نیرنگ خیال
لائبریرین
چائے بھی اونگھ رہی ہےچل چھوڑ مُسکرا دے
تازہ آمد :
میں پھر سے سو رہا ہوں
بستر ذرا لگا دے
چائے کو چائے پلا دے
چائے بھی اونگھ رہی ہےچل چھوڑ مُسکرا دے
تازہ آمد :
میں پھر سے سو رہا ہوں
بستر ذرا لگا دے
فلک شیر بھائی دیکھ لیں۔ اب احمد بھائی بھی "چوکس" ہو گئے ہیں۔اگر شدید نیند نہیں آ رہی ہوتی تو اس بات کا ایسا جواب دیتے، ایسا جواب دیتے کہ یاد کرتے کہ کس چوکس آدمی سے پالا پڑا تھا۔ لیکن آپ کی خوش قسمتی۔
لیکن آپ تو اندر بھی نہیں آئے۔ آپ سوئے تھے کہ اردگرد کوئی کوچہ بنا گیا۔داخلے کی اجازت تو اُن کو درکار ہوتی ہے جو باہر جا کر واپس آئیں۔
آج اس کوچے کی بنیاد اٹھائے سات برس ہوگئے۔۔۔ ۳ نومبر ۲۰۱۳ سے ۳ نومبر ۲۰۲۰ تک سستی کا سفر۔۔۔ جس میں جاسمن صاحبہ نے ۲۲ دسمبر ۲۰۱۷ کو تیس صفحات کی طویل داستان رقم ہونے کی نوید سنائی۔ اگلے تین برس کاہلی اور سستی کی معراج پر رہے۔۔۔ اور فقط ڈیڑھ صفحے کا اضافہ ہو سکا۔ ہم کاہلاین محفل کو اس انوکھی وضع کی سستی اور کاہلی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
آج اس کوچے کی بنیاد اٹھائے سات برس ہوگئے۔۔۔ ۳ نومبر ۲۰۱۳ سے ۳ نومبر ۲۰۲۰ تک سستی کا سفر۔۔۔ جس میں جاسمن صاحبہ نے ۲۲ دسمبر ۲۰۱۷ کو تیس صفحات کی طویل داستان رقم ہونے کی نوید سنائی۔ اگلے تین برس کاہلی اور سستی کی معراج پر رہے۔۔۔ اور فقط ڈیڑھ صفحے کا اضافہ ہو سکا۔ ہم کاہلاین محفل کو اس انوکھی وضع کی سستی اور کاہلی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
بنیاد اٹھانے کے بعد کے کاغذات یا پہلے کے۔۔۔اگر ہم بنیاد اُٹھاتے تو ابھی منصوبہ کاغذوں پر ہی ہوتا۔
یہ بنیاد وغیرہ اٹھانے کی بات کیوں ہو رہی ہے یہاں؟بنیاد اٹھانے کے بعد کے کاغذات یا پہلے کے۔۔۔
اگر ہم بنیاد اُٹھاتے تو ابھی منصوبہ کاغذوں پر ہی ہوتا۔
تبریک و تہنیتآج اس کوچے کی بنیاد اٹھائے سات برس ہوگئے۔۔۔ ۳ نومبر ۲۰۱۳ سے ۳ نومبر ۲۰۲۰ تک سستی کا سفر۔۔۔ جس میں جاسمن صاحبہ نے ۲۲ دسمبر ۲۰۱۷ کو تیس صفحات کی طویل داستان رقم ہونے کی نوید سنائی۔ اگلے تین برس کاہلی اور سستی کی معراج پر رہے۔۔۔ اور فقط ڈیڑھ صفحے کا اضافہ ہو سکا۔ ہم کاہلاین محفل کو اس انوکھی وضع کی سستی اور کاہلی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
آپ پھر اس کوچے میں نہ آیا کریں۔۔۔۔ آپ کی وجہ سے یہاں سوئے لوگوں کی نیند ہی نہ خراب ہوجائے۔۔۔۔پتہ نہیں نین بھیا !!!!!
یہ کاہلی کس بلا کا نام ہے ہم نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے آپ کو بے چین پایا ۔
اور اس پر عمل پیرا رہے
بیکار مباش کچھ کیا کر کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر۔تو نوکری سے چھٹی ہوتی تو سلائی، کڑھائی، بنائی، میں مصروف رہے۔۔کبھی انگلی میں مشین کی سوئی آر پار ہوگئی تمام گھر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا اور ہم سلائی مشین سے نبرد آزما رہتے۔
بیکار سی اُلجھن میں دل و جاں ہیں گرفتار
جو کچھ بھی گزرنا ہے گزر کیوں نہیں !!!
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میرؔسستی و کاہلی میں مجھ سے کوئی آگے نہ نکل جائے کہیں