کوشاں رہی ۔عاصم کرد گیلو نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر انہوں نے صدر مملکت جناب آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے صوبہ کی مالی مشکلات ان کے سامنے پیش کیں اور ان سے ذاتی توجہ کی درخواست کی ۔ صدر نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مشیر برائے مالیات جناب شوکت عزیز کی مشاورت سے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اوورڈرافٹ کی17.4ارب کی رقم چھ ماہ تک منجمد رہنے کے بعد ادائیگی وفاقی حکومت کے ذمے ہوگی۔یہ تعاون صدر مملکت اور جناب وزیراعظم کی جانب سے ہمارے لئے ایک بیش قیمت تحفہ تھا۔ جس سے ہمیں ایک بڑھتے ہوئے نا قابل برداشت مالی بوجھ سے چھٹکارا حاصل ہوا۔ اور اب ہم اس قابل ہیں کہ اوور ڈرافٹ کی مد میں ادا کئے جانے والے350ملین کی رقم اس عوام کی بہبود پر خرچ کرسکیں ۔سیاسی افہام و تفہیم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب تک صوبہ میں سیاسی افہام و تفہیم کا ماحول نہ ہو کوئی کام روانی سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ معاشی و اقتصادی امور پر بھر پور توجہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت سب کو ساتھ لے کر چلے۔ ناروا حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمارے کچھ دوست یا تو زیر حراست تھے یا ان پر صوبے میں اور صوبے کے باہر مقدمات بنائے گئے تھے ۔ نواب محمد اسلم رئیسانی نے حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی متعلقہ محکموں کو ہدایت جاری کی کہ ان معاملات کی چھان بین کی جائے اور اہم رہنماﺅں کیءرہائی کے قانون کے مطابق انتظامات کئے جائیں۔ہم نے اپنے نالاں بھائیوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے جو اقدامات کئے، ان میں قید سیاسی رہنماﺅں اور سیاسی کارکنان کی رہائی اور ان کے خلاف درج مقدمات کی واپسی،امن عامہ کے قانون کے تحت نظر بند سیاسی کارکنان کی رہائی، کوئٹہ شہر اور صوبہ کے دیگر مقامات سے فرنٹیئر کور کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہے ۔ لاپتہ افراد کے اہم ترین مسئلے کو ہم نے وفاقی حکومت کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر اٹھایا ۔ جس کے نتیجے میں اب تک126افراد کے بارے میں پتا لگایا جاچکا ہے اور دیگر کے بارے میں ہماری انتھک کوششیں جاری ہیں۔ عاصم کرد گیلو نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومت جلد اس کوشش میں کامیاب ہوجائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی اور اپنی کابینہ کے بھر پور تعاون سے ناراض سیاسی قیادت کو گفت و شنید پر آمادہ کرنے کے لئے رابطوں کا آغاز کیا ۔کیونکہ ہم سب کا ایک ہی مقصد یعنی بلوچستان کی بہتری اور روشن مستقبل ہے۔ہمیں امید ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوں گے۔وفاقی مالی معاونت کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کے اقتصادی مستقبل کا دارو مدار بلوچستان پر ہے ۔ ایک ترقی یافتہ بلوچستان ہی پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری ان ہی کوششوں کے نتیجے میں وزیراعظم نے اگلے سال کے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے 50ارب روپے مختص کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔علاوہ ازیں رواں مالی سال کے بقایا 21ارب روپے بھی اگلے سال میں جاری کئے جائیں گے۔ یہ احساس ایک خوش حال مستقبل کی نوید ہے جس سے ترقی کے عمل کو فروغ ملے انہوں نے کہا کہ عالمی اقتصادی مندی سے پاکستان بھی متاثر ہوا ہے یوں اس مندی کے اثرات بلوچستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ سب کچھ درست نہیں رہا ہے تاہم اقتصادی مندی اور امن و امان پر اٹھنے والے زائد اخراجات کے باوجود نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں قائم صوبائی حکومت نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں کوئی کٹوتی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ اس جمہوری حکومت کے لئے عوامی امنگوں پر پورا اترنا یوں آسان نہیں کہ ہمارے پاس وسائل کی شدید قلت ہے ہمارے معاشرتی و اقتصادی اشارات ملک میں نچلی ترین سطح پر ہیں ویسے بھی گزشتہ 62سالوں سے جو خلا پیدا ہوتا آرہا ہے اسے پُر کرنا آسان نہیں ۔ صرف آبادی کی بنیاد پر ملکی وسائل کی تقسیم سے معاملات بہتر انداز میں حل نہیں ہوسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت کا دوسرے سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جناب محمد اسلم خان رئیسانی کی قیادت میں قائم اس حکومت نے اپنے طے شدہ اہداف کے حصول میں پوری جان فشانی سے کوشش کی ہے۔اس حکومت کی ذمہ داریوں میں عوامی بہبود سر فہرست ہے ۔ ہم عوامی امنگوں سے بخوبی آگاہ ہیں جن میں اہم روزگار کے مواقع، غربت کا خاتمہ، زراعت و امور حیوانات کی ترقی،صحت، تعلیم اور پینے کا صاف پانی کی فراہمی شامل ہیں ، ان تمام مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم پوری طرح کوشاں ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم اپنے صوبے کی محصولات بڑھانے اور اخراجات کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کررہے ہیں تاکہ بچت سے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکیں ۔ اپنے اخراجات پر کڑی نظر رکھنے کے نتیجے میں اس سال ہم نے جاری اخراجات میں1.47بلین روپے کی بچت کی ہے ۔ یہ بچت اس کے باوجود ہے کہ اس سال سرکاری مشینری میں دو نئے محکموں اور چھ ڈویژنل کمشنروں کے دفاتر کا اضافہ ہوا ہے ۔ مزید یہ کہ اس سال صوبے اپنے محصولات کا ہدف3.47بلین روپے حاصل کرنے میں کامیاب ہو اہے۔قومی ادارہ احتساب (نیب) کے برآمد شدہ رقم سے صوبہ کا حصہ170.385ملین روپے وصول کیے گئے ہیں۔مختلف سرکاری محکموں کے غیر فعال پرائیوٹ بنک اکاﺅنٹ میں پڑے3ارب روپوں کا سراغ لگایا گیا ہے ۔ اور یہ رقم صوبائی حکومت کو منتقل کی جارہی ہے۔اس ایک مضبوط، موثراور عوام میں مقبول قانون پر عمل درآمد کروانے والی فورس وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ امن عامہ، تحفظ جان و مال اور آبرو کو یقینی بنانے کے لئے ہم نے لیویز فورس کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ لیویز کا پولیس میں انضمام میں زمینی حقائق کے بر خلاف تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس فیصلے سے امن وامان کے حالات بہتر ہوں گے اور سرمایہ کار بلوچستان میں اعتماد بحال ہوگا۔ اسی طرح گڈ گورنس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے طے شدہ فوائد کے حامل ڈویژنل کمشنرز کو بھی بحال کیا ہے ۔ اس سے نہ صرف نگرانی اور رابطے بہتر ہوں گے بلکہ فوری اور موثر فیصلہ سازی میں بھی مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ضلعی حکومتی نظام سے پہلے رائج نظام میں ضلع کا سربراہ امن و امان اور دیگر امور کے لئے ذمہ دار ہوتا تھا۔ ضلعی حکومتی نظام سے ضلعی سربراہ کے تمام اختیارات بشمول مجسٹریٹ کے اختیارات کے تقسیم ہوگئے ہیں ۔ اس سے انتظامی امور میں خلل واقع ہوا ہے ۔ ان مشکلات سے نمٹنے، بہتر نظم و نسق اور عوامی مسائل کے فوری حل کے لئے ہم نے ایگزیکٹیو مجسٹریسی کے نظام کو بحال کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو سفارشات پیش کردی ہیں۔ اسی طرح پولیس آرڈر 2002میں پائے جانے والے کمزوریاں دور کرنے اور اس آڈر میں اشد ضروری ترامیم کے لئے بھی سفارش کی گئی ہے ۔ہم نے بڑی توجہ اور محنت کے بعد تیار کردہ مقامی حکومتوں سے متعلق اپنی تجاویز اور سفارشات حکومت کو پیش کردی ہیں۔ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم سے متعلق اپنے موقف سے ہم نے وفاقی حکومت کو آگاہ رکھا ہوا ہے ۔ ہماری خواہش ہے کہ وسائل کی تقسیم کا پیمانہ آبادی کے علاوہ جغرافیائی رقبہ، پسماندگی ، ترقی کی سطح ، خدمات بہم پہنچانے پر آنے والی لاگت اور محصولات کی وصولی میں حصہ بھی ہوں ۔تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے عاصم کرد گیلو نے کہا کہ کسی بھی حکومت کا معاشرتی انصاف سے لگاﺅ کا اندازہ قوم کے معیار تعلیم سے لگایا جاتا ہے ۔ ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہی ضامن ہوسکتا ہے ،روزگار کے بہتر مواقع، غربت میں کمی، ماں اور بچوں میں شرح اموات کی کمی، صفائی ستھرائی، بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول اور وطن سے محبت کا ۔