مختصراً یہ کہ مغل بھیا نے برادرم حافظ سمیع اللہ کو مغرب کی نماز کے بعد فون کر کے ملاقات کی جگہ کا تعین کیا پھر وہاں پہونچے، دونوں لوگوں کا سامنا ہو۔ بجلی چلی گئی تو اندھرے میں کسی گاڑی کی روشنی میں حلیئے کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد غالباً کسی ریسٹورینٹ میں یا وہ جو کوئی بھی جگہ رہی ہو وہاں کچھ دیر قیم کیا اور بات چیت کی۔ کیا باتیں ہوئیں یہ حصہ کہانی سے غائب کر دیا گیا ہے۔ مغل بھیا نے ان کے حلیئے کا اتنا مفصل نقشہ کھینچا ہے کہ کرئم برانچ کے آرٹسٹ ان کا خاکہ ترتیب دے سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کو موصوف کی اردو سمجھ میں آ جائے۔ اگر اردو سے نا بلد ہوا تو شاید مکی ماؤس بنا کر رکھ دے۔
اور یہ کہتے ہوئے بات ختم کر دی گئی ہے کہ ڈنر کی دعوت کو کسی اور وقت کے لئے ادھار کر دیا۔ غالباً مغل بھیا کو یہ خوف رہا ہوگا کہ آج یوں اچانک ملاقات پر ڈنر کے لئے چلے گئے تو کچھ خاص اہتمام نہیں ہوگا اس لئے کسی روز باقاعدہ مطلع کر کے آئیں گے جبکہ دعوت کا سوچ سوچ کر دو روز سے کچھ کھایا نہ ہو۔