کھچڑی بنانے کی ترکیب چاہئے

آنچ تو بہت تیز کر دی ہے کرنے والوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز آنچ والوں کی کھچڑی میں حصےدار بہت ہو گئے ہیں۔ :battingeyelashes:
اگر بچ گئی تو ٹھیک ورنہ 14 اگست کے بعد کون سا کھچڑی بننا بند ہو جائے گی۔ :)
آج یہ پکا رہے ہیں کل وہ پکائیں گے۔ :box:
 

شمشاد

لائبریرین
صبح دیکھیے گا۔
پولیس نے پھر سے ماڈل ٹاؤں کو سیل کر دیا ہے۔
کھچڑی کی بجائےاب کھچڑا بنے گا۔
 
فی الحال تو سٹاک ایکسچینج کا بُرا حال ہے اس کھچڑی کی وجہ سے۔
گو سٹاک ایکسچنج والوں کا کھچڑی بنانے اور ممکنہ طور پر کھانے والوں سے براہ راست کوئی ربط نہیں، لیکن پھر بھی بےچارے روز نقصان میں جا رہے ہیں۔
 
لیں جی، اس کھچڑی کی وجہ سے ہی تو ان کے حالات خراب ہوئے ہیں۔
میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کاغذی بیوپاریوں کا کسی کک، کھچڑی کا سامان مہیا کرنے والوں، چولھے میں آگ بڑھکانے، اور آگ کو تیز کرنے والے پھوکنیاں سنبھالے افراد سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
لکھنؤ (اُتر پردیس، انڈیا) کے نوابوں کے باورچی کھچڑی کے معاملے میں بڑے مشہور ہیں۔
ایک بار نواب صاحب نے اپنے باورچی سے کسی نئےپکوان(ڈِ ش) کی فرمائش کی۔ باورچی نے کہا،
حضور ! نیا پکوان ( ڈِش) تو ہم آپ کے لیے تیار کر دیں گے۔ لیکن اس کے لیے ہماری کچھ شرطیں
ہوں گی۔ ایک تو نئے پکوان کے لیے آپ کو ہمیں ایک ہفتہ پیشگی اطلاع دینی ہوگی۔ دوسرے یہ
کہ جب ہم پکوان تیار کر رہے ہوں تو ہمارے علاوہ دوسرا کوئی باورچی خانے میں داخل نہ ہو۔
تیسرے یہ کہ جب پکوان تیار ہونے کی اطلاع ہم آپ کو پہنچائیں تو حضورِ والا بذاتِ خود بہ نفسِ
نفیس اس پکوان کو لینے کے لیے باورچی خانے تشریف لائیں۔ نواب صاحب نے کہا ، ’’اماں!
آپ کی شرطیں ہیں تو ٹیڑھی کھیر ، لیکن پھر بھی ہمیں منظور ہیں۔
بہر حال ایک دن نواب صاحب نے اپنے شاہی باورچی سے نئے پکوان کی فرمائش کر ہی دی۔
باورچی نے پکوان کی تیاری کے لیے ضروری اشیاء کی فہرست بنا کر پیش کر دی۔ نواب صاحب
نے باورچی کو ساری چیزیں فراہم کروادی اور حکم فرما دیا کہ ایک ہفتے تک باورچی کے کام میں
کوئی مخل نہ ہو ۔ باورچی نے ایک ہفتے تک بڑی محنت و مشقت کی اور ہفتہ پورا ہونے پر جب
