سست روی اور سست پیمائی کا دانستہ یا ناداستہ استعمال بہت سے صاحبانِ فن اور مشہور ہستیوں نے کیا ہے۔ موجودہ دور میں جناب مشتاق احمد یوسفی مرحوم نے اس تکنیک کو نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا۔ وہ اپنا ہر مضمون نہایت سست روی سے مکمل کرتے تھے۔ مکمل کرنے کے بعد وہ مضمون رکھ چھوڑتے، جسے وہ مضمون کو
’’پال میں لگانا‘‘ کہا کرتے تھے۔ ایک مدت بعد اسے دوبارہ پڑھتے تھے، اگر قابل اشاعت سمجھتے تو اس پر مزید کام کرتے۔ ان کی لکھنے کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
’’زرگزشت‘‘ کا پہلا باب لکھنے میں انہیں تقریباً ایک سال (1971) لگا، جبکہ باقی کتاب انہوں نے اگلے پانچ سال میں مکمل کی اور یوں زرگزشست 1976 میں شائع ہوئی۔ اسی طرح ’’آبِ گم‘‘ تقریباً 12 سال کے طویل عرصے میں مکمل کی۔ اس سست روی اور عرق ریزی کا نتیجہ ایک لازوال مزاح کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر یونس بٹ (جو دور جدید کے مشہور مزاح نگار ہیں) پچھلے 20 برسوں میں تقریباً دو درجن سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ منقول۔۔۔
تو نین بھیا کے شاہکار اگر اس سست روی میں تخلیق ہوتے ہیں تو ایسی سست روی پہ ہم ہزار جان سے قربان
اور سست روی کے مثبت کردار کو سو بار اجاگر کرتے ہیں۔۔۔۔۔