انہوں نے تعلیم کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کی ترویج اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے رواں سال کے دوران تین کیڈٹ کالجز ، قلعہ سیف اللہ ، پشین اور جعفرآباد میں باقاعدہ کلاسز کا اجراءہوچکا ہے اور تین مزید ایسے کالجز پنجگور ، نوشکی اور کوہلو بہت جلد کام شروع کردیں گے ۔سائنس ایجوکیشن پروجیکٹ کے تحت صوبہ بھر میں60لیبارٹریاں اور 60کثیر المقاصد ہال تعمیر کئے گئے ہیں ۔ طلباءمیں180ملین کی لاگت سے مفت کتابیں تقسیم کی گئی ہیں۔ صوبہ بھر کے ہائی اسکولوں میں قائم آئی ٹی لیبز کو اس سال مکمل طور پر فعال کردیا گیا ہے ۔ حکومت بلوچستان نے امداد دینے والے اداروں کے تعاون سے صوبے کے مختلف ہائی اسکولوں میں کمپیوٹر مہیا کیے ہیں۔صوبے میں اساتذہ کے تربیتی اداروں میں بہتری اور ان کے بنیادی تربیت کے لئے ایک پراجیکٹ کام کررہا ہے ۔ اس پراجیکٹ کے تحت نہ صرف ان اداروں کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں بلکہ اساتذہ کو وظائف اور مفت درسی کتابیں بھی فراہم کی جارہی ہیں۔اگلے سال سے 76ملین کی لاگت سے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو اسکالر شپ کا اجراءکیا جارہا ہے اس اسکیم کے تحت 60ثانوی اور180اعلیٰ ثانوی درجے کے طلباءکو میرٹ کی بنیاد پر وضائف دئیے جائیں گے ۔صوبے کے طلبا کے مفاد میں اگلے سال 109 پرائمری اسکولوں کو مڈل کا درجہ اور 108مڈل اسکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔111نئے اسکول بھی کھولے جائیں گے ۔اس کے علاوہ اعلیٰ ثانوی تعلیم کے میدان میں 4انٹر کالجز بشمول انٹر کالج بھاگ کو ڈگری کالج کا درجہ دیا جارہا ہے اور مزید 14نئے انٹر کالجز قائم ہوں گے ۔حکومت بلوچستان نے اگلے سال سے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی گرانٹ کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔موجودہ رقم 150ملین روپے کو بڑھا کو 200ملین روپے کیا جا رہا ہے۔حکومت پنجاب نے اپنے ذرائع سے صوبے کے 63طلباءکو وضائف جاری کیے ہیں اور63وضائف کا وعدہ بھی کیا ہے ۔ اس کے لئے ہم حکومت پنجاب کے مشکور ہیں۔ محکمہ تعلیم میں اس سال تقریباً ایک ہزار نئی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی میدان میں صوبائی حکومت کی ایک اور اہم کوشش کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ گزشتہ سال سے مقابلے کے امتحان (سی ایس ایس) کی تیار کے لئے طلباءکی تعلیم میں رہنمائی کی جارہی ہے ۔ جس کے نتیجے میں29امیدوار گزشتہ سال کامیاب ہوئے ہیں۔ اور اس سال کے امتحانات میں222امیدواروں نے شرکت کی ہے ۔ جو کہ بہت حوصلہ افزہ ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اسکولوں اور کالجز کے اساتذہ کو مراعات اور مالی فوائد پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں اگلے مالی سال سے کالج اساتذہ کو ٹائم اسکیل دینے کا فیصلہ ہوا ہے ۔اس فیصلے سے حکومت کو سالانہ 35.46ملین روپے کا اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا ۔ محکمہ صحت میں اقدامات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ صحت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کا فیصلہ کیاگیاہے ۔پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشیٹو پروگرام (پی پی ایچ آئی) کے تحت صوبہ بھر کے تقریباً تمام صحت کے بنیادی مراکز (بی ایچ یوز) کو اسٹاف اور ضروری ادویات دے کر فعال کیا جاچکا ہے۔شیرخوار بچوں اور ماﺅں کی شرح اموات میں کمی لانے کے لئے صحت کی فراہم سہولیات میں ، افزائش اور ماﺅں کی صحت کے دیکھ بال کے لئے ایم این سی ایچ اور ایل ایچ ڈبلیو (lhws)پروگراموں کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ ایم این سی ایچ پروگرام کے تحت صوبہ کے تمام دیہی صحت کے مراکز( آر ایچ سی) کو کامیابی سے فعال بنایا جارہا ہے ۔ کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں میں صحت کے سہولیات مہیا کرنے کے لئے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے نام سے ایک مکمل اسپتال نے باقاعدہ کام کا آغاز کردیا ہے ۔