وقت مقررہ پر پکوان تیار ہو گیا تو نواب صاحب کو اطلاع بھجوائی۔ نواب صاحب شطرنج میں اس
قدر منہمک تھے کہ اس اطلاع پر توجہ نہیں دی اور کہلا بھیجا کہ ما بدولت تشریف لارہے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد
باورچی نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ حضور ! پکوان تیار ہے۔ تشریف لے آئیے۔نواب صاحب نے پھر وہی
ٹکا سا جواب بھیج دِیا،’’ما بدولت تشریف لارہے ہیں۔‘‘۔ کچھ دیر توقف کرنے کے بعد باورچی تیسری
بار بھی وہی اطلاع بھجوائی۔ نوابصاحب نے اس بار بھی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا۔ اور ما بدولت تشریف
لارہے ہیں، کا وہی جواب بھجوادیا۔
باورچی نے کچھ دیر انتظار کیا۔ ہفتہ بھر محنت و مشقت سے تیار کیے گئے اپنے پکوان کی ہانڈی اُٹھائی
اور ایک خشک درخت کی جڑوں کے پاس ہانڈی اُلٹ کر محل سے روانہ ہوگیا۔ کئی گھنٹوں کے بعد
شطرنج کا کھیل پورا ہونے کے بعد جب نواب صاحب کو پکوان اور باورچی سے کیا ہوا وعدہ یا د آیا
تو لپک کر باورچی خانے پہنچے۔ اور اس باورچی کے بارے میں دریافت کیا۔ نقیبوں نے جواب دیا،
حضور ! اس نے آپ کا کافی انتظار کیا۔ لیکن جب آپ تشریف نہیں لائے تو اس نے نئے پکوان کی ہانڈی
اُٹھائی، خشک درخت کی جڑوں میں انڈیل کر محل سے روانہ ہو گیا۔ نواب صاحب کو بڑا افسوس ہوا۔
لیکن نواب تھے، اپنی غلطی پر شرمندہ ہونا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
چند دنوں کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جو درخت برسوں سے خشک تھا، جس کے دوبارہ سرسبز و شاداب
ہونے کی کوئی امید ہی نہیں تھی وہ درخت سرسبز و شاداب ہو کر لہلہا رہا تھا۔یہ خبر نواب صاحب کو بھی
ہوئی۔ اب نواب صاحب کو بڑی تشویش ہوئی اور اس پکوان کے بارے میں تجسس بھی پیدا ہوا۔ تحقیقات
کرنے پر معلوم ہوا کہ اُس باورچی نے ایک ہفتے کی محنت و مشقت سے بادام کو تراش کر چاول تیار کیے تھے
اور پستہ تراش کر دال بنائی تھی۔ اور پھر بادام کے چاول اور پستے کی دال سے ایسی کھچڑی تیار کی تھی کہ اگر
کوئی سو سالہ بوڑھا بھی اسے نوش فرما لیتا تو وہ جوان ہو جاتا۔اب تو نواب صاحب کو اور بھی زیادہ تشویش ہوئی۔
انہوں نے باورچی کی تلاش میں چاروں طرف اپنے آدمی دوڑائے ، لیکن باورچی نہ ملنا تھا تو نہ ملا۔
 
آخری تدوین:
لکھنؤ (اُتر پردیس، انڈیا) کے نوابوں کے باورچی کھچڑی کے معاملے میں بڑے مشہور ہیں۔
ایک بار نواب صاحب نے اپنے باورچی سے کسی نئےپکوان(ڈِ ش) کی فرمائش کی۔ باورچی نے کہا،
حضور ! نیا پکوان ( ڈِش) تو ہم آپ کے لیے تیار کر دیں گے۔ لیکن اس کے لیے ہماری کچھ شرطیں
ہوں گی۔ ایک تو نئے پکوان کے لیے آپ کو ہمیں ایک ہفتہ پیشگی اطلاع دینی ہوگی۔ دوسرے یہ
کہ جب ہم پکوان تیار کر رہے ہوں تو ہمارے علاوہ دوسرا کوئی باورچی خانے میں داخل نہ ہو۔
تیسرے یہ کہ جب پکوان تیار ہونے کی اطلاع ہم آپ کو پہنچائیں تو حضورِ والا بذاتِ خود بہ نفسِ
نفیس اس پکوان کو لینے کے لیے باورچی خانے تشریف لائیں۔ نواب صاحب نے کہا ، ’’اماں!
آپ کی شرطیں ہیں تو ٹیڑھی کھیر ، لیکن پھر بھی ہمیں منظور ہیں۔
بہر حال ایک دن نواب صاحب نے اپنے شاہی باورچی سے نئے پکوان کی فرمائش کر ہی دی۔
باورچی نے پکوان کی تیاری کے لیے ضروری اشیاء کی فہرست بنا کر پیش کر دی۔ نواب صاحب
نے باورچی کو ساری چیزیں فراہم کروادی اور حکم فرما دیا کہ ایک ہفتے تک باورچی کے کام میں
کوئی مخل نہ ہو ۔ باورچی نے ایک ہفتے تک بڑی محنت و مشقت کی اور ہفتہ پورا ہونے پر جب
وقت مقررہ پر پکوان تیار ہو گیا تو نواب صاحب کو اطلاع بھجوائی۔ نواب صاحب شطرنج میں اس
قدر منہمک تھے کہ اس اطلاع پر توجہ نہیں دی اور کہلا بھیجا کہ ہم ابھی آ رہے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد
باورچی نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ حضور ! پکوان تیار ہے۔ تشریف لے آئیے۔نواب صاحب نے پھر وہی
ٹکا سا جواب بھیج دِیا۔ کچھ دیر توقف کرنے کے بعد باورچی تیسری بار بھی وہی اطلاع بھجوائی۔ نواب
صاحب نے اس بار بھی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا۔ اور ہم آرہے ہیں کا وہی جواب بھجوادیا۔
باورچی نے کچھ دیر انتظار کیا۔ ہفتہ بھر محنت و مشقت سے تیار کیے گئے اپنے پکوان کی ہانڈی اُٹھائی
اور ایک خشک درخت کی جڑوں کے پاس ہانڈی اُلٹ کر محل سے روانہ ہوگیا۔ کئی گھنٹوں کے بعد
شطرنج کا کھیل پورا ہونے کے بعد جب نواب صاحب کو پکوان اور باورچی سے کیا ہوا وعدہ یا د آیا
تو لپک کر باورچی خانے پہنچے۔ اور اس باورچی کے بارے میں دریافت کیا۔ نقیبوں نے جواب دیا،
حضور ! اس نے آپ کا کافی انتظار کیا۔ لیکن جب آپ تشریف نہیں لائے تو اس نے نئے پکوان کی ہانڈی
اُٹھائی، خشک درخت کی جڑوں میں انڈیل کر محل سے روانہ ہو گیا۔ نواب صاحب کو بڑا افسوس ہوا۔
لیکن نواب تھے، اپنی غلطی پر شرمندہ ہونا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
چند دنوں کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جو درخت برسوں سے خشک تھا، جس کے دوبارہ سرسبز و شاداب
ہونے کی کوئی امید ہی نہیں تھی وہ درخت سرسبز و شاداب ہو کر لہلہا رہا تھا۔یہ خبر نواب صاحب کو بھی
ہوئی۔ اب نواب صاحب کو بڑی تشویش ہوئی اور اس پکوان کے بارے میں تجسس بھی پیدا ہوا۔ تحقیقات
کرنے پر معلوم ہوا کہ اُس باورچی نے ایک ہفتے کی محنت و مشقت سے بادام کو تراش کر چاول تیار کیے تھے
اور پستہ تراش کر دال بنائی تھی۔ اور پھر بادام کے چاول اور پستے کی دال سے ایسی کھچڑی تیار کی تھی کہ اگر
کوئی سو سالہ بوڑھا بھی اسے نوش فرما لیتا تو وہ جوان ہو جاتا۔اب تو نواب صاحب کو اور بھی زیادہ تشویش ہوئی۔
انہوں نے باورچی کی تلاش میں چاروں طرف اپنے آدمی دوڑائے ، لیکن باورچی نہ ملنا تھا تو نہ ملا۔

بڑے مسئلے ہیں اس کہانی میں۔ انسان اس کھانے سے جوان نہیں ہوتا جس سے پودے لہلہانے لگیں۔ گمان غالب ہے کہ باروچی نے دراصل کھاد بنائی تھی ۔ ممکن ہے اسکا ارادہ نواب کو مارنے کا تھا۔ پھر نواب کو کیوں اتنا شوق تھا جوان ہونے کا؟ نوابوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر قابض ہوا۔
 
Top