امید ہے کہ اگلے سال 100بستروں کا زیر تعمیر شہید نواب غوث بخش رئیسانی میموریل اسپتال مستونگ مکمل کیا جائےگا۔ اس کے علاوہ50بستروں کے 7اسپتال کچلاک، قلات، پنجگور، گوادر، پسنی، واشک، مچھ اور کوہلو میں اگلے سال سے شروع کردینگے۔ پیرا میڈیکل سہولیات کی فراہمی کے لئے کوئٹہ میں کالج آف نرسنگ، کیچ ، خضدار اور ڈیرہ مراد جمالی میں نرسنگ اسکولوں کے قیام کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ اس سال محکمہ محنت و افرادی قوت کے تعمیر کردہ20اور50بستروں کے 7ہسپتال ڈیرہ اللہ یار، اوستہ محمد، پشین، مسلم باغ، نوکنڈی، دالبندین اور چمالانگ میں مکمل طور پر فعال کردیئے گئے ہیں۔محکمہ صحت میں اس سال کے دوران300فرماسسٹ اور ڈرگ انسپکٹرز کی بھرتیاں بھی ہوئی ہیں۔رواں مالی سال کے دوران صحت کے19جاری منصوبوں کے لئے211.81ملین روپے اور71نا مکمل منصوبوں کی تکمیل کے لئے112.200ملین روپے دیئے گئے ہیں۔عوام کو صحت کی جدید سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے 20ملین روپے جراحی قلت کی ادویات اور آلات کے لئے جاری ہوئے ہیں۔اگلے سال بولان میڈیکل کالج کمپلیکس ہسپتال اور سنڈیمن صوبائی ہسپتال کو137.055ملین کے ایم آر آئی مشین مہیا کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سنڈیمن صوبائی ہسپتال کے شعبہ یورالو جی کو 71.645 ملین اور ریڈیو تھراپی کو 277.725ملین روپے کے ضروری آلات مہیا کئے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے کوئٹہ میں ایک ارب روپے کی لاگت سے ادارہ امراض قلب(انسٹی ٹیوٹ آف کارڈ لوجی ) کے قیام کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے علاوہ پنجاب سے ملحقہ بلوچستان کے ضلعوں میں رہائش پذیر گردوں کے مریضوں کے لئے مفت ڈالیسز (diyalasis) کی سہولت کا بھی اعلان کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ زراعت کی ترقی کے لئے ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری عوام کی اکثریت جو دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ان کے گزر بسر کا سارا دارو و مدار زراعت پر ہے ۔ اس وجہ سے زراعت ہماری توجہ کا خاص مرکز ہے ۔ا س مالی سال کے دوران شعبہ زراعت کے مختلف منصوبوں کے لئے295.386ملین کی رقم دی گئی ہے ۔2لاکھ80ہزار بلڈوز گھنٹے استعمال کرکے16ہزار8سو ہیکڑزمین زیر کاشت لائی جاسکی ہے ۔ اگلے سال مزید 3لاکھ گھنٹے استعمال کرکے مزید18ہزار ہیکڑ زمین زیر کاشت لائے جانے کا ارادہ ہے۔اس سال محکمہ زراعت نے پنجگور میں کھجور ی فصل کو خراب کرنے والے وائرسوں کے خاتمے کے لئے تمام علاقے میں کجھور کی فصلات و باغات پر سپرے کرنے کا کام مکمل کیا ہے ۔زرعی شعبہ کی ترقی اور کسانوں کی بھلائی کے لئے حکومت نے اگلے سال سے گندم کے کاشتکاروں کے لئے ترغیبی اسکیم کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس اسکیم کے تحت ڈویژنل سطح پر بہترین کارکردگی کے حامل کاشتکاروں میں پانچ ملین روپے کی زرعی مشینری تقسیم کی جائے گی۔وفاقی حکومت کی مدد سے جاری تالاب اور نالیوں میں بہتری کی قومی اسکیم کی مدت کو مزید دو سال تک بڑھادیا گیا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت اب تک12764اسکیمات مکمل کیے جاچکے ہیں۔ مزید531اسکیمات جلد مکمل ہونے کی توقع ہے ۔انہوں نے کہا کہ مال مویشی ہماری دیہی اقتصادیات کا اہم ترین حصہ ہیں۔ گزشتہ قحط سالی سے مویشیوں کی پیدواری صلاحیت پر مضر اثرات پر کامیابی سے قابو پالیا گیا ہے اور اس سال 6.6ملین جانوروں کو مختلف بیماریوں سے بچاﺅ کے ٹیکے لگائے گئے ہیں۔ اس شعبہ میں 194ملین کی لاگت سے19اسکیموں پر کام ہوا ہے ۔ کانگو وائرس سے بچاﺅ کے لئے وفاقی حکومت کے تعاون سے121.612ملین کا ایک پراجیکٹ کام کررہا ہے۔حکومت بلوچستان نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے سابقہ ویٹرنری ریسرچ انسٹیٹیوٹ(veterinary research institue)کے معیار کو بڑھا کر اسے اسے (advance studies in vaccinology and biotechnology)سنٹر فار ایڈوانس اسٹیڈیز کا درجہ دیا ہے ۔ جہاں نہ صرف مال مویشیوں کے لئے ویسکین تیار کئے جارہے ہیں۔ بلکہ مائیکرو بائیولوجی ، نیوز ٹریشن ، فزیالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم بھی دی جارہی ہے ۔محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں کئے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اپنے لوگوں کی بنیادی ضررویات سے بخوبی واقف ہے ۔ صوبے کے تمام دیہی آبادی کو پینے کا پانی مہیا ہو اس کے لئے ہم پوری کوشش کررہے ہیں۔اس ضمن میں اس سال 264.072ملین کی نئی اسکیموں کا اجراءہوا ہے اور 25.740 ملین کی لاگت سے 13گزشتہ نا مکمل اسکیمات کی تکمیل ہوئی ہے ۔ جن میں آکرہ ڈیم اور گوادر شہر کو فراہمی آب کے ذرائع سنٹر کی بحالی قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ930ملین کی لاگت سے صوبہ بھر میں پانی صاف کرنے کے لئے پلانٹ بھی لگائے جارہے ہیں۔ کوئٹہ شہر کو پینے کا پانی مہیا کرنے اور گندے پانی کے نکاس کا پراجیکٹ qws & eip، جو کہ اپنی مدت پوری کررہا تھا ۔ اس پراجیکٹ کی افادیت اور کوئٹہ کے شہریوں کے بہتر مفاد میں ہم نے اس پراجیکٹ کے معیاد کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگلے سال سے صوبے کے دور دراز علاقوں کے شہید بے نظیر بھٹو واٹر سپلائی سکیم کا آغاز کیا جارہا ہے ۔ اس اسکیم کے تحت حکومت زمین مہیا کرے گی اور تعمیرات کے کام میں ہمیں مخیر حضرات اور چند دوست ممالک کا تعاون حاصل رہے گا۔انہوں نے کہا کہ آبپاشی کے شعبے میں اس سال 29اسکیموں کی تکمیل ہوئی ہے جس سے 30ہزار ایکڑ زرعی اراضی سیر آب ہوسکے گی۔ وفاقی حکومت نے صوبہ بھر میں29.36بلین کی لاگت سے آبپاشی کے13اسکیمات پر کام کا آغاز کردیا ہے ۔ ان میں سے ایک اسکیم کے تحت صوبے میں100ڈیم تعمیر ہوں گے۔ ان اسکیمات کے نتیجے میں کل3لاکھ 34ہزار ایکڑ زمین سیر آب ہوں گے۔ آبپاشی کی بڑی اسکیمات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میرانی ڈیم پایہ تکمیل پاچکاہے ۔ جس کا کمانڈ ایریا 33ہزار2سو ایکڑ ہے ۔ سکبزئی ڈیم تقریباً مکمل ہے جس سے66ہزار80ایکڑ کچھی کینال کا کام40فیصد مکمل ہوچکا ہے بلوچستان میں شرحد آبیانہ کو ماضی میں اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ سال بہ سال بڑھتے بڑھتے صوبہ سندھ کے مقابلے میں تین گناہ ہوگیا تھا۔ آپ کو اس جمہوری حکومت نے کاشتکاروں کی بہترین مفاد میں موجودہ شرح پر نظر ثانی کیا اور اسے کم کرکے صوبہ سندھ کے برابر لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نوجوانوں میں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے کوشاں ہے ۔ اس سلسلہ میں وسائل مہیا کئے جارہے ہیں ۔ اس سال کوئٹہ میں اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کے لئے 100ایکڑ زمین محکمہ کو الاٹ ہوئی ہے ۔550ملین کی لاگت سے ایک مکمل ٹرینگ سینٹر پر تعمیر کا کام مکمل ہوا ہے ۔ صحت مند رجحانات کے فروغ کے لئے ضلعی سطح پر محکمہ کھیل کے دفاتر قائم کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ نوجوانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لئے ہم خلوص دل سے کام کررہے ہیں۔ اس سال کوئٹہ میں یوتھ ڈویلپمنٹ سینٹر تعمیر ہوا ہے ۔ ضلعی سطح پر یوتھ سرں(youth fairs)کا انعقاد کیا گیا۔ نوجوانوں میں آگہی کے لئے ہم نے ان کے لئے ملکی اور بیرونی تعلیمی و معلوماتی دوروں کا اہتمام بھی کیا ۔ماحولیات کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ نوزائیدہ تحفظ ماحولیات ایجنسی کے ادارہ نے اس سال سے باقاعدہ کام کا آغاز کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں ماحولیاتی مسائل سے نبٹنے کے لئے قائم ٹرائیبونل نے معاملات کی سماعت شروع کردی ہے ۔محکمہ محنت و افرادی قوت میں کئے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے عاصم کرد گیلو نے کہا کہ پیشہ ورانہ تربیت کے قلات اور کوئٹہ میں قائم مراکز کو 10ملین کی ضروری آلات فراہم کئے گئے۔ نوشکی اور مچھ میں زیر تعمیر تربیتی مراکز تکمیل کے قریب ہیں۔ نیو وٹیک(navtec) کا ادارہ 188.189ملین کی لاگت سے صوبہ کے 13تحصیلوں میں پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز قائم کررہا ہے ۔کمپیوٹر، صنعتی آلات اور میڈیا ٹیکنالوجی میں نوجوانوں کو تربیت دینے کے لئے کوئٹہ میں آئی ٹیک تربیتی ادارے قائم ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ فوجداری مقدمات کی بہتر پیروی کے لئے قائم کردہ پراسیو کیشن کو ہم نے فعال کردیا ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آٹا ہماری تقریباً تمام آبادی کی غذا کا اہم حصہ ہے ۔ آٹے کی مناسب قیمت پر وافر دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے محکمہ خوراک نے گزشتہ سال 3لاکھ میٹرک ٹن گندم حاصل کی تھی۔ اسی مقصد کے لئے اگلے سال3لاکھ50ہزار میٹرک ٹن گندم مختلف ذرائع سے حاصل کی جارہی ہے تاکہ عوام کو کسی غذائی قلت کا سامنا نہ ہوا۔ خوراک کی اس مد میں حکومت بلوچستان سالانہ600 ملین کی سبسڈی دے رہی ہے ۔ اگلے سال سے یہ رقم600ملین سے بڑھا کر ایک ارب کی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سڑکیں عوام کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں نئی سرکوں کی تعمیر اور موجودہ سڑکوں میں بہتری کے لئے لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔اس شعبہ میں 4817.718ملین کی لاگت سے 196اسکیمات پر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو عمل درآمد کررہا ہے ۔ جن میں اکثر سڑکیں مکمل ہوچکی ہیں یا پھر تکمیل کے قریب ہیں۔اس کے علاوہ73روڈ سیکٹر کی اسیکمات پر بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (بی ڈی اے) کام کرارہی ہے ۔چھوٹی سڑکوں پر بھی ہم نے توجہ دی ہے ۔ ان سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لئے اس سال190ملین رپوے کی رقم مختلف ضلعی حکومتوں کو دی گئی ہے ۔کوئٹہ شہر میں ٹریفک جام روز کا معمول بن گیاہے ۔ اس سے نہ صرف ایندھن کا نقصان ہورہا ہے بلکہ لوگوں کی نفسیات اور ماحولیات پر مضر اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دو فلائی اوورز، ایک کوئلہ پھاٹک پر1025.923ملین روپے اور دوسرا سریاب میں1414.415ملین رپوے کی لاگت سے تعمیر کیے جانے کی تجویز ہے۔معدنی شعبہ کے حوالے سے صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ بلوچستان میں معدنی دولت ، اس کے عوام کی خوشحالی و ترقی کی ضامن ہیں۔ ملک میں اب تک نکالی گئی 50معدنیات میں سے 40بلوچستان سے حاصل کی جارہی ہیں ۔ ان میں اہم ترین سیندک کے تنابے اور سونے کے ذخائر ،ریکودک میں تانبے اور سونے کے ذخائر اور دودر میں زنک اور سیسہ کے ذخائرشامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی انہی ذخائر سے پہلی مرتبہ پاکستان دھات کی عالمی منڈی میں متعارف ہوا ہے۔ایک صدی سے زائد عرصے سے بلوچستان کوئلہ پیدا کرنے والا سب سے بڑا علاقہ رہا ہے ۔ ہمارے کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ217ملین ٹن سے زائد لگایا جاتا ہے ۔ چمالنگ میں کوئلہ کی کانوں پر کام کے آغاز سے صوبے میں57000ہزار سے زائد افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں۔معدنیات کے شعبہ میں مزید ترقی کے لئے اس سال195.820 ملین کی لاگت سے 6اسکیمات پر کام ہوا ہے ۔ اس اہم شعبہ مہیں مزید ترقی کا ایک جامع پلان مرتب کیا جارہا ہے ۔ جس سے صوبے میں سرمایہ کاری کو مزید فروغ ملے گا۔ اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔سرکاری ملازمین کے لئے مراعات کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے دست و بازو ہمارے سرکاری ملازمین ہیں۔ عوام کی بہتر خدمت کے لئے ضروری ہے کہ یہ خوش اور مطمئن ہیں۔ اس سال بہتر فنڈ منیجمنٹ سے حاصل رقم270ملین روپے سرکاری ملازمین کی بہود پر خرچ کیے گئے ہیں اس کے علاوہ183 روپے فوت شدہ سرکاری ملازمین کے لواحقین کی مالی امداد پر خرچ ہوئے ہیں۔ہم اپنے لوگوں کی مشکلات سے غافل نہیں ہیں۔ حکومت نے پنشنروں کی تنگی کو محسوس کرتے ہوئے کم از کم پنشن کو بڑھانے کا کام بہتر فیصلہ کیاہے ۔ کم از کم پنشن150روپے سے بڑھا کر1000اور 300سے بڑھا کر2000روپے کیا گیا ہے ۔اس فیصلے سے سرکاری خزانے پر400ملین روپے کا مزید بوجھ پڑے گا۔ اس کے علاوہ ریگولر پنشن کی مد میں سالانہ2.17بلین روپے ادا کیے جارہے ہیں۔ہمیں احساس ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ناکافی ہیں۔اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ یکم جولائی 2009سءحاضر سروس سرکاری ملازمین کو تنخواہ کا 15فیصد ایڈہاک ریلیف الاﺅنس دیا جائے گا۔ اسی طرح ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے پنشن میں15فیصد اضافہ کیا جارہا ہے ۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں سرکاری خزانے پر مجموعی طور پر2912.640ملین وپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔29اکتوبر2009ءکو بلوچستان میں زیارت، پشین اور دیگر علاقوں میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی بحالی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت زلزلے سے متاثر اپنے بہن بھائیوں سے غافل نہیں ہے ۔متاثرین کی بحالی پر اب تک 2.13ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اور ہم بحالی کے اس عمل کو جلد مکمل کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مالی سال کے دوران68.225ملین روپے معاوضہ دہشتگردی کے متاثرین میں تقسیم کی جاچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان مستقبل کی سرمایہ کاری کا اہم مرکز ہے ۔ یہاں کے قدرتی وسائل سے سرمایہ راغب ہورہا ہے ۔ یہی وہ وقت ہے کہ صوبہ اقتصادی شعبوں پر اپنی پالیسیاں مرتب کرے ۔ یعنی کہ معدنیات و معدنی ترقی، ماہی گیری، تیل و گیس، ان شعبہ جات میں صوبے کو ترقی کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اقتصادی ترقی کے سلسلہ میں کئے جانے والے فیصلوں میں بلوچستان کو شامل رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وسائل ہمیشہ سے کم یاب اور ضروریات بے حساب رہی ہیں۔ یہ مسئلہ پوری دنیا کی کم و بیش 8ارب آبادی کو درپیش ہے ۔ انہوں نے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کا شکریہ ادا کرتے کیا جن کی کوششوں سے وفاقی حکومت نے اپنی برآمدات کا کم از کم 25فیصد حصہ گوادر پورٹ کے ذریعے وصول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں صوبے میں اقتصادی عمل کو جَلا ملی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ روزگار کے سہولیات مہیا کرنے کے لئے اگلے سال4212آسامیاں پیدا کی جارہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلے سال کے لئے ٹیکس فری بجٹ دیا جارہا ہے۔عاصم کرد گیلو نے ایوان کے سامنے مالی سال2008-09میزانیے کا نظر ثانی شدہ تخمینہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال کے لئے مجموعی محصولات کا ابتدائی تخمینہ51ارب52کروڑ 67لاکھ49ہزار روپے کا تھا۔ اور نظر ثانی شدہ تخمینہ 56ارب 8کروڑ 35لاکھ10ہزار روپے کا ہے۔صوبائی محصولات کا ابتدائی تخمینہ 3ارب 47کروڑ 65لاکھ81ہزار کا لگایا گیا تھا۔ نظر ثانی شدہ تخمینہ3ارب 69کروڑ75لاکھ 92ہزار روپے کا ہے ۔وفاقی محاصل سے ملنے والی رقم کا تخمینہ 48ارب 5کروڑ1لاکھ 68ہزار روپے کا تھا۔ نظر ثانی شدہ تخمینہ52ارب 38کروڑ 59لاکھ18ہزار روپے ہے ۔رواں مالی سال کا جاری اخراجات کا ابتدائی تخمینہ47ارب52کروڑ17لاکھ26ہزار روپے کا تھا۔نظر ثانی تخمینہ 46ارب10کروڑ 80لاکھ7ہزار روپے کا ہے ترقیاتی اخراجات کا ابتدائی تخمینہ11ارب75کروڑ 73لاکھ84ہزار روپے کا تھا۔ نظر ثانی شدہ تخمینہ13ارب35کروڑ86لاکھ72ہزار روپے کا ہے ۔اس سے قبل بلوچستان کابینہ کا خصوصی اجلاس وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی زیر صدارت ہوا ۔جس میں آئندہ مالی سال 2009-10ءکے صوبائی بجٹ کی منظوری دی گئی جبکہ کابینہ کو صوبائی وزیر خزانہ محفوظ علی خان نے بجٹ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ۔جبکہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات احمد بخش لہڑی نے آئندہ مالی سال کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی ،صوبائی وزیر خزانہ میر عاصم کرد گیلواور چیف سیکرٹری بلوچستان ناصر محمود کھوسہ نے بجٹ دستاویزات پر باقاعدہ دستخط کئے ۔کابینہ اجلاس نے بجٹ پر تفصیلی بحث اپنے گزشتہ اجلاس میں مکمل کرلی تھی ۔اس کے علاوہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے مخلوط صوبائی حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے جون کے ابتداءسے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں بجٹ سمیت تمام ترقیاتی منصوبوں اور متعلقہ امور پر سیر حاصل بحث کے بعد بجٹ کو حتمی شکل دی گئی تھی۔
 

زین

لائبریرین
جی دوسری بار ایسا ہورہا ہے کہ بجٹ تقریر میں‌ اعداد و شمار کی تفصیلات ٹھیک سے نہیں دی گئیں‌، پچھلے سال بھی انتہائی مبہم بجٹ تقریر تھی۔

اس لئے اکثر تفصیلات ہمیں‌بجٹ دستاویزات سے حاصل کرنی پڑیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یعنی کہ ابتداء ہی بے ایمانی سے کرتے ہیں۔

کبھی بھی بتائی گئی رقوم انہی مد میں پوری خرچ نہیں کی جاتیں۔
 

زین

لائبریرین
جی یہ تو سب کو پتہ ہے
ویسے وزیر خزانہ بہت نالائق ہے، اردو پڑھنا بھی ٹھیک سے نہیں آتا۔
 

فہیم

لائبریرین
سوچا کھانے سے پہلے ایک چکر مارلوں۔
ویسے تو چکر کھانے کے بعد لگانا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
چکر پر چکر، کہیں چکرا ہی نہ جائیں۔

ویسے اس دھاگے کی رونق خاصی کم ہو گئی ہے۔
 

فہیم

لائبریرین
وعلیکم السلام

لیں جی ظفری بھائی کو تو حاضر کردیا۔

اب آپ کسی کو حاضر کریں۔

اور ظفری بھائی آپ کیسے ہیں۔
 

فہیم

لائبریرین
میں نے تو دو ایک بار توجہ دی بھی۔

لیکن جب پاکستانی روپے کا تقابلہ ڈالر کے ساتھ کیا تو پھر توجہ واپس ہٹالی:noxxx:
 

فہیم

لائبریرین
چلیں پھر آپ جلدی سے چندہ دے کر شکریہ ادا کرنے کا موقع فراہم کریں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top